حضرت شاہ اعلی عبدالسلام پانی پتی
حضرت شاہ اعلی عبدالسلام پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ اعلیٰ مراتب اور بلند درجات کے مالک تھے آپ کو اپنے والد نظام الدین رحمۃ اللہ سے خرقۂ خلافت ملا پھر آپ نے شیخ نظام نارنولی سے بھی خلافت پائی کسی نے آپ کے حق میں کیا خوبصورت شعر کہا ہے۔
نظامش پیر و ہم پدرش نظام است
نظام دوجہان روئے تمام است
ایک شخص اللہ دیا جو آپ کا مرید تھا نے آپ کے ملفوظات اور واقعات پر ایک کتاب لکھی جس کا نام جواہر اعلیٰ تھا۔ اُس میں آپ کے تمام حالات اور مقامات لکھے گئے ہیں ان کا اپنا نام عبد السلام تھا مگر نارنولی نے آپ کو شاہ اعلیٰ۔
سیر الاقطاب کے مصنف فرماتے ہیں کہ شاہ اعلیٰ ابتدائی عمر میں بابر کے ایک امیر خرا خان کی نوکری کرتے تھے کچھ عرصے کے بعد ان کا کاروبار اس قدر کمال کو پہنچا کہ بابر کی ساری فوج میں ان جیسا کوئی تیر انداز نہ تھا۔ آپ لشکر سے نکل کر طالب الٰہی دہلی سے پانی پت پہنچے اور والدِ مکرام کو اپنے دل کی کیفیت سے آگاہ کیا والد مکرام کے حکم پر آپ شیخ شمس الدین ترک پانی پتی کے روضے کے ساتھ حجرے میں چلّہ کاٹنے بیٹھ گئے آپ یہاں بڑی ریاضتیں اور مجاہدہ کرنے لگے ابھی چالیس دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ ایک دن حجرے کا دروازہ بند تھا شیخ نظام الدین نارنولی رحمۃ اللہ علیہ حجرے کے اند تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہاری باطنی حصہ میرے پاس ہے تم میرے پاس نارنول میں آؤ آپ بے خودی کے عالم میں گرتے پڑے نارنول پہنچے اور شیخ نظام نارنولی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ کے کام کی تکمیل ہوئی خرقہ خلافت ملا اور شاہ اعلیٰ کے خطاب سے ممتاز ہوئے۔
شیخ اللہ دیا جو آپ کے ملفوظات کا مولٔف ہے اور آپ کا مرید خاص بھی ہے لکھتا ہے کہ ایک بار میں نے حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندر کی بارگاہ میں نذرمانی میرا کام میری مرضی کے مطابق ہوا تو میں ایک دن نذر ادا کرنے کے لیے شاہ اعلیٰ کو لے کر حضرت بو علی قلندر کے مزار کی طرف روانہ ہوا راستے میں سخت بارش نے آلیا مگر آپ نے فرمایا فکر نہ کرو بارش تم پر نہیں برسے گی میں نے دیکھا ہم سے دس د س قدم دُور فاصلے پر بارش ہورہی ہے لیکن ہم پر ایک قطرہ بھی نہیں گر رہا اس طرح ہم محفوظ حضرت قلندر کے روضہ پر پہنچ گئے ہم نے وہاں دیگیں پکائی انہیں تقسیم کیا لیکن اتنی زور دار بارش کے باوجود ہم پر ایک قطرہ بھی نہ گرا حالانکہ ہمارے چاروں طرف پانی ہی پانی تھا۔
