حضرت شاہ نیاز احمد بریلوی

آپ حضرت شاہ مولانا فخر جہاں فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے اعلیٰ اور اعظم خلیفہ تھے بڑے صاحب راز دنیاز اور مالک سوزو گداز تھے عشق و محبت میں اپنی مثال آپ تھے علوم ظاہر و باطنی میں یگانہ روزگار تھے طالبان حق کو اللہ تک رسائی کرانا ان کے کمالات میں شامل تھا۔ شوق و ذوق کا گھوڑا میدان عشق میں دوڑاتے رہتے تھے آپ کی خانقاہ فیوض ربانی کا خزینہ اورانوار سبحانی کا مطلع تھا۔ ہزاروں سحر زدہ دل آپ کی دل جوئی سے خدا رسیدہ بن گئے اور سینکڑوں بے خبر اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے آپ کے والد بزرگوار کا اسم گرامی سید حاجی حکیم شاہ رحمت سرہندی قدس سرہ تھا۔ اسی طرح مولانا شریف بھی آپ کے ہم مشرب تھے۔ جب آپ کے والد کا انتقال ہوا تو آپ ابھی بچے ہی تھے آپ کی والدہ ماجدہ جو رابعۂ عصر تھیں نے اپنی نظروں میں بٹھایا اور اپنی زیر نگاہ تربیت دی پھر ظاہری و باطنی علوم کے لیے حضرت شاہ فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا حضرت مولانا فخر قدس سرہ نے بھی شاہ نیاز کو بڑی توجہ اور شفقت سے زیور تعلیم سے آراستہ کیا آپ سترہ سال تک ظاہری اور باطنی علوم کی تحصیل میں مصروف رہے آپ کو معقول منقول فروغ و اصول حدیث و تفسیر فقہ و منطق جیسے علوم مروجہ میں درجۂ کمال تک پہنچادیا۔ دستار فضیلت حاصل کرنے کے بعد انیس سال کی عمر میں بیعت کی چند برسوں میں باطنی علوم میں کمال حاصل کرنے کے بعد خرقۂ خلافت پایا۔ پھر حضرت پیر و مرشد کے حکم سے بانس بریلی کے خطہ میں روحانی تربیت کے لیے مامور ہوئے آپ نے وہاں پہنچ کر خلق خدائی کی بڑی راہنمائی کی بے پناہ لوگ آپ کے حلقۂ ارادت میں آئے دور دراز کے علاقوں سے آکر لوگ آپ سے بیعت ہوتے اسی طرح آپ کے خلفاء بھی ملک کے مختلف علاقوں میں پھیلنے لگے ایک وقت آیا کہ آپ رام پور چلے گئے اور وہاں حضرت شاہ عبد اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوکر سلسلہ قادریہ میں داخل ہوئے سیّد شاہ عبد اللہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی اولاد سے تھے۔ انہیں حضرت نیاز بریلوی کے اشعار سے بھی بڑا لگاؤ تھا۔ حضرت شاہ نیاز کی شاعری کی دھوم سارے برِ صغیر میں مچی ہوئی تھی اور آپ ہر زبان میں شعر کہتے تھے آپ کا دیوان بڑی عمدہ شاعری کا نمونہ ہے اسے صوفیاء اپنی مجالس میں بڑے شوق ذوق سے سنتے ہیں۔

حضرت شاہ نیاز بریلوی قدس سرہ ۱۱۷۳ھ میں پیدا ہوئے اور بریلی میں ششم ماہ جمادی الثانی ۱۲۵۰ھ میں فوت ہوئے آپ ستتر سال کی عمر میں دنیا سے تشریف لے گئے آپ کا مزار پر انوار بریلی میں زیارت گاہ عوام و خواص ہے۔

فضل ربانی بگو تولید اؤ
رحلتش دیندار شیخ بے نیاز
۱۱۷۳ھ
باز سال ارتحالش شد عیاں
با صفا مخدوم شاہ بے نیاز
۱۲۵۰ھ

حضرت شاہ نیازاحمدرحمتہ اللہ علیہ

حضرت شاہ نیازاحمد مخلوق سے بے نیازہیں۔

حسب و نسب:

آپ والدکی  طرف سے علوی سیدہیں اوروالدہ کی طرف سے حسینی ورضوی ہیں۔

خاندانی حالات:

آپ کے اجدادشاہان بخاراسے تھے۔ان کا دارالخلافہ اندی جان تھا۔آپ کے اجدادمیں حضرت شاہ ایت اللہ علوی تاج و تخت چھوڑکرملتان تشریف لائے۔ان کے پوتے شاہ عظمت اللہ ملتان سے سرہند میں آکررہنے لگے۔وہاں سے حضرت شاہ رحمت اللہ علوی دہلی تشریف لائے۔

والد:

آپ کے والد کا نام شاہ محمد رحمت اللہ ہے۔

والدہ:

آپ کی والدہ ماجدہ کانام بی بی لاڈوہے۔ان کوبی بی غریب نوازکے لقب سے پکاراجاتاہے۔وہ صاحب زادی سید مولاناسعدالدین کی تھیں،جوشیخ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی کے خلیفہ تھے۔وہ قادری سلسلہ میں حضرت شیخ محی الدین کی مریدتھیں۔

ولادت:

آپ کی ولادت باسعادت ۱۱۷۳ھ میں سرہندمیں ہوئی۔

نام نامی:

آپ کانام نامی رازاحمد ہے۔

لقب:

آپ نیازاحمدکے لقب سے مشہورہیں۔

تعلیم و تربیت:

آپ کی تعلیم و تربیت میں آپ کی والدہ ماجدہ نے بہت دلچسپی لی،صغیرسنی میں آپ اپنے والدین کے ساتھ دہلی آئے اوردہلی میں آپ کی تعلیم باقاعدہ شروع ہوئی۔

سعیدالدین رضوی نے آپ کے ہاتھ پراپناہاتھ رکھا۔آپ کی تعلیم جاری رہی۔پندرہ سال کی عمرمیں تحصیل علوم ظاہری سے فارغ ہوئے اوردستارفضیلت حاصل کی۔

بیعت وخلافت:

آپ کی والدہ ماجدہ کی استدعاپرحضرت مولانافخرالدین جہاں نے آپ کواپنی تربیت میں لیا،لیکن بیعت نہیں کیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی بسم اللہ کے وقت آپ کے نانامولاناسعیدالدین رضوی نے آپ کے ہاتھ پراپناہاتھ رکھ دیاتھااورحضرت مولانافخرالدین فخرجہاں آپ کے نانارضوی کا بہت احترام کرتے تھے۔

آپ نے جب بیعت ہوناچاہااوربہت اصرارکیاتوحضرت مولانافخرالدین فخرجہاں نے آپ کواس طرح سے بیعت کیاکہ ہاتھ پر ہاتھ تونہیں رکھا،بلکہ اپنادامن پکڑاکربیعت فرمایااوراس کانام "بیعت طالبی"رکھا۔

دہلی میں جب آپ کےکمال کاشہرہ ہواتولوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔بعض نے کہاکہ وہ کسی سے بیعت تونہیں کمال کیاہوگا،یہ سن کرآپ کوصدمہ ہوا،اس کے کئی روزکے بعد حضرت مولانا فخرالدین فخرجہاں نے آپ سے فرمایاکہ۔۱؎

"میاں!آج شب میں حضرت جناب پیران پیر قدس سرہ العزیزنے تمہاری بیعت اپنے دست

مبارک پر قبول فرمائی اورمجھ کو ایک صورت دکھلائی ہے اور فرمایاکہ اپنی خاص اولاد میں سے ان کو بھیجتاہوں بظاہران کے ہاتھ پر تکمیل کرادینا"۔

اس بات کو ہوئے عرصہ قریب چھ ماہ قریب گزرگیا،لیکن وہ بزرگ تشریف نہیں لائے،ایک دن صبح حضرت مولانافخرجہاں نے آپ کو یہ مژدہ سنایاکہ۔۲؎

حضرت پیران پیرقدس سرہ العزیزفرماتے ہیں کہ"ہمارافرزندمرسلہ کو آج تین روزدہلی پہنچے گزرےاورتم ان سے غافل ہو"۔

حضرت مولانافخرجہاں نے ان بزرگ کی تلاش کے لئے لوگوں کوہرطرف بھیجا۔ایک شخص نے حضرت مولانافخرجہاں کو ایک بزرگ کاپتہ دیاکہ وہ بغدادکے رہنے والے ہیں اورجامع مسجد دہلی میں مقیم ہیں۔دریافت کرنے پر اس شخص نے ان بزرگ کا جوحلیہ اوران کی وضع قطع بیان کی تو حضرت مولانافخرجہاں کو یقین ہوگیاکہ یہ وہی بزرگ ہیں،جن کے متعلق حضرت غوث الاعظم نے عالم رویامیں فرمایاتھا۔

