حضرت شرف الدین ابو اسحاق شامی
حضرت شرف الدین ابو اسحٰق شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اولیاء کے تاج، اصفیا کے روشن چراغ، تمام مشائخ کے بادشاہ، اپنے عہد کے مقتدا، خواجہ ابو اسحاق چشتی ہیں۔ جو عالم نیاز کے سلطان، دنیائے راز کے بادشاہ تھے آپ نے خرقہ خلافت جناب خواجہ ممثاد علؤ دینوری سے پہنا تھا۔ ایک بزرگ آپ کی نسبت یوں ارشاد فرماتے ہیں۔
وبہ اقتدی من اھل چشست شیو خھم
کل ولی اللہ فی میلادہٖ
منھم ابو اسحاق اکبر شیخھم
طود سماء من شیخ اطوادہ
اضحی ھداۃ الذین یتبعونہ
لا یعدلون النھج فی معتادہ
یعنی اہل چشت کے مشائخ میں تمام اولیاء اللہ نے اس کے میلاد میں اقتدا کی ان میں سب سے بڑے اور ذی وجاہت شیخ ابو اسحاق ہیں جو مشائخ میں ایسے ہیں جیسے پہاڑوں میں ایک بلند اور اونچا پہاڑ۔ دین کے رہبر کے پیرو ہیں اور ان کی راہ سے عدول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں آپ نے عالم مکاشفات کے اسرار میں غایت درجہ کی کوشش کی اور صحو کی صورت کو اپنا زیور ٹھرایا۔
(سیر الاولیاء)
آں بندہ جمال رب ارنی، حجر داز اوقات ماومنی، گم گشتہ در حضور معبود، وارستہ از تقیدات، بحر شریعت وطریقت راکشی قطب اوتاد حضرت ابو اسحاق چشتی قدس سرہٗ اپنے وقت کے اکابر مشائخ اور نیس اولیاء تھے۔ کشف و کرامات میں آپ آیات الٰہی میں سے ایک ایت تھے۔ آپ کی صحبت اکثر رجال الغیب کے ساتھ رہتی تھی۔ آپ کا لقب شریف الدین ہے۔ آپ حضرت کواجہ ممشاد عل دنیوری قدس سرہٗ کے مرید وخلیفہ تھے۔ لطائف اشرفی میں لکھا ہے کہ آپ حق تعالیٰ کے غیبی حکم سے ملک شام سے بغداد جاکر حضرت خواجہ علو دنیوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرید ہوئے۔ حضرت شیخ نے دریافت کیا کہ تمہارا کیا نام ہے عرض کیا کہ ابو اسحاق شامی۔
سلسلہ چشتیہ کی وجہ تسمیہ
فرمایا آج سےتم ابو اسحاق چشتی کہلاؤ گے اور چشت کی خلقت تم سے ہدایت حاصل کرے گی اور جو شخص تمہارا مرید ہوگا اسے بھی قیامت تک چشتی کہا جائے گا۔ چنانچہ تربیت کے بعد حضرت ابو اسحاق چشتی کو حضرت اقدس نے خلافت دے کر چشت کی طرف روانہ کیا۔ اسی دن سے خواجگان چشت وجود میں آئے۔ ان کے سر حلقہ پنجتن یعنی پانچ بزرگ ہیں حضرت ابو اسحاق چشتی، خواجہ ابو احمد چشتی، خواجہ ابو محمد چشتی، خواجہ ناصر الملۃ والدین ابو یوسف چشتی اور خواجہ قطب الدین مودود چشتی قدس اسرارہم۔ یہ پانچ حضرات چشت میں رہتے تھے۔ اسی طرح ان کے خلفاء بھی ملک ہندوستان میں پنج تن ہیں، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار چشتی حضرت خواجہ فرید الدین گنج شکر، حضرت کواجہ نظام الدین اولیاء، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس اسرارہم جس شخص کا شجرہ ان پنج تن کے ذریعے سابقہ پنج تک جا پہنچتا ہے وہ چشتی ہے۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ چشت دو ہیں۔ ایک شہر ملک خراسان میں ہے۔ جو ہرات کے نواح میں ہے دوسرا ہندوستان میں ہے جو ملتان اور اوچ کے درمیان ہے۔ ہمارے خواجگان کا تعلق ملک خراسان کے چشت سے ہے چنانچہ میر سید علاو الدین چشتی فرماتے ہیں کہ
