حضرت امام ابوالحسن ہکاری

حضرت امام ابوالحسن ہکاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

ولادت باسعادت:

آپ کی ولادت باسعادت ۴۰۹؁ھ ۱۰۱۷؁ء میں بمقام ہکّار (جو موصل کے قریب ایک گاؤں کا نام ہے) اسی گاؤں میں ہوئی۔ اس وقت بغداد میں عباسی خاندان کے پچیسوں خلیفہ القادر بااللہ کی خلافت تھی جو  ۳۸۰؁ھ سے ۴۲۲؁ھ تک تخت پر جلوہ گر رہا۔ یہ خلیفہ بڑا عابد و زاہد فقیہ تھا صاحب تصنیف تھا فضائل صحابہ و تکفیر معتزلہ میں آپ کی کتاب موجود ہے[1]۔

اسم شریف:

        آپ کے اسم مبارک کے بارے میں اختلاف ہے اور مختلف روایت سے جو اسماء سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں محمد بن محمود، علی بن محمود، علی بن یوسف، علی بن محمد، چنانچہ غلام دستگیر صاحب اپنی کتاب ذکر حسن میں لکھتے ہیں، ہماری خاندانی کتب میں ابراہیم مندرج ہے ممکن ہے آپ کا نام ابراہیم ہو،لقب یا کنیت ابوالحسن اور باپ کا نام علی ہو مگر چونکہ اکثر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کا نام نامی علی ابن محمد ہے اس لیے یہ ہی درست سمجھنا چاہیے[2]۔

لقب و کنیت:

        آپ کا لقب شیخ الاسلام اور کنیت ابوالحسن ہے۔

نسب شریف:

        آپ کا سلسلہ نسب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا زاد اور رضائی بھائی حضرت زید ملقب ابو سفیان سے ملتا ہے۔ تذکرہ حمیدیہ، تذکرۂ قطبیہ، اذکار قلندری وغیرہ میں اس طرح شجرۂ نسب بتایا گیا ہے۔ عاف کامل، محبوب باری، شیخ الشیوخ ابراہیم ابوالحسن علی ہاشمی الہکاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حضرت شیخ محمد بن جعفر بن حضرت شیخ یوسف بن شیخ محمد شیخ شریف، عمر بن شیخ شریف عبدالوہاب بن حضرت ابو سفیان زید رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین[3]۔

تعلیم و تربیت:

        آپ کی تعلیم وتربیت کے متعلق ابن خلکان تحریر فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے وقت کے ممتاز ترین علماء و مشائخ کی بارگاہ میں زانوئے ادب تہ کرکے علم ظاہری و باطنی حاصل کیا علم حدیث و فقہ غرض کہ جملہ علوم پر مہارت تامہ حاصل فرمایا اور شیخ ابوالعلاء مصری سے بھی ملے ہیں اور ان سے بھی حدیث سنی ہے۔ آپ کو حضرت بایزید بسطامی کی روح پر فتوح سے بھی فیض پہنچا ہے۔ یہاں تک کہ اپنے زمانے میں شیخ الاسلام کے لقب سے مشہور ہوئے آپ اپنے وقت کے فاضل اجل اور عالم بے بدل تھے[4]۔

فضائل:

        مقتدائے طریقت، واقف اسرار حقیقت، دانائے اسرار الٰہی، پابند شریعت الٰہی، حضرت شیخ الاسلام ابراہیم، ابوالحسن علی ہاشمی ہکّاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے پندرہویں امام و شیخ طریقت ہیں آپ محبوب اللہ الباری، جلوہ ہائے جمال کے مظہر تجلیات جلال کے مصدر، علم ادب کے اعلم بازار ذوق شوق کے رونق تھے، ابتدا میں آپ اپنے پدر بزرگوار حضرت شیخ محمد رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہے۔آپ بڑے اولوالعزم شیخ تھے آپ کے فیضان کرم سے بیشمار طالبان حق اپنے منزل مقصود تک پہونچے چنانچہ آشنائے بھر توحید حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو جناب فیض مآب حضرت محبوب سبحانی قطب ربانی غوث صمدانی محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیر بیعت ہیں آپ ہی کی خدمت میں اٹھارہ سال خدمت گزاری فرما کر اور آپ کی اتباع و پیروی کرکے مسند ارشاد و تلقین پر متمکن ہوئے۔

بیعت و خلافت:

        آپ کوقطب وقت غوث زماں حضرت ابوالفرح محمد طرطوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شرف بیعت کی سعادت حاصل کی ہے اور انہیں کی نظر کیمیا اثر سے آپ کے قلب و جگر عرفان و ایقان سے روشن و تابناک ہوئے آپ حضرت طرطوسی رضی اللہ تعالیٰ ونہ کے اجلہ خلفاء میں سے ہیں اور آپ کا سلسلہ بیعت حضرت معروف کرخی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد دو شاخوں میں ہوگیا۔ کیونکہ   کیونکہ حضرت معروف کرخی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دو بزرگوں سے فیض پہنچا ہے۔ ایک حضرت علی رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور دوسرے حضرت داؤد طائی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اول الذکر سلسلہ کو سلسۃ الذہب کہتے ہیں اور اس وقت سلسلہ قادری رضویہ میں اسی سلسلہ سے بیعت کیجاتی ہے[5]۔

عبادت و ریاضت:

        آپ اپنے وقت کے علم شریعت و طریقت کے امام تھے علم کے ساتھ عمل میں بھی آپ یکتائے روزگار تھے چنانچہ تمام تاریخ نگاروں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ آپ ہمیشہ صائم الدہر اور قائم اللیل رہتے اور ہر تیسرے دن پر ہی آپ کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور قیام لیل کا یہ عالم تھا کہ عشاء کے بعد آپ اپنے محبوب حقیقی کے کلام کو شروع کرتے اور نماز تہجد کے پہلے ہی دو ختم قرآن مجید کرلیا کرتے تھے۔ مگر صاحب کتاب انار صوفیہ کی روایت ہے کہ آپ رات کو جب تہجد کی نماز پڑھتے اس وقت تک قرآن مجید کے دس ختم کرلیتے۔ یعنی بعد نماز عشاء سے تہجد تک آپ قرآن خوانی میں مصروف رہتے تھے اورکلام الٰہی کی بے پناہ لذتوں سے سرور وکیف کا سامان مہیا فرماتے گویا آپ ساری رات محو راز و نیاز رہتے[6]۔

دنیا کی سیاہی:

آپ نے سَیرُوا فِی الارض کو ملحوظ رکھتے ہیں دنیا کی سیاحی  بہت فرمائی اور اسی سلسلہ میں وقت کے ممتا ز ترین علما و مشائخ کی بارگاہ میں جا کر ان سے ملے اور ایک دن حضرت ابوالفرح طرطوسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ مقدسہ میں حاضر ہوکر شرف بیعت حاصل کیا اور پیر کامل کے فیض نگاہ سے سیر ظاہر ہو کر چھوڑ کر سیر ِ باطن فرمانے لگے اور انہیں کے خلیفہ اول مقرر ہوئے۔

آپ کی پیشنگوئی اور اس کی تصدیق:  

        سلاسل انوارمیں ہے کہ ایک بزرگ نے آپ سے سوال کیا کہ اَنْتَ شیخ الْاِسْلَامکیا آپ شیخ الاسلام ہیں؟ آپ نے جواب ارشاد فرمایااِنَّا شیخ فی الْاِسْلَامِ وَ خَرَجَ مِن اولادہ واحفدہ جماعۃ تقدمواعندک الملوک وَعلت مراتبہم منہم فقراء ومنہم امراء خرج ااور علت فعل ماضی ہیں اور قتدمو فعل مضارع۔ اس لیے یہ عبارت کچھ بے جوڑ سی ہوتی ہے۔ غالباً ٹھیک عبارت یوں ہوگی۔ انا شیخ فی الاسلام ویخرج من اولادی وحفدی جماعۃ تقدموا عندک الملوک تعلت مراتبہم مِنہم فقراء وَمنہُمْ امراءیعنی میں بوڑھا ہوں اسلام میں اور میری اولاد و احفاد سے ایک جماعت نکلے گی جو بادشاہوں کے نزدیک پیشی چاہے گی ان کا مرتبہ بلند ہوگیا بعض ان میں سے فقراء ہوں گے اور بعض امراء۔

        یہ ارشاد ایک قسم کی پیشنگوئی ہے جو پوری ہوئی۔ آپ کے فرزند ارجمند حضرت شیخ ظاہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خلاصۂ صاحبان صفا ار زبدہ زمرد اہل وفا تھے۔ وہ راہ شریعت کو قدم ہمت سے طے کئے ہوئے تھے جبل ہکّار میں آپ کے نائب مناب رہے مگر آپ کے پوتے شیخ موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جبل ہکّار سے کوچ فرماکر سیتان میں اقامت پذیر ہوگئے جہاں اکثر مخلوق خدا کو فیضیاب فرمایا اور ان کے فرزند رشید شیخ ابو علی رضی اللہ تعالیٰ جو بڑے باہمت شخص تھے سیتان کو چھوڑ کر کیچ مکران میں جابسے اور وہاں کے باشندے جو سلطان کی کاہلی اور بے اعتدالی سے جاں بلب تھے۔ آپ کی ذات بابرکات کا انتخاب کرکے حاکم وتق کو معزول کرکے آپ کو اپنا حاکم منتخب کرلیا۔ سلطان ابو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے فرزند ارجمند رشید الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہو نہار دیکھا تو امور جہانداری کی سرانجام دہی کی زمام ان کے حوالے کرکے خود کنج عزلت میں جا بیٹھے اور باقی عمر یاد الٰہی میں بسر کردی۔ تو آپ ہی کے عہد میں حضرت سید احمد توختہ ترمذی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے اہل و عیال سمیت کیچ مکران میں رونق افروز ہوئے اور آپ کے فرزند ارجمند شاہزادہ بہاء الدین رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ اپنی صاحبزادی بی بی حاج کا نکاح کردیا۔ جن سے تین فرزند پیدا ہوئے۔

