زینت القراء قاری غلام محی الدین رضوی

زینت القراء قاری غلام محی الدین رضوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ولادت

فخر سلسلۂ شیریہ بشیریہ زینت القراء حضرت مولانا قاری غلام محئ الدین رضوی شیری خطیب علیہ الرحمہ پیلی بھیت شریف کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش کے وقت حضرت شاہ جی محمد شیرمیاں رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لعاب دہن سے نوازا اور دعا دی کہ:

‘‘یہ بچہ قران حکیم کا ماہر اور متجر عالمِ دین ہوگا۔’’

چنانچہ قاری غلام محئ الدین نے دس سال کی عمر میں حفظ قرآن کرلیا اور لکھنؤ کے مدرسہ فرقانیہ میں داخلہ لے کر قاری محمد نذر سے تلمذ حاصل کیا اور بہت کم عمری میں آپ کا شمار مشاہیر قراء میں ہونے لگا۔ قرأت کی تکمیل کے بعد قاری غلام محئ الدین نے مولانا وصی احمد محدث سورتی پیلی بھیتی علیہ الرحمۃ کے مدرسۃ الحدیث میں داخہ لیا، حضرت محدث سورتی نے آپ کو میزان شروع کراکے اپنے داماد امین الفتویٰ مولانا محمد شفیع رضوی، بیسلپوری کے سپرد کردیا۔ اور خصوصی توجہ فرماتے تھے کیونکہ آپ نہایت ذہین اور حصول علم دین کی لگن سے سرشار تھے۔

قاری غلام محئ الدین کا بیان ہے۔

‘‘میری بسم اللہ بھی حضرت محدث سورتی نے پڑھائی تھی اس لیے مجھے روز اوّل سے ہی حضرت محدث سورتی سے تلمذ کا شرف حاصل ہے۔’’

حضرت محدث سورتی علیہ الرحمہ کے وصال سے کچھ قبل قاری غلام محئ الدین خیر آباد چلے گئے جہاں آپ نے مدرسہ نیازیہ میں معقول ومنقولات کی کتابیں پڑھیں اور مدرسہ عالیہ رام پور سے درسِ نظامیہ کی سند کی تکمیل حاصل کی۔

دورۂ حدیث شریف کے لیے بریلی شریف حاضر ہوئے اور حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا بریلوی سے شرف تلمذ حاصل کیا قاری غلام محئ الدین کا بیان ہے فرماتے ہیں:

میں واحد طالب علم تھا جس نے حضرت محدث سورتی سے کتابیں شروع کر کے ان کے ہی شاگرد عزیز مولانا امجد علی سے تکملہ کیا اور دستارِ فضیلت حاصل کی۔

اساتذۂ کرام

۱۔ حجۃ الاسلام حضرت مولانا مفتی حامد رضا بریلوی قدس سرہٗ

۲۔ امام المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی، قدس سرہٗ بانی مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت

۳۔ صدالشریعہ حضرت مولانا محمد ام جد علی رضوی اعظمی علیہ الرحمہ

۴۔ والد ماجد حضرت حافظ قاری غلام جیلانی رضوی پیلی بھیتی

۵۔ امین الفتویٰ حضرت مولانا محمد شفیع رضوی بیسلپوری

۶۔ حضرت مولانا حکیم محمد بشیر خاں مدفون گولڑہ شریف راولپنڈی

والد ماجد

مولانا قاری غلام محئ الدین کے والد ماجد حافظ قاری غلام جیلانی علیہ الرحمۃ خطیب جامع مسجد پیلی بھیت ایک متجر عالم دین اور حضرت شاہ جی محمد شیر میاں کے خلیفہ تھے۔ پیلی بھیت اور گردونواح میں آپ کی شخصیت کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

خصوصاً ا علیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہٗ سے ایک خاص نسبت تھی۔ اور دونوں بزرگوں کے درمیان برادرانہ مراسم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس خاندان کا آج بھی بریلی شریف ارو خاندانِ اعلیٰحضرت سے روحانی رشتہ استوار ہے۔

چند تلامذہ

قاری غلام محئ الدین سے اکتساب فیض کرنے والوں کی تعداد بیشمار ہے تاہم چند اسماء مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ مولانا عبد الشاہد خاں شروانی، (مصنف باغئ ہندوستان)

۲۔ مولانا الحاج قاری امانت رسول نوری پیلی بھیتی

۳۔ نواب اکرم خاں شیروانی

۴۔ ادیب شہر احمد صدیقی ایڈیٹر روز نامہ جنگ کراچی

۵۔ مولانا مفتی مسعود علی قادری

۶۔ مولانا اعجاز حسین [1]

۷۔ مولانا حافظ شکیل احمد رضوی خطیبی سوار تحصیل سوار ضلع رام پور

۸۔ قاری عبدالحسن رضوی خطیبی تحصیل سوار ضلع رام پور

۹۔ قاری محمد سلیمان خطیب بھیمتال ضلع نیتی تال

۱۰۔ قاری عبدالحکیم رضوی مدرس مدرسہ اشاعت الحق ہلدوانی

۱۱۔ مولانا محمد احمد خطیبی امام بڑی مسجد اندر انگر ہلدوانی

۱۲۔ قاری محمد عالم خطیبی صدر مدرس مدرسہ برکات اسلام آگرہ

۱۳۔ حافظ قاری محمد حنیف قادری خطیب سیرولی ضلع بریلی

۱۴۔ قاری عبدالرحمٰن رضوی خطیبی دوہد گجراتی

۱۵۔ قاری رئیس عالم رضوی خطیبی [2]