گرزہندوستان شدیم چہ باک
سبزہ، گلشن، خراسانیم
(اگر ہم ہندوستان میں پیدا ہوئے تو ک یا ہوا اوراصل تو ہم خراساسن کے باغ کا سبزہ ہیں۔)
واقعہ خلافت
سیر الاقطاب میں موقوم ہے کہ حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی چھ سات دن کے بعد افطار کرتے تھے اور وہ بھی تین لقموں سے زیادہ نہیں۔ جب آپ حضرت علو ممشاد دینوری قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو آپ کے حکم کے مطابق سات سال تک خلوقت میں ذکر لا الہ الا اللہ میں مشغول رہے۔ ان ایام م یں آپ ساتویں طے کےبعد افطار کرتے تھے یعنی اکیس دن کے بعد چند لقمے روٹی اور تھوڑا سا پانی لیتے تھے۔ حتیٰ کہ غیب سے آوازآئی کہ اے علو! ابو اسحاق کا کام بن چکا ہے اور وہ اعلیٰ مرتبہ پر پہنچ گیا ہے اسے اپنا خرقہ خلافت پہناؤ اور اپنا جانشین بناؤ اور تم ہمارے پاس آجاؤ۔ چنانچہ حضرت شیخ نے ان کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور اپنا جانشین بنایا۔اسی وقت یہ آواز آئی کہ ابو اسحاق ‘‘تو مقبول حضرت ماشدی’’(تم ہماری بارگاہ میں مقبول ہو چکے ہو) چنانچہ ی ہی ہوا اور بہت لوگ آپ کے حسن تربیت سے منزل کمال و تکمیل کو پہنچے۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی قدس سرہٗ سماع کثرت سے سنتے تھےاور علمائے وقت میں کسی کو مجال نہ تھی کہ اعتراض کرے۔ جو شخص آپ کی مجلس سماع میں شریک ہوتا تھا۔ پھر کبھی اس سے گناہ سرزد نہ ہوتا تھا۔ حضرت شیخ کے وجد کے اثر سے ھاضرین مجلس پر بھی وجد اور ذوق طاری ہوجاتا تھا اور جب آپ پر وجد میں کھڑے ہوتے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ درو دیوار وجد میں ہیں اور ان سے پسینہ بہتا تھا۔ نیز جس مرض کا مریض آپ کی مجلس سماع میں شریک ہوتا تھا اسے شفائے کامل حاصل ہوجاتی تھی۔ لیکن آپ دنیاہ داروں اور دولت مندوں کو مجلس سماع میں شریک ہونے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اگر اتفاق سے کوئی ایسا شخص شریک مجلس ہوتا تو تارک الدنیا ہوجاتا۔ جب آپ سماع کا ارادہ کرتے تھے تو دو تین دن پہلے اپنے اصحاب کو خبردار کرتے تھے اور خود طے کا روزہ رکھتے تھے اور قوالوں کو بھی توبہ کراتے تھے۔
نقل ہے کہ ایک دفعہ خش سالی ہوئی۔ بادشاہ وقت تمام ائمہ کرام سمیت حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی۔ آپ نے قوالوں کو بلاکر سماع شروع کرایا۔ لیکن بادشاہ کو کہہ دیا کہ واپس چلے جاؤ۔ بادشاہ نے بعض فقراء کے ذریعے عرض کرابھیجا کہ اس احقر کو بھی سماع میں شریک کی اجازت دی جائے۔
