حضرت شاہ غلام رسول قادری

حضرت شاہ غلام رسول قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

(سولجر بازار قادری مسجد)

حضرت مولانا الحاج حافظ قاری غلام رسول قادری ۱۳۰۶ھ؍۱۸۸۶ء میں کراچی صدر میں مسجد قصابان سے ملحقہ مکان میں تولد ہوئے ۔

تعلیم و تربیت:

آپ کی تعلیم و تربیت خود آپ کے والد ماجد حافظ قاری علم الدین قادری کی زیر نگرانی انہی کے ’’مدرسہ العلمیہ قادریہ ‘‘متصل مسجد قصابان صدر میں ہوئی آپ نے علوم دینی کے ساتھ ساتھ تجوید و حفظ قرآن کی تکمیل کی۔ اپنے والد کے علاوہ بھی آپ نے جید قراٗ و علما ء دین سے قرآن کی تعلیم حاصل کی ۔ آپ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’میں اٹھارہ سال تعلیمابہت بڑے جید قاری نظام محمد صاحب سے قرآن مجید پڑھتا رہا ہوں ۔ ‘‘

منازل سلوک کی تکمیل اور اکتساب علم کی خاطر آپ نے نہ صرف سارے ہندوستان بلکہ بیرون ہند بھی تمام بلاد اسلامیہ کا سفر فرمایا ۔ آپ اپنے عہد کے مشہور علمائے کرام اور صوفیائے عظام کے فیض صحبت سے بہر ہ ور ہوئے اور ان سے فیوض ظاہری و باطنی حاصل فرمائے ۔ ان میں سے چند خاص قابل ذکر اسماء گرامی یہ ہیں :

٭     اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان قادری فاضل بریلوی

٭     مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان بریلوی

٭     حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی درگاہ گولڑہ شریف

٭     حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی درگاہ سیال شریف

٭     مبلغ اسلام حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی قادری ( والد علامہ شاہ احمد نورانی)

٭     فقیہ اعظم حضرت خواجہ علامہ مفتی محمد قاسم مشوری درگاہ مشوری شریف ( لاڑکانہ )

 ٭     حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی مجددی

٭     مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالحامد بدایونی قادری                        کراچی

٭     حضرت بابا ولایت علی شاہ ملیر کراچی

٭     حضرت پیر محمد فاروق رحمانی چشتی ک                         کراچی

٭     حضرت سید پیر عبدالرحمن گیلانی نقیب اشرف درگاہ قادریہ بغداد شریف

٭     صدر الافاضل علامہ سید محمدنعیم الدین مراد آبادی

٭     حکیم الامت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی

٭     شیخ الفضیلت حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی قادری ( رحمہم اللہ تعالیٰ )

حج بیت اللہ کے سفر کے دوران آپ نے مشہور عالم و صوفی بزرگ حضرت مولانا عبدالحق محدث الہ آبادی مہاجر مکی علیہ ( مصنف الدر المنظم فی حکم مولد النبی الاعظم ) کی صحبت سے اکتساب فیض کیا۔

بیعت و خلافت :

آپ نے جوانی میں روضہ نبوی ﷺ کے زیر سایہ ’’باب الرحمت ‘‘میں حضرت مولانا عبداللطیف قادری مہاجر مدنی ؒ سے سلسلہ قادریہ چشتیہ میں بیعت ہوئے جو کہ ہندوستان سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ میں مقیم ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں اپنے خاندانی بزرگ، ماموں و خسر حضرت صوفی سائیں عبدالغفار قادری قلندری ؒ ( متوفی ۱۹۳۸ئ) سے بھی آپ نے حصول برکت کے لئے بیعت کی۔ ( اکابرقادریہ ) اور صوفی صاحب تیرہ سال کی عمر میں سندھ کے ممتاز و نامور علمی و روحانی خانوادہ ’’سادات راشدیہ‘‘کے ایک بزرگ حضرت پیر سید محمد بقا شاہ راشدی ( درگاہ ٹھلاء شریف ، اسٹیشن باقرانی ضلع لاڑکانہ ) سے سلسلہ عالیہ قادریہ میںبیعت ہوئے۔

