حضرت شاہ عبداللطیف المعروف امام بری
حضرت شاہ عبداللطیف المعروف امام بری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت امام برّی اپنے عہد کے عظیم اور مشہور اولیاء سے ہیں۔ آپ کا تعلق سلسلہ قادریہ سے ہےآپ کی زندگی میں زہد اور جذب بہت نمایا ں ہے آپ کی بزرگی اور عظمت کا چرچا گلی گلی ہے۔
آپ کا اصل نام شاہ عبداللطیف ہےاور امام بّری(خشکی کے امام)کے نام سے مشہور ہیں ۔ والد ماجد کا اسم گرامی سید سخی محمود کاظمی تھا۔(سیدسخی محمود شاہ کاظمی کا دربار پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں آبپارہ کے مقام پر واقع ہے)اسوقت آپ کے والدین موضع کرسال تحصیل چکوال ضلع جہلم میں رہائش پذیر تھے۔
اور آپ اسی گاؤں میں ۱۰۲۶ ھ بمطابق ۱۶۱۷ء میں پیدا ہوئے۔ یہ بادشاہ جہانگیر کا عہد حکومت تھا۔
آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام سیدموسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں:
سلسلہ نسب:
حضرت بری امام رحمتہ علیہ
۱۔ حضرت سیّدعبدالطیف برّی امام رحمتہ اللہ علیہ
۲۔ بن حضرت سیّد محمُود رحمتہ اللہ علیہ
۳۔ بن حضرت شاہ حامد رحمتہ اللہ علیہ
۴۔ بن حضرت سیّد بودلہ رحمتہ اللہ علیہ
۵۔بن حضرت سیّد شاہ سکندر رحمتہ اللہ علیہ
۶۔بن حضرت سیّد شاہ عباس رحمتہ اللہ علیہ
۷۔بن حضرت سیّد شاہ عبدالغنی رحمتہ اللہ علیہ
۸۔ بن حضرت شاہ حسین رحمتہ اللہ علیہ
۹۔ بن حضرت سیّد شاہ آدم رحمتہ اللہ علیہ
۱۰۔ بن حضرت سیّد شاہ علی شیر رحمتہ اللہ علیہ(اصلی نام مگر بہادری کی وجہ سے علی شیر کہلائے ۔آپ کو سید ابراھیم بھی کہا جاتا ہے۔)
۱۱۔بن حضرت سیّد شاہ عبدالکریم رحمتہ اللہ علیہ
۱۲۔بن حضرت سیّد شاہ وجیہ الدین رحمتہ اللہ علیہ
۱۳۔بن حضرت شاہ ولی الدین رحمتہ اللہ علیہ
۱۴۔بن حضرت سیّد شاہ محمد ثانی الغازی رحمتہ اللہ علیہ
۱۵۔بن حضرت سیّد شاہ رضاءالدین رحمتہ اللہ علیہ۔(رضا دین اور ریاض الدین بھی کہلاتے ہیں ۔ )
۱۶۔ بن حضرت سیّد شاہ سُلطان صدرالدین رحمتہ اللہ علیہ(سیّد عبد الوہاب بھی کہلائے۔
۱۷۔بن حضرت سیّد شاہ سلطان محمد احمد سابق رحمتہ اللہ علیہ(محمد احمد سابق بھی کہلائے )
۱۸۔ بن حضرت شاہ سلطان عبدالقاسم حسین المشہدی رحمتہ اللہ علیہ (ابو قاسم حسین المشہدی اور دسیّد حُسین سلطان المشہدی بھی کہلائے)
۱۹۔بن حضرت سیّد شاہ علی امیر بربر کے پیر رحمتہ اللہ علیہ (علی الا میر پیر بربریاں اور سیّد اللہ مشہدی بھی کہلائے)
۲۰۔ بن حضرت سیّد شاہ عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ (رئیس الزماں اور بُلبل شاہ بھی کہلائے ۔)
۲۱۔ بن حضرت سیّد شاہ اسحاق رحمتہ اللہ علیہ
۲۲۔ بن حضرت سیّد شاہ موسیٰ اوّل حسن زاہد رحمتہ اللہ علیہ (ابو الحسن موسیٰ زاہد بھی کہلائے )
۳۳۔ بن حضرت سیّد شاہ عالم رحمتہ اللہ علیہ
۲۴۔ بن حضرت سیّد شاہ قاسم عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ
۲۵۔ بن حضرت سیُد شاہ محمد اوّل رحمتہ اللہ علیہ
۲۶۔ بن حضرت سیّد شاہ اسحاق الموفق رحمتہ اللہ علیہ
۲۷۔ بن حضرت سیّد شاہ امام موسیٰ کاظم رحمتہ اللہ علیہ
بچپن:
آپ کا بچپن عام بچوں سے قطعاً مختلف تھا۔ بچپن ہی میں آپ کا رحجان زہد و تقویٰ ترک دنیا اور مذہب کی طرف مائل تھا۔ وہ گاؤں کے دیگر بچوں سے مل کر نہ کھیلتے بلکہ اپنے مویشیوں کو لےکر گاؤں سے دور نکل جاتے تھے۔ اور علیحدگی میں بیٹھ کر عبادت الہٰی میں مشغول ہوجاتے اور مویشی ادھر ادھر چرتے رہتے اور اشام کو انہیں جمع کرکے واپس گھر لے جاتے، اپنے والد سے مذہبی تعلیم حاصل کرتے کبھی جھوٹ نہ بولتے۔ اور کسی کو گالی نہ دیتے تھے کسی کی غیبت نہ کرتے اور شرارت سے ہمیشہ دور رہتے تھے۔ آپ کے اس رحجان اور مالک حقیقی سے عشق صادق کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ چھوٹی سی عمر میں اللہ کے محبوب بن گئے اور آپ کی زبان میں تاثیر پیدا ہوگئی جو بات منہ سے نکالتے پوری ہوجاتی۔
باغ کلاں میں قیام:
حضرت سید عبداللطیف رحمۃاللہ علیہ بالکل بچے ہی تھے کہ آپ کے والد اپنے آبائی گاؤں موضع کر سال سے نقل مکانی کرکے موضع باغ کلاں یعنی آبپارہ اسلام آباد کے مقام پر آکر رہائش پذیر ہوئے اور حسب معمول مویشی چرانے کا کام شروع کرلیا۔ بچپن میں حضرت امام بری بھی مویشی چرانے چلے جاتے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ آپ تقریباً ایک صد بھینسوں کا گلہ لے کر پہاڑ کے دامن میں چرانے گئے اور حسب معمول انہیں چھوڑ کریاد الہٰی میں مشغول ہوگئے اور عبادت میں اس قدر محو ہوگئے کہ بھینس قریبی کھیت میں جا گھسیں اور فصل تباہ کردی۔ لیکن آپ کو خبر نہ ہوئی کھیت کا مالک یہ کیفیت دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے نقصان پر بڑا جھنجلایا اور فوراً گاؤں پہنچ کر حضرت شاہ محمود رحمۃاللہ علیہ سے شکایت کی۔ حضرت شاہ محمود اٹھے اور شاہ لطیف کو ان کی غفلت پر سرزنش کرنے کے لیے دامن کوہ میں جا پہنچے۔ چاروں طرف نگاہ دوڑائی دیکھا کہ شاہ لطیف شیشم کے ایک درخت کے نیچے محو خواب ہیں۔ شاہ محمود نے آپ کو ایک ضرب لگائی آپ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا۔ اباجان میں جنت الفردوس کی سیر کر رہا تھا۔ آپ نے کیوں مجھے واپس بلایا۔ شاہ محمود نے فرمایا : اے جان پدر! تمہاری غفلت سے اس کا شتکار کی فصل بھینسیں کھاگئی ہیں او راس نے تمہاری شکایت کی ہے شاہ عبداللطیف نے جواب دیا۔ ابا جان اس کے کھیت میں کوئی نقصان نہیں ہوا ہے۔ آپ خود معائنہ کرلیں۔ اس پر شاہ محمود اور کاشت کا ریہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے۔ کہ اس کے کھیت میں پوری فصل کھڑی ہے اور اس میں ایک پتے کا بھی نقصان نہیں ہوا۔ اس پر حضرت شاہ محمود نے دہقان سے مخاطب ہوکر فرمایا۔ اے دہقان! تمہاری فصل تو ٹھیک ہے پھر تم نے غلط الزام کیوں لگایا دہقان اسکا کوئی جواب نہ دے سکا۔
تحصیل علم:
آپ کو علم دین حاصل کرنے کے لیے غور غشتی ضلع کیمل پور میں بھیجا گیا۔ جو اس زمانے میں دین کا مرکز تھا وہاں آپ نے قرآن تفسیر، حدیث، فقہ، منطق اور ریاضی پڑھی۔ اس کے علاوہ علم طب بھی حاصل کیا۔ ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد آپ کشمیر، بدخشاں، مشہد، نجف اشراف ،کر بلا معلیٰ، بغداد ،بخارا، مصر، دمشق کی سیرو سیاحت کرتے رہے پھر وہاں سے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔ تقریباً ۲۵ برس کی عمر میں واپس اپنے گھر تشریف لائے۔
بیعت:
آپ نے حضرت حیات المیر رحمۃاللہ علیہ کے ہاتھ کی جن کے سلسلہ طریقت کا تعلق حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے تھا اس طرح آپ نے سلسلہ قادریہ میں رہ کر اکتساب فیض کیا۔
شجرہ طریقت :حضرت اما م برّی قادری رحمتہ اللہ علیہ
۱۔ حضرت محمد الرسول اللہ
۲۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ علیہ
۳۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ
۴۔ حضرت حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ
۵۔ حضرت داود طائی رحمتہ اللہ علیہ
۶۔ حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ
۷۔ حضرت سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ
۸۔حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ
۹۔ حضرت ابو بکر شبلی رحمتہ اللہ علیہ
۱۰۔حضرت عبد الواحد یمنی رحمتہ اللہ علیہ
۱۱۔ حضرت ابو الفرح طر طوسی رحمتہ اللہ علیہ
۱۲۔ حضرت ابو الحسن علی القریشی رحمتہ اللہ علیہ
۱۳۔ حضرت ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ
۱۴۔ حضرت عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ
۱۵۔ حضرت ابو الرزاق جیلانی رحمتہ اللہ علیہ
۱۶۔ حضرت ابو صالح رحمتہ اللہ علیہ
۱۷۔ حضرت احمد شاہ اولیٰ رحمتہ اللہ علیہ
۱۸۔ حضرت شہاب الدین رحمتہ اللہ علیہ
۱۹۔ حضرت شمس الدین رحمتہ اللہ علیہ
۲۰۔ حضرت علاوالدین رحمتہ اللہ علیہ
۲۱۔ حضرت محمُود شاہ رحمتہ اللہ علیہ
۲۲۔ حضرت عبد اجلال رحمتہ اللہ علیہ
۲۳۔ حضرت بہاول شیر قلندر رحمتہ اللہ علیہ
۲۴۔ حضرت سیّد نوُر محمد رحمتہ اللہ علیہ
۲۵۔ حضرت سیّد ابو المعا قادری حجروی رحمتہ اللہ علیہ
۲۶۔ حضرت شاہ مقیم رحمتہ اللہ علیہ
۲۷۔حضرت علی امیر بالا پیر رحمتہ اللہ علیہ
۲۸۔حضرت عبد الطیف بّری امام رحمتہ اللہ علیہ
دعوت حق:
حالت جذب سے پہلے آپ نے چور پور میں قیام کی جو بعد میں نورپور شاہاں کے نام سے مشہور ہوا اور وہاں آپ نے رشد و ہدایت کا سلسلہ احسن طریقہ سے شروع کیا۔ دینِ مبین کو منظم انداز میں جاری کرنے کے لیے درس روحانیت اور علمیت کی شہرت سن کر دور دور سے لوگ آپ کے درس میں شرکت کے لیے آیا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی درسگاہ میں طلبا کے لیے ان کی خوردنوش کا بھی انتظام کررکھا تھا۔ جس کا سارا بار اللہ تعالیٰ اپنے خزانوں سے پورا کرتا ہے۔ آپ ایک عالم باعمل تھے۔ حقیقت و طریقت آپ پر روز روشن کی طرح عیاں تھی۔ نوجوانوں کی زندگی او ر ان کے تخیل کی رفعت و پابندی آپ کی تربیت پر منحصر تھی۔
جب کسی کے انفرادی اخلاق کی اصلاح نہیں ہوتی تو قوم کی زندگی کی اصلاح ناممکن ہی نہیں ہوتی بلکہ مشکل ترین ہوتی ہے۔ بری سرکار رحمۃاللہ علیہ نے دینی علوم کی ترویج اور اپنے اپنے افکار کو پھیلانے کے تین اداروں کا قیام ضروری سمجھا مدرسہ کو آپ نے اولیت دی۔ جہاں عربی علوم شریعت کی تعلیم کے علاوہ درس نظامی کی تعلیم کا فروغ ملا۔ صوفیائے کرام کے لیے تصوف کی تعلیم و تربیت کے یلے خانقاہوں کے قیام کا اہتمام کیا گیا۔ عوام الناس کے لیے و عظ و ہدایت کا انتظام مسجد میں کیا گیا۔ حضرت بری سرکار رحمۃاللہ علیہ نے اپنے ان اداروں سے دین حق کی تبلیغ پورے زور شور سے کی۔ یہی نہیں آپ نے ایک جگہ بیٹھ کر تبلیغ کا کام کیا بلکہ علاقوں میں پھر کر بھی اسلام کی روشنی کو پھیلایا آپ دین کی تبلیغ کے لیے دھیر کوٹ تشریف لے گئے۔ وہاں اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کو خدا کی واحدانیت کا درس دیا جس سے سینکڑوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔ دھیر کوٹ میں ایک قوم ستی آباد تھی اس کو اسلام کی ہدایات اور پند و نصائح سے مشرف بہ اسلام کیا۔
ایک قوم تہوڑ آپ کے خلاف ہوگئی اس قوم کا سردار کئی ہزار افراد کو لے کر آپ کے خلاف جنگ کے لیے نکل آیا۔ آپ نے اس کو سمجھایا اور جنگ سے باز رہنے کی تلقین کی مگر اس نے آپ کی تمام باتوں کو مسترد کردیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی خاندان کا ایک اور سرکردہ شخص اسلام لے آیا اور اس کی تقلید کرتے ہوئے اور بھی کئی لوگ مسلمان ہو گئے۔ اس طرح آپ کے پاس بھی کافی طاقت جمع ہوگئ۔ ستی قوم نے تہوڑ قو م کے ساتھ مقابلہ کیا۔ تہواڑوں کو شکست فاش ہوئی۔
آپ فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید اور سنت رسولﷺ کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے کے لیے علوم ظاہری و باطنی کا حصول بڑا ضروری ہے۔ آپ نے اپنے درس میں مومن کے عقیدہ تو حیدو رسالت کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ آپ کے اقوال عالم تصوف میں وہ حیثیت رکھتے ہیں جیسے چند ستاروں میں علم حقائق پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا علم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ خدا ہر چیز پر قادر ہے وہ جانتا ہے اور دیکھتا ہے یہ علم صفات کی تعریف ہے۔ خدا کے افعال کے علم کے بارے میں آپ کا فرمان ہے کہ اللہ ہی کل کائنات کا پیدا کرنے والا ہے اور اس نے ہی اپنے محبوب حضرت محمد ﷺ کو علم شریعت عطا فرمایا ہے۔ حکم شریعت میں کتاب اللہ سنت رسول اللہ اور اجماع امت شامل ہیں۔ آپ اپنے مریدوں کو ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے کی تلقین کرتے حسد، غیبت اور کینہ پروری سے آپ نے ہمیشہ باز رہنے کی ہدایت کی۔ حضرت امام بری چشمہ ہدایت و فلاح تھے۔ آپ نے مسلمان قوم کو اسلام کی تعلیم دے کر امت محمدیہ کی بھلائی کے لیے محنت شاقہ کی اور وہ خطوط وضع کردیئے۔ جن پر چل کر انسان کی بھلائی اور رضائے الہٰی حاصل ہوتی ہے۔
چند ہندوؤں کا قبول اسلام:
روایت ہے کہ روز شاہ عبداللطیف رحمۃاللہ علیہ چور پور کے کے جنگل میں ایک خشک اور کہنہ سال شیشم کے درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ کہ ہندو یاتریوں کا ایک قافلہ وہاں پہنچا۔ آپ نے یاتریوں سے دریافت کیا تم اتنا سازو سامان اٹھائے کہا ں جا رہے رہو۔ ان میں سے ایک نے جواب دیا پریاگ، آپ نے پوچھا وہاں کیا کروگے۔ جواب ملا۔ گنگا اور جمنا کے سنگھم پر اشنان کرکے اپنا پاپ صاف کریں گے۔