آپ نے فرمایا کہ اگر تم شریک ہوئے تو سماع کا کوئی اثر نہ ہوگا لہذا بارش کیسے ہوگی۔ تم چلے جاؤ اور عنایت ایزدی کے منتظر رہو۔ انشاء اللہ تعالیٰ بارش ہوجائے گی بادشاہ حسب الحکم گھر چلا گیا۔ جونہی سماع شروع ہوا۔ آپ پر حال طاری ہوگیا اور وجد کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ایسی بارش ہوئی خلق خدا خوش ہوگئی۔ دوسرے دن بادشاہ شکریہ ادا کرنے کے لیے حاضر ہوا۔ اسے دیکھ کر آپ روہنے لگے۔ اس سے حاضرین م جلس پر بھی گریہ طاری ہوگیا۔ بادشاہ نے دریافت کیا کہ حضور کس وجہ سے روتے ہیں فرمایا نا معلوم مجھ سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے کہ بادشاہ متواتر میرے پاس آرہا ہے۔ اور مجھے فقراء کی صحبت سے باز رکھ رہا ہے۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ شاید میرا حشر قیامت کے دن امراء کے ساتھ ہو۔ اس کے بعد آپ نے نعرہ لگایا اور بیہوش ہوکر گر پڑے۔ جب آپ ہوش میں آئے تو یہ حدیث زبان پر تھی اللہم احیینی مسکیناً دامتنی مسکیناً واحشرفی فی زمرۃ المساکین (یا الٰہی مجھے مسکین زندہ رکھو۔ مساکین کے ساتھ مجھے مارو اور مساکین کے زمرہ میں مجھے قیامت کے دن اٹھاؤ) یہ حالت دیکھ کر بادشاہ شرمندہ ہوا اور گھر چلا گیا۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ خواجگان چشت کا طریق کاریہ ہے کہ سنت نبوی کے مطابق شہروں اور قصبو ں میں رہائش رکھتے ہیں اور خلق کو حق میں مشغول رکھتے ہیں غیر اللہ سے منع کرتے ہیں اور ہمیشہ صفائے باطن (تزکیہ نفس) میں کوشاں رہتے ہیں۔ اپنےمشائخ کے مسلک پر سختی سے پابند ہوتے ہیں اور دسواں کو ہرگز جگہ نہیں دیتے۔ اس وجہ سے کہ شرح صدر ان کا مدعا ہوتا ہے۔ یہ حضرات ریاضت ومجاہدہ کو عزیزی، رکھتے ہیں اور فقراء کو امراء پر فضیلت دیتے ہیں۔ فقر کو بے حد دوست رکھتے ہیں مہمان کی خدمت اہتمام کے ساتھ کرتے ہیں سماع اور اہل سماع کو بے حد عزیز رکھتے ہیں۔ مشائخ وبزرگان کا عرس پورے ذوق وشوق کرتے ہیں، ہر قوم کو اپنے سے بہتر سمجھتے۔ اور ہر قوم کے ساتھ محبت اور صلح رکھتے ہیں وحدت الوجد کو ہمیشہ مدنظر رکھتے ہیں۔ اگر چہ ہر وقت کثرت میں بسر کرتےہیں لیکن احدیت کا عین کثرت میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ مریدین کو شروع سے لاموجود والا اللہ کا مراقبہ بناتے ہیں تاکہ ایمان حقیقی سے محروم نہ رہ جائیں اور ہر شغل، وردیا عبادت جو اپنے اوپر لازم رکھتے ہیں اور لب گور تک انجام دیتے ہیں۔
چشتی حضرات جامع صحو وسکر ہیں
