حضرت شاہ معروف خوشابی

حضرت شاہ معروف خوشابی رضی اللہ عنہ

اوصافِ جمیلہ

آپ غوث الدنیا والدین، قطب الاسلام و المسلمین، قاسم انوارِ ربانی، مَوردِ الطافِ یزدانی، سید العرفا، رئیس النجبا، شاہبازِ اوچ چشتیہ، آفتابِ چرغ قادریہ، سلطان العارفین، امام الواصلین، صاحبِ ترک و تجرید و عشق و محبت و وجد و سماع تھے، حضرت مخدوم سید مبارک حقانی گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے اجلہ خلفا سے تھے۔

نام و نسب

آپ کا نام نامی محمد معروف، لقب مخدوم، مجمع البحرین، خطاب شاہ صاحب، مشہور نام شاہ معروف تھا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ، کنز الرحمت ۱۲]

آپ فاروقی چشتی النسل تھے والد بزرگوار کا نام شیخ آدم تھا، ابنِ شیخ موسیٰ بن شیخ مودود بن شیخ بدر الدین سلیمان بن شیخ الاسلام خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر اجودھنی رحمۃ اللہ علیہ بن شیخ جمال الدین سلیمان بن شیخ شعیب بن شیخ احمد بن شیخ یوسف بن شیخ محمد بن شیخ شہاب الدین علی بن شیخ احمد المشہور بہ فرخ شاہ بادشاہِ کابل بن شیخ نصیر الدین بن شیخ محمود المشہور بہ ریسمان شاہ بن سامان شاہ بن سلیمان بن مسعود بن عبد اللہ واعظ الاصغر بن عبد اللہ واعظ الاکبر بن ابو الفتح بن اسحاق بن قطب العالم سلطان ابراہیم بادشاہِ بلخ بن ادہم بن سلیمان بن ناصر بن حضرت عبد اللہ بن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہم۔ [۱] [۱۔ خزنیۃ الاصفیا جلد اول ص ۲۸۷ شرافت]

ولادت و تربیت

آپ کی ولادت با سعادت بستی چشتیاں نواحِ پاک پٹن میں ہوئی، اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کے آغوش میں تربیت پائی، اور علومِ ظاہری و باطنی سے کافی بہرہ حاصل کیا، اور طریق چشتیہ میں اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ سے ہی خلافت پائی مقاماتِ سلوک کو ابتدا سے انتہا تک طے کیا، بعد عطائے خلافت بہت عرصہ تک ترویج سلسلہ چشتیہ کرتے رہے، پھر وہاں سے با جازتِ روحانیت حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ خوشاب شریف کے جنگل میں موضع بولا کے قریب وارد ہوئے، اور اس علاقہ میں سالکوں کی دستگیری کرتے رہے، چندے جنگل میں قیام فرما کر پھر خوشاب میں سکونت پذیر ہوئے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲]

واقعۂ بیعت

اتفاقًا ۹۰۶ھ [۱] [۱۔ مناقبات نوشاہیہ ۱۲] میں حضرت شیخ المشائخ مخدوم سید مبارک حقانی گیلانی اوچی رحمۃ اللہ علیہ سیر و سیاحت فرماتے ہوئے خوشاب شریف شریف کے جنگل میں وارد ہوئے اُن کا آوازہ کرامت دور دور تک پھیل گیا، آپ بھی اُن کا شہر سُن کر زیارت کو گئے آگے وہ مراقبہ میں بیٹھے تھے، نورِ باطن سے آگاہ ہوکر سَر اُٹھایا، اور فرمایا اے معروف! شیر کے پنجہ میں ہاتھ نہ ڈالنا چاہیے، بہتر ہے کہ اس ہوش ربا جنگل سے چلے جاؤ، آپ چونکہ عاشق صادق تھے عرض کیا۔

ہر چہ بادا باد ما کشثی درآ ب اندا ختیم

 

گر بود  بیگانہ با ما شرط طوفاں آشناست

اُنہوں نے آپ کار سوخِ عقیدت معلوم کر کے نظر اٹھا کر دیکھا، آپ اُسی وقت بیہوش ہوکر گر پڑے، تین روز تک اسی حالت میں زمین پر پڑے رہے، جب افاقہ ہوا تو حضرت مخدوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بیعت ہوگئے، اور نسبتِ قادریہ حاصل کی۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا ۱۲ شرافت]

