شاہ بہرام چشتی

حضرت شاہ بہرام چشتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہ کے مریدان با صفا میں سے تھے علوم ظاہری اور اسرار حقیقت ازبر کرنے کے بعد خرقۂ خلافت ملا اور قصبہ برنادہ میں قیام پذیر ہوئے چونکہ قصبہ بیدولی دریائے جمنا کے کنارہ پر واقعہ ہے۔ اتفاقاً سیلابی موسم میں دریا کا رخ اس قصبہ کی طرف ہوگیا یہ قصبہ سیلاب کی زد میں آیا تو وہاں کے باشندے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس قصبے کے تمام لوگ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے ان سے ایک خط شیخ بہرام کے نام لے آئے آپ نے شیخ بہرام کو لکھا۔ اپنے قصبہ سے نکل کر قصبہ بیدولی میں چلے جائیں اور دریا جمنا کو روک دیں۔ اور اس وقت تک وہاں قیام کریں جب تک دریا اپنا رُخ نہیں بدل لیتا آپ پیر و مرشد کے حکم سے بید ولی پہنچے اور دریا کے کنارے پر کھڑے ہو کر اپنا عصاء گاڑ دیا اور کہا یہاں سے ہٹ جاؤ دریا آہستہ آہستہ اپنا رخ بدلتا گیا اور دو میل دور بہنے لگا۔ آپ اسی قصبہ میں قیام فر ما رہے تاکہ لوگوں کو کسی قسم کا خطرہ نہ رہے آپ نے زندگی بھر اسی قصبہ میں قیام کیا یہاں ہی وصال ہوا۔ آپ کا مزار لوگوں کے لیے دارالشفاء ہے جو بیمار ہوتا ہے ایک بار حاضر ہوتا ہے اور شفا پاتا ہے۔

سیر الاقطاب میں آپ کی ایک کرامت لکھی ہے کہ ۱۰۵۷ھ میں ظفر بیگ وال دہلوی نے ایک ہندو کو اس علاقہ میں مختار اراضیات مقرر کر دیا۔ وہ ہندو بڑا متعصب تھا۔ عام زمینوں کو سرکاری کھاتے میں لاتا جاتا وہ اس قصبہ میں پہنچا تو خانقاہ کے ساتھ دی ہوئی عام زمین کو سرکاری زمین قرار دیگیا حتٰی کہ خانقاہ کی خاص زمین کے لیے بھی سرکاری کارندوں کو حکم دیا کہ جریب لاکر اسے بھی سرکاری تحویل میں لایا جائے سرکاری کارندے اس زیادتی سے ہچکچاتے تھے۔ خود گھوڑے پر سوار پاس کھڑا ہوا اور کارندوں کو حکم دیا کہ اس زمین کو جریب سے ناپواسی اثناء میں آپ کی خانقاہ کے مجاور بہت پریشان ہوئے ایک مجاور روضے کے اندر جاکر فریادی ہوا کہ حضرت! اس ظالم نے آپ کی دی ہوئی زمینیں قبضہ میں لے لی ہیں۔ اب خانقاہ کی خاص زمین بھی لینے کے درپے ہے امداد فرمائیے کہتے ہیں وہ مجاور قبر سے لیٹا فریاد کر رہا تھا کہ باہر شور و غل ہوا باہر نکلا دیکھا تو ہندو گھوڑے کی زین سے اُچھلا اور ہوا میں معلق ہوا۔ لوگ بے بسی کے عالم میں شور و غل مچا رہے ہیں مجاور یہ صورتحال دیکھ کر واپس قبر پر آیا اور عرض کی حضور اس خبیث کو زمین پر گرائیں وہ زمین پر گرا اس کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور باز و پشت کے پیچھے بندہ گئے وہ زمین پر تڑپ رہا تھا  اور اس کے رشتہ دار فریاد کر رہے تھے آخر وہ مجاوروں کے پاس حاضر ہوئے اسی مجاور نے قبر پر آکر دوبارہ سفارش کی اس کو اندر لائے تو وہ شفایاب ہوا۔ آئندہ کے لیے اس نے خانقاہ کی زمین کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا بلکہ شام قصبہ کی زمین پر کبھی سرکاری قبضہ کا خیال تک نہ لایا۔

شیخ بہرام رحمۃ اللہ علیہ ۸۵۴ھ میں فوت ہوئے آپ کا مزار قصبہ بیدولی میں دریائے جمنا کے کنارے ہے اور وہ ایک سو پچیس سال کی عمر میں فوت ہوئے۔

چو شد از دنیا بفردوس بریں
حضرت ہرام شیخ اولیا
سال وصل اے شد از سرور عیاں
زبدۃ آفاق قطب الاتقیاء
۸۵۴ھ

تجویزوآراء