حضرت پیر غلام جان مجددی سرہندی

حضرت پیر غلام جان مجددی سرہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

مٹیاری کے سرہندی مجددی بزرگ پیر غلام مجدد سرہندی جنہوں نے اپنے مجاہدانہ کردار کے ذریعہ اس سر زمین شندھ میں بے شمار روحانی، مذہبی، سماجی، علمی اور سیاسی خدمات انجام دیں۔

ولادت:

آپ کی ولادت ۶ ، رجب المرجب ۱۳۰۰ھ بروز سوموار علی الصباح ضلع حیدرآباد کے ایک علاقہ مٹیاری میں ہوئی۔

سلسلہ نسب:

آپ کے والد گرامی کا نام پیر عبدالحلیم مجددی تھا، آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رضی اللہ عنہٗ تک اس طرح سے ہے۔

غلام مجدد بن عبدالحلیم بن عبدالرحیم بن خواجہ محمد ضیاء الحق بن خواجہ غلام نبی بن خواجہ غلام حسن بن خواجہ غلام محمد بن خواجہ غلام معصوم بن خواجہ محمد اسماعیل بن خواجہ محمد بن خواجہ محمد معصوم بن امام ربانی شیخ احمد سرہندی۔

تعلیم:

چار سال کی عمر میں آپ کی رسم بسم اللہ آپ کے جد امجد خواجہ عبدالرحیم نے کرائی، قرآن پاک آپ نے قاری عبدالرحمن معلوی سے پڑھا، فارسی کی تعلیم جناب عزیز اللہ خان سلیمان خیل قندھاری سے اور عربی کی تعلیم علامہ محمد حسن اللہ صدیقی پاٹائی سے مٹیاری کی درگاہ شریف میں ہی حاصل کی ، سترہ سال کی عمر میں فارغ التحصیل ہوگئے۔ آپ کے والد گرامی نے تین سو علماء کی موجودگی میں آپ کو دستار فضیلت عطا فرمائی۔ اسی (۸۰) علماء کے اجتماع میں آپ نے پہلی بار تقریر فرمائی جس کو سن کر علماء بھی عش عش کر اٹھے۔

سلسلہ طریقت:

آپ کو اپنے جد امجد خواجہ عبدالرحیم سے شرف بیعت حاصل تھا، اور اجازت و خلافت اپنے والد گرامی خواجہ عبدالحلیم سے حاصل تھی آپ کا سلسلہ طریقت اور سلسلہ نسب ایک ہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔

حاضری حرمین شریفین:

اکیس سال کی عمر میں آپ کو حرمین شریفین کی حاضری نصیب ہوئی یہاں بے شمار روحانی فیوضات و برکات کے علاوہ آپ نے وہاں کے بلند پایہ محدثین مثلا سید علی وتری اور حضڑت مولانا عبدالحق الہ آبادی مہاجر مکی سے کتب حدیث پڑھیں اور سند حاصل کی۔

شوق کتب بینی:

عمدہ عمدہ کتابوں کا آپ کو بہت شوق تھا، یہی شوق تھا جس کے باعث آپ نے مدینہ منورہ سے اسی ہزار روپے کی نایاب کتابیں خرید فرمائیں۔ آج بھی آپ کے صاحبزادے پیر غلام مجددی کے کتب خانے پرآپ کی خریدی ہوئی نایاب کتابوں کا ایک عظیم ذخیرہ موجود ہے۔

فرنگیوں سے نفرت:

آپ کو فرنگیوں اور انگریزوں سے اور ان کی حکومت سے سخت نفرت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کسی اہم مجبوری کے علاوہ آپ کبھی کسی انگریز افسر سے نہیں ملے، جب کہ انگریزوں نے آپ کو رام کرنے کیلئے بڑی کوششیں کیں، کہیں آپ کو شمس العلماء کا خطاب دیا، کہیں کوئی اہم عہدہ دینے کی پیشکش کی کہیں ، لنڈوریلوے اسٹیشن کو آپ کے خاندان کے نام پر سرہندی آباد رکھنے کیلئے کہا، لیکن آپ نے سب پیشکشوں کو ٹھکرا دیا۔ تحریک خلافت کے دوران آپ بذریعہ ریل دورے پر جارہے تھے کہ راستہ میں انگریز کلکٹر مسٹر گیس نے آپ کو دیکھ کر آپ کیلئے شرب منگوایا لیکن آپ نے اس کا منگایا ہوا شربت پینے سے انکار کردیا اور فرمایا کہ اگر اس گلاس میں شربت کی جگہ تمہارا خون ہوتا تو میں ضرور پیتا اسلئے کے تم ’’ہمارے ترک بھائیوں کا خون پی رہے ہو‘‘یہ سن کر انگریز کلکٹر کسیانا سا ہو کر کہنے لگا کہ ’’شاید ان پر مذہبی جنون غالب آگیا ہے۔‘‘

اسی نفرت کی بنا پر آپ نے وہ تمام زمینیں  واپس کردیں جو لنڈو (ضلع نواب شاہ) اور سداوہ نہر پر لنگر خانہ کیلئے آپ کو ملی تھیں۔ اسی طرح بیس (۲۰) بندوقوںکا آل انڈیا لائسینس بھی واپس کردیا۔ مگر بندوقیں انگریز حکومت کو نہیں دیں بلکہ ان کو زیر زمین دفن کردیا۔

قید و بند:

ترک موالات کی تحریک میں آپ نے بھر پور حصہ لیا اور سندھ کے چپہ چپہ پر جلسے کرکے انگریزوں کے مکرو فریب سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ کراچی کی عظیم کانفرنس میں انگریزوں کے خلاف جو فتویٰ صاد ر کیا گیا تھا اس میں علی برادران ، مولانا نثار احمد کانپوری کے علاوہ چھٹے نمبر پر آپ کے دستخط بھی تھے۔ اس جرم کی پاداش میں خالق دینا ہال کراچی میں آپ پر مقدمہ چلایا گیا ار آپ کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی سزا سننے کے بعد آپ نے فرمایا کہ قید تو میرا ورثہ ہے کیوں کہ میں غلام مجدد ہوں اور اولاد مجدد ہوں جن کو جہانگیر بادشاہ نے قلعہ گوالیار میں نظر بند کردیا تھا۔

چنانچہ ارشاد فرمایا کہ :

’’ کاش! آج مجھ پر یہ مقدمہ ہوت اکہ میں نے وقت کے انگریز بادشاہ جارج پنجم کو قتل کیا ہے اور اس کے خون سے میرے ہاتھ رنگے ہوتے۔‘‘

آپ نے بڑے تحمل سے یہ دوسال کا عرصہ جیل میں گزارا اور اس عرصہ میں قرآن پاک پورا حفظ کرلیا۔

صعوبتیں:

آپ نے جیل میں بڑی بڑی صعوبتیں برداشت کیں ، سردی کی راتوں میں آپ کی کوٹھری کے اندر ٹھنڈا پانی چھوڑ دیا جاتا تھا۔ تاکہ آپ ساری رات کھڑے ہو کر گزاریں اور نماز نہ پڑھ سکیں، بتیاں بند کر دی جاتی تھیں تاکہ آپ تلاوت قرآن پاک نہ کر سکیں ۔ ایک روز انگریز جیلر نے آپ کے اس تھیلے کو ٹھو کر ماردی جس میں آپ کا قرآن شریف رکھا ہوا تھا یہ دیکھ کر رگ فاروقی پھڑک اٹھی اور آپ نے ایک زور دار تھپڑ ا س جیلر کے رسید کر دیا جس پر جیل میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا آخر کار گورنز بمبئی خود آیا اور اس نے آپ کی تمام تکالیف اور روئے دادسننے کے بعد جیل کے عملے کو حکم دیا کہ آئندہ ایسی حرکتیں نہ کی جائیں اور آپ کو نماز پڑھنے تلاوت کرنے اور لوگوں سے ملنے کی پوری سہولتیں دی جائیں ۔