خلافت و اجازت

آپ چند روز ہی اپنے شیخ کی خدمت میں رہے، لیکن اس قلیل عرصہ میں وہ حقائق و معارف پائے جو سالکوں کو کئی سال کی ریاضت سے بھی بمشکل حاصل ہوسکتے ہیں۔

آنجا کہ زاہدان ہزار اربعیں رسند

 

مستِ شرابِ عشق بیک آہ میر سید

روز بروز آپ کا کمال و عروج بڑھتا گیا،آخر حضرت مخدوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خلعتِ خلافت و اجازتِ طریقہ قادریہ سے مشرف فرمایا، اور ہدایت خلق اللہ کے واسطے سیر و سیاحت کا حکم فرمایا، اور چند نصیحتیں بھی فرمائیں، جن کا بیان پیش ازیں اُن کے ذکر میں ہوچکا ہے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲]

عطائے خطاب شاہی

جس وقت آپ وداع ہونے لگے تو حضرت مخدوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ پر نگاہِ جلالیت ڈالی، تو اُس وقت آپ کا بند بند ایک دوسرے سے جدا ہوگیا پھر جب آپ اصلی حالت پر مجسم ہوئے تو اُنہوں نے فرمایا اے فرزند! آگے تم شیخ معروف تھے، آج ہم نے تم کو شاہ معروف کر دیا ہے، اور فقیر کو اس وقت شاہِ کہلانا جائز ہے، جب اِس مرتبہ پر پہنچے، اُسی دن سے ہر کہ ومہ آپ کو شاہ صاحب کہنے لگے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲]

بی بی صاحبہ معتکفہ کو مستفیض کرنا

بوقتِ رخصت آپ کو حضرت مخدوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ فلان غار [۱] [۱۔ وہ غار موضع نلی ناڑی کے قریب تھی ۱۲ شرافت] میں ایک عورت چلہ کش ہے، اُس کو جا کر چلہ سے نکالو، آپ اُس غار مسکن الابرابر کی طرف تشریف لے گئے، اور اُس کے دروازہ سے خس و خاشاک اپنے ہاتھ سے ہٹائے، دیکھا کہ بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ مراقبہ میں بیٹھی ہیں، دنیا و اہلِ دنیا کی کچھ خبر نہیں، جب آپ کی آواز اُن کے کان میں پہنچی تو سر اٹھا کر دیکھا آپ بحفاظتِ تمام اُن کو غار سے نکالا، اور دو تین قطرے دودھ کے ان کے حلق میں ڈالے، اور روئی میں لپیٹا، چند لمحہ کے بعد بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ کے وجود میں وجد و حال پیدا ہوا، ضعف و ناتوانی جاتی رہی، چونکہ ان کو از سر نو قوائے جسمانی نے عود کیا، آپ نے اُن کا نام بی بی جیونی یا بی بی جیوندی رکھا، اور ایک ہی نظر سے بمقامِ علیا فائز کر دیا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲]

سیر و سیاحت

آپ نے حسب الارشاد پیر روشن ضمیر کے بار گوند لاں کا اکثر سیر فرمایا، اور آپ کی وضع یہ تھی کہ آبادی میں کم جاتے، اور جنگل میں رہنے کو پسند فرماتے تھے، بر لغت تجرید سیاحت فرماتے، کسی کو ساتھ نہ رکھتے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲]

عادات و خصائل

آپ یاد الٰہی میں ہر دم مستغرق رہتے، جس طرف تشریف لے جاتے، آپ کا عام شہرہ ہوجاتا، اور خلقت کا ہجوم آپ کے گرد جمع ہوجاتا، آپ ہر چند سترا حوال میں کوشش کرتے مگر آفتاب کا چھپنا محال ہے، ندائے غیبی سے لوگوں کو اطلاع ہوجاتی، بیشمار لوگ آپ کے فیض سے مستفیض ہوئے، اگر بیمار پر نظر کرتے تو شفا پا جاتا، اگر گدا پر نظر کرتے تو وہ بادشاہ ہوجاتا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲]

