حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی

(۹۴) حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی علیہ الرحمہ

۱۱۵۹ھ ۱۲۳۹ھ

          آپ شاہ ولی کے فرزند ارجمند اور جا نشین اکبر ہیں ۲۵/رمضان ۱۱۵۹ھ  بروز پنجشنبہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ شاہ عبد العزیز نے ابتدائی اپنے والد شاہ ولی اللہ کے دو ممتاز شاگردوں خواجہ امین  اور عاشق پھلتی سے حاصل کی اس کے بعد والد گرامی شاہ ولی اللہ کے مدرسہ رحیمیہ میں داخل  ہو گئے آپ ے والد صاحب سے قرأت و سماعت کے ذریعہ پوری تحقیق و روایت سے علم حاصل کیا جس سے آپ کو اسلامی علوم و فنون  میں ملکۂ راسخہ حاصل ہو گیا۔ جب آپ سولہ سال کے تھے تو آپ کے والد ماجد نے انتقال کیا۔ اس  کے بعد آپ نے شیخ نور اللہ، شیخ محمد امین کشمیری اور عاشق پھلتی جو آپ کے والد ماجد کے تربیت   یافتہ  اور محرم  راز تھے ان حضرات سے علوم و کمالات میں استفادہ اور ان کی تکمیل کی۔ آپ نے کتب حدیث میں پورے موطاء مع مسوی اور مشکوٰۃ المصابیح اپنے والد سے پڑھیں حصن حصین اور شمائل ترمذی کی آپ کے درس میں  سماعت کی۔

مسند درس و ارشاد:

          شاہ ولی اللہ کی رحلت کے چند سال بعد شاہ عبد العزیز نے تعلیم سے فراغت حاصل کی اور مدرسہ رحیمیہ میں مسند درس و طریقۂ ولی اللہی کے سجادۂ ارشاد پر رونق افروز ہوئے اور  ساٹھ سال تک عظیم تعلیمی اور روحانی  بساط کو آراستہ کرتے رہے۔ درس گاہ طلبہ کو باضابطہ درس دیتے دوسرے اوقات میں بھی لوگوں  کے علمی و دینی مسائل حل کرتے۔ روزانہ طلوع آفتاب کے بعد آپ کے نواسے شاہ محمد اسحاق ایک رکوع قرآن حکیم کی تلاوت کرتے جس کی آپ تفسیر بیان کرتے درس  قرآن کا یہ سلسلہ شاہ ولی اللہ نے شروع کیا تھا چنانچہ آپ کا آخری درس "اعدلو ھو اقرب للتقوی" تک ہوا تھا جہاں سے شاہ عبد العزیز صاحب نے اپنا درس شروع کیا۔ اور آپ کا آخری درس "ان اکر مکم عند الہ اتقاکم" تک ہوا تھا۔ وہاں سے آپ کے نواسے شاہ محمد اسحاق صاحب نے اپنا درس شروع کیا۔

          آپ کی علمی و دینی شخصیت مرجع خلائق تھی لوگ علمی استفادہ کے لیے حاضر ہوتے۔ شاعر و ادیب اصلاح شعر و سخن کے لیے حاضر ہوتے اور ضرورت مند  لوگ سفارش کرانے کے لیے آتے۔ مریض علاج و دوا اور دعا کے لیے حاضر آتے۔ سالکان طریقت آپ سے رہنمائی حاصل کرنے کی غرض سے باریاب ہوتے۔

          شاہ عبد العزیز فضل و کمال اور شہرت و مقبولیت کے اس  مقام پر فائز تھے کہ اطراف ہند کے لوگ ان سے انتساب بلکہ آپ کے تلامذہ و منتسبین سے بھی ادنی نسبت پر فخر کرتے تھے آپ بڑے حاضر دماغ اور حاضر جواب تھے بحث میں مخالفین پر غالب آتے اپنی سحر بیانی اور  قوت استدلال سے مخاطب کو لاجواب کر دیتے۔ آپ فراست میں بے مثال، بے نظیر معبر خواب، تحریر و تقریر میں فرد فرید تھے۔ خدا وند تعالیٰ نے آپ کی ذات میں گونا گوں فضائل و کمالات جمع کر دئیے تھے۔

