حضرت شاہ ابو سعید مجددی رام پوری
حضرت شاہ ابو سعید مجددی رام پوری قدس سرّہ
زبدۃ الابرار حضرت خواجہ لیف الدین فرزند خامس،حضرت مجدد الف ثانی کے پوتے(حضرت شاہ صفی القدر) فرزند اجمند،دوسری ذیعقدہ ۱۱۹۶ھ کو رام پور میں ولادت ہوئی،گیارہ برس کی عمر میں حافظ قرآن ہوئے،حضرت مولانا شرف الدین مفتیٔ عدالت رام پور اور مولانا شاہ رفیع الدین سے اخذ علوم کیا،حضرت شاہ عبد العزیز سندِ حدیث حاصل کی طالب علمی ہی میں والد ماجد سے طریقہ آبائی میں مرید ہوئے،والد ماجد کے ایماء سے حضرت شاہ درگاہی محبوب الٰہی سے طریقہ قادریہ میں بیعت کی اور بارہ سال مسلسل حاضر خدمت رہے اور خلافت و خرقہ پایا،۱۲۲۵ھ میں دہلی حضرت شاہ غلامعلی مجددی دہلوی مجدد مأتہ اثنا عشر کی خدمت میں حاضر ہوئے چند ماہ تکمیل سلوک مجددی کر کے خلافت پائی۔ جب کبھی آپ سفر سے واپس آتے حضرت شاہ غلام علی استقبال کے لیے باہر نکلتے،شاہ غلام علی جب بیمار ہوئے تو آپ کو لکھنؤ سے بُلاکر خدمت منصب سُپرد کی،۱۲۴۹ھ میں حج کے لیے گئے تو اپنے صاحبزادہ حضرت شاہ احمد سعید کو جانشین کر گئے،مکہ معظمہ میں شیخ عبداللہ سراج مفتی حنفیہ،شیخ عمرو مفتی شافعیہ وغیرہ علماء کبار بہر ملاقات آئے،بعدہٗ مدینہ منورہ حاضر ہوئے،واپسی میں ۲۲، مضان کو ریاست ٹونک میں علیل ہوئے،صاحبزادہ حضرت شاہ عبد الغنی محدث شہیر ہمراہ تھے،سکرات موت شروع ہوئی تو ان کو وصیت فرمائی کہ اتباع سُنّت کرنا،اور اہل دنیا سے پرہیز کرنا،اگر دنیا داروں کے پاس جاؤگے ذلیل خوار ہوگے،ورنہ دُنیا دار کُتّوں کی طرح تمہارے دروازے پر لوٹیں گے پھر حافظ سے سورۂ یٰسین کی تلاوت کے لیے فرمایا،تین بار سُن کر فرمایا،اب نہ پڑھو،بہت تھوڑی مدّت باقی ہے،عید الفطر یوم یکشنبہ ۱۲۵۰ھ کو عصر و مغرب کے درمیان انگشت شہادت کو حرکت دیتے ہوئے وصال بہ الٰہی فرمایا،لاش تابوت میں رکھ کر دھلی لائی گئی، چالیس روز بعد حضرت شاہ غلام علی قدس سرہٗ کے پہلو میں دفن کیے گئے،اتنی مدت گذرنے کے بعد بھی معلوم ہوتا تھا کہ ابھی غسل دیا گیا ہے، روئی سے خوشبو آتی تھی،جسے لوگ بطور تبرک لے گئے، محبوبان بارگاہ کے ساتھ یہی سنت الٰہی ہے،یہ قطعۂ تاریخ ہے۔
امام ومرشدنا، شاہ ابو سعید،سعید |
بہ عید فطر چوشُد واصل جناب خدا |
|
دے شکستہ و مغموم گفت تاریخش |
ستونِ محکم دین نبی فتاد زپا |
حضرت شاہ احمد سعید وحضرت شاہ عبد الغنی دونوں فرزند علوم ظاہر وباطن سے آراستہ ہوکر امام و مقتدیٰ ہوئے،ان کے احوال اسی تذکرۂ علمائے اہل سنت میں ملیں گے۔
-----------------------------------
شاہ[1]ابو سعید بن صفی القدر بن عزیز القدر بن محمد عیسٰی دہلوی مجددی: علوم ظاہری و باطنی فقہ وحدیث و تفسیر میں طاق یگانہ آفاق تھےرامپور میں دوم ماہ ذیقعد ۱۲۹۶ھ میں پیدا ہوئے،علوم ظاہری کو مفتی شرف الدین دہلوی اور مولانا شاہ رفیع الدین محدث دہلوی سے حاسل کیے اور نیز مولانا شاہ عبد العزیزی محدث دہلوی اور حضرت سراج احمد بن شیخ محمدمرشد سے علم فقہ وحدیث کی سند حاصل کی، بعد تحصیل علوم ظاہری کو علوم باطنی کو پہلے اپنے والد ماجد سے حاصل کیا پھر ان کی اجازت سے شاہ درگاہی کی خدمت میں حاضر ہوکر خرقہ خلافت کا پایا۔چونکہ ابھی شوق خدا طلبی کا باقی تھا اس لیے آپ رامپور سے دہلی میں آئے اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی کے نام خدا طلبی کے باب میں خط لکھا۔انہوں نے جواب میں لکھا کہ اس وقت شاہ غلام علی سے بہتر کوئی شخص نہیں۔اس پر آپ نے شاہ غلام علی کی خدمت میں حاضر ہوکر بیعت کی اور کمالات باطنی کی تکمیل کو پہنچ کر خرقہ خلافت و سجادہ نشینی کا حاصل کیا۔آپ کی ذات بابرکتات سے بہت سے خوارق و کرامات سرزدہوئی۔ اخیر عمر میں آپ حج کو تشریف لے گئے۔جب بعد زیارت حرمین شریفین کے واپس ہوکر مقام ٹونک میں پہنچے تو چو چوّن سال کی عمر مین عید الفطر کے روز ۱۲۵۰ھ میں وفات پائی اور بعد غسل و جنازہ کے آپ صاحبزادے شاہ عبد الغنی نے آپ کی نعش مبارک کو صندوق میں ڈال کر چالیس روز کے بعد دہلی میں لاکر حضرت شاہ غلام علی اور میرزا مظہر جانجاناں کے پہلو میں دفن کیا۔
1۔ حجرت زکی القدر شاہ ابو سعید بن صفی القدر،ولادت ۱۱۹۶ھ۔(مقامات خیر)(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)