آپ نے فرمایا گناہ نہانے سے صاف نہیں ہوتے۔ نیکو کاری اور عبادت الہٰی سے ہی گناہ صاف ہوتے ہیں۔ ہندو یاتریوں نے آپ کی باتوں کا مذاق اڑایا اور ایک ہندو پر وہت بولا۔ اگر مخفی عبادت ہی سے انسان خدا کے قریب ہوسکتا ہے تو آپ کئی برسوں سے اس خشک اور پرانے شیشم کے درخت کے نیچے عبادت کر رہے رہو۔ مگر خدا نے آپ پر رحم نہیں فرمایا ورنہ اسی درخت کو ہر بھرا کرکے آپ کے سرپر چھاؤں کا انتظام کردیتا۔ ہندو پروہت کی اس تقریر پر آپ مسکرائے اور فرمایا۔ میرے خدا کے لیے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ۔ہم مسلمان اس کی ذات پر توکل رکھتے ہیں۔ وہ بڑا غفور الرحیم ہے۔ اگر وہ چاہے تو اس درخت کو فوراً ہرا بھرا کردے۔ کیوں کہ وہ ہر شی پر قادر ہے یہ کہہ کر آپ نے آیت کریمہ پڑھی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا ئے۔ مجیب الدعوات نے آپ کی دعا قبول کی او ر شیشم کا خشک اور کہنہ سال درخت فوراً ہرا بھرا ہوگیا۔ اس کی شاخیں بڑھ گئیں۔ ہندو یاتریوں کا پورا قافلہ یہ دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا۔ اور آپ کے دست مبارک پر حلقہ بگوش اسلام ہوا۔
اس قافلہ کے کچھ لوگ اپنے گھروں کو واپسی جاتے ہوئے موضع باغاں سے گزرے اور چور پور کے جنگل میں ایک صاحب کرامت بزرگ کی موجودگی کا ذکر کیا جب حضرت شاہ محمود نے یہ چرچا سنا تو فوراً سمجھ گئے کہ حضرت شاہ عبداللطیف گھر کے قریب ہی چھپے ہوئے ہیں۔ آپ چند آدمیوں کولے کر چور پور پہنچے اور آپ سے لپٹ کر خوب روئے۔ آپ کی بے قراری دیکھ کر آپ نے فرمایا۔ ابا جان ! آپ بے قرار کیوں ہیں میں یہاں بڑے مزے میں ہوں۔
شاہ محمود نے فرمایا: نور چشم! اب تم گھر واپس چلو، تمہاری والدہ تمہارے لیے بےقرار رہتی ہے۔ او راس کی صحت بالکل خراب ہوچکی ہے۔ حضرت شاہ لطیف نے جواب دیا ۔ ابا جان اب میں گھر میں نہیں رہ سکتا۔ میں یاد سرمدئی میں اتنا مدہوش ہو چکاہوں کہ اب مجھے اپنا ہوش نہیں۔ بہر حال اماں جان کی قدم بوسی کی خاطر ضرور حاضر ہوں گا۔ شاہ محمود واپس چلے گئے اور اس کے قریباً ایک ہفتہ بعد حضرت شاہ عبداللطیف بھ موضع باغاں پہنچ گئے مگر آپ نے وہاں زیادہ دیر قیام نہ کیا اور والدہ صاحبہ سے یہ کہہ کر واپس جانے کی اجازت طلب کرلی کہ میں نے جس جگہ نور پایا ہے میرا مکان و مقام اب وہی ہے حضرت شاہ عبداللطیف کے ان الفاظ ہی کی بنا پر چور پور کا نام نور پور ہوگیا ۔ جو کہ بعد میں نور پور شاہاں کہلایا۔
بری امام لقب کا ملنا:
خدام کی آمدکے بعد آپ نور پور کے ایک بڑے غار میں چلہ کشی کے لیے داخل ہوئے اور کئی سال تک باہر نہیں نکلے آخر آپ کے مرشد سخی حیات المیر جو غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے تھے تشریف لائے ۔اور غار کے دروازے پر کھڑے ہوکرآوازدی ۔اے عبداللطیف !اب چلہ سے باہر آؤ۔آج بڑامبارک دن ہے۔اندر سے جواب دیا۔ خیر مبارک یا حضرت۔ اب آپ باہر نکلے۔ حضرت سخی حیات المیر سے بغل گیر ہوئے اور آپ کے علم سلوک پر مسرت و انبساط کا اظہار کیا اور فرمایا ۔عبداللطیف اب تم ظاہری و باطنی رموز و اسرار سے معمور ہوچکے ہو۔ آج سے تم امام برہو۔ اسی وجہ سے حضرت شاہ لطیف کو بری امام کا لقب حاصل ہوا۔
آپ کی دعا سے اولاد مل گئی:
روایت ہے کہ ایک بوڑھی عورت نے پہلے حضرت شاہ چن چراغ کے پاس حاضر ہوکر عرض کی کہ آپ دعا فرمادیں۔ کہ رب کریم مجھے بیٹا عنایت فرمائے ۔ حضرت شاہ چن چراغ نے فرمایا کہ بیٹا نہیں بیٹی ملے گی۔ وہ عورت پھر بری امام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے بھی بیٹے کی التجاکی۔ آپ نے مراقبہ کرنے کے بعد فرمایا کہ تمہاری قسمت میں بیٹا آیا ہے۔ اس عورت نے عرض کی کہ میں تبھی حاضر ہوں کہ اگر میری قسمت میں بیٹا نہیں تو بھی آپ کی دعا سے میرا کام ہوجائے گا۔ جب اس عورت نے بہت عجز و نیاز کا اظہار کیا۔ تو حضرت بری امام نے فرمایا کہ جاؤ اللہ کریم تمہیں حسب خاطر بیٹا عنایت فرمائے گا۔ چناں چہ اللہ کریم نے اس عورت کو جب لڑکا عنایت فرمایا تو بری امام کی حاضری کی نیت سے چل پڑی۔ جب راولپنڈی پہنچی تو خیال آیا کہ شاہ چن چراغ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بیٹا نہیں بیٹی ہے۔ جب دیکھا تو فی الحقیقت بیٹی ہی تھی۔ آخر حیران و پریشان ہو کر حضرت بری امام کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ عرض کیا۔ تو بری امام نے فرمایا کہ پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں تمہاری گود میں لڑکا ہے۔ جب دیکھا تو لڑکا ہی تھا۔ پھر واپسی چن چراغ کی حاضری دی اور کہا کہ بری امام کی دعا سے لڑکاہے۔ آپ نے فرمایا لڑکا نہیں لڑکی ہے ۔ جب دیکھا تو فی الواقع لڑکی تھی۔ وہ عورت بہت غم زدہ ہوئی اور پھر خیال آیا کہ بری امام کی خدمت میں حاضر ہوکر دعا کرائی جائے۔ چنانچہ دوبارہ جب بری امام کی خدمت میں حاضر ہوکر سارا ماجرا بیان کیا آپ کی دعا سے وہ لڑکی لڑکا بن گیا۔ بعد ازاں بری امام نے اس عورت کو فرمایا کہ جاتے ہوئے شاہ چن چراغ کے پاس مت جانا اور سیدھی گھر کی طرف چلے جانا۔ چناں چہ اس بڑھیا نے حسب الحکم ایسا ہی کیا اور بامراد ہوکر گھر چلی گئی۔
