حضرت شاہ ابو سعید مجددی رامپوری
حضرت شاہ ابو سعید مجددی رامپوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سلسلہ نسب:
آپ کا سلسلہ نسب حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے بدیں طور ملتا ہے۔ شاہ ابو سعید بن حضرت صفی القدر بن حضرت عزیز القدر بن حضرت عیسیٰ بن حضرت یوسف الدین بن خواجہ محمد معصوم بن حضرت شیخ احمد مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ علیہم اجمعین۔
ولادت باسعادت:
آپ شہر مصطفےٰ آباد عرف رامپور میں بتاریخ ۲ ذیقعدہ الحرام ۱۱۹۶ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائے عمر ہی سے آثار صلاح آپ میں پائے جاتے تھے فرماتے تھے کہ مجھے اوائل عمر میں میاں ضیاء الٰہی صاحب کی معیت میں میرے اقارب میں سے تھے شہر لکھنؤ جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم ایک مکان میں اُترے راستے میں ایک درویش ستر برہنہ بیٹھا ہوتا مگر جب وہ مجھے دیکھتا تو ستر درست کرلیتا۔ کسی نے اُس سے سبب دریافت کیا۔ اُس نے جواب دیا کہ ایک وقت آنے والا ہے کہ ان کو ایسا منصب حاصل ہوگا کہ اپنے اقارب کے مرجع ہوں گے چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا۔
علوم ظاہری و باطنی کا حصول:
تقریباً دس سال کی عمر میں آپ نے قرآن شریف حفظ کرلیا بعد ازاں قاری نسیم علیہ الرحمۃ سے علم تجوید حاصل کیا۔ آپ قرآن مجید ایسی ترسیل سے پڑھا کرتے تھے کہ سننے والے محو ہوجایا کرتے۔ حتیٰ کہ جب آپ حرم مکہ معظّمہ میں وارد ہوئے تو اہلِ عرب نے آپ کی قرأت سُن کر تعریف و تحسین کی۔ حفظ قرآن کے بعد علوم عقلیہ و نقلیہ مفتی شرف الدین اور مولانا رفیع الدین شاہ ولی اللہ سے حاصل کیے حدیث کی سند اپنے مرشد سے اور حضرت شاہ سراج احمد بن حضرت محمد مرشد مجددی اور شاہ عبد العزیز سے حاصل کی۔ عین تحصیل علم میں خدا طلبی کا شوق پیدا ہو۔ پہلے اپنے والد بزرگوار سے ارادت کی جو اپنے آبائے کرام کے طریقہ پر مستقیم اور تارک دنیا اور ہر وقت اوراد و اشغال میں مشغول رہتے تھے پھر اُن کی اجازت سے حضرت شاہ درگاہی کی خدمت میں حاضر ہوئے جن کا سلسلہ دو واسطہ سے حضرت خواجہ محمد زبیر قدس سرہ سے ملتا ہے۔ حضرت شاہ درگاہی کو استغراق اس قدر رہتا تھا کہ نماز کے وقت مرید آپ کو آگاہ کردیا کرتے تھے اور توجہ ایسی تیز تھی کہ اگر ایک وقت میں سو آدمیوں کی طرف متوجہ ہوتے تو سب بیہوش ہوجایا کرتے تھے۔ حضرت شاہ صاحب نے آپ کے حال پر بڑی عنایت فرمائی اور چند ہی روز میں آپ کو اجازت و خلافت عطا فرمائی۔ آپ کے بہت سے مرید ہوگئے اور حلقہ میں بیہوشی و وجد اور صیحہ و نعرہ ہوا کرتا۔ چوں کہ نسبت مجددیہ میں یہ امور مرتفع ہوجاتے ہیں اور صحابہ کرام کی مثل کمال افسردگی اور آسودگی میں عمر گزرتی ہے۔ چنانچہ آپ نے بچشمِ خود حضرت شہید رحمۃ اللہ علیہ کے اصحاب کے حالات اسی طرح دیکھے تھے۔ اور ایک دفعہ رامپور میں حضرت شاہ غلام علی کی بھی زیارت کی تھی اس لیے ابھی طلبِ خدا باقی تھی آپ رامپور سے دہلی تشریف لے گئے وہاں پہنچ کر قاضی ثناء اللہ پانی پتی کو اپنی خدا طلبی کے بارے میں ایک خط لکھا۔ جس کے جواب میں حضرت قاضی صاحب نے نہایت تعظیم سے آپ کو تحریر فرمایا کہ اس وقت شاہ غلام علی سے بہتر کوئی نہیں۔ پس آپ بتاریخ ۷ محرم الحرام ۱۲۲۵ھ میں حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ابتدا سے انتہا تک تمام سلوک مجددیہ بکمال تفصیل حاصل کیا۔