          شاہ عبد العزیز لوگوں کو کسی خاص سلسلہ میں بیعت نہ کرتے بلکہ قادریہ چشتیہ اور نقشبندیہ میں بیعت کیا کرتے۔ آپ نے علماء و صلحاء کی جو عظیم جماعت پیدا کی وہ حد و حساب سے باہر ہے ذیل میں ہم ان  کے ممتاز تلامذہ کے نام درج کریں گے جو علمی و روحانی لحاظ سے آپ کے سچے جا نشین اور بجائے خود بستان علم و فضل تھے جنہوں نے شاہ ولی اللہ کے مکتب حدیث کی ترویج و اشاعت میں اپنی عمریں صرف کر دیں اور با کمال علماء و محدثین کی جماعت پیدا کی۔

          درس حدیث اور اس کی اشاعت و ترویج میں شاہ عبد العزیز کے کارناموں کی نظیر ہندوستان میں مشکل ہی سے نظر آئے گی۔ آپ نے ساٹھ سال تک صحاح ستہ اور دوسری کتب حدیث کا درس دیا اور طلبہ میں فہم حدیث کا صحیح ذوق، طبقات رجال کی معرفت اور صحیح و غریب، قوی و ضعیف حدیثوں کی پرکھ کا شعور  پیدا کیا اور ایسے کامل محدث پیدا کیے جنہوں نے صرف ہندوستان کے طول و عرض ہی میں نہیں بلکہ بیرون ہند بھی  اپنا حلقۂ درس قائم کیا اور اپنی اپنی جگہ ایک دبستان علم کی بناء ڈالی اور بے شمار کاملین فن علماء پیدا کیے۔ شاہ عبد العزیز کے مقتدر تلامذہ کو دیکھ کر بلا خوف تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ "تیرہوی صدی حضرت شاہ عبد العزیز کی تعلیم اور ارشاد و تربیت افراد ی صدی تھی"

          مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی، مولانا شاہ یعقوب دہلوی،  بخش کاندھلوی، مولانا سید اولاد حسن قنوجی، مرزا حسن علی شافعی، مولانا حسین احمد ملیح آبادی، مولانا حیدر عللی ٹونکی، مفتی صدر الدین دہلوی، مفتی علی اکبر مچھلی شہری، مولانا سید قطب الہدیٰ رائے بریلوی، مولانا حیدر علی فیض آبادی، شاہ مخصوص اللہ دہلوی، شاہ محمد موسیٰ دہلوی، مولانا امام الدین دہلوی، مولانا رشید الدین دہلوی۔

تصانیف:

          شاہ عبد العزیز نے اپنے گرانقدر علمی افکار اور حاصل مطالعہ کو صفحات قرطاس پر موتیوں کی طرح بکھیرا جن کی تابانیوں سے دل و دماغ منور ہو جاتے ہیں، اسلوب بیان اور طرز استدلال میں ایسی جاذبیت اور قوت ہے  جو قاری کے قلب  و نظر کو اپنی طرف مر کوز کر لیتی ہیں۔ آپ کی اہم تصانیف حسب ذیل ہیں:

          تفسیر فتح العزیز، تحفۃ اتنا عشریہ، سر الشہادتیں، بستان المحدثین، عجالۂ نافعہ، حاشیہ القول الجمیل، سرالجلیل فی مسئلۃ التفصیل، وسیلۃ النجات،عزیز الاقتباس فی فضائل اخیار الناس، فیض عام، اصول مذہب حنفی، حاشیہ صدرا، حاشیہ میر زاہد رسالہ، حاشیہ میر زاہد ملا جلال، حاشیہ میر زاہد امور عامہ، تحقیق الرویا، میزان البلاغہ، میزان العقائد، مایحب حفظہ للناظر، الاحادیث الموضوعہ، حاشیہ علی مقدمہّ السنیہ، النبر اس  شرح  العقائد للنسفی، اعجاز البلاغۃ، نظام العقائد شرح ارجوزۃ الاصعی، قرآن السعیدیہ، ایضاح النیرین در ذکر شہادت امام حسین، فتاوی عزیزی، ملفوظات عزیزی۔

تحفۂ اثنا عشریہ:

          اس کتاب کو شاہ عبد العزیز نے ۱۴۰۴ھ  میں مکمل کیا جو در وافض میں بے نظیر ہے جس نے رافضیت  کے ایوان میں زلزلہ برپا کر دیا، مغلوں کے آخری عہد میں رافضیت پورے طور پر برگ وبار لانے لگی تھی اہل سنت کے لیے اپنے عقائد کا تحفظ دشوار ہو رہا تھا شاہ صاحب نے سنیت کی بقا کے لیے اور رفض کے سیلاب کو روکنے کی غرض سے یہ مدلل اور مبسوط کتاب تحریر فرمائی جو احقاق حق اور ابطال باطل میں سد سکندری کی طرح مضبوط ہے اور آج تک اتنا عشری علماء اس کتاب کا معقول جواب نہ لا سکے۔