        ( عرفان غنی ص ۳ مطبوعہ ادارہ محراب و منبر کراچی ۱۹۸۷ئ)

مسجد قادریہ کی بنیاد :

مولانا قاری غلام رسول قادری نے قیام پاکستان سے قبل کراچی کے علاقے موجودہ سولجر بازار میں ’’قادری مسجد‘‘ کی بنیاد ڈالی ۔ اس مسجد میں آپ نے امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دیئے اور سلسلہ قادریہ کی تعلیمات کے حوالے سے خانقاہی نظام بھی قائم کیا۔

تحریک پاکستان :

کے موقع پر قاری غلام رسول نے قیام پاکستان کے حوالہ سے بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔ آپ نے ہم عصر مقتدر علماء و مشائخ اہل سنت کے ساتھ مل کر عوام میں دینی و روحانی شعور بیدار فرمایا اور دینی جلسوں کی صدارت فرماتے ہوئے تحریک پاکستان کو بھر پور تقویت فراہم کی۔

۱۲، ۱۳اکتوبر ۱۹۴۶ء میں ’’سنی کانفرنس کراچی ‘‘ آپ ہی کی صدارت میں منعقد کی گئی تھی ۔ جس میں پاکستان بنانے پر زور دیا گیا ۔ ( خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس ۳۲۳ مطبوعہ گجرات )

تحریک پاکستان کے سلسلہ میں ’’آل انڈیا سنی کانفرنس ‘‘ مراد آباد کی ایک شاخ ۱۹۴۵ء میں کراچی شہر میں ’’جمعیت عالیہ سنیہ ‘‘ کے نام سے قائم ہوئی جس کی تشکیل عالمی مبلغ اسلام شیخ طریقت حضرت علامہ الحاج محمد عبدالعلیم صدیقی قادری میرٹھی نے کی۔ قاری غلام رسول قادری ’’جمعیت عالیہ سنیہ ‘‘ کے صدر منتخب ہوئے اور شہر کراچی کے اکابر علماء و مشائخ حضرات ، اور عوام اہل سنت نے شمولیت اختیار کی۔

۱۹۴۳ء میں کراچی کے ’’سندھ مدرسۃ الاسلام ‘‘ کی تقریب میں جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح فرمارہے تھے حضرت قاری غلام رسول قادری کو تلاوت کے لئے مدعو کیا گیا تھا ۔ جلسہ میں راجہ صاحب محمود آباد بھی شریک تھے۔ تلاوت شروع ہوتے ہی قائداعظم اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے جس کے ساتھ ہی تمام حاضرین جلسہ بھی کھڑے ہوگئے ۔ اس کے علاوہ بھی حضرت قاری غلام رسول قادری نے مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے استحکام اور بقا کے لئے متعدد دعائیہ اشعار تخلیق فرمائے تھے جنہیں آپ اکثر جمعہ کے خطبوں اور دینی تہواروں کے مواقع پر پڑھا کرتے تھے۔ چند دعائیہ اشعار درج ذیل ہیں :

یاالہٰی کر مدد اسلام کی ایمان کی

ہو حکومت مستقل آزاد پاکستان کی

لفظ ’’پاکستان‘‘ کی یارب سمجھ بھی کر عطا

اصل پاکستان عمل ہے مرد پاکستان کا

تنظیم و تبلیغ:

اوائل عمر ہی سے آپ کو دینی تعلیم کا ذوق اور فقر و درویشی سے شغف رہا ۔ آپ نہ صرف مختلف زبانوں پر مہارت تامہ رکھتے تھے بلکہ ایک شعلہ بیان خطیب ، بہترین نعت گو شاعر تھے ۔ آپ کی تمام عمر مواعظہ حسنہ اور تبلیغ و اشاعت دین میں گذری ۔ آپ نے عہد جوانی میں فرئیر اسٹریٹ صدر کراچی میں ’’انجمن حزب الاحناف ‘‘کی بنیاد ۱۳۳۲ھ بمطابق ۱۹۱۳ء میں رکھی جس کے آپ صدر تھے۔