سماع و وجد

آپ ابتدائی زمانہ میں بسبب توجہ پیرانِ چشت اہلِ بہشت کے سماع سنتے اور وجد کرتے تھے، پھر قادری سلسلہ میں داخل ہوکر بھی سماع کو ترک نہ کیا۔ [۱] [۱۔ سبیلِ سلسبیل ۱۲ شرافت]

ف     اسی لیے آج تک خاندان قادریہ نوشاہیہ میں سماع و سرود مرفوج ہے ورنہ دوسرے قادریہ فقیر اس سے مجتنب رہتے ہیں۔

ایثار

ایک رات چور آپ کے مکان میں گھس آیا، اور کچھ اسباب گٹھڑی باندھ کرلے جانے لگا تو اندھا ہوگیا، ہاتف سے ندا آئی کہ اسباب رکھ دے اور چلا جا، اُس نے گٹھڑی رکھ دی اور بینا ہوکر چلا گیا، دوسری رات کو حضور نے وہی گٹھڑی اٹھالی اور اس چور کے پاس لے گئے، معذرت کی اور فرمایا کہ کل ساری رات تم نے محنت کی، اور خالی ہاتھ آیا، یہ تمہاری اجرت ہے، ہم نے تجھ کو بخش دی، آپ کی بخشش اور خُلق کو دیکھ کر وہ تائب ہوا، اور مرید ہوکر کمال کو پہنچا۔

کرامات

آپ سے اکثر خوارق و کرامات ظہور میں آئے، از انجملہ۔

تصرّف فی القلوب

آپ ایک دن مسجد میں بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کر رہے تھے، ایک ہندو لڑکا جو آپ سے محبت رکھتا تھا، وہاں آگیا، اور سطورِ قرآن پر انگلی لگا کر کہنے لگا کہ یہ فلان حرف ہے، اور یہ فلان حرف ہے، آپ نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ اے فرزند! تم تو حافظ معلوم ہوتے ہو، آپ کے فرمانے سے وہ  اسی وقت کلام اللہ شریف کا حافظ ہوگیا، اور مسلمان ہوکر آپ کا مرید ہوا۔

نجات سفینہ

ایک مرتبہ آپ دریائے جہلم میں کشتی پر سوار تھے، اتفاقًا ہوائے مخالف سے کشتی ڈگمگانے لگی، غرق ہونے کے فریب تھی کہ اہلِ کشتی رونے لگے، اور آپ کے آگے ملتجی ہوئے کہ کشتی پار لگ جائے، آپ نے فرمایا ’’رضائے مولٰے از ہمہ اَولٰے‘‘ جب یہ الفاظ فرمائے تو ہوا ٹھیر گئی، اور کشتی بخیریت پارلگی۔

اعانتِ مرید

منقول ہے کہ آپ کا ایک مرید معمار کسی رئیس کا محل تعمیر کر رہا تھا، دفعۃً بلندی سے اس کا پاؤں پھسل گیا، اور نیچے گر پڑا، فورًا اس نے کہا المدد یا شاہ معروف، آپ اسی وقت وہاں پہنچ گئے، اور فرمایا کوئی فکر نہ کر تو بچ گیا ہے، یہ کہہ کر غائب ہوگئے، اور اُس کو کچھ چوٹ نہ آئی۔

ظہور چشمہ

ایک مرتبہ آپ سفر کرتے ہوئے کسی گاؤں سے گذرے، وہاں چند آدمی کنواں کھود رہے تھے، انہوں نے عرض کیا، شاہ صاحب! ہم کنواں بہت گہرا کھود کر معمول سے بھی زیادہ نیچے لے گئے ہیں، لیکن پانی نہیں آتا، آپ نے فرمایا کہ پانی تو اوپر رہ گیا ہے، اور تم پانی کی حد سے نیچے چلے گئے ہو، چنانچہ آدھا کنواں مٹی سے بھر وا دیا، اور اس پر عمارت شروع کروادی، اسی وقت کنواں پانی سےلبالب ہوگیا۔

