حضرت عبداللطیف شاہ بھٹائی

حضرت عبداللطیف شاہ بھٹائی

د۱۰۱۱ھ۔ ۱۶۸۹، ف ۱۱۶۵ھ/ ۱۷۵۴ء

          حدیث شریف میں آتا ہے کہ بندے کی شہرت و قبولیت اللہ کی طرف سے نازل ہوتی ہے، یوں تو سندھ کا چپہ چپہ اولیاء اللہ کے انوار  سے منور ہے مگر جو شہرت و مقبولیت  شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمہ اللہ کو ملی وہ کسی  اور نہ مل سکی ۔ ایک طرف تو ان کا روع تقوی ہے اور دوسری طرف دلوں کو موہ لینے والی اور روحوں میں پیوست ہونے والی شاعری ہے ان کے پاکیزہ نغموں سے سندھ کے گاؤں گاؤں اور گلی کوچے آج بھی گونج رہے ہیں ان کے کلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے تعلیم یافتہ طبقہ بھی لطف اندوز ہوتا ہے اور ناخواندہ طبقہ بھی ان کے اشعار میں ایک لذت محسوس کر رہے ہیں آج بھی عورتیں گھروں میں، کسان  کھیتوں میں ،اور بچے گلیوں میں صوفیاء خانقاہوں میں اور واعظ محافل میں شاہ کے کلام کو پڑھتے ہیں۔

          آپ کا نسب یہ ہے : شاہ عبداللطیف بھٹائی بن سید   حبیب شاہ بن سید عبدالقدوس بن سید جمال بن سید عبدالکریم  بن سید للہ آپ کی والدہ مخدوم عربی دیانہ کی صاحبزادی تھیں ، آپ کا تعلق کاظمی  سادات سے تھا، اس خاندان کے ایک بزرگ سید حیدر ۸۰۱ھ میں سندھ  تشریف  لائے اور ہالہ  میں سکونت اختیار کی، پھر سیدحیدر کے کچھ  افراد خاندان  بلڑی میں آباد ہوگئے اسی شاخ سے سید عبدالکریم متعلوی  ہیں جو شاہ عبداللطیف کے پر دادا ہیں ۔ شاہ صاحب کے والد سید حبیب شاہ بہت ہی عابد و زاہد  بزرگ تھے، زیادہ تر استغر اق کے عالم میں رہتے تھے، آپ کی ولادت ہالہ حویلی  میں ۱۰۱۱ھ / ۱۶۸۹ء دور عالمگیری میں ہوئی  مشہور یہی  ہے کہ شاہ امی تھے اور کسی درس گاہ میں آپ نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، اس کے باوجود آپ کو عربی فارسی اور ہندی زبانوں پر عبور حاصل تھا قرآن مجید، حدیث تصوف اور دوسرے علوم پر آپ کو کامل  درستفاہ حاصل تھی کچھ عرصہ آپ پر عشق مجازی کا غلبہ رہا، اور  یہی  عشق مجازی عشق حقیقی کا مجوب بنا جب صحرا نوردی  سے فارغ ہوئے تو بھٹ کو اپنے  قیام کے لیے پسند فرمایا اس وقت  آپ کی عمر ۲۶ سال  تھی سندھی زبان میں بھٹ ریت کے ٹیلے کو کہتے ہیں تبلیغ  کے سلسلوں میں آپ روانہ کئی کئی میل پیدل سفر کرتے اور راستے میں  جتنے گاؤں آتے، قافلے ملتے یا کوئی بھی شخص ملتا اس کو دین کی دعت دیتے تھے،آپ نے سندھ کا سارا علاقہ پیدل گھوما، اور لوگوں میں ایمان  کے زرو جواہر لٹائے ، یوں اسلام کی اسی خدمت نے آپ کی شاعری اور شخصیت میں ایک نکھار پیدا کردیا۔ آپ نگری نگری، قریہ قریہ سفر کر کے اپنا فیض عام پہنچاتے رہے، ان کا سفر ،سفر وسیلہ ظفر تھا، وسیلہ ظفر تھا، عمر بھر آپ کے توسل سے نیکی، اعتماد اور پاکیزگی کی دولت لوگوں میں تقسیم ہوتی رہی۔

