حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
(ولادت:۱۰۱۱ھ/ ۱۶۸۹ء؛ وصال: ۱۱۶۵ھ / ۱۷۵۲ء)
حدیث شریف میں آتا ہے کہ بندے کی شہرت و قبولیت اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ یوں تو سندھ کا چپہ چپہ اولیاء اللہ کے انوار سے منوّر ہے مگرجو شہرت و مقبولیت شاہ عبداللطیف بھٹائی رَحِمَہُ اللہ کو ملی وہ کسی اور کو نہ مل سکی۔ ایک طرف تو ان کا ورع وتقویٰ ہے اور دوسری طرف دلوں کو موہ لینے والی اور روحوں میں پیوست ہونے والی شاعری ہے۔ اُن کے پاکیزہ نغموں سے سندھ کے گاؤں گاؤں اور گلی کو چے آج بھی گونج رہے ہیں۔ اُن کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیّت یہ ہے کہ اُس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور ناخواندہ طبقہ بھی ان کے اشعار میں ایک لذّت محسوس کر رہے ہیں۔ آج بھی عورتیں گھروں میں، کسان کھیتوں میں، اور بچے گلیوں میں، صوفیا خانقاہوں میں اور واعظ محافلِ و عظ میں شاہ صاحب کے کلام کو پڑھتے ہیں۔
شجرۂ نسب:
آپ کا نسب یہ ہے:
شاہ عبداللطیف بھٹائی بن سیّد حبیب شاہ بن سیّد عبدالقدّوس بن سیّد جمال بن سیّد عبدالکریم۔
آپ کی والدہ مخدوم عربی دیانہ کی صاجزادی تھیں۔ آپ کا تعلق کاظمی سادات سے تھا، اس خاندان کے ایک بزرگ سیّد حیدر ۸۰۱ھ میں سندھ تشریف لائے اور ہالہ میں سکونت اختیار کی، پھر سیّد حیدر کے کچھ افراد خاندان بلڑی میں آباد ہو گئے۔ اسی شاخ سے سیّد عبدالکریم متعلوی ہیں، جو شاہ عبداللطیف کے پردادا ہیں۔ شاہ صاحب کے والد سیّد حبیب شاہ بہت ہی عابد و زاہد بزرگ تھے۔ زیادہ تر استغراق کے عالم میں رہتے تھے، آپ کی ولادت ہالہ حویلی میں ۱۱۰۲ھ / ۱۶۸۹ء دور عالمگیری میں ہوئی۔ مشہور یہی ہے کہ شاہ امی تھے اور کسی درس گاہ میں آپ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، اس کے باوجود آپ کو عربی، فارسی اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ قرآنِ مجید، حدیث، تصوّف اور دوسرے علوم پر آپ کو کامل دست گاہ حاصل تھی۔ کچھ عرصے آپ پر عشقِ مجازی کا غلبہ رہا، اور یہی عشقِ مجازی، عشقِ حقیقی کا موجب بنا، جب صحرا نوردی سے فارغ ہوئے تو بھٹ کو اپنے قیام کےلیے پسند فرمایا۔ اُس وقت آپ کی عمر ۲۶؍ سال تھی۔ سندھی زبان میں بھٹ ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں۔ تبلیغ کے سلسلے میں آپ روزانہ کئی کئی میل پیدل سفر کرتے اور راستے میں جتنے گاؤں آتے، قافلے ملتے یا کوئی بھی شخص ملتا اُس کو دین کی دعوت دیتے تھے۔ آپ نے سندھ کا سارا علاقہ پیدل گھوما اور لوگوں میں ایمان کے زر و جواہر لٹائے، یوں اسلام کی اسی خدمت نے آپ کی شاعری اور شخصیت میں ایک نکھار پیدا کر دیا۔ آپ نگری نگری، قریہ قریہ سفر کر کے اپنا فیضِ عام پہنچاتے رہے۔ اُن کا سفر: ’’سفرِ و سیلۂ ظفر‘‘ تھا‘ عمر بھر آپ کے توسّل سے نیکی‘ اعتماد اور پاکیزگی کی دولت لوگوں میں تقسیم ہوتی رہی۔