طویل چلہ کشی:
موضع لِلّاں میں اہل یقین بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جب حضرت شاہ عبداللطیف کی طبیعت موضع گنگڑ سے اکتاگئی۔ تو آپو موضع للاں بھو تو میں چلے گئے۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کیا اور اس ندی میں چلہ کشی کے لیے داخل ہوگئے جس کے کنارے موضع للاں بھوتو واقع ہے۔
روایت کی جاتی ہے آپ بارہ برس تک پانی میں ذکر الہٰی میں مشغول رہے یہاں تک کہ مچھلیاں آپ کے جسم کا گوشت نوچ کر کھا گئیں اور آپ کو احساس تک نہ ہوا۔ نقاہت انتہا کو پہنچی اور ایک دن بے ہوش ہوکر گر پڑے آپ کے مرشد حضرت سخی حیات المیر نے جو اس زمانےمین حسن ابدال میں مقیم تھے۔ حالت کشف میں یہ کیفیت دیکھی تو فوراً للاں بھوتو پہنچے ۔ اور آپ کوچلہ سے باہر آنے کا حکم دیا مگر آپ چلنے پھرنے سے قاصر تھے۔ لہٰذا آپ کے ایک مرید نے آپ کو پانی سے باہر نکالا اور اپنے گھر لے گیا اس مرید کے پاس ۷۰ بھینسیں تھیں۔
روایت ہے کہ وہ روزانہ ایک بھینس کا دودھ دوہتا اور شاہ عبداللطیف کو پلاتا قدر خدا دیکھیے کہ وہ جس بھینس کا دودھ پلاتا وہ بیمار ہوکر مرجاتی یہاں تک کہ ۷۰ بھینسیں مر گئیں۔ مگر اس مرید باصفا نے اپنے مرشد سے اس کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن جب آخری بھینس بھی مرگئی تو اسے تردد ہوا کہ اب دودھ کہاں سے لاؤ ں جب اگلے دن شاہ عبداللطیف کو دودھ نہ ملا تو آپ نے استفسار کیا۔ اس نے بھینسوں کے مرنے کا تمام ماجرا بیان کیا۔ آپ زیر لب مسکرائے پوچھا کیا کوئی اور بھینس باقی نہیں ہے؟ مرید نے دست بستہ عرض کی۔ حضور! اب کوئی بھینس نہیں ہے۔ البتہ ایک بھینسا موجود ہے۔ آپ نے حکم دیا کہ بھینسا کو دودھ لو۔ قدرت خداوندی سے وہ بھینسا بھینس بن گئی۔ مرید نے حسب الحکم بھینسا کو دوہا۔ تو اس نے دودھ دے دیا مگر وہ بھی بیمار ہوا اور مر گیا۔ مرید پریشان ہوکر پھر خدمت میں حاضر ہوا ۔اور صورت حال عرض کی۔ آپ پھر مسکرائے اور اسے ہدایت فرمائی کہ جس ندی میں آپ نے چلہ کشی کی تھی۔ اس کے کنارے پہنچ کر ندی کی طرف پشت کرکے اپنی بھینسوں کے نام سے پکارے۔ مگر پلٹ کر نہ دیکھے مرید حسب الارشادندی کے کنار ے پہنچا اور بھینسوں کے نام لے کر پکارنا شروع کیا۔ وہ جس بھینس کا نام لیتا وہ ندی سے نکل کر اس کے پاس آجاتی۔ اس طرح سب بھینسیں نکل آئیں۔ تو اس نے بھینسے کا نام لے کرپکارا۔ بھینسا کھیلتا ہوا نکل رہاتھا کہ مرید نے پلٹ کر دیکھا لیا جونہی اس کی نگاہ بھینسے پر پڑی وہ بھینسا پتھر کا بن گیا۔ یہ پتھر اب بھی اس ندی میں نصف کنارے پر اور نصف ندی میں موجود تھا۔ امتدا و زمانہ اور سیلاب کی وجہ سے اب یہ پتھر کا بھینسا غائب ہوچکا ہے۔
پھنے شاہ بخاری کا واقعہ:
روایت ہے کہ اوچ شریف کے ایک بزرگ پھنے شاہ بخاری نے جب حضرت امام بری کی کرامتوں کی شہرت سنی تو انہوں نے کہا کہ ہماری ولایت میں ایک مشہدی کیسے داخل ہوگیا ہے ہم اس کی تمام قوتیں سلب کرلیں گے۔
اس کے بعد وہ ایک لاکھ مریدین کی فوج لے کر پنڈی کی طرف بڑھے حضرت بری امام نے پھنے شاہ بخاری کے اس کوچ کا منظر حالت کشف میں دیکھا۔ تو آپ نے مریدوں سے فرمایا کہ پھنے شاہ بخاری ایک لاکھ مریدوں کا لشکر لے کر آرہا ہے۔ تم ہوشیار رہو۔
