حضرت قاسم بن محمدبن ابی بکر صدیق

حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم

خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مبارک میں شاہِ فارس یزدجرد کی تین بیٹیاں مالِ غنیمت میں آئیں جن میں سے شہر بانو، حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عقد میں آئیں جن  سے حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے۔ دوسری حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجیت میں آئیں جن سے حضرت سالم رضی اللہ عنہ متولد ہوئے۔ اور تیسری حضرت محمد بن ابوبکر صدیق کے نکاح میں آئیں جن سے حضرت قاسم نے جنم لیا۔ اس طرح زین العابدین، حضرت سالم اور حضرت قاسم تینوں خالہ زاد بھائی ہیں۔ حضرت قاسم کی ولادت ۲۳شعبان ۲۴ھ/ ۲۴جون ۶۴۵ء کو ہوئی۔

حضرت قاسم چھوٹی عمر میں ہی داغِ یتیمی لے کر اپنی پھوپھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آغوشِ شفقت میں آگئے۔ آپ نے علمِ باطن کا اکتساب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا اور یوں اپنے جدّ امجد حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی باطنی نعمت اُن کے وسیلہ سے حاصل کی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پرورش اور حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ نتیجتاً آپ تابعین کبار اور فقہائے سبعہ میں سے ہیں۔ اپنے وقت کی بے نظیر ہستی اور امامِ اہلِ زمانہ تھے۔ فقیہ بے مثل، عالم بے بدل اور کثیرالحدیث تھے۔ یحییٰ بن سعید انصاری فرماتے ہیں کہ ہم نے مدینہ منورہ میں کسی شخص کو بھی ایسا نہیں پایا جسے حضرت قاسم پر فضیلت دے سکیں۔ا یوب سختیانی کا بیان ہے کہ میں نے کسی کو بھی حضرت قاسم سے افضل نہیں دیکھا۔ امام بخاری کا قول ہے آپ اپنے زمانہ میں سب سے  افضل تھے۔ ابوالزناد کا قول ہے کہ اُن سے بڑھ کر کسی کو سنّت کا عالمِ باعمل نہیں پایا اور نہ کسی فقیہ کو آپ سے زیادہ اعلم دیکھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ اگر اہرِ خلافت میرے اختیار میں ہوتا تو میں حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کے سپرد کردیتا۔ ابنِ اسحاق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے دیکھا۔ ایک اعرابی آیا، اُس نے آپ سے پوچھا کہ آپ اور سالم میں کون زیادہ عالم ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: سبحان اللہ! اعرابی (صحرانشین) نے پھر وہی سوال کیا، آپ نے فرمایا: سالم وہ ہیں اُن سے پوچھ لے۔ ابن اسحاق نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ حضرت قاسم نے اپنے آپ کو اَعلم (زیادہ علم والا) کہنا پسند نہ کیا کیونکہ یہ تزکیۂ نفس ہے اور یہ بھی نہ کہا کہ سالم۔ اعلم ہیں کیونکہ یہ جھوٹ ہے۔

جب آپ کی رحلت کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ مجھے اُن کپڑوں میں کفنانا جن میں نماز پڑھا کرتا تھا۔ یعنی قمیض، تہبند اور چادر۔ آپ کے صاحبزادے نے عرض کیا: ابا جان! کیا ہم دو کپڑے اور زیادہ کردیں؟ ارشاد فرمایا: جانِ پدر! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کفن بھی تین کپڑوں پر مشتمل تھا۔ مُردے کی نسبت زندہ کو نئے کپڑوں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

آپ کی رحلت مکہ و مدینہ کے درمیان قدید میں ہوئی اور وہاں سے تین میل دور ’’مثلّل‘‘ میں آخری آرامگاہ بنی۔ جدید تحقیق کے مطابق آپ نے ۸۱سال کی عمر میں ۲۴جمادی الثانی ۱۰۸ھ مطابق ۷۲۶ء کو رحلت فرمائی۔