سیر الاقطاب میں لکھا کہ شاہ اعلیٰ کے مریدوں میں سے ایک مرید نے سونے کی کچھ اشرفیاں چمڑے کے تھیلے میں ڈال کر اپنے حجرے میں دفن کردیں چند مہینوں کے بعد اُسے ضرورت پیش آئی تو اشرفیاں تلاش کیں زمین کھودی گئی لیکن اشرفیوں کا نام و نشان نہ ملا تھک ہار کر شاہ اعلیٰ کی خدمت میں حاضر ہوا اور صورتحال پیش کی حضرت شاہ اعلیٰ بذات خود اِس کے گھر تشریف لے گئے ابھی اُس کے گھر نہ پہنچے تھے راستے میں ایک کَسی زمین پر ماری اور فرمایا یہاں اپنا مال تلاش کرو اس شخص نے وہاں سے زمین کھودی اسے اپنے چمڑے کے تھیلے میں اشرفیاں پڑی مل گئیں وہ حیران رہ گیا اور عرض کی کہ میں نے اپنی اشرفیاں حجرے میں دفن کیں تھیں لیکن اب یہ راستے سے برآمد ہوئیں ہیں خدا معلوم یہ کیا راز ہے آپ نے فرمایا یہ اسرارِ الٰہی ہے ان کا انکشاف نہیں کیا جاسکتا۔
حضرت شاہ اعلیٰ کے دو لڑکے تھے ایک کا نام شاہ منصور ار دوسرے کا نام شاہ نور تھا دونوں آپ کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے البتہ شاہ منصور کا ایک لڑکا شاہ محمد زندہ تھا جو اپنے دادا بزرگوار کی مسندِ ارشاہ پر بیٹھا حضرت شاہ اعلیٰ کی خانقاہ میں ایک کنواں ہے جو آپ نے خود کھودا تھا جب وہ مکمل ہوگیا تو اُس کا پانی کھارا نکلا مریدوں نے آپ کی خدمت میں اِس پانی کے متعلق شکایت کی اتفاقاً وہاں ایک شخص چند روٹیاں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے لے کر حاضر ہوا حضرت شاہ اعلیٰ نے ان روٹیوں کو اپنے ہاتھ سے توڑا اور کنوئیں میں ڈال دیا دعا کی اور فرمایا کہ اب پانی نکالو اور پیو جب پانی نکالا گیا تو وہ میٹھا بھی تھا اور ٹھنڈا بھی۔
شاہ اعلیٰ کی ولادت ۸۹۰ ہجری میں ہوئی اور وفات ۱۰۳۳ ہجری میں ہوئی آپ کی عمر ۱۴۲ سال تھی سیر الاقطاب کے مصنف نے آپ کی تاریخ ولادت لفظ فیاض سے برآمد کی ہے اور تارخ وفات شیخ الہٰ سے برآمد کی ہے آپ کے فوت ہونے کے چند سال بعد ایک ضعیف عورت جس کا شاہی خاندان سے تعلق تھا آپ کا مزار بنانے لگی عمارت شروع ہوئی مگر عمارت بنانے والے معمار نے خواب میں دیکھا کہ حضرت شاہ اعلیٰ سے اپنی قبر کے سرہانے کھڑے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ عمارت کا چبوترا تم بنارہے ہو اس سے ہمارے صندوق کا تختہ ٹوٹ گیا ہے اور ایک اینٹ صندوق میں گر گئی ہے مناسب ہے کہ تم چبوترے کو گرادو اینٹ کو صندوق سے باہر نکالو اور صندوق کے تختے کو درست کرکے دوبارہ چبوترا بناؤ صبح ہوئی تو وہ معمار اس شاہی خاندان کی عورت کے پاس گیا اور رات کے خواب کا قصّہ بیان کیا اُس نے کہا کہ جس طرح شاہ الہٰ نے حکم دیا ہے اُس پر عمل کیا جائے شہر کے بڑے بڑے لوگ جمع ہوئے چبوترے کی عمارت کو ہٹادیا گیا صندوق باہر نکالا گیا سب لوگوں نے دیکھا واقعی صندوق کا تختہ ٹوٹا ہو اہے اور اُس کے اندر اینٹ پڑی ہوئی ہے یہ اینٹ حضرت کے زانوں کے نیچے تھی دایاں پاؤں دراز تھا لیکن بایاں پاؤں اینٹ کی وجہ سے کھڑا ہوگیا تھا لوگوں نے دیکھا کہ آپ کا سارا جسم صحیح و سالم موجود ہے آنکھیں اُسی طرح روشن ہیں یوں محسوس ہوتا تھا کہ حضرت آرام فرمارہے ہیں چنانچہ شہر کے رہنے والے چھوٹے بڑے آپ کے دیدار پُر انوار سے فیض یاب ہوئے صندوق کے تختے کو درست کیا گیا اور از سرِ نو عمارت کی بنیاد کو تیار کرکے اٹھایا گیا
جناب شاہ اعلیٰ پیر اسلام
نظام دین و دنیا شیخ والا
بگو بالغ بخوان غالب بترحیل
دگر سرور معلیٰ شاہ اعلیٰ
۱۰۳۳ھ