سبحہ کا تعظیم کرنا

منقول ہے کہ ایک دن آپ طہارت خانہ میں غسل فرمانے لگے، اور اپنی سبحہ (تسبیح) وہیں کلی (منج) پر لٹکادی، جب غسل کر کے دیکھا تو صرف دَھاگا لٹکا ہوا تھا، آپ نے متعجب ہوکر کہا، تسبیح کے دانے کہاں گئے؟ دانوں نے بآواز بلند پوکارا، شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہم آپ کے شرم سے دھاگا میں غائب ہوگئے ہیں، چنانچہ پھر دانے ظاہر ہوگئے، اور تسبیح بدستور ثابت ہوگئی۔

قضائے معلق کا تبدیل کرنا

منقول ہے کہ موضع بھلا کریالہ کا ایک برہمن پنڈت دنی چند نام معہ اپنی اہلیہ مسمات نِدھاں کے حضور کی خدمت میں آیا، اور اولاد کے لیے التجا کی، آپ نے مراقبہ میں لوحِ محفوظ کا مطالعہ کیا، اور فرمایا کہ تمہاری قسمت میں کوئی لڑکا لکھا ہوا نظر نہیں آتا، اُنہوں نے نہایت تضرع و عاجزی سے عرض کیا یا شاہ! اگر قسمت میں لکھا ہوتا تو آپ کے پاس آنے کی کیا ضرورت تھی، آپ کو اُن کے حالِ زار پر رحم آگیا، اور بکمال شانِ محبوبی اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں دعا فرمائی، اور دو لڑکوں کی منظوری کر وا کے اُس پنڈت کو بشارت دی، چنانچہ اس کے گھر دو لڑکے پیدا ہوئے۔

واقعہ عجیبہ

ایک دفعہ آپ سفر میں تھے، راستہ میں ڈاکو ملے، اُنہوں نے دولت کے شبہ سے آپ کو قتل کر کے دریائے جہلم میں ڈبو دیا، جب وہ آگے گذرے تو دیکھا کہ آپ زندہ و سلامت دوسرے کنارہ پر کھڑے ہیں، چنانچہ وہ سب سرنگون ہوئے۔

آگ کا سرد ہوجانا

ایک مرتبہ بحالتِ جذب جلتی آگ میں بیٹھ گئے، اور تلاوتِ قرآن مجید کرنے لگے، آگ نے کچھ گزند آپ کو نہ پہنچایا۔

تسخیر حیوانات

منقول ہے کہ وحوش و طیور اور چہار پائے، درندے اور جنگلی جانور سب آپ کے مطبع و مسخر تھے۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲]

پیشینگوئی

منقول ہے کہ جس وقت آپ نے حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کو بیعت کیا تو اُن کو خلافت و اجازت دینے کے وقت فرمایا اپنے دائیں طرف دیکھو، جب دیکھا تو ایک نوجوان بلند قامت حسین و جمیل نورانی وجود نظر آیا، حضور نے فرمایا کہ یہ سب امانت اسی شخص کی ہے، اس کا نام حاجی محمد نوشہ گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ ہوگا، اور تم سے فیضیاب ہوگا۔ [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲]

خلفائے عظام

آپ کے صلبی اولاد نہیں ہوئی، روحانی اولاد یعنی خلفائے کرام بہت تھے۔ از انجملہ۔

۱۔      حضرت سخی شاہ سلیمان نوری بھلوالی رحمۃ اللہ علیہ۔

اِن کا ذکر آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۲۔     حضرت شیخ عبد اللہ المعروف میاں منگو قریشی بھلوالی رحمۃ اللہ علیہ۔

یہ بزرگ نہایت عابد پاک طینت درویش مرد تھے، سخاوت و شجاعت میں جمیل تھے مسافروں کی خدمت کیا کرتے، اپنے شیخ کے نہایت مطبع فرمان تھے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲] ان کی قبر بھلوال شریف گورستان سلیمانیہ میں ہے، فقیر شرافت عافاہ اللہ زیارت سے مشرف ہوچکا ہے۔

