حضرت سرمد شہید دہلوی

حضرت سرمد شہید دہلوی  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ صاحب جذب و مستی بزرگ تھے۔ عام طور پر عالم سُکر میں رہتے تھے۔ عشق و مستی اور استغراق میں گذرتی۔ اصل میں یہودی المذہب تھے۔ توریت کے حافظ تھے۔ اور اسے خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے۔ پھر مشرف باسلام ہوئے۔ اور اپنے ملک سے دہلی آئے اور یہاں ہی قیام پذیر ہوگئے ظاہری علوم و فنون میں مہارت حاصل کی۔ اور جامع علوم و فنون ہوگئے۔ اچانک عشق مجازی نے اپنے پنجہ میں لے لیا۔ ایک ہندو لڑکے کو دل دے بیٹھے۔ ایک عرصہ تک اسی وادی میں سر گردان علامت رہے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے عشق مجازی سے عشق حقیقی کی توفیق دی۔ دیوانہ وار برہنہ جسم بازاروں میں گھومتے ویرانوں میں چلے جاتے۔ عالم سُکر میں نعرہ بلند کرتے رہے اور پھر ہمہ دست کے نظریہ میں ؎ من خدایم۔ من خدایم من خدا کہتے علماء عصر نے ان کے خلاف فتویٰ قتل دیا۔ علماء نے اس محضر نامہ پر دستخط کرکے اپنی مہریں نصب کیں اور اورنگ زیب کی خدمت میں پیش کیا۔ اورنگ زیب نے قتل کے حکم پر تصدیق کردی اور اس طرح سرمد کو قتل کردیا گیا۔

تواریخ جدولیہ میں لکھا ہے۔ کہ آخرین وقت قتل سے چند لمحے قبل سرمد کی زبان پر یہ شعر تھا اور یہی شعر اس کا آخری شعر مانا جاتا ہے۔

سر جدا کرد تنم شوخے کہ بامن یار بُود

 

قصہ کوتاہ شد و گرنہ درد سربسیار بود

حضرت سرمد کی رباعیات گوہر آبدار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ایک زمانہ تک یہ رباعیات زبان زوعام و خواص رہیں۔ مخبرالواصلین نے واقعہ قتل ۱۰۷۰ھ لکھا ہے آپ کا مزار دہلی میں ہے۔

آں ولی شرمدش نام است
سال قتلش چو از خرد جستم

 

بود از جام عشق یکسر مست
گشت پیدا کہ سرمد سرمست
۱۰۷۰ھ

(خذینۃ الاصفیاء)

تجویزوآراء