وہ ہمیشہ مست وہوشیار رہتے ہیں یعنی یہ حضرات سکر (استغراق) اور صحو (ہوشیاری) دونوں کیفیات کے جامع ہوتے ہیں بخلاف طیفوریوں (حضرت ابو یزید بسطامی کے سلسلہ کے لوگ) اور جنید یوں (حضرت جنید کے لوگ) کے جن میں اوّل الذکر سکر کو اور آخر الذکر صحو کو فضیلت دیتے ہیں لیکن چشتیان جامع سکر وصحو ہیں۔ اس لحاظ سے یہ حضرات جناب رسالت مآبﷺ کے نقش قدم پر چلتےہیں اس وجہ سے کہ جمع بین صفتیں (دونوں صفتوں کو جمع کرنا) سرور کائناتﷺ کی خاص سنت ہے آنحضرتﷺ سکر وصحو دونوں پر قادر تھے۔ کبھی آنحضرت صفت سکر سے متصف ہوتے ہوئے لِی مَعَ اللہِ وَقتٌ (مجھے اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ قرب حاصل ہوتا ہے کہ نہ کوئی نبی مرسل نہ ملک مقرب وہاں پہنچ سکتاہے) کا نعرہ لگاتے ہیں اور کبھی صفت صحو میں ہوتے ہوئے مَا عَرَ فناکَ حَقٌّ فتکَ (الٰہی ہم نے نہ تیری معرفت کا حق اداکیا ہے نہ عبادت کا نہ ذکر کا نہ شکر کا) کی آواز بلند فرماتے تھے۔ چشتی حضرات آداب، تواضح اور اخلاق حسنہ کے اس قدر خوگر ہوتے ہیں کہ کوئی قوم ان سے متنقر نہیں ہوتی عقل وبزرگی کو علم پر فضیلت دیتےہیں۔ علم لدنی ان کےیہاں نہایت عزیز ہے اور مریدین کے ابتدائے حال میں صفائے باطن کی طرف ایسی توجہ فرماتےہیں کہ روحانیت اولیاء کرام کے ساتھ حضور پیدا ہوجاتی ہے اور غلط روی کا اندیشہ جاتا رہتاہے اور تمام ظاہری وباطنی امور میں رضائے حق کی موقفقت لازم آتی ہے ان حضرات کے نزدیک حال کا قائمہوجانا نہایت معتبر ہے یعنی انبیاء علیہم السلام پر وحی، اولیاء کرام پر الہام اور ان پر حق تعالیٰ کے ساتھ حضور اس قدر غالب ہوتی ہے کہ خلق کی مدح (تعریف) اور قدح (مذمت) ک بالکل پروہ نہیں کرتے۔ جمیعت باطن (فیض باطن) جس طریقے سے حاصل ہوتا ہے۔ اسی مشرب میں عمر بسر کرتے ہیں۔ چستیہ حضرات کا اصل مشرب عشق، انکسار، ترک، ایثار ہے۔
سیر الاقطاب میں مرقوم ہے کہ حضرت کواجہ ابو اسحاق چشتی قدس سرہٗ جس جگہ سفر کی نیت کرتے تھے۔ طرفۃ العین میں پہنچ جاتے تھے۔ خواہ منزل مقصود کتنی دور ہو۔ سیر الاولیاء میں آیا ہے کہ حضرت خواجہ ابو اسحاق چشتی باطن میں مکاشفات کی کوشش لیکن ظاہراً آپ حالت صحو میں رہتے تھے۔ تاکہ خلقت آپ کے کمال حال پر م طلع نہ ہو اور یہ مقام نہایت ہی بلند ہے۔
وصال
آپ کا وصال چودہ ربیع الثانی کو اقعہ ہوا لیکن سن وصال نظر سے نہیں گذرا۔ آپ کا مزار بارک مکہ میں ہے جو ملک شام میں ہے کہتے ہیں وصال کے وقت سے ہر شب شام سے صبح تک آپ کےمزار پر غیب سے چراغ روشن ہوجاتا ہے اور کواہ آندھیاں آئیں یا بارش کا طوفان ہو اس چراغ کو کوئی گزند نہیں پہنچتا۔ گویا یہ شعر آپ کے مناسب حال کہا گیا ہے ؎
(اگر جہاں بالکل ختم بھی ہوجائے لیکن مقبولان باگاہ ایزدی کا چراغ ہر گز نہیں بجھتا)
اگر گیتی سراسر بادگیرو
چراغ مقبلان ہر گز ن ہ میرد
(اقتباس الانوار)
