حضرت پیر امانت علی چشتی لاہوری
حضرت پیر امانت علی چشتی لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
پیر طریقت حضرت مولانا ابو ؒحقائق پیر سید امانت علی شاہ نظامی ابن حجرت پیدر سید برکت عی شاہ چشتی صابری قدسرہما ۲ صفر المظفر ، یکم اپریل (۱۳۲۲ھ/۱۹۰۱ء) بروز پیر موضع گلہوٹی سیدا ں ڈاک خانہ کوٹ عیسٰی خاں تحصیل زیرہ ضلع فیروز پور (انڈیا) میںپیدا ہوئے ۔آپ کا سلسلۂ نسب ۳۵ واسطوں سے حضر ت امام موسیٰ کاظم قدس سرہ سے جا ملتا ہے۔
چھ سال کی عمر میں والد ماجد کے ہمراہ کپور تھلہ چلے گئے اور پندرہ برس کی عمر میں اپنے تایا زاد بھائی حضرت پیر سیدنا در علی شاہ ( خلیفۂ مجاز حضرت خواجہ معظم دین مر دلوی خلیفۂ حضرت خواجہ شمس الدین العارفین سیالوی قدست اسرار ہم ) کے دست مبارک پر سلسلۂ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بعت ہوئے ۔ بیعت کے بعد ظاہری اور باطنی علوم حال کیے اور عرجۂ کمال کو پنچے ۔ ایک دفعہ عرس مکے موقع پر مقررین بر وق نہ پہنچ سکے تو آپ کے مرشد حضرت پیر سید نا در علی شاہ قدس سرہ نے فرمایا ’’امان علی ! آج آپ ہی و عظ کیجئے ‘‘ آپ نے معذرت کی کہ میں نے کبھی تقریرنہیں کی ، ل یکن مرشد کے اصرار پر اٹھ کھڑے ہوئے تائید غیبی شامل ہوئی اور وعظ کا رنگ ایسا جماکہ سامعین محو حیرت رہ گئے ، پھر کیا تھا ،آپنے ب قاعدہ وعظ و تقریر کا سلسلہ شروعکردیا اور آپ کے مواعظ کا شہرہ دور دور تک پہنچا ۔ مرشد کامل نے آپ کو خلوفت و اجازت سے سر فراز فرمایا ۔
پیر صاحب کو وعظ وارشاد میں ید طولیٰ حاسل تھا ۔ اکا بر بزرگان دین کی طرح آپ بھی وعدۃ الوجود ے قائل تھے ،نہ صرف قائل بلکہ بہت بڑے مبلغ بھی تھے ۔ آپ اپنے اکثر و بیشتر خطابات میں اس مسئلے کو بڑی تفصیل سے بیان فرماتے،پیرایۂ بیان اسقدر دلنشیں ہوتا کہ ایک عام آدمی بھی اس دقیق مسئلے کو سمجھ لیتا،مثنوی شریف پر نا قابل یقین حد تک عبور تھا ، جب آپ مثنوی شریف کے اشعار اپنے مخصوص انداز میں پرھتے تو سامعین کیف و مستی سے سر شار ہو جاتے ۔آپ کی تقریر اسرار تصوف کی آئینہ دار ہوتی تھی۔
پیر سید امان علی شاہ عابد شب زندہ بزرگ تھے،نماز تہجد باقاعد گی سے ادا کرتے اور شریعت مطہرہ کی پیروی کو ہر وقت پیش ن ظر رکھتے،سخت سے سخت تکلیف کی حالت میں کبھی نماز قضانہ ہونے دیتے،ہرجمعرات حضر داتا گنج بخش قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضری دیتے اور ایک عرصہ تک ہر نو چندی جمعرات کو حضرت فرید الدین گنجشکر قدس سرہ کے آستانہ عالیہ پر حاضری عیتے رہے ، بزرگان سلسلہ اور مشائخ کے عرس برے اہتمام سے مناتے ۔
۱۹۴۰ میں جامع مسجد عد گا ہ (جامعہ نعیمیہ )گڑھ)شاہو،لاہور کی انجمن کی اسدعا پر آپ لاہور رتشریف لائے۔۱۹۴۳ء میں گنج مغلپورہ ،لاہور کے چند احباب کے سپیم اصرار پر ماجع مسجد شاہ کما کی خطابت قبو ل فرمائی اور مسجد کے قریب آستانہ بیت الامان میں قیام پذیر ہوئے ، یہ مسجد پہلے مختصر تھی ،آپ کیتشریف لانے کے بعد خاسی وسیع و عریض اور خوبصور ت بن گئی۔ آپ تا دم واپسیں اسی مسجد میں اپنیارشادات و مواعظ سے دلوں کی دنیا کو منور کرتے رہے ۔
حضرت پیر صاحب شعر و سخن کا عمداہ ذوق رکھتے تھے اور نظامی تخلص کرتے تھے ۔۱۹۵۶ء میں اہل عیال سمیت حج و زیارت کی سعادت سے مشرف ہوئے ۔ آپنے دربار رسالت منظوم ہدیہ عقیدت پیش کیا جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:۔
