حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

          شاہ عبد العزیز بن شاہ ولی اللہ بن شیخ عبد الرحیم دہلوی: خطۂ ہند میں استاذ الاساتذہ اور امام جہابذہ بقیۃ السلف،حجۃ الخلف،خاتم المفسرین والمحدثین تھے،۱۱۵۹؁ھ میں پیدا ہوئے،آپ کا نام تاریخی غلام حلیم ہے،علوم اپنے والد ماجد اور ان کے خلفاء سے اخذ کیے اور اپنے وقت میں مرجع علماء ومشائخ ہوئے۔تمام علوم متداولہ اور فنون عقلیہ و نقلیہ میں دستگاہ فوق البیان رکھتے تھے اور کثرتِ حفظ وعلم تعبیر رؤیا سیقہ وعظ وانشاء وتحقیقات نفائس علوم اور مذاکرہ و مباحثہ خصوم میں ممتاز بین الاقران و معتقدفیہ موافق ومخالف تھے،تمام عمر تدریس و افتاء وفصل خصومات ووعظ و تربیت مریداں اور تکمیل تلمیذاں میں بسر کی اور جاہ وعزت ظاہری کو کمالات باطنی کے ساتھ جمع کیا،ہندوستان میں ریاست علم و عمل کی آپ اور آپ کے بھائیوں پر منتہیٰ ہوئی،ہندوستان کیا بلکہ دیگر ولایت میں ایسا کوئی فاضل کم ہوگا جس نے تلمذیا استفادہ باطن کی نسبت  اس خاندان کے ساتھ درس نہ کی ہوگی اور اس خاندان کی شاگردی کو فخر نہ سمجھتا ہوگا۔ہندوستان میں علوم حدیث و فقہ حنفی کی خدمت میں جیسی کہ اس خاندان سے ظہور میں آئی ہے ایسی کسی اور خدانا سے کم وقو میں آئی ہے۔آپ کی تصنیفات سے تفسیر فتح العزیز[1]بقدر سواتین پارہ قرآن شریف دو مجلد کلاں،تحفہ اثنا عشریہ رد مذہب شیعہ،بستان المحدثین،سر الشہاد تین،عجالۂ ن افعہ اور فتاویٰ کثیرہ یادگار اور مشہور ہیں۔نوّے سال کی عمر میں ۱۲۳۹؁ھ میں وفات پائی اور دہلی کے ترکمان دروازہ کے باہر اپنے پدر بزرگوار کے پہلے میں مدفون ہوئے۔ علماء و شعراء نے آپ کی وفات میں بہت سے تاریخیں تصنیف کیں جن میں سے ایک ’’شیخ پیشوا‘‘بھی ہے۔

 

1۔ جناب عضد الدین خاں شعبہ علوم اسلامیہ مسلم یونیورسٹی گڑھ کی تحقیق کے مطابق تفسیر فتح العزیز(پورے قرآن مجید کی) ۱۲۱۵ھ سے قبل مکمل شکل میں تحریر ہو چکی تھی (معارف اعظم گڑھ،ماہ ستمبر ۱۹۶۷ھ)

(حدائق الحنفیہ)

تجویزوآراء