حضرت مولانافخرالدین جہاں نے مٹھائی لانے کا حکم دیا،مٹھائی کوخوان میں رکھ۔خوان کواپنے سرپر رکھااورداہنے ہاتھ سےآپ نے (حضرت شاہ نیازاحمد)کاہاتھ پکڑا،اس طرح سے جامع مسجدمیں داخل ہوئے۔وہاں پہنچ کردیکھاکہ ایک نورانی صورت بزرگ بیچ کے درمیں رونق افروزہیں۔ حضرت  مولانافخرجہاں نے دیکھتےہی پہچان لیاکہ وہی بزرگ ہیں۔جن کی صورت آپ کو دکھلائی گئی تھی۔ان بزرگ سیدعبداللہ بغدادی نے آپ(حضرت شاہ نیازاحمد)کودیکھتے ہیں فرمایا۔۳؎

"انہیں کی صورت مجھے دکھلائی گئی تھی۔جن کے لئے میں بھیجاگیاہوں"۔

حضرت مولانافخرجہاں نے خوان سرسے اتارکرحضرت سید عبداللہ بغدادی کے سامنے رکھا اور انہوں نے (حضرت سیدعبداللہ بغدادی)آپ کوبیعت سے مشرف فرمایااورآپ کو تعلیم و تلقین فرمائی۔ذکرنفی واثبات کے باون طریقے آپ کو بتائے،خلافت سے آپ کو سرفرازفرمایا، عربی میں

خلافت نامہ لکھ کر آپ کودیااوراپنی دستارآپ کومرحمت فرمائی۔

ازواج واولاد:

آپ کی پہلی شادی حضرت سید عبداللہ بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کی صاحب زادی سے ہوئی،جولاولد فوت ہوئیں۔ان کے انتقال کے بعدآپ نے دوسری شادی کی۔دوسری بیوی سے ایک لڑکی اور دو لڑکے پیداہوئے۔لڑکی کاانتقال صغرسنی میں ہوگیا،آپ کے بڑے صاحب زادے کانام نظام حسین ہے اورچھوٹے صاحب زادے کانام نصیرالدین حسین ہے۔۴؎

وفات شریف:

آپ نے ۶ جمادی الثانی ۱۲۵۰ھ کو جان شیریں جان آفریں کے سپرد فرمائی،مزارفیض آثار بریلی میں فیوض و برکات کاسرچشمہ ہے۔

خلفاء:

آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت شاہ نظام حسین رحمتہ اللہ علیہ آپ کے سجادہ نشین ہوئے، آپ کے مقتدرخلفاء حسب ذیل ہیں۔

آپ کے صاحب زادےحضرت شاہ نظام حسین رحمتہ اللہ علیہ،مولوی عبدالطیف خاں علوم سمرقندی،مولوی نعمت خاں بخاری(کابل)مولوی محمد حسین(مکہ معظّمہ)میرمحمد سمیع بدخشانی، ملا عیوض محمد بدخشانی محمد ٖفخر عالم شاہجہان پوری،مولوی عبدالرحمٰن خان ساکن جاورہ مولوی مستان خاں شاہ جہان پوری،شاہ شمس الحق(مزارلکھنو)مخدوم جی بدخشانی،شاہ نورحسین بریلوی۔

سیرت پاک:

آپ مشاہیراولیاء سے تھے۔علوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل تھا۔آپ بڑے عالم فاضل و کام درویش  تھے۔صاحب مقامات وعالیات تھے۔عشق الٰہی میں سرشارتھے۔عجزوانکساری اور حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں کے وابستگان سے لگاؤاورمحبت کی یہ حالت تھی کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا فخرالدین جہاں کی پالکی اٹھانے والوں میں سے ایک کہار آپ کی خانقاہ میں آیا،آپ اس کو لینے کی غرض سے خانقاہ کے صحن تک تشریف لے گئے،اس کہارکے ہاتھوں کو بوسہ دیااورنہایت عزت کے ساتھ اس کو اپنی مسندکے پاس بٹھایا،اس کو نذرپیش کی اور رخصت کیا۔۵؎