سیاسی خدمات :

تحریک ہجرت ہو یا تحریک خلافت ، تحریک انجمن ہلال احمر ہو یا تحریک مسجد منزل گاہ ، تحریک ترک موالات ہویا تحریک پاکستان آپ نے ہر سیاسی اور مذہبی تحریک میں بھر پور کردار ادا کیا۔ انجمن ہلال احمر کے لئے صرف مٹیاری سے بارہ ہزار روپے جمع کروایا۔ انجمن خدام کعبہ کی تحریک کے لئے تمام سندھ سے ہزاروں روپے جمع کرکے بمبئی علی برادران کو بھیجوایا آپ ایک عرصہ تک جمعیت علمائے ہند کے سر کردہ رہنما رہے لیکن جب علماء اہل سنت نے جمعیت سے استعفی دیا تو آپ بھی مستعفی ہو گئے تھے ۔ آپ نے ہندووٗ ں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا۔ ہندووٗ ں کے کچھ قرض آپ کے ذمہ تھے انہوں نے کہا کہ اگر آپ کانگریس میں شامل ہو جائیں تو ہم تمام قرضہ معاف کر دیں گے ورنہ ڈگری جاری کروادیں گے اس کے جواب میں آپ نے اپنی زمین فروخت کرکے ان کے قرضے اتار دیئے مگر اپنے ایمان کا سودانہ کیا۔

تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کی آپ نے ہر طرح سے بھر پور مدد کی اور اس کی ترقی کے لئے بھر چونڈی شریف کے پیر میاں عبدالرحمن قادری اور عبدالرحیم شہید کے ہمراہ آپ نے پورے سندھ کا دورہ کیا۔ کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ ’’مسٹر جناح کے پیچھے کیوں لگ گئے ہیں ؟ ‘‘ تو آپ نے فرمایا’’ہمارے مقصد کو بروئے کار لانے والا یہی شخص ہوا ہے اگر کوئی اور ہوتا تو ہم اس کے پیچھے لگ جاتے ، جناح توا یک مسلمان وکیل ہے جو بغیر پیسے اور فیس کے مسلمانوں کی وکالت کررہا ہے کیا کافر کو وکیل نہیں بنایا جا سکتا بلکہ فیس بھی دی جاتی ہے‘‘۔

جب مولانا عبدالقادر آزاد سبحانی نے جمعیت علمائے ہند کے مقابلہ میں جمعیت علماء اسلام قائم کی تو آپ نے حیدرآباد ( سندھ ) میں اس کی شاخ قائم کی اور اس کے زیر اہتمام متعدد جلسے منعقد کئے ۔

مذہبی خدمات :

آپ نے اپنی ساری زندگی ر شدو ہدایت اور تبلیغ میں گزاری ہر مذہبی تحریک میں آپ پیش پیش نظر آتے تھے۔ مسجد کانپور کا جھگڑا ہوا تو مولانا محمد علی جوہر نے تار دے کر آپ کو بلایا آپ فورا کانپور پہنچے اور فیصلہ ہونے تک وہیں رہے اور ڈٹ کر حکومت وقت کا مقابلہ کیا۔ اسی طرح جب بھر یا روڈ (سندھ ) میں نہر کی کھدائی کے وقت مسجد کو شہید کیا جانے لگا تو آپ تن تنہا چار پائی ڈال کر مسجد میں بیٹھ کر تلاوت قرآن میں مصروف ہو گئے اور فرمایا کہ مسجد کو شہید کرنے کے لئے ہماری لاش پر سے گزرنا ہو گا پہلے ہمیں ختم کرواس کے بعد مسجد شہید کرنا۔ آخر انگریز حکومت نے مجبور ہو کر مسجد کو شہید کرنے کا ارادہ ترک کر دیا اور نہر کا رخ دوسری طرف موڑدیا۔