ان کے چار بیٹے تھے۔ ۱۔ حضرت شیخ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ۔ ۲۔ شیخ محمد عابد رحمۃ اللہ علیہ، اِن کے دو بیٹے شیخ موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ حسین رحمۃ اللہ علیہ نام تھے، ۳۔ شیخ سلطان ۴۔ شیخ خدایا رحمۃ اللہ علیہ ۳۔ حضرت عبد اللطیف رحمۃ اللہ علیہ ان کے سلسلہ فقر میں مولوی حاجی حافظ حکیم سید عبد الحق شاہ محدث ہمدانی قصور میں اس وقت بعمر چوراسی سال موجود ہیں۔ [۱] [۱۔ سید عبد الحق شاہ مرید اپنے والد سید شاہ ولایت (متوفی ۹؍ شعبان ۱۳۲۶ھ) کے وہ مرید اپنے والد سید شاہ چراغ (متوفی ۲۳؍ ربیع الاول ۱۳۰۵ھ) کے۔ وہ مرید اپنے والد سید کامل شاہ کے۔ وہ مرید اپنے والد سید زاہد شاہ بن قاسم شاہ (متوفی ۱۲۱۸ھ مادۂ تاریخ الرضوان علیک) کے، وہ مرید شاہ منور کے۔ وہ مرید حضرت سید عبد اللطیف کے رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ شجرہ سید مبارک علی شاہ بن عبد الحق شاہ نے ذکر خیر میں تحریرکیا ہے۔ میرے خیال میں سید زاہد شاہ اور سید عبد الطیف شاہ کے درمیان چند اسماء متروک ہیں۔ شرافت]

۳۔     حضرت سید شاہ محمد شیرازی شاہپوری رحمۃ اللہ علیہ

المعروف شاہ محمد روڑا خلف الصدق سید شمس الدین بن سید شیر علی ترکمانی بن سید بہاؤ الدین بن سید علاؤ الدین بن سید رکن الدین بن سید امیر امجد بن سید امام الدین بن سید جلال الدین بن سید منصور بن سید نظام الدین بن سید خلیل اللہ بن سید حبیب اللہ بن سید خلیل اللہ بن سید شمس الدین بن سید عبد اللہ بن سید نور الدین بن سید کمال الدین بن سید اسد اللہ بن سید خسرو بن سید حارث بن سید ابراہیم بن سید ابو طاہر بن سید حسین بن سید علی الحارضی بن سید محمد مامون دیباج بن حضرت امام جعفر صادق رضوان اللہ علیہم۔

اِن کے آبا و اجداد شیراز سے ملک پنجاب میں آئے، اور قصبہ شاہ پور آباد کیا، اِن کے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کا روضہ بھی شاہ پور میں شرقی جانب ہے، بڑے غیور صاحب جذب بزرگ تھے، جو کوئی صاحب باطن فقیر اس علاقہ میں آتا، اس کا فیض سلب کر لیتے ہزاروں کی تعداد میں ان کے پاس ملنگ رہا کرتے تھے، نذرانہ اِن کا گائے اور بکری ہوا کرتی تھی، یہ حضرت بی بی جیونی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ کے منہ بولے بیٹے تھے، [۱] [۱۔ رسالہ احمد بیگ ۱۲ شرافت] اِن کا روضہ شاہپور میں مغربی جانب ہے۔

اِن کے تین بیٹے تھے۔ ۱۔ سید کبیر رحمۃ اللہ علیہ جو روضہ میں ہی مدفون ہیں۔ ۲۔ سید پیر و شاہ رحمۃ اللہ علیہ اِن کے فرزند پیر سید شاہ رحمۃ اللہ علیہ ساکن چوہا تھے، جن کا میلہ دھوم دھام سے لگتا ہے، ۳۔ سید جمال رحمۃ اللہ علیہ۔

سید شاہ محمد شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد بہت ہے، اور جاگیر دار ہیں، زمانہ حال میں قبر پر قمر علی نام شیعہ ملنگ جاروب کش ہے، روضہ کے پاس مسجد اور کنواں بھی ہے، راقم الحروف فقیر شرافت عفا اللہ عنہ بھی زیارت سے مشرف ہوا ہے۔

