حضرت شاہ عبدالعلیم آسی سکندرپوری

حضرت شاہ عبدالعلیم آسی سکندرپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

۱۹؍شعبان المعظم ۱۲۵۰ھ میں سکندر پور ضلع میں ولادت با سعادت ہوئی، ظہور الحق تاریخی نام قرار پایا، والد کا نام شیخ قنبر حسین، آپ کےنانا کا نام مفتی احسان علی، حضرت مولانا مظفربلخی کی اولاد میں تھے، ابتدائی کتب نانا سے پڑھنے کے بعد خانقاہ رشیدیہ جون پور ھاضر ہوئے اور حضرت شاہ غلام معین الدین قدس سرہٗ سے میر قطبی تک پڑھا، حاجی امام بخش جون پور المتوفی ۱۲۷۷؁ھ نے اپنی آمدنی سے چار آنہ وقف کر کے مدرسہ حنفیہ کی بنا ڈالی اور حضرت علامہ عبد الحلیم فرنگی محلی کو بلاکر صدر مدرس مقرر کیا تو آپ حضرت مولانا سے پڑھنے لگے، پڑھنے میں بہت محنت فرماتے، رات گذر جاتی مگر خبر نہ ہوتی، ایک صفحہ سے زیادہ کسی کتاب کو سبقاً نہیں پڑھا، مولانا عبد الحلیم فرماتےکتاب ختم ہوگئی، اب دوسروں کو پڑھاؤ ۔۔۔ مولانا عبد الحلیم صاحب کےجانے کے بعد ان کی جگہ پر مولانا مفتی محمد یوسف فرنگی محلی آئے، آپ ہدایہ لےکر اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے، مفتی صاحب نےفرمایا، فقیر کاشمس بازغہ کے بعد ہدایہ پڑھانے کا معمول ہے، حضرت آسی نے عرض کیا، تین سطروں کامطالعہ کر کے آیا ہوں، میں نے جو باتیں ان میں پیدا کی ہیں، ان کو سُن لیجئے،تین گھنٹہ تقریری کی، مفتی صاحب دم بخور سنتے رہے، ختم تقریرکے بعد مفتی صاحب نے فرمایا، صاحبزادے میں آپ کی تعریف مولوی عبد الحلیم سےسُن چکا ہوں، مجھے ایسے شاگرد کی جب تلاش تھی تو کوئی نہیں ملا، اب بوڑھا ہو چکا ہوں، پڑھانےکےلائق نہیںرہا، آپ مطالعہ کرکےکتاب خود ختم کرلیجئے اور دوسروں کو پڑھائیے،جہاں شبہ ہوپوچھ لیجئے۔

حضرت آسی کے والد اور پیرو مرشد شاہ غلا معین الدین قدس سرہما کو حضرت قیام الحق شاہ امیر الدین حیدزی رشیدی سےبیعت تھی، خلافت بھی دونوں کوساتھ ملی، حضرت آسی برسہا برس سفرد حضرت میں خدمت گذاری کےلیے پیرو مرشد کے ساتھرہے، شیخ کےوصالکے بعد درگاہ رشیدیہ کے سجادہ نشین ہوئے، اعلیٰ درجہ کے شاعر تھے، شاہ غلام افضل الہ آبادی سےتلمذ تھا، دیوان عین المعارف حقائق و معارف کا گنجینہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کشیدہ قامت، گداز بدن، کتابی چہر، سیاہ آنکھیں، گھنی اور گول داڑھی، خندہ رو، سڈول بدن، سراپا جمال تھے، ابتداء میں ذریعۂ معاش کےلیے طبات کی، طبیعت بذلہ سنج پائی تھی، آخر عمر میں صحت خراب ہوگئی تھی، بصارت میں زوال ہوگیا تھا لیکن نوربصیرت میں کمال کا درجہ حاصل ہوگیا تھا وفات سےپانچ سال پہلےمتلی کا مرض لاحق ہوا، چائےپرگذارہ تھا،

۵۸برس کی عمر میں ۳ جمادی الاخریٰ ۱۳۳۵ھ موافق ۲؍فروری ۱۹۱۷ھ اپنی سسرال محلہ نور الدین پورہ غازی پور میں انتقال فرمایا، مزار مبارک اسی محلہ میں زیارت گاہ خلائق ہے۔

حضرت مولانا محمد فاخرالہ آبادی،حکیم عبد العزیز بہاری، شاہ اویس رسول پھلواروی، شاہ عبد الحق ظفر آبادی، مولانا عبد الحنان غازی پوری محب اللہ غازی پوری، مولانا حکیم نذیر احمد بہاری خلفاء تھے، مشہور عالم، ادیب و شاعر اور علم نواز مولانا سید محمد سبحان اللہ عظیم رئیس گور کھپور آپ ہی کے مرید تھے، حضرت سید شاہ شاہد علی سنبز پوش المتوفی ۱۳۷۷ھ فانی جانشین تھے، انہوں نے دراج ذیل منظوم تاریخ وفات کہی۔

قطب دوراں شیخ ما عبدالعلیم
چوں بحق واصل شدا زراہ نیاز

دست گیرش چوں نجواند اور حلیم
عفوو لطفش زراں شدہ عاصی نواز

مثل رش از پر تو خلق عظیم
بود اور ادامن رحمت دراز

بہر تاریخش چوفانی فکر کرو
ایں صدا امد زخلوت گاہ راز

شد جہاں بے او بچشم من میاہ
محو ذات اللہ حلم پاک باز

(دیوان آسی،تاریخ شیراز ہند جونپور)

تجویزوآراء