شاہ صاحب نے قرآن تعلیمات کے فروغ کے لیے جوخدمات انجام دیں وہ سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔سندھی زبان میں آپ نے اسلام کی تبلیغ اور قرآنی تعلیمات کے فروغ واشاعت کا کام لے کر اس زبان کو غیر معمولی بنادیا، اس زبان کو آپ نے اپنے افکار جلیلہ  کے ذریعے  منصب اولیٰ تک پہنچا دیا۔ اور یہ زبان زندہ جاوید ہوگئی آپ کی جدت، ندرت اور انداز بیان نے لوگوں کو مسخر  کردیا آپ نے عملی طور پر یہ بات ثابت کی کہ سندھی اور عربی زبان کا ایک ہی مشن ہے کہ اسلام کی تبلیغ اور قرآنی تعلیمات کی ترویج و اشاعت کے جائے، عربی زبان کی طرح  سندھی زبان میں بھی  مترادفاف کی کمی نہیں ، کیوں کہ عربی کی طرح سندھی زبان بھی دلکش  اور اپنی جامعیت کے سبب سے زندہ  زبان کہلانے کی مستحق ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سترھویں صدی کے کئی انقلاب اور نگزیب کی وفات  کے وقت  آپ کی عمر  اٹھا رہ سال تھی آپ نے وہ وقت بھی دیکھا جب نادر شاہ نے سندھ کو لوٹا اور وہ وقت بھی دیکھا جب احمد شاہ ابدالی  نے سندھ کودہلی کے ماتحت کیا۔ شاہ صاحب کو ان انقلابات نے بہت متاثر کیا یہی چیز ان کی شاعری کے لیے  مہمیزثابت ہوئی شاہ صاحب نے اپنی  شاعری میں رومانی داستانو ں کو بنیاد بنایا ہے تاکہ لوگ ذوق و شوق سے سنیں اور معاشرتی اونچ نیچ  انسانیت کی محبت اور اللہ کی محبت کا درس دیا ہے ان کی شاعری  میں تصوف اور شریعت کا حسین امتزاج ہے آپ کے دیوان کا نام ‘‘شاہ جو رسالو’’ہے  یہ کلام  کے مریدوں اور فقیروں نے جمع کیا تھا بعض مریدوں اور فقیروں  نے جمع کیا تھا بعض مریدوں  کو تو پورا ازبر تھا ہاشم تمر اور بلال کے متعلق تو مشہور ہے کہ شاہ کا کوئی شعروں ایسا نہ تھا جو ان کو زبانی یاد نہ ہو شاہ  جو رسالو کو سب سے پہلے ڈاکٹر ٹرمپ نے جرمنی  سے طبع کرایا تھا پھر اس کا ایک ایڈیشن ڈاکٹر گر بخشانی نے شائع کیا ، یہ ایڈیشن  اپنی تحقیق و تصحیح کی بنا پر سب سے زائد مشہور ہوا، شاہ صاحب کو دوسرے اولیاء اللہ کی طرح غرباء سے بے حد محبت تھی اس میں مزید اضافہ اس اونچ  کے باعث  ہوا طرح جو اس انقلابی دور میں پیدا ہو چکی تھی،  مشہور ہے کہ ایک مرتبہ  شاہ صاحب شاہ بندر گئے قریب ہی شتربانوں کے خیمہ میں ٹھہرے آپ کو کچھ اونٹوں  کے چیخنے چلانے کی آوازں سنائی دیں فرمایا کہ یہ اونٹ کیوں بلبلا رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ یہاں قریب میں ایک گاؤں ہے جس کا حاکم بڑا ظالم انسان ہے اگر کوئی اونٹ والا ادھر سے نکل آتا ہے تو یہ شخص  روئی کے گولے بنوا کر اونٹوں کی ٹانگوں سے بندھوا دیتا ہے پھر انہیں آگ لگواتا ہے اونٹ اس عمل کی تکلیف  سے بلبلا  رہے ہیں، شاہ صاحب کو اونٹوں  پر بڑا رحم آیا اور ایک شعر پڑھا جس کا خلاصہ یہ ہے۔

