شیخ الشیوخ حضرت شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر سہروردی
شیخ الشیوخ حضرت شیخ ابو حفص شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
صاحب ’’نفحات الانس‘‘ لکھتے ہیں کہ آپ اگرچہ اپنے چچا بزرگوار شیخ ضیاءالدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید اور خلیفہ تھے مگر حضرت قطب ربانی شیر یزدانی محبوب سبحانی غوث الاعظم حضرت سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی آپ نے فیوض و برکات حاصل فرمائے۔ ولادت ۵۴۲ھ مطابق ۱۱۴۷ء میں ہوئی۔ حضرت ابو بکر صدیق رجی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد سے تھے۔ خلیفہ بغداد اور امرا آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ مسلکِ آں جناب کا شافعی تھا‘ بہت زبردست فقیہ اور مجتہد تھے‘ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے آپ کے متعلق فرمایا تھا یا عمرو انت آخر المشہورین بالعراق ’’کہ اے عمرو! (حضرت شیخ الشیوخ) تم سرزمین عراق کے آخری مشہور انسان ہو۔‘‘
سرزمین پاک و ہند میں آپ کی برکات:
بغداد شریف میں حضرت سید عبدالقادر جیلانی قادری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد آپ کی روحانی حکومت مسلمہ تھی مگر جس قدر ہند و پاکستان کے اولیاء نے آپ سے کسب فرض کیا اتنا کسی اور ملک نے نہیں کیا۔ مشہور ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ سرزمین ہند (پاک وہند)میں میرے بہت سے خلفاء ہیں۔ آپ کے نامور خلفاء میں شیخ الاسلام والمسلمین بہاءالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ملتان میں ڈیرہ ڈالا اور لاکھوں انسانوں کو راہ ہدایت دکھائی۔ حضرت شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ بھی ملتان حاضر ہوئے تھے۔ حضرت سید نورالدین مبارک غزنوی رحمۃ اللہ علیہ دہلی تشریف لائے اور خدمات اسلام کرتے ہوئے ۱۲۴۹ء میں دہلی میں وفات پائی۔ شمس العارفین شاہ ترکمان بیابانی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ بھی دہلی تشریف لائے اور سلطان شمس الدین التمش رحمۃ اللہ علیہ کے عہد میں احیائے سنت کے لیئے کام کرتے رہے۔ شیخ ضیاءالدین رومی رحمۃ اللہ علیہ بھی دہلی تشریف لائے‘ سلطان علاؤالدین حضرت مخدوم نوح سہروردی رحمۃ اللہ علیہ بھکھری بھی ان صوفیا سے قبل بھکر میں تشریف لاکر احیائے ملت کے لیئے کام کر رہے تھے۔ آپ کا روضہ اقدس بھکر میں ہے۔
جب بغداد شریف میں حضرت بہاءالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ ملتانی نے اپنے پیر و مرشد شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے خلافت حاصل کی اور سرزمین ملتان کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کے پیر و مرشد نے انہیں فرمایا تھا کہ پہلے ہمارے مرشد شیخ نوح رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جانا چنانچہ آپ پہلے بھکر تشریف لائے تو سنا کہ ان کا وصال ہو چکا ہے اور قلعہ بھکر میں دفن کر دیئے گئے ہیں‘ اس کے بعد آپ ملتان تشریف لائے۔ آپ ہر سال حج کے لیےحرمین شریفین روانہ ہوتے تھے۔ مکہ مکرمہ کے بعد مدینہ منورہ میں حضور قلب سے حاضری دیتے اور اس کے بعد بغداد شریف تشریف لاتے‘ آپ اپنے زمانہ کے شیخ الشیوخ اور قطب الاقطاب تھے اور یہ حضرت غوث الاعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہی عکس تھا کہ آپ سماع نہیں سنا کرتے تھے۔ سولہ برس کی عمر میں تمام علوم ظاہری سے فراغت پائی۔
ایک دفعہ آپ شیخ اوحدالدین کرمانی کی مجلس سماع میں شامل تھے کہ ساری رات سماع میں گزر گئی صبح جب دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ حضرت شیخ الشیوخ رحمۃ اللہ علیہ نے ساری رات قرآن حکیم کی تلاوت میں ہی گزار دی ہے اور سماع کی طرف بالکل التفات نہیں فرمایا جس سے آپ کا قرآن پاک سے عشق کا پتہ چلتا ہے۔