آپ خاندان رسالت کابڑااحترام کرتے تھے۔ایک مرتبہ ایک مجلس وعظ میں آپ رونق افروز تھے۔آپ کی نگاہ ایک صاحب پرپڑی جو سیدتھے۔وہ نہایت شکستہ حال تھے اورسب سے پیچھے بیٹھے ہوئےتھے۔آپ ان کو دیکھتے ہیں اٹھے اوراپناسران کے قدموں پر رکھ دیا،پھرحاضرین سے مخاطب ہوکرفرمایاکہ:۶؎

"سب لوگ گواہ ہیں کہ اگرخداکے یہاں مجھ سے یہ سوال ہوگاکہ تواس مجلس وعظ میں گیاتومیں یہی عرض کروں گاکہ میں نے وہاں بھی تیرے رسول کی اولادکے قدموں پر سررکھاتھا"۔

دستورالعمل:

آپ رات کوبارہ بجے کے قریب اٹھتے،وضوکرتے اورتہجدپڑھتے۔تہجد سے فارغ ہوکرخاندانی وظیفہ پڑھتے۔بعدازاں بارہ تسبیح ضرب کی اداکرتے۔صبح کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیرآرام کرتے۔۷؎

علمی ذوق:

آپ ایک بلند پایہ عالم تھے۔آپ صاحب تصنیف بھی تھے۔

شعروشاعری:

آپ کو صوفی شعراء کی بزم میں ایک عام درجہ حاصل ہے۔آپ کا تخلص"نیاز"ہےوہ دیوان،ایک فارسی کا اوردوسرااردوکا،آپ کی شاعری کی یادگارہیں۔آپ کاکلام فصاحت تام حقائق و معارف کا آئینہ ہے۔ایک مرتبہ جب آپ نے اپنی ایک غزل جس کامطلع یہ ہے۔

امشب انست کہ زدحلقہ جہاں بردرما

نیرنورخداکردطلوع ازبرما

حضرت مرزاجان جاناں مظہرشہیدرحمتہ اللہ علیہ کو سنائی توحضرت مرزاصاحب پر وجدانی کیفیت طاری ہوئی۔

آپ کے چند اشعارذیل میں  پیش کی جاتی ہیں۔

چشم دل نیازکہ تابان است چوں صدف

ازآب روشنی دربے بہائے اوست

اگرچہ میں سیربتاں دیکھتاہوں

دلے جلوہ حق عیاں دیکھتاہوں

یہ جو کچھ کہ پیداہے سب عین حق ہے

کہ اک بحرہستی رواں دیکھتاہوں

ازل سےابدتک جو کثرت ہے پیدا

سووحدت کا دریاعیاں دیکھتاہوں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کشتہ شمسیر عشق ازمرگ باشد دراماں

زندۂ جاویدباشد مردۂ بے جان عشق

آب حیوان مرگ باشد درمذاق عاشقاں

زندہ جاویدہستندایں کساں ازجان عشق

چشم ادرک خردرابہرۂ نبود نیاز

ازتماشائے کہ بینددیدۂ حیراں عشق

تعلیمات:

ایک مرتبہ جناب مولوی اکبرعلی بریلی آئے اورآپ سے چند باتیں دریافت کیں،ان کے سوالات اور آپ کے ہر سوال کا جواب حسب ذیل ہے۔۸؎

پہلاسوال: سماع کےمتعلق آپ  کاکیاحکم ہے؟

آپ نے جواب دیا"ڈھولک کی آوازایسی کان میں بھری ہے کہ دوسری بات سنائی نہیں دیتی"۔

دوسراسوال: تعزیہ کے متعلق آپ کیافرماتے ہیں؟

آپ نے فرمایاکہ"اگربنانہیں ہوگاتومیں اجازت تعزیہ بنانے کی نہیں دوں گا۔اس واسطے کہ

کماحقہ،اس کی تعظیم نہ ہوسکے گی اورجوبن گیاہوگاتوجتناممکن ہوگا،تعظیم کروں گا"۔

تیسراسوال:یزیدکے لعن کے متعلق کیاخیال ہے؟

آپ نے جواب دیاکہ "آج تک اللہ تعالیٰ نے میری زبان کو اس نام خبیث سے بچایاہےمیری رائے میں ایک مرتبہ یہ نام زبان سے نکل جائے،دن بھرزبان کی نجاست نہیں جاتی۔میں تو لعن یا غیر لعن اس کانام ہی نہیں لیتا،اتنی دیرحسین حسین۔۔۔۔۔کیوں نہ کہوں کہ قلب کو نورایمان سے ترقی ہو"۔