جب پھنے شاہ بخاری اپنے مریدوں سمیت جہلم کے نزدیک پہنچے تو حضرت بری امام نے جہلم کی طرف انگشت شہادت اٹھائی اور پھنے شاہ بخاری کا آدھا جسم بے کار ہوگیا۔ پھنے شاہ بخاری بڑے حیران ہوئے کہ کیا ماجرا ہے۔ انہوں نے فوراً حضرت شاہ مہر شاہ خراسانی سکنہ نرالا والا کی طرف رجوع کیا۔ حضرت مہر شاہ خراسانی بھی کشف کی حالت میں یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے فوراً بری امام سے درخواست کی کہ پھنے شاہ بخاری کی گستاخی معاف کی جائے اور انہیں عذاب سے نجات دلائی جائے حضرت بری امام نے شاہ پھنے شاہ بخاری کو گرفت سے آزاد کردیا اور اس کے ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ اگر آپ کو یہاں آنا ہے تو مہمان کی حیثیت سے آؤ۔ بیان کیا جاتا ہے کہ پھنے شاہ بخاری معہ اپنے ایک لاکھ مریدین کے بری امام کے پاس آئے۔ اس پر حضرت مریدی پریشان ہوگئے کہ اتنے آدمیوں کو کہاں سے کھلایا پلایا جائے گا انہوں نے اپنی مشکلات حضرت امام بری کے سامنے رکھیں۔ آپ نے انہیں ایک کونڈا اور تھوڑا سا آٹا لانے کا حکم دیا۔ جب لایا گیا تو آپ نے یہ آٹا اپنے ہاتھ سے گوندھ دیا او پھر اس پر اپنا رومال ڈال دیا۔ اور فرمایا کہ اس میں سے آٹا لیتے جاؤ اور روٹیاں پکاؤ۔
چناں چہ اس آٹے سے روٹیاں پکاکر ایک لاکھ مریدین کو کھلائی گئیں۔ اور وہ ختم نہ ہوا پھر پھنے شاہ بخاری نے حضرت امام بری سے فرمایا کہ میری سواری کے شیر اور ہاتھ میں رکھنے کے سانپ کے لیے بھی خوراک کی ضرورت ہے۔ تو بری امام کے حکم سے رات کو ایک گائے شیر کے سامنے چھوڑ دی۔ اور مرغ سانپ کے سامنے تاکہ ان کی خوراک ہوجائے۔ لیکن علی الصبح جب دیکھا تو گائے اور مرغ تو موجود ہیں۔ لیکن سانپ اور شیر غائب ہیں۔ گائے نے شیر کو اور مرغ نے سانپ کو نگل لیا ہے۔
جب یہ ماجرا دیکھا تو پھنے شاہ بخاری پریشان ہوئے۔ تو حضرت بری امام نے گائے کے پاس جاکر فرمایا۔ کہ یہ ہمارے مہمان ہیں۔ ان کی امانت واپس کردو۔ تو گائے نے شیر منہ سے نکال کر باہر پھینک دیا اور مرغ کو حکم دیا تو اس نے بھی سانپ باہر پھینک دیا اور وہ دونوں از سر نو زندہ ہوگئے۔
نورپور شاہان کی شمالی پہاڑیوں کے ساتھ ایک جگہ لوئی دندی کے نام سے مشہور ہے جہاں ایک لمبا سے پتھر پہاڑی کے ساتھ معلق ہے جس کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دیو تھا۔ حضرت امام کی عبادت میں مخل ہوتا تھا۔ آپ نے اسے کئی مرتبہ منع فرمایا مگر باز نہ آیا ایک روز آپ کو غصہ آیا آپ مصلے سے اٹھے اور دیو کی گردن سے دبوچ کر ہوا میں اچھال دیا۔ وہ دیواوندھے منہ گرا اور پتھر بن گیا۔ جواب بھی موجود ہے۔
آپ کے سامنے جھوٹ بولنے کا انجام:
روایت ہے کہ آپ نے موضع باغ میں ایک کھیت کسی مزارعہ کو بٹائی پردے رکھا تھا۔ اس میں ایک مرتبہ اس نے ماش کی فصل بوئی۔ جب فصل پختہ ہوئی تو مزارعہ کی نیت میں فتور پیدا ہوگیا۔ اور وہ ساری فصل اٹھا کر اپنے گھر لے گیا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہہ دیاکہ فصل میں کچھ نہیں ہوا۔ آپ خاموش رہے کچھ دنوں کے بعد مزارعہ کے گھر تشریف لے گئے۔ اور فرمایا کہ کھانا لاؤ۔ جب مزارعہ کھانا لایا۔ تو اس میں ماش بھی موجود تھے۔ آپ نے دریافت فرمایا:
یہ اس قدر اچھے ماش کہاں سے لائے ہو؟ مزارعہ نے جواب دیا۔ دسادری ہیں آپ نے پھر پوچھا سامنے والی کوٹھری میں جو بوریاں پڑی ہیں ان میں کیا بھرا ہے؟ مزارعہ نے جواب دیا۔ بس کنکریاں بھری ہیں۔ آپ خاموش ہوگئے۔ اور کھانا کھانے کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے مرزاعہ آپ کے کشف و کرامت سے واقف تھا۔ جب آپ تشریف لے گئے تو کچھ گھبرایا اور اسنے بوری کھول کر دیکھا تو اس میں سوائے کنکروں اور پتھروں کے کچھ نہ تھا۔ اب اس نے دوسری بوری کھولی اس میں بھی کنکروں اور پتھر برآمد ہوئے۔ مزارعہ جھوٹ بولنے اور آپ کو دھوکہ دینے پر سخت نادم وپریشان ہوا۔ اور فوراًٍ آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی مانگی آپ نے اسے جھوٹ اور فریب سے ہمیشہ پرہیز کرنےکی تلقین کی اور معاف کردیا۔ جو ماش کنکریاں اور پتھر بنے تھے ۔ وہ آج تک موضع باغاں کلاں میں بری امام کے والد شاہ محمود کے مزار کے قریب پڑے ہوئے ہیں۔
بہادر شاہ اول کی ملاقات:
ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ شہنشاہ دہلی بہادر شاہ اول آپ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کی خدمت میں زرو جواہر پیش کیے ۔ آپ نے فرمایا: مجھے زرو جواہر کی ضرورت نہیں۔ یہ چیزیں دنیا کے کتوں کے لیے ہیں۔