جمعیت الاحناف کے تحت ہر ماہ جامع مسجد قصا بان ( صدر کراچی) میں ایک جلسہ کا انعقاد ہوتا تھا اسی طرح جمعیت الاحناف کے صدر دفتر میں سالانہ عظیم الشان جلسہ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا جس میں اندرون و بیرون شہر سے علماء اہل سنت و عمائدین ملت بھی مدعو کئے جاتے ۔ جلسہ میں نعرہ تکبیر و رسالت، تسبیح و تحمید استغفار و اذکار کاشغل صلوۃ و سلام کا ورد ، آیات قرآن مجید کی تلاوت اور مختصر وعظ اور وعظ سے قبل اور بعد نعت خوانی اور اختتام پر سلام و قیام بھی قواعد و ضوابط میں شامل تھا۔

آپ کے تبلیغ دین کے ذرائع میں بڑے بڑے مذہبی تہوار مثلا میلاد النبی ، معراج النبی ﷺ شب برات ، شب قدر ، گیارہویں شریف اور ہفتہ وار حلقہ ذکر شریف شامل تھے۔ علاوہ ازیں آپ روزانہ بعد نماز عصر خصوصی طور پر حاضری سے خطاب فرماتے تھے۔

محرم الحرام کی چاند رات سے عاشورہ تک آپ حضور اکرام ﷺ سے لے کر خلفائے راشدین ، اہل بیت عظام خصو صا حسنین کریمین شہدائے کربلا رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے شہادت کے واقعات بیان فرماتے تھے۔

اولاد:

آپ کی اولاد میں مولاناعلم الدین قادری ( فروری ۱۹۸۶ء ) آپ کے بعد سجادہ نشین مقرر ہوئے اور کراچی میں نمایاں شہرت حاصل کی۔ انہوں نے بھی مواعظ حسنہ پر مشتمل نثر و نظم میں درج ذیل کتا بچے و رسائل تالیف فرمائے ہیں : تحفہ علمی ، تذکرہ کرہ محرم ، قادری نامہ ( حصہ اول و دوئم ) تذکرہ قادریہ علمیہ تذکرہ حسینی ، چشتی شمامہ ، معراج حسینی وغیرہ

تصنیف و تالیف :

آپ نے تصانیف میں زیادہ تر نثر کی بجائے نظم کو ترجیح دی ہے اور آپ کی زندگی میں متعدد منظوم رسائل شائع ہوئے ہیں ، چند تصانیف کے نام درج ذیل ہیں :

٭     فیض علمی ۔ اپنے والد ماجد کے حالات رقم فرمائے مطبوعہ ۱۳۳۳ھ؍۱۹۱۵ء

٭     گلدستہ غوثیہ ۔ فیضان غوث اعظم ۔ فیضان معینی ۔ افضال سرمدی و اجلال محمدی

٭     گل یا زدہ صد برگ ۔ تحفہ عید الضحیٰ ۔ بہار بے خزاں ۔ تحفہٗ زیارات ہدیہ ملاقات ( اول دوم ) مجموعہ فسانہ قوم ۔ تحفہ رجبی شریف ۔ نذر حسینی وغیرہ

وصال :

آپ کا وصال طویل علالت کے بعد ۱۸، جمادی الاول ۱۳۹۱ھ بمطابق ۱۳، جولائی ۱۹۷۱ء بروز منگل تقریبا ساڑھے آٹھ بجے شب ۸۵ سال کی عمر میں ہوا ۔ بروز بدھ بعد نماز ظہر مریدین و معتقد ین اور علماء و مشائخ کی موجودگی میں کراچی کے مشہور پارک نشتر پارک کے میدان میں حضرت مولانا سید محمد یوسف عزیز الملک سلیمانی کی اقتداء میں آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی ۔ آپ کا مزار شریف آپ کی قائم کردہ ’’قادری مسجد‘‘ ( سولجر بازار کراچی ) کے احاطہ میں مرجع عام و خاص ہے۔

( ماخوذ: سندھ کے اکابرین قادریہ کی علمی و دینی خدمات ص ۳۹۲)


(انوارِ علماءِ اہلسنت )

تجویزوآراء