حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی
حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کے اوصاف کی شہرت بیان کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کے زمانہ میں اگرچہ بڑے بڑے شہیرفی الآفاق اکابر موجود تھے جو آپ کے اساتذہ اور ہم عصر تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے جوشہرت اور مقبولیت آپ کو عطا فرمائی تھی وہ اور کسی کو نہیں ملی۔ آپ کی تصنیفات میں ایک مشہور کتاب کافیہ کا حاشیہ ہے جو اپنی مثال آپ ہے اور وہ حاشیہ آپ کی زندگی ہی میں تقریباً تمام جہان میں شہرت پذیر ہوگیا تھا۔ اسی طرح علم نحو میں آپ کی ایک کتاب بنام ’’ارشاد‘‘ ہے جس میں مسائل کے تحت امثلہ بھی بیان کی ہیں اور ایک اچھوتے طرز پر یہ کتاب لکھی ہے اس کی عبارت میں تسلسل اور نہایت عمدگی ہے۔ نیز علم بلاغت میں قرین اور بدیع البیان بھی لکھی ہیں جس میں سجع کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔ اسی طرح فارسی زبان میں قرآن کی تفسیر ’’بحرِ مواج‘‘ کے نام سے لکھی ہے جس میں ترکیب اور معنی وصل و فراق ہیں اس میں بھی سجع کے تکلفات ہیں یہ نہایت عمدہ کتاب ہے اسی طرح اصول بزودی کی شرح بھی بحث امر تک اور اس کے علاوہ فارسی اور عربی زبان میں کتابیں تحریر فرمائی ہیں اور تقسیم علوم و ضائع وغیرہ میں بھی فارسی زبان میں کتابیں لکھی ہیں۔ آپ فارسی زَبان کے شاعر بھی تھے ایک بادشاہ کے نام ایک لونڈی کی ضرورت پر آپ نے ایک قطہ بھی لکھا ہے جو بہت مشہور ہے۔
قطعہ
ایں نفس خاکسار کہ آتِش خدائے اوست
پر باد گشت لائق بے آب کردن است
یک کس چناں فرست کہ پابر سرم نہد
ریزد ہمہ منی و تکبر کہ درمن است
آپ نے ۸۴۸ھ میں وفات پائی، آپ کی قبر جونپور میں ہے۔ قاضی شہاب الدین اپنے رسالہ ’’مناقب السادات‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے اس رسالہ میں اہلِ بیت کی محبت و عقیدت تحریر کی ہے جو سرمایہ سعادت و ذریعہ نجات اخروی ہوگا۔
اس کتاب کی تالیف کے متعلق لوگوں میں مشہور ہے کہ اس زمانہ میں ایک بہت بڑے بزرگ بنام سید اجمل تھے مگر وہ علم و فضل کے زیور سے خالی تھے شاہی محافل میں اول و آخر درجہ کی نشت کے بارے میں کچھ جھگڑا تھا، قاضی شہاب الدین ابتداً تو علوی سید اور عام آدمی پر عالم کی فوقیت اور افضلیت کے قائل تھے لیکن اس کے بعد عالم غیر علوی اور علوی کے مُقام اور مرتبہ کے برابری اور تسویہ کے قائل ہو گئے اور اسی مسئلہ پر آپ نے یہ رسالہ لکھا، اس میں لکھا تھا کہ ہمارا عالم ہونا تو متیقن اور مستحق ہے لیکن تمہارا علوی ہونا مشکوک ہے اس لیے تم سے ہم بہتر ہیں (لہٰذا ہمارا مقام مقدم ہونا چاہیے) مگر قاضی شہاب الدین کی یہ بات آپ کے استاد کو پسند نہیں تھی، اس لیے آپ کے استاد آپ کی طرف سے کبیدہ خاطر ہوگئے، بعد میں قاضی صاحب اپنے ان خیالات سے توبہ کی، اور ایک کتاب بنام ’’مناقب السادات‘‘ لکھی اور پہلے جو کچھ لکھایا کہا تھا اس سے معذرت چاہی۔
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ قاضی صاحب کو خواب میں تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ سیّد اجمل کو راضی کرو، اس کے بعد آپ سید اجمل کے پاس گئے اور معافی مانگ کر ماسبق خیالات سے رجوع کیا اور پھر مناقب السادات لکھی، واللہ اعلم بالصواب۔
(اخبار الاخیار)