حضرت مولانا شیخ عبد الحق محدث

اپنے زمانے کے جیّد علماء و صلحأ سے تھے۔ حضرت شیخ سیّد جمال الدین ابو الحسن موسیٰ پاک شہید المتوفیٰ ۱۰۰۱ھ کے نامور مرید و خلیفہ تھے۔ اِن کی وفات کے بعد حضرت شیخ عبدالوہاب متقی سے اخذِ فیض کیا۔ علومِ ظاہری و باطنی میں کامل و اکمل تھے۔ تمام عمر تصنیف و تالیف، درس و تدریس اور رفعِ زندقہ و الحاد میں بسر کی۔ جہانگیر کے زمانے میں مقبولِ خاص و عام تھے۔ جہانگیر آپ کی ملاقات کے لیے آپ کے مکان پر حاضر ہوا تھا اور آپ کی مشہور ترین تالیف اخبار الاخیار کے لیے آپ کے مکان پر حاضر ہوا تھا اور آپ نے اپنی مشہور ترین  تالیف اخبار الاخیار بادشاہ کی نذر گزرانی تھی۔ آپ نے عہدِ اکبری سے لے کر اپنے عہد تک کے دینی و سیاسی حالات وواقعات کا جائزہ لے کر بڑے غور و فکر کے بعد دینی نصابِ تعلیم میں قرآن و حدیث کو مقدم قرار دیا اور ہر طالب علم کے دل پر یہ نقش کرنے کی کوشش کی جو شخص قرآن کریم کی تفسیر میں رائے کو دخل دے وُہ کفر و الحاد کا مرتکب ہے۔ وہ علم علم نہیں جو تقویتِ دین و ملّت کا باعث نہ ہو۔

آپ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کے ہمعصر تھے۔ ابتداء میں اُن کے بعض اقوال اور باطنی ادر اکات پر شرعی نقطۂ نگاہ سے گرفت بھی کی تھی جس کی تفصیل کتابِ معارج الولایت میں مذکور ہے۔ بعد میں رفع التباس پر حضرت مجدد سے مراسم مستحکم ہوگئے تھے۔ شرح مشکوٰۃ عربی و فارسی، کتابِ صراط المستقیم، اخبار الاخیار، شرح فتوح الغیب،  جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب مدینہ منّورہ اور مکّہ معظمہ کے مفصل حالات میں، زادالمتقین، مرج البحرین، مدارج النبوت، تکمیل الایمان، شرح سفر السعادت اور دیگر کئی ایک رسائل علمِ تصوّف میں آپ کی شہرہ آفاق تصانیف ہیں۔

۱۰۵۱ھ میں بعہدِ شاہجہان وفات پائی۔ مزار دہلی میں ہے۔

ز دنیا وصل باحق یافت آخر
وصالش یافتم باطرزِ رنگیں!!

 

چو عبدالحق ولیِ پاک معصوم
زعبدالحق امامِ دیں مخدوم
۱۰۵۱ھ

تجویزوآراء