علی متقی

 

 

 

          علی بن حسام الدین بن عبدالملک بن قاضی خان متقی جونپوری[1] الاصل برہانپوری المولد: ۸۵۷؁ھ میں برہانپور میں پیداہوئے،پہلے شیخ حسام الدین ملتانی وغیرہ سے مختلف علوم حاصل کیے پھر ۹۵۳؁ھ میں مکّہ شریف کو تشریف لے گئے اور شیخ ابا الحسن بکری وغیرہ مشائخ وارکان دین سے فقہ وحدیث وغیرہ علوم و فنون کی تکمیل کر کے جامع کمالات ظاہری و باطنی ہوئے اور مکہ معظمہ میں ہی اقامت اختیار کر کے نشر علوم ظاہری و باطنی میں بذریعہ تدریس و تصنیف و استکتاب اور تلقین  وریاضت و تقویٰ میں مصروف ہوئے اور بقعۂ مبارکہ کے خواص و عام میں یہاں تک آپ کی کمالیت و فضیلت کی شہرہ آفاتی ہوئ کہ شیخ ابن حجر ہیثمی  مکی مفتی حرم محترم مؤلف صواعق محرقہ جو ابتداء میں آپ کے استاذ تھے اخیر کو اپنے آپ کو آپ کا تلمیذ تصور کرنے لگے اور رسم ارادت بجالاکر آپ سے خرقہ خلافت حاصل کیا۔ اکثر اوقات اپ اپنےہاتھ سے سپاہی درس کر کے طالب علموں کو دیتے اور ان سے ان کتابوں کے جو کمیاب ہوتیں متعدد نسخے لکھواکر اہلِ علم کو دیتے تھے۔آپ نے بہت سی کتابیں ورسائل تصنیف کیے جن کا مجموعہ صغیرو کبیر عربی و فارسی سو کتاب سے متجاوز ہے لیکن سب سبے بڑی اور مفید ترکنز [2]العمال فی سنن الاقوال والافعال ہے جس میں آپ نے شیخ جلال الدین سیوطی کی کتاب جامع صغیر اور جامع کبیر یعنی جمع الجوامع اور زوائد و اکمال کو جن میں احادیث کو حروف تہجی پر جمع کیا گیا تھا اور جمیع احادیث  قولی و فعلی آنحضرتﷺکے احاطہ کا دعویٰ کیا گیا ہے تبویب فرمائی اور ابواب فقہیہ پر ان کو ترتیب دیا پھر ان کو منتخب کیا اور اکثر مکر رات کو حذف کر کے ایک تبویب فرمائی اور ابواب فقہیہ پر ان کو ترتیب دیا پھر ان کو منتخب کیا اور اکثر مکر رات کو حذف کر کے ایکمہذب و منفتح کتاب چار جلد میں تیار کی جس کی نسبت ابو الحسن بکری مکی نے فرمایا ہے للسیوطی منۃ علی العالمین والمتقی منۃ علیہ،یہاں سے غور کرنا چاہئےکہ آپ کی امعان نظر فہم معانی اور ترتیب الفاظ احادیث میں کس قدر تھی،آپ کا اشتغال تتبع سنن واحادیث نبوی میں یہاں تک  تھا کہ اخیر وقت میں بھی جب مقتضائے بشریت کے امکان حرکت اور طاقت ہلنے کی نہ رکھتے تھے،حکم کیا تھا کہ تادم اخیر مقابلہ کتب احادیث کا ہمارے آگے سے نہ اٹھاؤ،لوگوں نے عرض  کیا کہ ہم کو کس طرح معلوم ہو کہ اب آپ کا دم اخیر ہے۔آپ نے فرمایا جب تک ہماری انگشت شہادت کو موافق حرکت ذکر کے متحرک دیکھو تو یہی جانو  کہ ابھی تک روح قالب میں ہے اور جب وہ حرکت سے بازرہ جائے تو جان لو کہ روح قبض ہوگئی چنانچہ ایسا ہی انہوں نے کیا اور آپنے دوم جمادی الالویٰ ۹۷۵؁ھ  کو سحر کے وقت وفات پائی۔آپ کی تاریخ ولادت’’سحر خیز‘‘ اور تاریخ وفات ’’شیخ مکہ‘‘ ہے۔شیخ عبد الوہاب متقی نے آپ کی تعریف و سوانح عمری میں ایک کتاب اتحاف التقی فی فضل شیخ علی المتقی تصنیف کی ہے اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے کتاب زادا المتقین میں آپ کا ذکر ایسی شب وبسط سے کیا ہےکہ اس سے زیادہ متصور نہیں۔

 

1۔ شاذلی چشتی ولادت ۸۷۵؁ھ

2۔حیدر آباد کن سے (طبع دوم) ۲۲جلدوں میں شائع ہو چکی ہے،انہوں نے قرآن پاک کی تفسیر  بھی لکھی جواب کہیں نہیں ملتی۔(مرتب)

 (حدائق الحنفیہ)

تجویزوآراء