مسجد منزل گاہ کا تنازعہ ہوا تو وہاں بھی آپ اپنی مجاہدانہ شان کے ساتھ سب سے آگے نظر آئے تین سو تیرہ مجاہدین کے لشکر کے ساتھ جھنڈے تھامے ہوئے جب آپ وہاں پہنچے تو حکومت وقت کو وہاں بھی آپ کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور مسلمانوں کو وہ مسجد حوالہ کرنے کا حکومت نے وعدہ کیا تب آپ واپس حیدر آباد آئے ۔

حکومت نے آپ پر پابندیاں عائد کیں ۔ پولیس کے پہرے بٹھائے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا شیر تمام راستہ کی حائل رکاوٹوں کو گراتا ہوا کراچی کی عید گاہ اور سلاوٹ محلہ پہنچ گیا، عظیم جلسوں سے خطاب کیا اور ایس پی سے زبان بندی کا نوٹس لینے سے انکار کر دیا۔ وہابیوں اور دیوبندیوں کے آپ سخت مخالف تھے۔ ان کے خلافت سخت تقریر فرمایا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ آپ کے مخالف ہو گئے۔

ایک جلسہ میں وہابیوں کی طرف سے آپ پر سخت پتھراوٗ کیا گیا تمام جلسہ درہم برہم ہو گیا سب بھاگ گئے لیکن آپ کی استقامت اور شجاعت کا یہ عالم تھا کہ تن تنہا اسٹیج پر بیٹھے رہے اور ذراسی بھی گھبراہٹ یا پریشانی کا اظہار نہیں فرمایا۔ آخر آپ کو دیکھ کر پھر سب جمع ہو گئے اور جلسہ آخر تک چلا۔ حیدر آباد میں سب سے پہلے ’’سلاوٹ پارے سے عید میلاد النبی ﷺ کے جلوس ‘‘کی ابتدا آپ ہی نے فرمائی ۔ حیدر آباد شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد آزاد میدان کی بنیاد بھی حضرت مفتی محمد محمود الوری کے ساتھ مل کر آپ ہی نے رکھی اور اس کی پہلی کمیٹی کے سب سے پہلے صدر بھی آپ ہی تھے ۔

تقویٰ :

دعوت مشترک مال میں سے قبول نہیں فرماتے تھے، حتیٰ کہ بیواوٗں اور یتیموں کی دعوت قبول نہیں کرتے تھے تا کہ ان پر کوئی بوجھ نہ پڑے ۔

بے نیازی :

نواب حیدر آباد دکن نے آپ کے لئے ۔ ۱۵۰۰روپے کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر کے بذریعہ منی آرڈ ر بھجوایا لیکن آپ نے واپس کر دیا اور فرمایا مجھ سے زیادہ غریب مستحق موجود ہیں یہ رقم ان کو دی جائے ۔

اسی طرح مریدین آپ کو اپنی جائیداد یں پیش کرتے تھے آپ کو بطور ہدیہ دیتے تھے لیکن آپ لینے سے انکار کردیا کرتے تھے ۔ اسی طرح حاجی سیمان ہالیپوٹہ ، حاجی رحیم داد، فقیر محمد عثمان بلالانی وغیرہ نے اپنی اولاد نہ ہونے کے باعث اپنی کئی سوا یکڑ زمین اور جائیداد یں آپ کے نام کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر چہ آپ کے اولاد نہیں لیکن عصبات اور ذوی الارحام ، رشتہ دار آپ کے موجود ہیں جو آپ کے بعد آپ کی جائیداد کے وارث ہوں گے میں ان کا حق نہیں مارنا چاہتا ۔ اسی طرح میر محمد بخش ولد میر امام بخش نے دو ہزار روپے سالانہ اور کچھ گندم وغیرہ آپ کے لئے وظیفہ مقرر کرنا چاہا لیکن آپ نے قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ ’’ دوسروں کے دروازہ کی طرف نگاہ رکھنا مجھے گوارہ نہیں ‘‘۔

تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں

کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا

تحریک خلافتـ:

تحریک خلافت کے دوران آپ نے انگریزوں کے خلاف بھر پور عملی جہاد فرمایا انگریزوں کے دئے ہوئے القاب اور اعزازات حتیٰ کے ان کی طرف سے کلکٹر حامد علی خان نے جو جائیداد یں اور زمینیں آپ کے نام کی تھیں وہ بھی آپ نے ان کو واپس کردیں اور خط لکھا کہ ہمیں تمہاری ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہے۔ انگریزوں کے خلاف پورے سندھ اورہندوستان میں آپ نے تحریک چلائی اور اس کی پاداش میں آپ پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا ۔ آپ فرماتے تھے کہ بمبئی میں اگر ایک مسلمان کے سر میں درد ہو تو ہمیں یہاں درد ہوتا ۔ اسی طرح قندھار میں اگر کسی مسلمان کو ایذا پہنچے تویہاں ہم سب کو اس کی تکلیف محسوس ہو گی ۔

قائداعظم :

قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا ہم اس کی امامت میں نماز نہیں پڑھتے بلکہ ایک وکیل کر رہے ہیں جو انگریزوں اورہندووٗ ں کا مقابلہ کر رہا ہے بات کرنے کی طاقت رکھتا ہے ہمیں ایسا لیڈر نہیں ملے گا سندھ کے مشہور ڈیل مل وکیل نے آپ کو دھمکی دی کہ اگر کانگریس کی مخالفت آپ نے نہ چھوڑی تو آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اور آپ کو تباہ کر دیں گے ۔ مگر آپ نے اس کی دھمکی پر کوئی توجہ نہ دی حتیٰ کہ جب مسلمانوں نے ہندووٗ ں سے جو قرض لیا ہوا تھا سود پر اور جس کی بناء پر وہ مسلمانوں کو دھمکی دے رہے تھے اس کا بھی آپ نے علاج یہ کیا کہ اپنی زمین بیچ کر ان مسلمانوں کا قرض ادا کر دیا اور ہندووٗ ں کی غلامی سے ان کو نجات دلا دی ۔

کانگریس کی جماعت :

سندھ کے دیوبندی علماء کانگریس کی حمایت کر رہے تھے۔ جس میں سے مولوی محمد صادق ( کھڈھ مارکیٹ لیاری کراچی ) ، مولوی دین محمد وفائی ( کراچی ) ، مولوی عبدالکریم چشتی ( شکار پور ) ، حکیم فتح محمد سیوہانی ، حکیم محمد معاذ ( نوابشاہ ) اور دیگر ان کے ساتھی علماء کانگریس کا بھر پور ساتھ دے رہے تھے اور آپ کی کانگریس سے عداوت کے باعث آپ کے سخت مخالف تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے اخبارات میں بھی آپ کے خلاف مہم چلائی ۔ اصلاح اخبار آپ کے خلاف سخت پروپیگنڈا کرتا رہا لیکن آپ کے پایہ استقلال میں کوئی لغزش نہ آئی ۔ آپ نے میدان میں نکل کر پاکستان کی حمایت کی تحریک چلائی۔ مسلم لیگ کے جلسوں اور جلوسوں کی آپ قیادت فرمات تھے۔ آپ کی زندگی اقبال کے اس شعر کے مصداق تھی ۔

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

چنانچہ ااپ نے جہاد باللسان کے ساتھ ساتھ جہاد بالسیف بھی فرمایا۔ جب آپ کسی بھی مخالفین اسلام اور مخالفین مسلک حقہ اہل سنت کے خلاف کسی تحریک میں جاتے تو اس طرح روانہ ہوتے کہ مریدین مجاہدین کی ایک فوج آپ کے پیچھے پیچھے ہوتی تھی جس سے ایک گھوڑا سوار آگے آگے ہوتا تھا اور ہاتھ میں ایک جھنڈا ہوتا تھا اور اس جھنڈے میں ایک طرف کلمہ شہادت اور یہ آیت مبارکہ لکھی ہوئی ہوتی تھی :

ان اللہ اشتری من المومنین انفسھم و اموالھم بان لھم الجنۃ ( التوبۃ : ۱۱۱)