یہ محل غارت ہوں ، شتر بانوں کے خیمے آباد رہیں
میں اونٹنیوں کے دودھ کو کبھی نہیں بھول سکتا شتربان
ہمیشہ آباد رہیں اور ان کو ستانے والے دودھ کو ترسیں

پھر شاہ صاحب نے اونٹ والوں سے کہا جاؤ میرے بیٹو کچھ دن نہیں گذرتے کہ کھر قوم کے محل ویران ہوکر اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنیں گے کہتے ہیں کہ کچھ دن بھی نہیں گذرے تھے کہ یہ گاؤں ویران ہوکر اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ بنا ،آپ کو اپنے وطن سندھ سے بے  پناہ  محبت  تھی  ایک دو ہے میں فرماتے ہیں۔

‘‘میراجی چاہتا ہے کہ اپنے  وطن تھر کی ٹھنڈی  مٹی اپنے سر پر ڈالوں، اگر میں پردیس  میں مرجاؤں تو میری لاش  کو ملیر  میں  دفن کردینا۔’’ شاہ صاحب کی شاعری کی لذت تو اصل زبان سندھی  میں ہے اس کے نظریات ہر زبان میں فکر انگیز  اور جد آور ہیں فرماتے ہیں۔

دیکھو لطیف ! گھنے بادل نیچے  آرہے ہیں اور پانی  کی بڑی  بڑی بوندیں پڑنے لگیں اپنے بلیوں  کو باہر  نکالو اور میدانوں کا رخ کرو۔ یہ وقت مایوس بیٹھنے اور سستی  کرنے کا نہیں، لو دیکھو پھوار پڑنے لگی،  آپ نے اپنی شاعری  میں پیغمبری کی ترجمانی  کی ہے اور ترجمانی بھی سطحی نہیں بلکہ دل کی گہروئیوں سے نکلے ہوئے ایمانی جوش وجذبہ کا نتیجہ ہے، جس مین انسانیت کے مرجھائے ہوئے پھول تھے جن میں  تازگی پیدا کرنے کے لیے آب حیات کا عمیق مہران موجزن نظر آتاہے، آپ فرماتے ہیں میرے شعروں کے بیت قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ ہے اور یہی آیات خدا اور بندے کے درمیان محبت کا رشتہ ہیں جن کو جتنی گہرائی سے سمجھا جائے اتنی ہی سوچ اور فکر تازہ ہوجاتی ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی  نے اپنے عقیدے اور شاعری میں جگہ جگہ محبوب حقیقی کی اطاعت کی تلقین کی ہے، آپ نے اللہ تعالیٰ سے اپنا سچا عشق ہمیشہ قائم رکھا ۔ خدا کی قربت آپ کی منزل تھی۔آپ نے اس منزل کی رسائی کے لیے حضورﷺ کی ذات اولیاء صفات کو ذریعہ بنایا ۔ آپ کے نزدیک خدا کی رضا حاصل کرنے کے صرف دوہی ذریعے ہیں۔ ایک اسلامی لائحہ عمل جس کے تحت کلام حکیم  انتہائی خلوص، فہم اور من حیث الجوع پڑھا اور سمجھا جائے اور پھر احکام خداوندی کی تعمیل  کی جائے ، اور  دوسرا ذریعہ  سرور کائنات فخر موجودات کی حرمت  واطاعت  کاہے، ان دونوں  ذرائع کا نام ہی وحدت الوجود ہے توحید کو قرآن کی بنیاد قرار دیتے ہوئے شاہ صاحب فرماتے ہیں: ‘‘دنیا میں اضطراب و بے چینی  کا صرف ایک علاج صرف توحید کے عقیدے کی استقامت ہے اور خدا کی ذات پر بھروسہ دلوں کی تسکین کا باعث ہے۔