السلام اے مبتداد منتہیٰ
السلام اے مقتدا و پیشوا
السلام اے واقف علم لدن
السلام اے راز دار مرکن
السلام اے مظہر نور و جود
السلام اے مظہر علم و شہد
السلام اے ناظر قلب حقیر
ایں نظامئی گنہگار و فقیر
۱۹۵۸ء میں حضرت خواجہ غریب نواز رضی اللہ تعالٰ عنہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور سلام پیش کیا ، چند اشعار ملاحظہ ہوں :۔
السلام اے مطلع انوار چشت
السلام اے رہبر اہل بہشت
السلام اے ساقئی جام اگست
السلام اے از جمال یار مست
السلام اے پیکر حسن و جمال
السلام اے ماحئی کفر و ضلال
ہو قبول اب تو نظامی کا سلام
آپ کا ہے یہ غلامان غلام
اردو میں بھی آپ نے طبع آزمائی کی ہے لیکن آبرو ئے قلم کو کسی دنیا دار کی مدح وظنا سے ملوظ ن ہیں ہونے دیا،صرف بزرگان دین سے اظہار عقیدت کے لئے اشعار کو وسیلہ بنایا،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری قدس سرہ کی منقبت میں فرماتے ہیں
رہا عمر بھی ہی مجھکو تیرے نام کا سہارا
اسی طرح رات گزری،اسی طرح دن گزارا
سخی اور بھی ہیں بیشک،یہ جہاں چھان مارا
ہوا منگتوں کا آخر،تیرے درپہ ہی گزارا
کھڑادیر سے ہوں درپر،مجھے بھیک دو خدارا
یہ ہے لاج بھی تمہاری،ہے فقری بھی تمہارا
تیرے در سے پل رہے ہیں،کئی شاہ اور گدابھی
چہ شوداگر نوازی،زنگاہ ایں گدارا
ذرا دیکھ اے نطامی،کہاں خاک بوس تو ہے
تری ہے بلند قسمت،ہے عروج پر ستارا
حضرت فرید الدین گنج شکر قدس سرہ کی شان میں فرماتے ہیں
رہے آستاں سلامت،رہے بر قرار شاہی
کہ تمہارے نام پر ہے یہ ہماری کج کلاسی
تیرے در پہ سر نگوں میں،شاہوں کے تاج شاہی
تیرے فقر پر تصدق ہے ہزار بادشاہی
تیرا نعرئہ فریدی ہے قبول بارگہ میں
مرے کان میں ہے آتی یہ صدائے صبکا ہی
ذرا دیکھ اے نظامی یہ ہے در گہی فریدی
کہیں بٹ رہی ہے جنت کہیں بٹ رہی ہے شاہی
آپ کے مرید ااور خلیفہ جناب سید محمد اشرف بخاری آپ کے مواعظ وخطبات کو قلمند کرلیا کرتے تھے،یہ خطبات مختلف عنانات کے تحت چھپ چکے ہیں ، مثلاً تیس ۳۰ خطبات پر مشتمل زکر و فکر ،کلمہ چیبہ ،آئینہ معرفت،تصور شیخ ،حقیقت جامع ، دعوت حق ، شب قدر ، شب معراج ، رویت ہلال ، سائنس اور مذہب اور مقام ولایت وغیرہ وغیرہ۔
حضرت پیر صاحب کے مریدین اور معتقدین کا حلقہ خاصا وسیع ہے ۔آپ کے چند خلفاء کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ صوفی عبد الرحیم دیوانہ ، مؤلف حق کی پہچان ، بھو گیوال ، باغبا نپورہ لاہور۔
۲۔ حاجی صوفی محمد عالم ، شہداد پور ضلع سانگھڑ ، سدھ۔
۳۔ میاں وارث علی۔
۴۔ میاں سخاوت علی ، موضوع پھلر ون ، تحصیل و ضلع لاہور
۵۔ سید محمد اشرف بخاری ، محلہ حسین پورہ ،آبادی کمہار پورہ لاہور
۷محرم الحرام ، ۷ مارچ ( ۱۳۹۱ ھ/۱۹۷۱ئ) بروز جمعہ ۱ بجے صبح پیر سید امانت علی شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حقیقی سے جاملے ن۔ نماز جنازہ آپ کے چھوٹے بھائی حضرت پیر سید کرامت علی شال چشتی نظامی مد ظلہ نے پڑھائی ،مزار آستانہ بیت الامان گنج مغلپورہ ، لاہور میں ہے ، مزار شریف پر خوبصورت گنبد تعمیر ہو چکا ہے ۔
حضرت مولانا سید شریف احمد افت نوشاہی مد ظلہ العالی نے قطعۂ تاریخ وصال کہا ہے
جناب پیر امان علی وحدی زماں
رفیق مجلس آں فخر انیا آمد
چو سال رحلت شیخ زماں شرافت جست
شہید عشق امان علی ، مدا آمد
(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)