(تاریخِ مشائخ نقشبند)

حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہم



ولادت با سعادت:
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں  یزدجرد شاہ فارس کی تین لڑکیاں غنیمت میں آئیں۔ ان کی قیمت ٹھہرائی گئی۔ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے تینوں کو لے لیا۔ ان میں سے ایک اپنے صاحبزادے امام حسین کو دے دی۔ جس سے امام زین العابدین پیدا ہوئے۔ دوسری حضرت عبداللہ بن عمر کو دی جس سے حضرت سالم پیدا ہوئے۔ اور تیسری حضرت محمد بن ابی بکر صدیق کو دی۔ جس سے حضرت قاسم پیدا ہوئے۔ پس حضرت زین العابدین ،سالم ، قاسم ایک دوسرے کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ حضرت قاسم اپنے والد ماجد کے قتل ہونے کے بعد اپنی پھوپھی حضرت عائشہ صدیقہ کے ہاں بطور یتیم پرورش پاتے رہے۔ آپ کا انتساب علم باطن میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ہے۔

مقام و مرتبہ:
حضرت قاسم کبار تابعین اور فقہائے سبعہ میں سے ہیں۔ امام ، عالم ، فقیہ، و پرہیزگار اور کثیرالحدیث تھے۔ یحییٰ بن سعید انصاری کا قول ہے کہ ہم نے مدینہ منورہ میں کسی کو ایسا نہ پایا کہ اسے قاسم پر فضیلت دیں۔ ایوب سختیانی کا بیان ہے کہ میں نے کسی کو قاسم سے افضل نہ دیکھا۔ بقول امام بخاری آپ افضل اہل زمانہ تھے۔ ابوالزناد کہتے ہیں کہ میں نے کسی کو قاسم سے بڑھ کر سنت کا عالم نہ پایا اور نہ کسی فقیہ کو آپ سے اعلم دیکھا۔ ابن اسحاق کا بیان ہے کہ میں نے قاسم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ ایک اعرابی آیا  اس نے آپ سے پوچھا کہ تم اور سالم دونوں میں بڑا عالم کون ہے، قاسم نے کہا: سبحان اللہ! اعرابی نے پھر وہی سوال کیا۔ آپ نے جواب دیا، سالم وہ ہیں، ان سے پوچھ لے۔ ابن اسحاق نے اس کی توجیہ میں کہا کہ قاسم نے پسند نہ کیا کہ کہہ دیں میں اعلم ہوں کیونکہ یہ تو تزکیہ نفس ہے۔ اور یہ بھی نہ کہا کہ سالم اعلم ہیں کیونکہ یہ جھوٹ ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے تھے کہ اگر امر خلافت میرے اختیار میں ہوتا تو میں قاسم کے سپرد کردیتا۔

وصال مبارک:
جب وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت کی کہ مجھے ان کپڑوں میں کفنانا جن میں نماز پڑھا کرتا تھا۔ یعنی قمیص و ازار و چادر۔ آپ کے صاحبزادے نے عرض کیا ابا جان! کیا ہم دو کپڑے اور زیادہ کردیں جواب دیا، جانِ پدر! حضرت ابوبکر صدیق کا کفن بھی تین ہی کپڑے تھے۔ مردے کی نسبت زندہ کو نئے کپڑوں کی زیادہ ضرورت ہے۔

آپ ستر یا بہتر سال کی عمر میں مکہ و مد ینہ کے درمیان مقام قدید میں وفات پائی۔ اور مُثلل میں دفن کیے گئے۔سنہ وفات میں اختلاف ہے۔ ابن سعد نے طبقات میں ۱۰۸ھ لکھا ہے۔ بقول ابن معین وابن المدینی (۲۴ جمادی الاولیٰ ) ۱۰۶ھ ہے۔

(مشائخِ نقشبندیہ)

تجویزوآراء