حضرت مولانا مفتی صدرالدین آزرودہ
حضرت مولانا مفتی صدرالدین آزرودہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
محمد صدر الدین نام نامی،شیخ لطف اللہ کشمیری کے فرزند، ۱۲۰۴ھ میں دہلی میں وفات ہوئی حضرت شاہ عبد العزیز محدث،شاہ عبد القادر قدس سرہما سے علوم دینیہ فقہ حدیث،تفسیر وکلام کی تحصیل کی ‘‘مولانا فضل امام ’’ امام معقولات سے علوم عقلبہ پڑھاا پنے زمانے ہی سرکار انگریزی میں مفتئ عدالت اور صدر الصدور تھے،علوم وفنون کی ترقی وترویج کےلیےشاہ جہانی دور کی یداگار مدرسہ دار البقاء کا احیاءکیا، یہ مدرسہ جامع مسجد کےنیچے تھا،مدرسین کا انتظام کیا، اپنے پاس سےاساتذہ اور طلبہ کےاخراجات پورے کرتے،عدالت کےکاموں سے فراغت کے بعد گھر پر طلبہ کو درس دیتے،علماء کی مجلس میں صدر نشین، مشاعرہ میں میر مجلس،محتاجوں،بیکسوں کےملجاء وماویٰ،سادہ وضع تھے،عظیم الشان کتب فانہ جو زندگی بھر کی تلاش کا حاصل تھا فتوی جہاد پر دستخط کرنے کے جرم میں جائداد کے ساتھ ضبط ہوگیا،گرفتار ہوئے،جائداد تو آدھی مل گئی، لیکن ظالم انگریز نے کتب خانہ واپس نہ کیا،جہاد کے فتویٰ پر دستخط کرنے کے بارے میں تما م مؤرخین غلط فہمی کا شکار میں، ‘‘اور لکھتے ہیں کہ آپ نےدستخط کرتےہوئے کُتَبْتُ بِالْخَیرِ کو بغیر نقطے کے لکھا تھا،داروگیر کے بعد عدالت میں عُذر پیش کیا،کہ میں نےتو کَتَبْتُ بالْجَبرْ لکھا تھا لوگوں نےبگاڑ کر بالخبر کردیا ہے،فتویٰ جہاد دھلی کےاخبار المظفر میں چھپا تھا،جامعہ ملیہ دہلی کی سلور جسلی کی نمائش میں فتویٰ کی اصل جناب آغا حیدر حسن صاحب دہلوی نے پیش کی تھی۔
حضرت مفتی صاحب بلمند پایہ شاعر تھے،کلام سادہ اور بلند ہوتا، آزردہ تخلص ،عربی،فارسی اردو تینوں زبان میں جو کہا سب ضائع ہوگیا،بہت سےاشعار ضرب المثل بن چکےہیں ؎
اے دل تمام نفع ہے، سودائے عشق میں |
ایک جان کازیاں ہے، سو ایسازیاں نہیں |
|
کامل اس فرقۂ رہاد سے، اٹھا نہ کوئی |
کچھ ہوئے تو یہی رندان مدح خوار ہوئے |
تصنیف کی طرف توجہ نہیں کی ایک تذکرہ شعراعہ لکھا تھا اس کا عسک پروفیسر مولانا مختار الدین احمد آرزو صدر شعبۂ مسلم یونیورسٹی علی گڈھ کے پاس ہے۔۔۔۔۔۱۴؍ربیع الاول ۱۲۸۵ھ میں راہئ ملک بقا ہوئے،درگاہ حضرت چراغ دہلی میں مدفن ہے،مولوی ظہور علی شمس الشعراء نےقطعۂ تاریخ لکھا ؎
چو مولانائے صدر الدیں کہ در عصر |
امام اعظم آخر زماں بود |
|
زہے صدر الصدور نیک محضر |
بعدل وداد چوں نوشبرواں بود |
|
بروز پنجشنبہ کردر رحلت |
کہ ایں عالم نہ جائے جادداں بود |
|
ربیع الاول وبست وچہارم |
وداعِ اوسوئے در الجناں بود |
|
ظہور افسوس، آں اُستاذی قدر |
پدر وارم ہمیشہ مہرباں بود |
گداز جسم،سانولارنگ،چھوٹی چھوٹی گہرائی میں اترجانےوالی قدر ے اندر کو د ھنسی ہوئی آنکھیں بھری ہوئی دراز ڈاڑھی،۔۔۔۔۔ پیشوائےمنرکین تقلید نواب صدیق حسن بھوپالی، صفادید مذہب دیوبندی مولوی محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگنوہی نےبھی آپ سےخصوصی درس لیا، آخر الذکر اپنے مریدوں کےمجعوں میں آپ کا اہانت آمیر تذکرہ کرتے تھے،تذکرۃ الرشید حوالہ کے لیے دیکھی جائے
(باغی علا،آجکل ظفر نمبر،تذکرہ علمائےہند نزہۃ الخواطر،الیٹ انڈیاکمپنی گل رضا)