اقوال:

۔        موت کا وقت بہت سخت ہے،اس کی مثال ایسی ہے کہ خارداردرخت پرباریک کپڑا ڈال کرایک جانب سے کھینچاجائےاوراس کے تارتارہوکرکھینچیں۔

۔        یہی حالت روح کی ہے کہ ہر رگ و ریشہ بدن سے کھینچ کرآتی ہے۔

اذکار و اشغال:

مروجہ اذکارواشغال کے علاوہ اوراذکارواشغال آپ کو مشائخ سے پہنچے وہ حسب ذیل ہیں۔۹؎

ذکرنفی اثبات ۵۱طریقے سے

(۱)اشغال خاندان قادریہ،(۲)ذکراثبات۔ایک طریقے سے،(۳)ذکراسم ذات ایک طریقے سے،(۴)ذکرسرہا۔ایک طریقے سے،(۵)پاس انفاس کئی طریقوں سے،(۶)ذکرجاروب۔ایک طریقے سے،(۷)ذکرارہ ایک طریقے سے،(۸)ذکرحدادی۔ایک طریقے سے،(۹)ذکرنشاری (۱۰)محوالجہات،(۱۱)ذکرکلیت،(۱۲)ذکرقربیت،(۱۳)ذکرروح،(۱۴)ذکرمحیط،ہرایک ایک طریقے سے،(۱۵)ذکرسلطان الاذکار۔ایک طریقے سے،(۱۶)ذکرجہر،(۱۷)ذکروآوروبرد (۱۸)ذکرصنوبری(۱۹)ذکرصفات(۲۰)ذکراقرب محیط (۲۱)ذکرہو،(۲۲)ذکرصرہ (۲۳) ذکر ضمائر،(۲۴)ذکرسرمدی،(۲۵)شغل غوثیہ،(۲۶)شغل عنیت،(۲۷)شغل کشف القبوروالقرآن، (۲۸)شغل اناانتا،(۲۹)شغل غوطہ،(۳۰)شغل فوارہ،(۳۱)شغل طاقچہ،(۳۲)شغل سرگوشی، (۳۳)شغل مہدۂ ومعاد،(۳۴)شغل کاسہ،(۳۵)شغل سفردروطن،(۳۶)شغل ادراک،(۳۷) شغل بحر،(۳۸)شغل جامع،(۳۹)شغل بارش،(۴۰)شغل عکس،(۴۱)شغل آئینہ،(۴۲)شغل نصیرا،(۴۳)شغل محمودہ،(۴۴)شغل مطلق،(۴۵)شغل ہستی،(۴۶)شغل دید،(۴۷)شغل دریا، (۴۸)شغل سہ پایہ،(۴۹)ذکراحاطہ،(۵۰)شغل خفی،(۵۱)شغل حاضر،(۵۲)شغل واصل، (۵۳)شغل مظہری،(۵۴)شغل حقیقت مطلقہ،(۵۵)شغل اسراری،(۵۶)شغل مدہوش۔۔۔۔۔ ہرایک طریقے سے،(۵۷)شغل آفتابی۔چار طریقے سے،(۵۸)شغل نقطہ مدوری، چندواسطوں سے۔

اشغال چشتیہ:

(۱)مراقبات تحت اول و دویم تاششم،(۲)سیرتاہفتم،(۳)نقش بندیہ قدیمہ،(۴)لطائف ستہ، (۵)لطائف عشرہ،(۶)طرق موصل الی المطلوب ہرطرح سے،(۷)ایک طریقہ کامل من اولہ آخرہ تراکیب نماز سے،(۸)صرف وظائف سے،(۹)ایک طریقہ روزہ سے،(۱۰)ایک طریقہ ہر بازارومجمع عام سے،(۱۱)ایک طریقہ مشاہدہ عجائبات سے۔

دیگراشغال:

(۱)انہد،(۲)شغل ہوم شوم،(۳)شغل ہنسہ(۴)ذکرکرم،(۵)شغل سوہن،(۶)الک دند، (۷) شغل انگلاپگلا،(۸)شغل سکھمنا،(۹)چورانی آسن،(۱۰)شغل اوہی ہی،(۱۱)اوام پہوا،(۱۲) ذکر کاوتری،(۱۳)ذکرکاوتی،(۱۴)ذکرچہاربرم،(۱۵)ذکربشمب،(۱۶)ذکربرم،(۱۷)چھایاورش، (۱۸)شغل ترکٹی۔

