حضرت شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی
حضرت شیخ محقق شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
(گیارہویں صدی کے مجدد)
شیخ عبد الحق سید الدین سعد اللہ ترک الدہلوی بخاری: ابو المجد کنیت تھی، آپ کے آباء واجداد اصل میں بخارا کے رہنے والے تھے جو دہلی میں آکر سکونت پزیر ہوئے جہاں آپ ماہِ محرم ۹۵۸ھ میں پیدا ہوئے۔اپنے زمانہ کے فقیہ محقق، محدث،مدقق،بقیۃ السلف حجۃ الخلف،مؤرخ اضبط،فخرِ ہندوستان،جامع علوم ظاہری و باطنی،مستند موافق و مخالف تھے،آپ ہی ہیں جنہوں نے پہلے پہل حدیث کا علم عرب سے لاکر اس سے ہندوستا کو منور کیا اور اپنی تصنیفات سے علم حدیث کو ہند کے ہر ایک خطہ و قطعہ میں پھیلایا۔آپ کی فضیلت اور تنقید حدیث میں کوئی موافق و مخالف شک نہیں کر سکتا مگر وہ جس کو اللہ انصاف سے اندھا کردے یا تعصب کی پٹی آنکھوں پر باندھ لے اعاذ باللہ منہا۔
ماثر الکرام تاریخ بلگرام میں لکھا کہ آپ نے مبادی شعور سے طاعت حق اور طلب علم میں کمر ہمت باندھ کر قریب بلوغت کے اکثر علوم دینیہ کی تحصیل کی اور بائیس سال کی عمر میں فضیلت و کمالیت سے فارغ ہوکر قرآن شریف کو یاد کر کے مسند افادت پر اجلاس فرمایا اور عین عفوان شباب میں ایسا جاذبۂ الٰہی پہنچا کہ دفعۃً یار دو یار سے دل اٹھاکر حرمین شریفین کو متوجہ ہوئے اور مدت تک وہاں قیام کر کے وہاں کے اولیائے کبار اور اقطابِ زماں خصوصاً شیخ عبد الوہاب متقی خلیفۂ حضرت شیخ علی متقی سے صحبت اختیار کر کے فنِ حدیث کی تکمیل کی اور دائع ارجمند اور رخصت ارشاد طالباں میں اختصاص حاسل کر کے مع برکات فراواں وطن مالوف میں مراجعت کی اور باون سال کی عمر میں ظاہر و باطن کی جمیعت سے مکنت حاصل کر کے تکمیل فرزنداں و طالباں میں مشغول ہوئے اور نشر علوم خصوصاً علم شریف حدیث میں ایسی طرز سے جو ولایت عجم میں کسی کو علمائے متقدمین و متأخرین سے حاصل نہ ہتا تھا ممتاز و مشتنی ہوئے اور فنون علمیہ خصوصاً فنِ حدیث میں کتب معتبرہ تصنیف کیں جن پر علمائے زمانہ فخر کرتے اور ان کو اپنا دسور العمل جانتے ہیں اور اہلِ دانش خواص و عوام جان سے انکے خریدار ہیں تصانیف آپ کی صغیر و کبیر سو مجلد ہے اور بحسب شمار بیات کے ۵لاکھ تک پہنچتی ہے۔انتہیٰ۔
آپ نے خاتمۂ اخبارالاخیار میں اپنا حال اس طرح پر لکھا ہے کہ میں تین چار سال کا لڑکا تھا کہ والد ماجدنے اہلِ حقیقت کی باتیں اس فقیر کے کام جان میں ڈالیں اور تربیت باطنی کو ضمیمہ شفقت ظاہری کا کیا اور ان باتوں میں سے مجھ کو بعض مع خصوصیات وقت کے اب تک خزانہ خیال میں یاد ہیں جو غرابت سے خالی نہیں اور عجیب تریہ ہے کہ فقیر کو حالت چھڑا نے اپنے دودھ کی جب کہ دواڑھائی سالکی عمر تھی ایسی یادہے کہ گویا کل کی بات ہے۔والد ماجد قرآن مجید سبق سبق لکھتے تھے اور میں پڑھتا تھا یہاں تک کہ دو تین مہینے میں تمام قرآن میں نے پڑھ لیا اور ایک مہینے میں قدرت کتابت اورسلیقہ انشاء کا خاص ہوگیا۔