بہادر شاہ اول دل میں خفا ہوا اور پھر اصرار کیا اس پر آپ نے فرمایا تو میں فاسد خیال رکھتاہے میں تیرے زرو جواہر کو ریت کے ذروں کے برابر بھی نہیں سمجھتا۔ بہادر شاہ نے اپنی زندگی میں کبھی ایسی گفتگو نہیں سنی تھی۔ وہ کچھ رنجیدہ ہوگیا۔ اس پر آپ نے فرمایا ۔ اے شاہ اپنی آنکھیں بند کرو اور مراقبے میں جاؤ اور شاہ مراقبے میں گیا۔ تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ شاہ عبداللطیف کے مصلے کے نیچے بے انداز دولت اور زرو جواہر کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر بادشاہ بڑا پسماندہ ہوا اور معافی کی خواستگار ہوا۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا جس میں آپ نے بتایا کہ دنیا کہ زرو جواہر سے زیادہ قیمتی وہ جواہر ہیں جو عبادت خداوندی سے حاصل ہوتے ہیں۔ آپ نے بہادر شاہ کو تلقین فرمائی کہ وہ ارکان اسلام کو قائم رکھے او ردین کے اصولوں کو فروغ دے۔
آپ نے نصیحت فرمائی کہ ناچ رکھ سے بچے۔ شراب کو حرام سمجھےجوئے اور زنا کے گناہِ عظیم سمجھ کر اس سے دور رہے۔ اور اپنی رعایا کو بھی برائیوں سے بچائے۔
شہزادہ عالمگیر اور حضرت امام بری:
شاہ جہان بادشاہ کسی مہم پر ہزارہ کے دورے پر آیا ہوا تھا۔ یہاں حاسدین نے امام بری سرکار کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو بادشاہ کے لیے خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بادشاہ بھی لوگوں کی باتوں میں آگیا اور اس نے ایک فوج تیار کی جو حضرت امام بری کی خانقاہ پر جاکر ان کو اور ان کے معتقدین کو گرفتار کرنے پر متعین کی گئی۔ اس کام کے لیے بادشاہ نے شہزادہ اور نگ زیب کی ڈیوٹی لگائی۔ اورنگ زیب آپ کی درس گاہ پر فوج لے کر پہنچ گیا۔ مگر آپ نے اس کی آمد کی بالکل پروانہ کی اور نہ ہی فوج سے گھبرائے بلکہ قرآن مجید کی درس و تدریس میں مشغول رہے شہزادہ بڑا متاثر ہوا۔ کہ یہ واقعی کوئی درویش انسان ہے جس نے صرف میری آمد کی پرواہ کی بلکہ فوج سے مرغوب نہیں ہوا۔ آپ نے شہزادے کی دلی کیفیت کو فوراً بھانپ لیا۔ قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت فرمائی جس کاترجمہ یہ تھا۔ ‘‘بے شک اللہ کےولی کسی خوف اور خزن و ملال سے نہیں ڈرتے’’ اس آیت کے بیان کے بعد آپ دوبارہ تدریس میں مشغول ہوگئے۔ شہزادہ کھڑا آپ کو دیکھتا رہا۔ اب شہزادے نے بھی ایک آیت تلاوت کی جس میں اللہ اور رسول کی اطاعت کے علاوہ حاکم وقت کی اطاعت کی بھی حکم دیا گیا تھا۔
آپ نے جواباً فرمایا: میں اللہ اور رسول کی اطاعت میں غرق ہوں امیر کی پرواہ کسی طرح کروں۔ ‘‘ اللہ تعالیٰ کے لیے تمام تعریفیں ہیں جو لائق حمدو ثناء ہے وہ ہر چیز پر قادر قابض ہے اس کانور چار سو ہے۔ اس کا کوئی شریک و ثانی نہیں۔ وہ ہر برائی اور عیب سے مبرا اور پاک ہے’’۔
اس کے بعد شہزادےنے آپ سے دعا کروائی۔ آپ نے اس کے حق میں تفصیلی دعا کی۔ اس کو دعا کہ اہمیت کے متعلق بتایا اس ضمن میں آں حضرت ﷺ کے ارشادات بیان کیے کہ اللہ تعالیٰ کو دعا سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں جو شخص اللہ سے دعا نہیں مانگتا اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔ دعا مومن کا ہتھیار ہے اور دعا قبولیت کا یقین رکھ کر مانگنی چاہیے۔ شہزادے نے دعا کے قبول نہ ہونے کے بارے میں بھی آپ سے بات کی اس کا جوابدیتے ہوئے آپ نے فرمایا ‘‘اکل حلال دعا کی قبولیت کے لیے سب سے بڑی چیز ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک صحابی نے حضورﷺ سے عرض کی۔ آپ میرے لیے دعا فرمادیجیے میری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ آپ نے اس سے فرمایا:
‘‘اکل حلال کا بندوبست کرو۔ کیوں کہ دعا کیاستجابت رزق حلال سے ہوتی ہے لقمہ حرام سے چالیس روز تک دعا قبول نہیں ہوتی۔ دوسری بات استغفار کی ہے انسان وعیوب کا اعتراف اور کمزوریوں کا اقرار کرکے استغفار کرے اور آئندہ کے لیے محتاط روی سے کام لے تو بھی دعا قبول ہوجاتی ہے۔ اور اگر انسان اپنی مذموم حرکات پر بھی قائم رہے اور دعا بھی کرتا رہے تو پھر دعا قبول قبول نہیں ہوسکتی وقت ضائع ہوسکتا ہے۔’’