۵۔     حضرت شیخ مہر علی رانجہہ رحمۃ اللہ علیہ

گوشہ نشین رہا کرتے تھے، قبر موضع چاوہ ضلع سرگودھا میں ہے۔

۶۔     حضرت بی بی بھاگ بھری صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ

یہ حضرت سخی بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ تھیں، سخاوت و کرامت میں لاثانی تھیں، فقیروں و درویشوں کو اکثر طعام پکا کر کھلایا کرتیں، ایک مرتبہ ایک سیر دودھ میں نصف پاؤ چاول پکا کر چالیس (۴۰) ملنگوں کو کھانا کھلایا، ان کے سیر ہوجانے کے بعد بھی کچھ کھیر بچ رہی۔ [۱] [۱۔ تحائف قدسیہ ۱۲ شرافت]

۷۔     پنڈت دُنی چند برہمن

موضع بھلا کر یالہ میں سکونت رکھتے تھے۔

۸۔     مائی نِدھاں

یہ پنڈت دُنی چند کی اہلیہ تھیں۔

مدحیات

آپ کی تعریف میں کئی بزرگوں نے نظمیں لکھی ہیں، یہاں صرف مولانا محمد اشرف فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک غزل لکھی جاتی ہے۔

غزل

شاہ معروف آنکہ زاواد نے ست افسربرسرش
شد زراہِ لطف غوّاص دود ریائے محیط
چوں مسیحا مید ہد مردہ دلاں را زندگی
محو باشد ہر زماں از مستی جامِ الست
مقتدائے اہل ایقاں شاہِ تختِ معرفت
صد سیا دل راکند روشن زنورِ ایزدی
ہر کہ شد اشرف، غلامِ خاندانِ قادری

 

خلعتِ بجنتِ فنائے راست آمد در برش
بگذرد از ساحِل عرش معلے افسرش
زیر لبہاہست از یادِ الٰہی کوثرش
ساقی وحدت دہد ہردم لبالب ساغرش
زیرِ حکمش عالمِ لاہوت باشد کشورش
ہست از عینِ عنایت ایں نگاہِ کمترش
ہر قدم در راہِ حق باشد چو حجِ اکبرش[۱]

[۱۔ کنز الرحمت ص ۱۳]

تاریخِ وفات

حضرت مخدوم شاہ معروف چشتی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بتاریخ دوشنبہ دھم (۱۰) محرم الحرام ۹۸۷ھ نو سو ستاسی ہجری [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا ۱۲] مطابق ۸ مارچ ۱۵۷۹ھ ایک ہزار پانسو اُناسی [۱] [۱۔ تقویم ہجری و عیسوی کی رُو سے ۱۰؍ محرم ۹۸۷ھ کو سوموار کا دن اور ۸؍ مارچ ۱۵۷۹ء اور پھگن ۱۶۳۶بہ تھا ۱۲ شرافت] عیسوی میں بعہدِ سلطنت سلطان ابو الفتح جلال الدین محمد اکبر بن ہمایوں بادشاہ ہوئی۔

مدفن پاک

آپ کا مزار مبارک موضع کھرولی متصل خوشاب میں ہوا۔ [۱] [۱۔ تذکرہ نوشاہی ۱۲] زمانہ دراز کے بعد دریائے جہلم کی طغیانی سے اکثر مزارات شہید ہوئے، تو آپ کی خانقاہِ معلے بھی شہر خوشاب شریف سے شمالی مشرق کی طرف ایک میل کے فاصلہ پر بَنی، الحال اُسی جگہ موجود ہے۔

خوشاب شریف

مولوی غلام محی الدین رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ پنجاب میں لکھا ہے کہ خوشاب مشہور شہر ہے، اور اس قلعہ کا بانی جعفر بلوچ تھا، دو ہزار گھر اور دو سو دکان اس میں ہے، فقیر شرافت عفا اللہ عنہ کہتا ہے کہ دو دفعہ دریائے جہلم نے یہ شہر بر باد کیا، اب تیسری جگہ آباد ہے، یہ آبادی ۱۲۸۲ھ / ۱۸۶۶ء کی ہے۔