خاص عنایت:
حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ آپ کے حال پر خاص عنایت فرماتے تھے چناں چاں ماہ صفر ۱۳۳۰ھ میں حضرت نے آپ کو اپنے سینہ سے لگایا اور دیر تک توجہ فرمائی اور اپنی ضمنیت سے مشرف فرمایا اور ۱۱ جمادی الاول ۱۲۳۱ھ میں فرمایا۔ ’’میرے بعد اس مکان میں میاں ابو سعید بیٹھیں اور حلقہ و مراقبہ اور درس حدیث ع تفسیر میں مشغول ہوں۔‘‘ حضرت کی ایسی عنایات بعض لوگوں پر ناگوار گزرتی تھیں۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان کے حال پر اس قدر عنایت کس واسطے ہے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ میاں ابو سعید اپنے پانچ سو مریدوں کو چھوڑ کر میرے پاس آیا ہے اور اس سے پہلے وہ خرقہ خلافت دوسرے مشائخ سے لے چکے ہیں پس اپنے مرشد کی عین حیات میں انہوں نے خلافت و اجازت کو چھوڑ کر میری بیعت کا حلقہ اپنے اخلاص کی گردن میں ڈالا اور پیروی کو چھوڑ کر مریدی کی طرف آگئے وہ کس طرح مودر عنایت اور مصدر ہمت نہ ہوں۔‘‘ جمادی الاولیٰ ۱۲۳۳ھ میں حضرت نے آپ کو قیومیت کی بشارت دی۔ اور فرمایا ’’مجھے الہام ہوا ہے اس لیے تجھ سے ارشاد کیا گیا۔‘‘
الغرض آپ پندرہ سال حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں رہے حضرت نے اپنے مرض موت میں آپ کو بذریعہ خط لکھنو سے بلایا اور اُس میں یوں لکھا از غیب القامے شود کہ ابو سعید راباید طلبید۔ وروح مبارک حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ بریں باعث است۔ ودیدہ ام کہ شمارا بر ران رست خود نشاندہ اندر و منصبے کہ آثار آں عنقریب عائد بشما شود مفوض شدہ۔ خانقاہ شمارا مبارک باد۔ حضرت شاہ صاحب کے انتقال کے بعد آپ قریباً نو سال تک مسندِ ارشاد پر ہے۔ اور طالبانِ خدا نے بکثرت آپ سے استفادہ کیا۔ اس عرصے میں آپ نے تلخی و سختی اور فقر و فاقہ جو اس طریقہ کا شیوہ پسندیدہ ہے بہت برداشت کیا۔
کرامات و تصرفات
(۱) ایک دفعہ بہلی میں آپ رامپور سے سنبل کو جارہے تھے پہلی منزل میں عشاء کے وقت دریا پر پہنچے وہاں کوئی ملاح نہ تھا آپ نے بہلی والے سے جو مشرک تھا فرمایا کہ دریا میں ہانگ دو۔ اُس نے آپ کی ہیبت سے دریا میں ہانک دی بعنایت الٰہی وہ صحیح و سالم دریا میں سے گزر گئی یہ دیکھ کر وہ مشرک اسلام لے آیا۔
(۲) مرزا طہماسب نے قلعہ میں آپ کی دعوت کی بہت سے شہزادے جمع تھے وہ بولے کہ ہم نے کسی بزرگ سے کرامت نہیں دیکھی آپ نے نعرہ مارا اور سب گر پڑے اور معتقد بن گئے۔
(۳) حکیم فرخ حسین نے آپ کی شان میں کلمہ نا ملائم نکالا۔ آپ نے غصہ میں فرمایا کہ تو اس کی سزا پائے گا۔ چنانچہ وہ متہم ہوکر خفیہ بھاگ گیا۔
(۴) میاں محمد اصغر کا بیان ہے کہ کبھی کبھی نمازِ تہجد مجھ سے فوت ہوجاتی تھی میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا۔ فرمایا کہ ہمارے خادم سے کہہ دو کہ تہجد کے وقت ہمیں یاد دلا دیا کرے۔ اُٹھا کر بٹھادینا ہمارا ذمہ ہے باقی تمہارا اختیار ہے چناں چہ ایسا ہی ہوا کہ گویا کوئی مجھے بٹھا دیتا ہے۔
(۵) آپ کے ایک مرید پر ایسا استغراق غالب ہوا کہ خلوت میں نماز کے وقت قبلہ کی پہچان نہ رہتی اُس نے مجبور ہوکر آپ سے عرض کیا آپ نے فرمایا کہ تحریمہ کے وقت میری طرف متوجہ ہوا کر میں تجھے قبلہ کی طرف متوجہ کردیا کروں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا کہ جب وہ تحریر کے وقت آپ کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ ظاہر ہوکر قبلہ کی طرف اشارہ کردیتے اور یہ اتفاق مدتوں تک رہا۔