پھر آپ نے اس کے بعد شہزادے اورنگ زیب کو خوشخبری دی کہ تم ہندوستان کے بادشاہ بنو گے مگر یاد رکھوجب تک تم رزق حلال نہیں کماؤ گے اپنی اولاد کو پاک اور اچھی روزی نہیں کھلاؤ گے۔ تمہاری دعا ہر گز قبول نہیں ہوگی۔ اورنگ زیب پر آپ کی حکیمانہ باتوں کا بہت اثر ہوا۔ اس نے بادشاہت سے پہلے اور بادشاہت کے بعد قرآن حکیم کی کتابت کرکے روزی کمائی اور رزق حلال کھایا۔ آپ نے اورنگ زیب کو یہ بھی تلقین کی کہ رعایا کے ساتھ انتہائی محبت اور شفقت کا سلوک کرنا بادشاہ کو بڑی تقویت پہنچاتا ہے اور ایسے بادشاہ سے ہی حکومت کو دوام ملتا ہے جو اپنی رعایا میں مقبول ہو۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اورنگ زیب خود کچھ خدام کے ہمرا بطور ہدیہ و نذرانہ کچھ جواہرات ایک عصا اور ایک تسبیح لے کر حضرت بری امام کے پاس حاضر ہوا۔ اس وقت آپ طلباء کو سبق پڑھا رہے تھے۔ شہزادہ اورنگ زیب مع خدام کھڑا رہا۔ آپ نے کچھ توجہ نہ کی اور بدستور درس دیتے رہے خدام تو ان کی یہ بے پرائی دیکھ کر سیخ پاہوگئے ۔ لیکن اورنگ زیب کا عقیدہ پختہ ہورہا تھا۔ پھر جب آپ پڑھائی سے فارغ ہوئے تو ملاقات کا شرف بخشااورنگ زیب نے نذرانہ پیش کیا۔ تو آپ نے فرمایا: آپ کی سلطنت میں کئی محتاج یتیم اور بیوگان ہیں ۔ یہ جواہرات ان کو دیجیے۔ ہماراوقت خدا کے فضل و کرم سے گزر رہا ہے۔ اور عصا بھی واپس دے دیا۔ ساتھ ہی فرمایا کہ یہ عصائے حکومت سمجھو جب اللہ تعالیٰ تمہیں حکومت دے تو عدل و انصاف سے حکومت کرنا ظلم نہ کرنا۔ تسبیح کے متعلق آپ نے فرمایا کہ دیکھو اس کے دانے رعیت کی مثال ہیں۔ اور امام بادشاہ کی مثل ہے۔ دانوں کا تعلق دونوں طرف سے امام کے ساتھ ہے اور اس نے سب کو بوجھ برداشت کیا ہوا ہے۔ بادشاہ کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے۔ الغرض اورنگ زیب جب یہ تمام منظر دیکھ کر واپس شاہ جہاں کے پاس پہنچا تو ا سنے بادشاہ سے عرض کی کہ آپ کی تمام بادشاہی میں ان جیسا کوئی آدمی نہیں ہے جسے لوگ واجب القتل سمجھتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہے اور دنیا سے بے نیاز ہے تب شاہ جہان کا غضب فرو ہوا۔ نیز روایت ہے کہ حضرت موصوف کو لنگر کے لیے جاگیر دینے کی پیش کش کی گئی تو آپ نے مسترد کردی۔
شادی:
آپ نے ضلع ہزارہ کے ایک معزز خاندان کے سردار سید نور محمد کی صاحبزادی بی بی دامن خاتون سے شادی کی۔اللہ نے آپ کو ایک لڑکی عطا کی جو کچھ ہی عرصہ بعد رضائے الہٰی سے وفات پاگئی اس سانحہ کے کچھ مدت بعد آپ کی اہلیہ بھی اس دارفانی سے کوچ کرگئیں۔ آپ نے دوسری شادی نہ کی اور عائلی پابندیوں اور ذمہ داریوں سے آزاد ہوکر اپنا ساراوقت خدا کی راہ یں گزارنا شروع کردیا۔ آپ نے اپنی زندگی کا ایک باب بطورسالک گزارا کہ دوسرا دور آپ نے مجذوب کے طور پر گزارا۔ آپ کی زندگی اتباع رسولﷺ کا ایک انمول نمونہ تھی۔ آپ نے پوٹھوہار کے خطہ میں رشد وہدایت کے و ہ چراغ روشن کیے کہ تمام علاقے کی کایا ہی پلٹ گئی۔ آپ نے بے لوث دینی خدمت سرانجام دی۔ آپ کے دم قدم سے کفر اور ظلمتوں کے بادل چھٹ گئے ۔ آپ نے لوگوں کوجہاں اخلاقی، اسلامی اور مذہبی تعلیم دی۔ وہاں تصوف اور روحانیت کے جام بھی لنڈھائے آپ ایک انقلاب آفریں ہستی تھے۔ آپ کی نادر روزگار درسگاہ نے اسلام کو بہت ترقی دی، آپ نے اسلام کی حقیقی خدمت کرکے خدا کی رضا حاصل کی۔
اسلام آباد:
قطب الاقطاب حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بّری امام سرکار نے آج (۱۴۳۷)سے تین سو بیس سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا۔
حضرت امام بّری سرکار کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر آبادہوگیا جو آج مملکت خداداد پاکستان کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سطح پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ترجمان کے عظیم شرف سے ہمکنار بھی ہے ۔ربِّ ذوالجلال سے دعاہے کہ پروردگارِعالم !اسلام آباد کو اسم با مسمیّٰ بناکراس مملکتِ خدادادکو نظام ِمصطفیٰﷺ کا گہوارہ بنادے(آمین )
وصال:
حضرت شاہ لطیف بری قادری رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۱۱۷ھ میں وفات پائی۔ آپ کو نور پور شاہاں میں سپرد خاک کیاگیا۔ جہاں بعد میں آپ کا مزار اقدس پختہ تعمیر کیا گیا۔ یہ مزار نور پور شاہاں اسلام آباد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے۔
ماخذومراجع:
اولیائےپاکستان:عالم فقری
فیضان امام بری قادری:ڈاکٹرنورمحمد بھدرواہی