ترجمہ : بے شک اللہ نے مسلمانوں سے ان کے مال اور جان خرید لئے ہیں اس بدلے پر کہ ان کے لئے جنت ہے۔

اور جھنڈے کے دوسری طرف یہ عربی شعر لکھا ہوا ہوتا تھا۔

نحن الذین بایعو ! محمدا

علی الجھاد ما یقینا ابدا

حافظہ :

آپ کا حافظہ اس قدر قوی تھا کہ عربی کتابوں کے صفحے صفحے آپ کو ازبریاد تھے ۔ آپ خود فرماتے تھے کہ استاذی حضرت مخدوم حسن اللہ پاٹائی کے پاس دوران تعلیم جب تمام طلباء سو جاتے تھے میں اس وقت بھی مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔ یہاں تک کہ صبح کی اذان ہو جاتی تھی ۔ ایک دفعہ رات کو آپ کے استاد محترم مخدوم حسن اللہ پاٹائی آپ کے پاس آکے کھڑے ہو گئے اور آپ کے اس بحر علم کو دیکھ کر فرمایا کہ تمہیں تو کسی کی شاگردی کی ضرورت ہی نہیں ، لیکن چونکہ دنیا کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے اس لئے ہم تمہیں پڑھارہے ہیں ۔

مہاجرین کی آمد :

ہندوستان سے مہاجرین کی آمد پر آپ نے اپنا گھر خالی کر دیا اور اس میں ان کو بسایا حتیٰ کے سونے کیلئے بستر اور کھانے پینے کے برتن تک ان کے استعمال کیلئے دے دیئے ۔ ان کے لئے مکانوں کا بندوبست فرمایا ان کو رہائش کے لئے سہولتیں مہیا کیں ۔

وصال:

آخری وقت میں اپنے محبوب حضور سر ور کون و مکان ﷺ کو یاد کرتے ہوئے اور یہ اشعار پڑھتے ہوئے اپنے محبوب کے پاس پہنچ گئے ۔

یارسول اللہ بر احوال خراب ماببیں

رہ تحاک افتادہ ام از شرم عصیاں بر زمین

مذہب جوں من نباشد در تمامی امتت

شافتم شواز عنایت یا شفیع المذننین

یا بوص خودسانم یا بکویت جاں دھم

زیں دو نو میدم مگر داں باچناں کن یا چنیں

گر خدا پر سد چو محشر گویمش

سوئے داغ سینہ ام ہجر پیغمبر ببیں

من بچشم خویش می دیدم کہ دربانے السلام

خاکروب آستانت بودزلف حور عین

ماگنہگاراں ہم امیدوار از رحمتت

کن برحال ما یا رحمۃ للعالمین

واعظ بے چارہ از جاں می رد دستش بگیر

زانکہ دارد نفس سر کش ہمچو شیطان در مکیں

عشق رسول :

عشق رسول ﷺ کوٹ کوٹ کر آپ میں بھرا ہوا تھا ۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنے جد امجد خواجہ ضیاء الحق کے یہ اشعار اکثر آپ کے ورد زبان رہتے تھے۔

بصد یقیت خریدارم عمر را دوست میں دارم

فدا سازم دل و جاں رابعثمان یارسول اللہ

چہارم حیدر صفدر کہ باشد ساقی کوثر

اما ماں را شوم چاکر بایقاں یارسول اللہ

وفات:

آپ نے ۱۶، جمادی الثانی ۱۳۷۷ھ بمطابق ۸، جنوری ۱۹۵۸ء بروز منگل صبح نو بجے حیدر آباد میں وفات پائی ، آپ کی نماز جنازہ آپ کی وصیت کے بمطابق حیدر آباد میں مفتی محمد محمود الوری نے پڑھا ئی ۔ دوسری نماز جنازہ مٹیاری میں ہوئی ۔ آپ کو مٹیاری میں حسب وصیت گنبد کے مشرقی دروازہ کے باہر جنوبی جانب سپرد خاک کیا گیا۔

(سندھ کے صوفیائے نقشبند )

تجویزوآراء