ظہور ثانی

حافظ سلطان سکندر بن حافظ نور احمد قریشی خوشابی نے بیان کیا کہ جب شہر خوشاب دریا بُرد ہو رہا تھا تو ہمارے نانا صاحب شیخ سلطان محمود بن شیخ نوری حضوری رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت شاہ معروف صاحب رحمۃ اللہ علیہ خواب میں ملے، اور فرمایا کہ دریا قریب آگیا ہے، ہم کو پیچھے ہٹا کر دفن کرو، اُنہوں نے صبح کو قبر کھدوانی شروع کی، بہتیر کھدوایا لیکن صندوق کا کچھ پتہ نہ چلا، سب لوگ متحیر ہوئے، آخر اُنہوں نے دوگانہ نفل ادا کر کے حضور کی روح کی ایصال ثواب کیا، اور دعا مانگی، اسی وقت ایک سانپ جنگل سے دوڑتا ہوا آیا، اور مرقد منور سے ایک جانب سوراخ میں داخل ہوا، اُنہوں نے کہا اب یہاں سے کھودو چنانچہ اُس جگہ سے صندوق مل گیا، پاس ایک کوزہ تازہ پانی کا بھرا ہوا پڑا تھا، اور ایک طرف نئی تسبیح لٹک رہی تھی، یہ واقعہ ۱۲۸۲ھ کا ہے، اور عام لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

صاحبِ تحفۃ الابرار نے لکھا ہے کہ آپ کی زیارت بھی ہوئی، آپ کا وجودِ مسعود صحیح و سلامت تھا، چہرہ میں نورانی چمک ویسی ہی تھی، کسی طرح کا تغیر نہ تھا۔

تعمیر روضہ

پہلے آپ کی قبر شریف کچی چار دیواری میں محطوط تھی، ۱۳۴۳ھ میں شیخ فضل حسین صاحب بھلوالی نے بصرفِ زر کثیر مزار پر گنبد تعمیر کر وایا ہے، گنبدِ سبز رنگ زائرین کےلیے آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے، پاس مسجد پختہ اور چاہ اور بارہ دری مسافر خانہ بھی بنوایا ہے۔

خوشاب شریف کے تمام کنووں کا پانی تلخ ہے، لوگ دریا کا پانی پیتے ہیں، مگر درگاہِ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے چاہ کا پانی شیریں و خوشگوار بر آمد ہوا ہے۔

عُرس شریف

آپ کی درگاہ شریف پر ہر سال عاشورہ محرم کے دن عرس مبارک ہوتا ہے فقیر شرافت عافاہ اللہ بھی ایک دفعہ عرس پر شامل ہوا ہے۔

قطعہ تاریخ

از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفےٰ صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ

چو رفت از جہاں شاہِ معروف پیر
ز نو شاہی پیر پُرسی چو سال

 

خدایش عطا کرد جنت نعیم
وصالش بخوانی بہشتی کریم

منہ

رفت در عدن چوں ولی اللہ

 

گشت در اولیائے حق مسرور

منہ

سالِ ترحیل گفت نو شاہی

 

شاہِ معروف بود(۹۸۷) زاہد نور

منہ

ز دنیا رفت شاہ معروف زاہد

 

وصالش گفت ہاتف شیخ عابد (۹۸۷)

منہ

پیرِ من گشت در جناں مہتاب

 

سال و مدفن بخواں اغر خوشاب(۹۸۷)

منہ

رفت از اقر با چوآں مطلوب

 

سالِ ترحیل پاک خوش محبوب (۹۸۷)

منہ

قادری چوں گشت داخل در بہشت

 

گفت ہاتف سال وصلش فرد چشت (۹۸۷)

دیگر

از اسماء الحسنیٰ

ولی احسن الخالقین (۹۸۷)         ذاکر اللہ (۹۸۷)

ذاکر وکیل  (۹۸۷)                       نور خلاق  (۹۸۷)

نور خالق (۹۸۷)                  مؤخر عالم  (۹۸۷)

مؤخر اعلم (۹۸۷)                       مؤخر منان (۹۸۷)

(شریف التواریخ)

 

از آیت شریف۔   فیہ سکینۃ من ربکم (۹۸۷)

تجویزوآراء