(۶) وہی مرید صاحب استغراق بیان کرتا ہے کہ ایک مرتبہ اہلِ خانقاہ میں جھگڑا پیدا ہوا۔ اور بہت شور و شغب ہوا رات کے وقت میں نے خوب دیکھا کہ جناب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم خانقاہ میں تشریف لائے اور خفا ہوکر فرماتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص کو خانقاہ سے نکال دو اِس خوف سے کہ کہیں میرا نام بھی نہ لے اُس مرید کی آنکھ کھل گئی۔ یہ حیران و پریشان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اُس وقت تہجد کے واسطے وضو فرما رہے تھے اُس کو دیکھ کر فرمایا کہ تم کیوں ایسے گھبراتے ہو۔ تمہارا نام تو نہیں لیا نمازِ صبح کے بعد آپ نے اُن اشخاص کو جن کا نام جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا خانقاہ سے نکال دیا۔
وصال مُبارک:
آپ ۱۲۴۹ھ میں حرمین شریفین کی زیارت کے ارادے سے روانہ ہوئے اور اپنے فرزند دوم عبد الغنی کو ساتھ لے گئے اور فرزند اکبر شاہ کو اپنی جگہ چھوڑ گئے رمضان شریف بمبئی میں گزرا۔ ذی الحجہ کی دوسری یا تیسری تاریخ کو آپ مکہ مشرفہ میں پہنچے وہاں کے تمام مشائخ و مفتی و قاضی بڑی تعظیم سے پیش آئے وہیں ماہ محرم ۱۲۵۰ھ میں مرض اسہال و تپ عارض ہوا۔ قدرے افاقہ ہوا تو مدینہ منورہ کا قصد کیا ماہ ربیع الاول میں وہاں تھے حلقہ میں اِس قدر لوگ جمع ہوتے تھے کہ مکان بھر جایا کرتا تھا۔ غرض حرمین شریفین کی زیارت کے بعد آپ ۲۲ رمضان کو شہر ٹونک میں پہنچے نواب وزیر الدولہ نے آپ کی بڑی تعظیم و تکریم کی عید کے دن سکرات موت کا آغاز ہوا فرمایا کہ آج نواب گھر نہ آئے دنیا داروں کے آنے سے ظلم و کدورت محسوس ہوتی ہے نماز ظہر کے بعد آپ نے حافظ کو یٰسین شریف پڑھنے کا حکم دیا۔ جب حافظ تین بار پڑھ چکا تو فرمایا کہ بس کرو۔ اب فرصت کم ہے آپ نے ظہر و عصر کے درمیان ہفتہ کے روز عید کے دن ۱۲۵۰ھ میں انتقال فرمایا۔ انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون۔ غسل و نماز جنازہ کے بعد آپ کا صاحبزادہ عبد الغنی نعش مبارک کو تابوت میں رکھ کر دہلی لے آیا اور چالیس روز کے بعد توبوت سے نکال کر حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ کے پہلو میں سپردِ خاک کردی۔ نعشِ مبارک میں ذرا بھی تغیر نہ آیاتھا۔
ہدایۃً الطالبین:
آپ نے بعضے یاروں کی فرمائش سے سلوک مجددیہ میں ایک رسالہ بزبان فارسی لکھا ہے جس کا نام ہدایۃً الطالبین ہے۔ یہ رسالہ آپ نے اپنے پیر دستگیر حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضرت نے مطالعہ کے بعد اِس رسالہ کے اخر میں چند سطریں بطور تقریظ لکھیں جو اختتام پر بطور تبرک درج رسالہ کردی گئیں اس تقریظ میں حضرت نے اظہار مسرت کیا ہے اور صاحب رسالہ کے حق میں دعائے خیر کی ہے۔ بعد ازاں تحریر فرمایا ہے کہ ’’یہ جو کچھ لکھا ہے موافق علوم و معارف حضرت مجدد کے ہے۔ خدا کریم زیادہ سے زیادہ کرے۔‘‘ اس رسالہ کا اردو ترجمہ بھی ۱۹۰۳ء میں مطبع مجتبائی دہلی میں چھپ چکا ہے یہی رسالہ فی الحال طریقہ مظہر یہ مجددیہ کا دستور العمل ہے۔ مکہ معظّمہ میں بعضے بزرگوں نے اِس کو عربی میں کردیا ہے۔ جو عرب میں مروج ہے۔
(ضمیمہ مقامات مظہری مولفہ شاہ عبد الغنی مجددی۔ در المعارف مولفہ شاہ رؤف احمد)
(مشائخ نقشبند)