بیعت وخلافت

قاری غلام محئ الدین نے حضرت شاہ جی محمد بشیر میاں کےہاتھ پر بیعت حاصل کی، اور حضور مفتی اعظم علامہ مولانا مصطفیٰ رضا نوری بریلوی قدس سرہٗ والد ماجد حضرت حافظ غلام جیلانی پیلی بھیتی نے اجازت وخلافت عطا فرمائی۔ پاک وہند میں قاری غلام محئ الدین کے بیشمار مریدین موجود ہیں۔

درس وتدریس

مولانا قاری غلام محئ الدین بیک وقت شیخ الحدیث، شاعر شیریں مقال، واعظ بے مثال، اور پیر طریقت تھے۔ آپ نے درس و تدریس کا آغاز اپنے بھائی حکیم حبیب الرحمٰن پیلی بھیتی کے قائم کردہ مدرسہ آستانہ شیریہ سے کیا۔ اور پھر دادوں ضلع علی گڑھ میں نواب احمد جان کے مدرسہ میں مدرس ہوئے۔ اور برسوں تشنگان علم کی پیاس بجھاتے رہے۔

قاری غلام محئ الدین نے کچھ دنوں بعد اپنا مستقل مسکن ہلدوانی ضلع نینی تال کو بنالیا تھا۔ اور وہیں پر ایک مدرسہ بنام اشاعت الحق قائم کیا۔ اس کےعلاوہ آپ پیلی بھیت میں بھی آستانہ شیریہ کو دیکھ بھال کا فریضہ انجام دیتے تھے۔

قاری غلام محئ الدین علیہ الرحمہ شعبان المعظم ۱۳۹۹ھ کو کراچی پاکستان تشریف لے گئے تھے۔ کچ عرصہ قیام کے بعد واپس تشریف لائے۔

نمونۂ کلام

حضرت قاری غلام محئ الدین رضوی شیری عربی، فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔ آپ کا بیشتر کلام نعت رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور حمد ومنقبت پر مشتمل ہے۔ نعتیہ اشعار پر مشتمل آپ کے دو مجموعے شائو ہوچکے ہیں۔ قاری غلام محئ الدین نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کی مثنوی ردمثالیہ کی مختصر اردو شرح تحریر فرمائی ہے۔ جو ۱۱۲صفحات پر مشتمل ہے اور اشاعت الحق ہلدوانی نینی تال سے شائع ہوئی۔

قاری غلام محئ الدین علیہ الرحمہ نے امام احمد رضا فاضل بریلوی کی شان میں اشعار کہے تھے ان میں سے چند شعر بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔ آپ کا تخلص خطیب ہے؎

اے امام احمد رضاؔ اے سنیوں کے تاجدار
اے رضائے احمد مختار کے آئینہ دار

حافظ آئینہ تعظیم شان مصطفیٰ
پاسبانِ احترام سنیت خیرالوریٰ

مظہر خلق شہہ رحمت سراپا اسلام
پیکر عشق نبئ الفت سراپا اسلام

تیری حق گوئی نے حق کا بول بالا کردیا
دور کر کے ظلمت باطل اُجالا کردیا

ذرہ ذرہ ہے تیری تدقیق کا ماہِ ونجوم
قطرہ قطرہ ہے تیری تحقیق کا بحر العلوم

غیر بھی قائل تھے تیری فکر کی پرواز کے
پر کتر ڈالےتھے تونے اہل حرص واز کے

تجھ پہ تھا فیض کمال اُلفت خیر الانام
بایقین جس نے بنایا تجھ کو ھر فن کا امام

تونے ہر طوفان میں پیدا کنارہ کردیا
کشتی باطل کو غرقِ موجدِ دریا کردیا

تجھ میں تھی اس دور میں شانِ بلالی جلوہ گر
عدل فاروقی پہ ہر دم رہتی ہے تیری نظر

دہرہ میں شہر ہے تیرے فتویٰ بے لوث کا
غوث کا سایہ ہے تجھ پر تو ہے سایہ غوث کا

آج ہے ممنون تیری رونق ہر خانقاہ
آج ہر درگہ کی پرہ دار ہے تیری سپاہ

آج بھی ہے یہ خطیب اس فخر سے سر برفلک
مفتی اعظم میں ہے تیرے ترسی سچی جھلک [3]

انتقال پُر ملال

مولانا قاری غلام محیی الدین رضوی علیہ الرحمہ کا انتقال ۷؍رجب المرجب ۱۴۰۵ھ؍۲۸؍ فروری ۱۹۸۵ء بروز جمعرات کو ہوا۔ مزار ہلدوانی ضلع نینی تال میں مرجع خلائق ہے [4]۔



[1] ۔ رضی حیدر، خواجہ: تذکرہ محدث سورتی ص ۲۸۳ تا ۲۸۵

[2] ۔ بروایت مولانا حافظ شکیل احمد رضوی خطیبی متعلم درجہ خامسہ الجامعۃ الاسلامیہ رام پور

[3] ۔ محمد امانت رسول نوری، الحاج، قاری: تجلیات امام احمد رضا ص ۱۶۲

[4] ۔ قلمی یاد داشت مولانا مفتی سید شاہد علی رضوی شیخ الحدیث الجامعۃ اسلامیہ رام پور

تجویزوآراء