آپ کا تصوف زندگی آموز  ہونے ساتھ زندگی  آمیز بھی ہے خدا کے خود سچے عاشق تھے اور آپ کی ہمیشہ یہی خواہش رہی کہ سب لوگ بھی خدا کو صحیح  طور پر اور بخوبی  پہچان لیں تاکہ بے راہ روری  اور گمراہی ان کے قریب سے بھی نہ گزرے آپ کا خیال ہے کہ قرآن مجید  کی تعلیمات  ہی ہموار  اور کشادہ راہ پر سفر کرنے کے لیے حقیقی جذبہ پیداکرتی ہیں اور یہ جذبہ جب کسی کے اند پیدا ہوجائے وت پھر وہ اپنی منزل سے کبھی نہیں بھٹکتا۔

شاہ صاحب کا ایمان ہے کہ اگر کوئی شخص عشق کو اپنا راہ نما اور ضابطہ اخلاق بنالے تو وہ کامیاب و کامران ہوجاتاہے، آپ کا اپنے دور کے مسلمانوں پر بڑا احسان ہے۔آپ نے خدا ،رسول اور کتاب کا بیک وقت ردس دیا۔اس درس کی بدولت یہ ساری قومیں جولسانی اعبار سے جدا جدا ہیں نظر اسلامی کی روشنی میں ایک امت کہلاتی ہیں، آپ کا کلام پڑھنے کے بعد فکرو تجسس کی راہیں از خود واضح  ہوجاتی ہیں، آپ عربی زبان کی شاعرانہ  لذت سے بھی آشنا تھے، فارسی زبان کا فہم و ادراک بھی رکھتے تھے۔

آپ کو دین  سے اتنی محبت تھی کہ آپ  نے اس کو اخوت کا سرچشمہ  سمجھا اور سب کو اتحاد و یگانگت کا درس دیا۔ آپ کا نظریہ فقط ایک تھا اور وہ انسان  دوستی سے عبارت نظریہ تھا جس میں پاکیزگی بھی تھی اورسچائی بھی تھی۔ اور درمندی کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔

شاہ صاحب نے لوگوں کو چند روز حیات کی وقعت سے آگاہ کرنے کے لیے اور زندگی کے وسیع  تر اور جامع تر نظریے کو سمجھانے کے لیے  عشق ازلی کا ذکر بڑے  ہی پر اثر انداز سے کیا ہے، آپ کا انداز تصوف کے ر نگ سے رنگا ہوا ہے،آپ نے اپنے ہی کلام میں معرفت کے رنگ میں نوع  انسان کی پوری تاریخ کو سمو کر رکھ دیا۔ آپ نے انسانوں کے لیے ایک مثالی معاشرہ  کا مکمل اور واضح تصور پیش کیا ۔ آپ نے تمام لوگوں کے عقائد اور فرائض کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک ایسے مسلک  کو پھیلانے کی کوشش کی جو اعلیٰ اقدار کاسر چشمہاور پوری انسانیت  کے لیے محبت و اخوت کا منبع ہے۔ آپ تریسٹھ سال کی عمر میں ۱۱۶۵ھ/۱۷۵۲ء میں بھٹ بحق ہوئے اور وہیں مدفون ہوئے، تاریخ وفات ان دو مصرعوں سے نکلتی ہے۔

(ندیم بھائی سے لے کر پیسٹ کرنا ہے )

(نذر لطیف مضمون‘‘شاہ پر تحقیق’’ ص۱۶۵ از ڈاکٹر نبی بخش بلوچ) (مقالات الشعراء ، سندھی ادبی بورڈ ص۴۴۹)

(تذکرہ اولیاءِ سندھ )

تجویزوآراء