بستان المحدثین:

          یہ کتاب فارسی زبان میں ہے کتب حدیث  کا تعارف اور ان  کے مصنفین کے مختصر حالات درج کیے گئے ہیں جس  کا آغاز مؤطا امام مالک سے کیا گیا  ہے اور امام بغوی کی مصابیح پر اختتام ہوا ہے کتاب مختصر ہے مگر طالبین حدیث کے لیے معلومات کا خزانہ ہے۔

          اصول حدیث اور داخلی نقد حدیث اور دوسرے اہم حدیثی مسائل پر آپ کا ایک مفید رسالہ عجالۂ نافعہ ہے۔

تفسیر فتح العزیز:

          یہ قرآن کریم کی تفسیر ہے جسے شاہ صاحب نے املاء کرایا یہ پورے قرآن کی تفسیر تھی مگر دستبرد زمانہ سے اس کے اکثر حصے ناپید ہو گئے۔ اس تفسیر میں بہت سے ایسے نکات قرآنیہ اور تفسیر ی غوامض ہیں جو دوسری اہم تفسیروں میں نہیں ملتے۔

تجدید و اصلاح:

          تیرہویں صدی ہجری کے پر ااشوب دور میں دین کی دیواریں منہدم ہو رہی تھیں طرح طرح کے اعتقادی اور عملی فتنے جنم لے رہے تھے ایسے نازک دور میں حضرت شاہ عبد العزیز علیہ الرحمہ نے اپنے درس و تدریس، مواعظ اور فتوؤں کے ذریعے دین حق کی جو نصرت فرمائی اور بڑھتے ہوئے فتنوں کو جس استقلال اور جوانمردی کے ساتھ روکا لوگوں کی اصلاح ایمان و عمل میں جو سرگرمیاں دکھائیں یقیناً وہ آپ کے اہم تجدیدی کارنامے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہند اور بیرون ہند کے علماء کا رجوع عام آپ کی طرف  ہوا۔ مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

          حضرت مولانا شاہ عبد العزیز صاحب ۱۱۵۹ھ تا ۱۲۳۹ھ میں اس لیے کہ مجد د کی صفات ان میں پائی جاتی ہیں۔ اس لیے کہ بارہویں صدی کے آخر میں صاحب علم و فضل و زہد و تقویٰ مشہور دیار و اطراف تھے۔ اور تیرہویں صدی کے آغاذ میں ان کا طوطی  ہندوستان میں بولتا تھا اور ساری عمر دینی خدمت درس و تدریس افتاء تصنیف وعظ و سند، حمایت دین کنات مفسدین میں صرف اوقات فرماتے رہے۔ (مجدد اعظمس۴۲)

          ہندوستان میں رافضیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لیے حضرت شاہ صاحب نے تحفۂ اثنا عشریہ تصنیف فرما کر اہم تجدیدی کام سر انجام دیا جس کے ذریعے اہل سنت کے عقائد کی حقانیت ثابت کی گئی اور رافضیت کے باطل عقائد کی تردید کی گئی۔

          ملا رشید مدنی نے آپ کو قسطنطنیہ سے ایک خط لکھا تھا جس سے آپ کی قبولیت عام کا  اندازہ ہوتا ہے۔ شاہ صاحب آپ کا کچھ  ایسا اثر بلاد اسلامیہ میں ہو رہا ہے کہ جب کوئی فتویٰ دیا جاتا ہے اور علماء اس پر اپنی مہر کرتے ہیں تو ہر شخص فتویٰ میں آپ کی مہر تلاش کرتا ہے اور وہ فتوی جس پر آپ کی مہر ثبت نہ ہو زیادہ دقعت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا آپ یہاں تشریف لے آئیں تو ہم لوگوں کے لیے بڑے فخر کی بات اور سلطان ترکی بھی  آپ کی بڑی عزت کریں گے۔ (مجدد اعظم ص ۴۲)

وفات:

          ۸۰ سال کی عمر پا کر اس پیکر علم و دانش، مرجع انام علمی شخصیت نے ۷ شوال ۱۲۳۹ھ بروز یکشنبہ دہلی میں دارفانی کو الوداع  کہا اور  دہلی کے آبائی قبرستان مہدیان میں والد ماجد کے پہلو میں دفن ہوئے۔