شاہ صاحب نے قرآنی تعلیمات کے فروغ کے لیے جو خدمات انجام دیں وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔ سندھی زبان سے آپ نے اسلام کی تبلیغ اور قرآنی تعلیمات کے فروغ و اشاعت کا کام لے کر اس زبان کو غیر معمولی بنا دیا، اس زبان کو آپ نے اپنے افکارِ جلیلہ کے ذریعے منصبِ اولیٰ تک پہنچا دیا، اور یہ زبان زندۂ جاوید ہو گئی۔ آپ کی جدّت، ندرت اور اندازِ بیان نے لوگوں کو مسخر کر دیا۔ آپ نے عملی طور پر یہ بات ثابت کیا کہ سندھی زبان میں بھی مترادفات کی کمی نہیں، کیوں کہ عربی کی طرح سندھی زبان بھی دل کش اور اپنی جامعیت کے سبب سے زندہ زبان کہلانے کی مستحق ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے کئی انقلابات (دیکھے) اورنگ زیب کی وفات کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ آپ نے وہ وقت بھی دیکھا جب نادر شاہ نے سندھ کو لوٹا اور وہ وقت بھی دیکھا جب احمد شاہ ابدالی نے سندھ کو دہلی کے ماتحت کیا۔ شاہ صاحب کو ان انقلابات نے بہت متاثّر کیا، یہی چیز ان کی شاعری کے لیے مہمیز ثابت ہوئی۔ شاہ صاحب نے اپنی شاعری میں رومانی داستانوں کو بنیاد بنایا ہے تاکہ لوگ ذوق و شوق سے سنیں اور معاشرتی اونچ نیچ انسانیت کی محبّت اور اللہ کی محبّت کا درس دیا ہے۔ ان کی شاعری میں تصوّف اور شریعت کا حسین امتزاج ہے؛ آپ کے دیوان کا نام: ’’شاہ جو رسالو‘‘ ہے۔ یہ کلام اُن کے مریدوں اور فقیروں نے جمع کیا تھا، بعض مریدوں کو تو پورا ازبر تھا۔ ہاشم تمر اور بلال کے متعلق تو مشہور ہے کہ شاہ کا کوئی شعر ایسا نہ تھا جو ان کو زبانی یاد نہ ہو۔ ’’شاہ جو رسالو‘‘ کو سب سے پہلے ڈاکٹر ٹرمپ نے جرمنی سے طبع کرایا تھا، پھر اس کا ایک ایڈیشن ڈاکٹر گر بخشانی نے شائع کیا، یہ ایڈیشن اپنی تحقیق و تصحیح کی بنا پر سب سے زائد مشہور ہوا۔ شاہ صاحب کو دوسرے اولیاء اللہ کی طرح غربا سے بے حد محبّت تھی۔ اس میں مزید اضافہ اس اونچ نیچ کے باعث ہوا جو اس انقلابی دور میں پیدا ہو چکی تھی۔ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ شاہ صاحب شاہ بندر گئے، قریب ہی شتربانوں کے خیمے میں ٹھہرے، آپ کو کچھ اونٹوں کے چیخنے چلّانے کی آوازیں سنائی دیں، فرمایا کہ یہ اونٹ کیوں بَلبَلا رہے ہیں؟ اُنھوں نے بتایا کہ یہاں قریب میں ایک گاؤں ہے، جس کا حاکم بڑا ظالم انسان ہے، اگر کوئی اونٹ والا ادھر سے نکل آتا ہے تو یہ شخص روئی کے گولے بنوا کر اونٹوں کی ٹانگوں سے بندھوا دیتا ہے، پھر اُنھیں آگ لگواتا ہے۔ اونٹ اِس عمل کی تکلیف سے بلبلا رہے ہیں۔ شاہ صاحب کو اونٹوں پر بڑا رحم آیا اور ایک شعر پڑھا جس کا خلاصہ یہ ہے:
یہ محل غارت ہوں، شتر بانوں کے خیمے آباد رہیں
میں اونٹنیوں کے دودھ کو کبھی نہیں بھول سکتا شتر بان
ہمیشہ آباد رہیں اور ان کو ستانے والے دودھ کو ترسیں
پھر شاہ صاحب نے اونٹ والوں سے کہا:
’’جاؤ، میرے بیٹو! کچھ دن نہیں گذرتے کہ کھر قوم کے محل ویران ہو کر اونٹوں کی بیٹھنے کی جگہ بنیں گے۔‘‘
کہتے ہیں کہ کچھ دن بھی نہیں گذرے تھے کہ یہ گاؤں ویران ہو کر اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنا، آپ کو اپنے وطن سندھ سے بے پناہ محبّت تھی۔
ایک دو ہے میں فرماتے ہیں:
’’میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے وطن تھر کی ٹھنڈی مٹّی اپنے سر پر ڈالوں اگر میں پردیس میں مرجاؤں تو میری لاش کو ملیر میں دفن کر دینا‘‘۔
شاہ صاحب کی شاعری کی لذّت تو اصل زبان سندھی میں ہے، مگر اس کے نظریات ہر زبان میں فکر انگیز اور وجد آور ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’دیکھو لطیف! گھنے بادل نیچے آرہے ہیں اور پانی کی بڑی بڑی بوندیں پڑنے لگیں، اپنے بیلوں کو باہر نکالو اور میدانوں کا رخ کرو۔ یہ وقت مایوس بیٹھنے اور سستی کرنے کا نہیں، لو دیکھو! پھوار پڑنے لگی۔‘‘
آپ نے اپنی شاعری میں پیغمبری کی ترجمانی کی ہے اور ترجمانی بھی سطحی نہیں، بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے ایمانی جوش و جذبہ کا نتیجہ ہے، جس میں انسانیّت کے مرجھائے ہوئے پھول تھے، جن میں تازگی پیدا کرنے کے لیے آبِ حیات کا عمیق مہران موجزن نظر آتا ہے، آپ فرماتےہیں:
’’میرے شعروں کے بیت قرآنِ مجید کی آیات کا ترجمہ ہیں اور یہی آیات خدا اور بندے کے درمیان ایک محبت کا رشتہ ہیں جن کو جتنی گہرائی سے سمجھا جائے اتنی ہی سوچ اور فکر تازہ ہوجاتی ہے۔‘‘
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے عقیدے اور شاعری میں جگہ جگہ محبوبِ حقیقی کی اطاعت کی تلقین کی ہے، آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنا سچا عشق ہمیشہ قائم رکھا۔ خدا کی قربت آپ کی منزل تھی۔ آپ نے اُس منزل کی رسائی کے لیے حضور ﷺ کی ذاتِ والائے صفات کو ذریعہ بنایا۔ آپ کے نزدیک خدا کی رضا حاصل کرنے کے صرف دو ہی ذریعے ہیں۔ ایک اسلامی لائحۂ عمل، جس کے تحت کلامِ حکیم انتہائی خلوص‘ فہم اور من حیث الجوع پڑھا اور سمجھا جائے اور پھر احکامِ خداوندی کی تعمیل کی جائے، اور دوسرا ذریعہ سرورِ کائنات، فخرِ موجودات کی حرمت و اطاعت کا ہے، ان دونوں ذرائع کا نام ہی وحدت الوجود ہے، توحید کو قرآن کی بنیادی تعلیم قرار دیتے ہوئے شاہ صاحب فرماتے ہیں:
’’دنیا میں اضطراب و بے چینی کا صرف ایک علاج صرف توحید کے عقیدے کی استقامت ہے اور خدا کی ذات پر بھروسہ دلوں کی تسکین کا باعث ہے۔‘‘