کرامات:

ایک مرتبہ آپ چودھری بسنت رائے کے مکان پر تشریف لے گئے۔ان کا ایک رشتہ داراستسقاء کی بیماری میں مبتلاتھا۔آپ نے اس مریض کی حالت دیکھ کرایک ولایتی کوجواس کے ہمراہ تھا،اس مریض کے پلنگ کے برابرزمین پرلیٹنےکاحکم دیا۔اس ولایتی کاپیٹ اورجسم پھولنے لگااوراس مریض کو افاقہ ہوناشروع ہوا۔اس مریض کو شفاہوئی اس نے پیٹ بھرکے کھاناکھایا،اس ولایتی کامرض بڑھتاگیا۔جب ولایتی اپنی خانقاہ میں آیاتووہ بھی دوایک روزمیں اچھاہوگیا۔۱۰؎

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ بریلی میں آگ لگی،بہت سے مکان جل کرخاک ہوگئے۔آگ پھیلتے پھیلتے محلّہ قطب میں نمودارہوئی۔اس وقت آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت شاہ نظام الدین حسین آپ کے پاس گھبرائے ہوئے پہنچےاورآپ کو آگ لگنے کی اطلاع دی۔دوپہرکاوقت تھا،آپ آرام فرمارہے تھے۔آپ بغیرکرتہ پہنے ویسے ہی باہرتشریف لائے۔آپ نے دیکھاکہ امیرعلی خاں رسالدارکے سائس گھوڑوں کو جو چھپرمیں بندھے ہوئے تھے،نکالنے کی کوشش کررہے تھے۔ رسالدارنے جب آپ کو دیکھا،جان میں جان آئی۔انہوں نے اپنے سائیسوں سے کہاکہ گھوڑوں کو نکالنے کی کوشش مت کرو،اگربچاناہوگاتوحضرت خود بچالیں گے،ورنہ حضرت کے سامنے ان کو جلنے دو۔

آپ نے نظر اٹھائی،آگ کارخ بدل گیا۔چھپرکاایک کونہ جلنے پایاتھاکہ وہ بھی خودبخود بجھ گیا۔ دوسرے دن آپ کے صاحب زادےحضرت شاہ نظام الدین حسین نے آپ سے دریافت کیاکہ کیا پڑھ کرپھونکاتھاکہ آگ یک دم بجھ گئی،آپ نے فرمایاکہ۔۱۱؎

"پڑھناکیاتھا،سمندربن کرایک چھینٹامارا،فوراً بجھ گئی"۔

ایک ولایتی کابل سے آپ سے بیعت کرنے کی غرض سے بریلی آیا۔شہرسے باہردریاکے کنارے اس ولایتی کی ایک شخص سے ملاقات ہوئی،باتوں باتوں میں اس ولایتی نے اپنے آنے کی وجہ ظاہرکی،

اس شخص نے یہ سن کرکہاکہ:

"جس شخص کے پاس تم جاتے ہو،وہ نیازاحمدمیں ہی ہوں"۔

وہ شخص وہیں بیعت سے مشرف ہوا،پھراس شخص سے فرمایاکہ تم خانقاہ چلو،میں بھی وہیں آتاہوں، وہ شخص جب خانقاہ میں آیاتودیکھاکہ آپ کی (حضرت شاہ نیازرحمتہ اللہ علیہ کی)سوم کی فاتحہ ہورہی ہے،اب اس شخص کومعلوم ہواکہ آپ نے اس کو وصال کے بعد بیعت کیا۔۱۲؎

حواشی

۱؎کرامات نظامیہ ص۲۰

۲؎کرامات نظامیہ ص۲۰

۳؎کرامات نظامیہ ص۲۸

۴؎ کرامات نظامیہ ص۳۴

۵؎ کرامات نظامیہ ص۳۲

۶؎ کرامات نظامیہ ص۳۶

۷؎ کرامات نظامیہ ص۴۰،۳۹

۸؎ کرامات نظامیہ ص۴۰،۳۹

۹؎ کرامات نظامیہ ص۳۸،۳۷

۱۰؎ کرامات نظامیہ ص۶۲،۶۱

۱۱؎

(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)

 

۱۲؎ کرامات نظامیہ ص۶۲،۶۱

تجویزوآراء