جانشین شاہ عبد العزیز:

          شاہ عبد العزیز دہلوی کے بعد ان کی  مسند حدیث پر شاہ محمد اسحاق دہلوی ۱۱۹۷ھ/۱۲۶۲ء جلوہ افروز ہوئے جو آپ کے نواسے اور چہیتے شاگرد تھے۔ جنہوں نے مولوی عبد الحئی بڈھانوی، شاہ عبد القادر سے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ اور مسلسلات کی سند شیخ عمر بن عبد الکریم بن عبد الرسول سے حاصل کی۔

مسند درس:

          ۱۲۱۹ھ/۱۸۰۴ء میں شاہ اسحاق نے تحصیل علوم سے فراغت پائی تو انہیں مدرسہ رحیمیہ میں  مسند تدریس پر بیٹھا دیا گیا۔ وہ بڑی قابلیت اور اخلاص کے ساتھ شائقین علم کی تعلیم میں ہمہ تن مسروف ہو گئے۔ شاہ اسحاق غفوان شباب ہی   میں تدریس سے وابستہ ہوئے۔ درسی مصروفیات نے انہیں خاص معلمانہ مزاج عطا کر دیا وہ صبح کی نماز سے لے کر عشاء کی نماز تک بہت تھوڑا سا وقت آرام کے لیے نکالتے تھے  اور وصف میں وہ اتنے ممتاز ہوئے کہ شاہ عبد العزیز کی وفات ۱۸۲۳ء میں ان کی جگہ مدرسہ رحیمیہ کے صدر اور شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔

          ۱۸۲۴ء میں فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے حجاز تشریف لے گئے اور دوسال بعد ۱۸۲۶ء میں واپس ہوئے۔

          اس سفر میں حج و زیارت کے علاوہ وقت کے محدث شیخ عمر بن عبد الکریم سے سند حدیث بھی حاصل کی مراجعت کے بعد ۱۶/ سال تک درس و ارشاد و افتاء میں مصروف رہے اور ۱۸۴۲ء میں دہلی سے مکہ معظمہ ہجرت فرما گئے وہاں بھی طاعت و ریاضت کے علاوہ درس و ارشاد کا شغل جاری رہا شاہ اسحاق نے دہلی ہو یا حجاز مقدس ہر جگہ تشنگان علوم نبویﷺ کی پیاس بجھانا اور انہیں سنت رسولﷺ کی دولت سے بہرہ مند کرنا اپنا مقصد حیات بنا لیا تھا یہی وجہ ہے کہ عرب و ہند کے لاتعداد  علماء نے آپ سے کسب علم کیا۔ کچھ مخصوص تلامذہ کے نام یہ ہیں۔

          شاہ محمد یعقوب، کرامت علی، شیخ محمد انصاری، مولوی الخالق، مولوی صفۃ اللہ، مولوی یار علی، محمد ابراہیم، شاہ عبد الغنی، مولوی سید علی عظیم آبادی، نواب قطب الدین دہلوی، مولوی عالم علی، شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی، مفتی عنایت احمد کا کوروی، محمد حازمی (مکہ معظّمہ) مولوی عبد اللہ سندھی، مولوی گل کابلی، مولوی نور علی، حافظ محمد فاضل سورتی، قاری اکرام اللہ، سید نصیر الدین دہلوی، مولوی نوازش علی، رشتم علی  خاں دہلوی، مولوی احمد علی سہارنپوری، قاری عبد الرحمٰن پانی پتی، مولوی غلام محی الدین، مولوی بشیر الدین، مولوی نصیر الدین شافعی، مولوی نصیر الدین شافعی، مولوی سراج الدین سہوانی، مولوی احمد اللہ انامی مولوی سید ابو محمد جالیسری، خواجہ ضیاء الدین، عبد اللہ صدیقی، ظہور احمد کالپوری۔

تصانیف:

          شاہ محمد اسحاق نے دبستان ولی اللہی کے اہم ارکان کی طرح درس تدریس، بیعت و ارشاد کے ساتھ ساتھ اپنے علمی جواہر پاروں سے صفحۂ قرطاس کو مزین کیا ہے۔ آپ کی گرانقدر کتابیں حسب ذیل ہیں۔

ترجمۂ مشکوۃ، شعب الایمان۔

تجویزوآراء