’’سیرالعارفین‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ کی خانقاہ میں حضرت شیخ اوحدالدین کرمانی رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے تو سلطان شمس الدین التمش (جو ان دنوں بچہ تھا) وہاں حاضر ہوا اور چند قراضے کمر سے کھول کر شیخ الشیوخ کی خدمت میں پیش کیئے اور دعا کا طلبگار ہوا‘ آپ نے فاتحہ پڑھ کر فرمایا کہ ’’اس نوجوان کے چہرے سے انوار سلطنت چمکتے ہیں۔‘‘ بعد ازاں کرمانی صاحب نے التمش سے کہا کہ دنیاوی حکومت میں تمہارا دین بھی سلامت رہے گا۔
’’فوائد الفواد‘‘ میں حضرت نظام الدین اولیاء سلطان التمش کے متعلق فرماتے ہیں ’’او خدمت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ را و شیخ اوحدالدین کرمانی رحمۃ اللہ علیہ را دریافتہ بود و یکے فرمودہ کہ تو بادشاہ خواہی شد۔‘‘
کتب تواریخ میں لکھا ہے کہ ہر روز آپ کی خدمت میں دس بارہ ہزار روپے کا نذرانہ آتا تھا اور جو آتا سب خانقاہ میں خرچ ہوتا۔ سینکڑوں غربا اور مساکین دونوں وقت پیٹ بھر کر اٹھتے۔ بلکہ حاجت مند لوگ فیضیاب بھی ہوتے اور اپنا دامن بھر کو واپس جاتے۔ آپ کی عادت شریفہ تھی کہ جو روزانہ آتا شام کو اس میں سے کچھ بھی باقی نہ رکھتے بلکہ صبح کے واسطے ایک ٹکڑہ روٹی کا بھی باقی نہ رہتا تھا۔ ارشاد فرماتے تھے کہ پروردگار عالم نے سب قسم کی نعمتیں عطا فرمائی ہیں مگر ذوق سماع عطا نہ فرمایا‘ یہی وجہ ہے کہ اس کی طرف رغبت نہیں ہے۔
تصانیف:
آپ کی تقریباً اکیس تصانیف بہت مشہور ہیں جن میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں ’’عوارف المعارف‘‘ تصوف کی مستند ترین اور اولین بہترین کتب میں شمار ہوتی ہے‘ اس کتاب کو آپ نے مکہ مکرمہ میں تصنیف فرمایا تھا۔ حضرت فریدالدین گنج شکر مسعود رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی رحمۃ اللہ علیہ ہر وقت اس کتاب کو اپنے ساتھ رکھتے تھے اور اس کے مطالعہ سے محظوظ ہوا کرتے تھے نیز شاگردوں کو پڑھاتے تھے۔ یہ علم تصوف کی بنیادی کتاب ہے۔ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں !کہ اگر کسی شخص کا پیر و مرشد نہ ہو تو وہ ’’عوارف المعارف‘‘ پڑھے اور اس پر عمل کر کے بلاشبہ ولی کامل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ آپ کی دیگر تصانیف میں ’’اعلام الہدیٰ‘ کتاب الاوصیا‘ تفسیر القرآن‘ جذب القلوب‘ مقامات الصارفین‘ رسالہ فی الاعتقاد اور کتاب الاوراد‘‘ بہت مشہور ہیں۔
خلفاء:
خلفاء میں شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ، مصلح الدین رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ بہاءالدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ ضیاءالدین رومی رحمۃ اللہ علیہ ، نورالدین مبارک غزنوی رحمۃ اللہ علیہ (دہلی)، شیخ محمد یمینی رحمۃ اللہ علیہ (شیراز)، شیخ نجیب الدین علی میر بخش شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (بغداد)، سید جلال الدین تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ نجم الدین کبریٰ رحمۃ اللہ علیہ ، شمس العارفین شاہ ترکمان بیابانی رحمۃ اللہ علیہ (دہلی)، قاضی حمیدالدین ناگوری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ اوحدالدین کرمانی رحمۃ اللہ علیہ ،شیخ شرف الدین محمود تستری سہروردی رحمۃ اللہ علیہ قصبہ شوکارہ (عراق)۔
آپ عربی کے علاوہ فارسی کے بھی شاعر تھے تبرک کے طور آپ کی ایک فارسی رطاعی لکھی جاتی ہے ؎
بخشائے برتکہ بخت یارش بنود
جز خوردن غم ہائے تو کارش بنود
از عشق تو حالش باشد کہ ازاں
ہم با تو و ہم بے تو قرارش بنود
وفات:
۶۳۲ھ بمطابق ۱۲۳۴ء میں بغداد شریف میں ہوئی اور وہیں مدفون ہوئے۔
(خزینۃ الاصفیاء)