کتب نظم واشعار سے شاید چند جزو بوستان و گلستان و دیوان ھافظ کے پڑھائے،بعد ختم قرآن کے میزان یاد کرائی اور مصباح وکافیہ پڑھایا،شاید کوئی جزو لب اور ارشاد سے بھی مطالعہ کرایا،بارہ سال کا تھھا کہ شرح شمسیہ اور شرح عقائد پڑھتا تھا اور پندرھویں سال میں مختصر و مطول پڑھی،بعد ازاں قرآن شریف کو یاد کیا ارو اسی قیاس پر باقی کسب پر عبور کیا، سات آٹھ سال تک فقہاء ماوراء النہر کے درس میں رہا اور وہ کہتے تھے کہ ہم نے تجھ سے فائدہ اٹھایا ہے اور ہم تجھ پر کوئی احسان نہیں لڑکپن سے میں نہیں جانتا کہ کھیل کیا ہوتا ہے اور خواب و آرام و آسائش کیا چیز ہے؟شوق تحصیل علم سے ہر گز طعام وقت پر نہیں کھایا اور نیند موقع پع نہیں کی،جاڑے اور گرمی میں مدرسۂ دہلی میں جو دو میل کی م سافت پر تھا،جایا کرتا تھا اور چراغ کی روشنی میں ایک جزو لکھتا تھا اورباوجودتقسیم اوقات کے مطالعۂ کتب و بحث میں شروح و حواشی سے جو جو دکھائی دیتا تھا قید کتابت میں لانا اس کا ضروریات سے ہوتا تھا،کئی دفوہ عمامہ اور سر کے بالوں کو آگ لگ گئی اور مجھ کو اس وقت خبر ہوئی جب اس کی حرارت دماغ کو پہنچی باوجود اس کے کثرت صلوٰۃ اور راد و شب خیزی اور مناجات میں بھی طغولیت میں ایسی جدو جہد عمل میں آتی تھی جو آدمی حیران تھے،اب تک تعلیم و افادہ معاذ اللہ بلکہ تعلیم واستفادہ کے ساتھ بسر کر رہا ہوں حضور اور جمعیت میری اختلاط مخلوقات پر موقوف نہیں اور زیدو عمرو کے ذکر سے بھی جو تراکیب نحو میں مذکور ہوتا ہے، ملال ہے اور بموجب وصیت باپ کے کہ خبر دار خشک ملّا نہ ہو جیو ہمیشہ عشق اور محبت سے دم مارتا ہوں،خدا وند کریم نے اپنی طرف مجھ کو بلایا اور اپنے گھر کی طرف کھینچا اور جو کچھ انعام آنحضرتﷺکی بشارت سے پایا ہے بیان نہیں کر سکتا،طریقت میں مرید سیدموسیٰ کاہوں جو حضرت غوث الاعظم کی اولاد میں سےہیں اور طریقہ قادریہ رکھتاہوں،انتہی۔
ابتداء میں آپ کو جناب شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی سے کچھ مخالفت تھی لیکن اخیر عمرمیں ان خیالات سے رجوع فرماکر صفائی حاصل کرلی،آپ کی اشہر تصنیفات سے لمعات شرح مشکوٰۃ عربی میں،اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ فارسی میں، شرح سفر السعادت،شرح فتوح الغب،مدارجج النبوۃ،شرح اسماء الرجال بخاری، اخبار الاخیار،جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب،زبدہ الآثار،جامع البرکات،مرج البحرین،زادالمتقین،فتح المنان فی مناقب النعمان،تاریخ،رسالہ ماثبت بالسنہ،حلیہ، حلیہ سید المرسلین،اور چہل رسالہ وغیرہ ہیں اور کتب فقہ حنفیہ پر اطلاع وعبور آپ کو یہاں تک ہے کہ بیان نہیں ہوسکتا۔تصنیفات آپ کی ہندوستان میں مقبول خاص وعام اور شہرت تمام رکھتی ہے اور تمام مفید و محققانہ ہے۔
آپ آنحضرتﷺکی نعت میں ایک قصیدہ ساٹھ ابیات کا کہا ہے اور مدینہ منورہ میں پہنچ کر آنحضرت کی حضور میں اس کو پڑھا جس کی اول بیت یہ ہے
بیا اے دل دمے ازہستی خود ترک دعویٰ کن
میفگن چشم بر صورت نظر در عین معنیٰ کن
وفات آپ کی ۱۰۵۲ھ میں ہوئی۔تاریخ ولادت آپ کی’’تو شیخ اولیاء‘‘ اور تاریخ رحلت’’فخر العلماء‘‘ اور’’فخر العالم‘‘ ہیں۔مقبرہ آپ کا قطب صاحب واقع عہلی میں حوض شمسی کے کنارہ پر واقع ہے۔کاتب حروف نے بھی اپ کے مرقد شریف کی زیارت سے فیضیابی حاصل کی اور کشش عجیب اور دلبسگتی غریب اس مقام میں معلوم کی ہے۔
(حدائق الحنفیہ)