آپ کا تصوّف زندگی آموز ہونے کے ساتھ زندگی آمیز بھی ہے، آپ خدا کے خود سچے عاشق تھے اور آپ کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ سب لوگ بھی خدا کو صحیح طور پر اور بہ خوبی پہچان لیں تاکہ بے راہ روی اور گم راہی ان کے قریب سے بھی نہ گزرے۔ آپ کا خیال ہے کہ قرآنِ مجید کی تعلیمات ہی ہم وار اور کشادہ راہ پر سفر کرنے کے لیے حقیقی جذبہ پیدا کرتی ہیں اور یہ جذبہ جب کسی کے اندر پیدا ہوجائے تو پھر وہ اپنی منزل سے کبھی نہیں بھٹکتا۔
شاہ صاحب کا ایمان ہے کہ اگر کوئی شخص عشق کو اپنا راہ نما اور ضابطۂ اَخلاق بنا لے تو وہ کامیاب و کامران ہو جاتا ہے۔ آپ کا اپنے دور کے مسلمانوں پر بڑا احسان ہے۔ آپ نے خدا، رسول صَلَّی اللہُ تعالٰی عَلَیْہِ وَ آلِہِ وَ سَلَّم اور کتاب کا بہ یک وقت درس دیا۔ اس درس کی بہ دولت یہ ساری قومیں جو لسانی اعتبار سے جدا جدا ہیں نظریۂ اسلامی کی روشنی میں ایک امّت کہلاتی ہیں، آپ کا کلام پڑھنے کے بعد فکر و تجسّس کی راہیں از خود واضح ہوجاتی ہیں، آپ عربی زبان کی شاعرانہ لذّت سے بھی آشنا تھے‘ فارسی زبان کا فہم و ادراک بھی رکھتے تھے۔
آپ کو دین سے اتنی محبّت تھی کہ آپ نے اس کو اخوّت کا سر چشمہ سمجھا اور سب کو اتّحادو یگانگت کا درس دیا۔ آپ کا نظریہ فقط ایک تھا اور وہ انسان دوستی سے عبارت نظریہ تھا، جس میں پاکیزگی بھی تھی اور سچائی بھی تھی اور دردمندی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔
شاہ صاحب نے لوگوں کو چند روزہ حیات کی وقعت سے آگاہ کرنے کے لیے اور زندگی کے وسیع تر اور جامع تر نظریے کو سمجھانے کے لیے عشقِ ازلی کا ذکر بڑے ہی پر اثر انداز سے کیا ہے، آپ کا انداز تصوّف کے رنگ سے رنگا ہوا ہے۔ آپ نے اپنے ہی کلام میں معرفت کے رنگ میں بنی نوعِ انسان کی پوری تاریخ کو سمو کر رکھ دیا۔ آپ نے انسانوں کے لیے ایک مثالی معاشرے کا مکمل اور واضح تصوّر پیش کیا۔ آپ نے تمام لوگوں کے عقائد اور فرائض کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ایک ایسے مسلک کو پھیلانے کی کوشش کی جو اعلیٰ اَقدار کا سر چشمہ اور پوری انسانیّت کے لیے محبّت و اخوّت کا منبع ہے۔
وصالِ مبارک:
آپ تریسٹھ سال کی عمر میں ۱۱۶۵ھ / ۱۷۵۲ء میں بھٹ میں واصل بحق ہوئے اور وہیں مدفون ہوئے۔
تاریخِ وفات ان دو مصرعوں سے نکلتی ہے:
۱۔ گرویدہ محوِ عشق وجود لطیف میر (۱۱۶۵ھ)
۲۔ شد محو در مراقبہ جسمِ لطیف پاک (۱۱۶۵ھ)
صاحبِ ’’مقالات الشعرا‘‘ کا بیان ہے کہ جس دن آپ کا انتقال ہوا، اُس دن صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے کئی مرید واصل بہ حق ہوئے۔
مزارِ مبارک:
آپ کا مزارِ پُر انوار کلھوڑا خاندان کے چوتھے حاکم میاں غلام شاہ نے ۱۷۵۴ء میں تعمیر کرایا اور راجہ جیسلمیر نے نوبت نذر کی۔
(’’تذکرۂ اَولیاءِ سندھ‘‘، ص ۱۹۵ تا ۲۰۱ )