آپ سلسلہ چشتیہ کے نامی گرامی بزرگوں میں سے تھے لقب شرف الدین تھا خرقہ خلافت خواجہ علودینوری رحمۃ اللہ علیہ سے پایا تھا، ظاہری اور باطنی علوم میں ممتاز تھے زہد و ریاضت میں بے مثال خلق سے بے نیاز اور خالق سے ہی ہمراز تھے۔ درویشوں سے محبت کرتے اولیاء اللہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے فقراء میں بلند رتبہ تھے۔ سات دن کے بعد افطار کرتے تھے کہ المعراج الفقراء جوع (بھوک ہی فقراء کی معراج ہے) مرید ہونے سے پہلےچالیس روز تک استخارہ کیا آخر ہاتف غیبی نے آواز دی، اے ابواسحاق جاؤ، اور ممشاد دینوری کی خدمت میں حاضری دو، آپ خواجہ دینوری کی خدمت میں پہنچے، سات سال خدمت میں رہے پھر تکمیل کو پہنچے، خرقۂ خلافت پایا۔
آپ کی ذات والا صفات خانوادہ چشت میں ممتاز تھی آپ قصبہ چشت میں قیام پذیر تھے جب اپنے پیر روشن ضمیر کی خدمت میں بغداد پہنچے تو حضرت خواجہ نے پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ اور کیا نام ہے؟ کہا میرا نام ابواسحاق چشتی ہے، آپ نے فرمایا تم اہل چشت کے امام بنو گے، خلافت پائی تو پیر دستگیر سے رخصت لے کر چشت میں واپس آئے اور خواجہ چشت کے نام سے مشہور ہوئے ان ہی دنوں چشت میں اور بھی کئی بزرگان دین قیام فرما تھے ان میں خواجہ ابو احمر ابدال چشتی، خواجہ ابو محمد بن ابو احمد ابدال چشتی، ناصرالدین، خواجہ ابویوسف چشتی اور خواجہ مودود چشتی کے اسمائے گرامی مشہور ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چاروں بزرگ دین کے ستون مانے جاتے تھے لاکھوں گناہگاروں نے آپ کی راہنمائی میں توبہ کی اور بے شمار مرید درجۂ ولایت کو پہنچے۔
خواجہ ابو اسحاق رحمۃ اللہ علیہ سماع سنا کرتے تھے جو شخص ایک بار آپ کی مجلس میں حاضر ہوتا پھر گناہ سے دور رہتا، آپ کی مجلس کی برکات سے ہر شخص وجد میں رہتا، اگر کوئی مریض ایک بار مجلس میں آجاتا تو شفا پاتا، دنیا کا پجاری آتا تو تارک الدنیا ہوجاتا تھا۔
ایک بار قحط پڑ گیا۔ بارش کو ایک عرصہ ہوا نہ برسی، بادشاہ وقت اور دوسرے ہزاروں لوگ حضرت خواجہ اسحاق کی خدمت میں آئے اور بارانِ رحمت کے لیے دعا طلب کی ، حضرت خواجہ نے مجلس سماع برپا کی جب آپ وجد میں آئے تو آسمان پر بادل گھر آئے، اس قدر بارش ہوتی کہ لوگ اس کے روکنے کی دعائیں مانگنے لگے، پھر حضرت کی خدمت میں آئے، آپ نے فرمایا: اگر دل بھر گیا ہے تو بارش رک جائے گی۔
خواجہ ابواسحاق شامی قدس سرہ کی چہاردہم ماہ ربیع الثانی ۳۲۹ھ کو پیدائش ہوئی، آپ کا مزار پر انوار شہر عکہ شام میں ہے، سیر الاقطاب کے مصںف نے لکھا ہے کہ آپ کے وصل سے لے کر آج تک آپ کے مزار پر ایک چراغ روشن ہے جو کبھی نہیں بجھا۔ وہ شام سے صبح تک روشن رہتا ہے بادو باراں کا کئی بار طوفان آیا۔ مگر رات کے وقت اس چراغ کو نہیں بجھا سکا۔ یہ چراغ اس شعر کی عملی تصویر ہے۔
اگر گیتی سرا سر باد گیرد
چراغ مقبلاں ہرگز نمبرد
تاریخ وفات:
چوں ابو اسحاق شامی پیر چشت
شد ازیں دنیا بہ جنت شاد کام
وصل پاکش ہست قطب الواصلین