اول شہزادہ جمال الدین    (۲) شہزادہ ضیا الدین    

(۳) سلطان التارکین شیخ حمید الدین حاکم رحمۃ اللہ علیہ

جب سلطان قطب الدین حسب دستور بزرگان حکومت سے فارغ ہوئے تو اورنگ نشیبی کا قرعہ شیخ بہاء الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نام پڑا جنہوں نے دس سال بڑے عدل و انصاف سے مہمات ملکی کو سرنجام دیا اور بعد ازاں تخت و تاج کو اپنے سگے بھائی شیخ شہاب الدین ابوالبقا کے حوالے کرکے اور اپنے دو چھوٹے شہزادے حضرت شیخ حاکم رحمۃ اللہ و شیخ رکن الدین حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (نواسہ قاضی رفیع الدین عباسی) کو ان کی سرپرستی میں چھوڑ کر اپنے ہمراہ بڑے شہزادے کو لے کر حج کرنے روانہ ہوئے۔ مگر جب زیارت حرمین طیبین سے فارغ ہو کر یمن صالحہ میں پہنچے تو جاں بحق تسلیم ہوگ۴ے اور آپ کے فرزندان موصوف (یعنی شہزادہ جمال الدین و ضیا الدین رحمہم اللہ تعالیٰ) نے اپنے مرقد پدر بزرگوار کی مفارقت گوارا نہ کرکے وہیں اقامت اختیار کرلیے چنانہ ان کی اولاد یمن صالحہ ہی میں بیان کی گئی ہے۔ میں سلطان شہاب الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دو سال تک حکمرانی  کے بعد اپنے آخری ایام میں خدمت اپنے بھتیجے سے تذکرہ حمیدہ میں ہے۔ کوتاہ کلام یہ کہ حضرت ابوالحسن رلی ہکاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشنگوئی کی "میری اولاد" میں بعض فقرا اور بعض امراء" یہ حضرت حاکم رحمۃ اللہ علیہ تک پوری ہوئی[7]۔

ہمعصر علماء:

        چونکہ آپ کا زمانہ علم و ادب کا زمانہ تھا۔ شعور و فکر کا دوت تھا آپ کے دور میں جلیل القدر علماء و فضلاء سے کائنات فیضیاب ہورہی تھی۔ اور دنیا کا ایک ایک گوشہ ان علماء کے نور ہدایت سے تابناک ہورہاتھا۔ اس لیے مناسب ہے کہ آپ کے معاصرین علماء کی مختصر سی فہرست بیان کردی جائے تاکہ قائین کے ذہن و دماغ میں اس پر عظمت دور کی برتری جم جائےا ور آپ کی شخصیت علمی میدان میں واضح ہوجائے جن کے اسماء اس طرح ہیں۔

۱۔      حجۃالاسلام امام محمد غزالی طرطوسی ۵۰۵؁ھ    ۱۱۱۱؁ء

۲۔     حافظ دار قطنی

۳۔     سرتاج تحویا ابن جبنی

۴۔     سرتاج بلفار بدیع

۵۔     قدوری شیخ الحنفیہ ۴۲۸؁ھ

۶۔     ابن سیناء شیخ فلاسفہ ۴۲۷؁ھ

۷۔     امام بیہقی

۸۔     عبدالقادر جرجانی م ۴۷۱؁ھ

۹۔      شیخ ابوالحسن خرقانی رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین[8]۔

خدمات جلیلہ:

        آپ نے پوری زندگی اسلام کی نشرو اشاعت میں صرف فرمائی اور اپنے فیوض و برکات سے مخلوق عالم کو فیضیاب کرتے رہے، شریعت ظاہری کا ہر آن و قدم پر خیال فرماتے اور سنت نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر اس مضبوطی سے قائم رہے کہ ایک قدم بھی آپ کا شریعت سے باہر نہ تھا۔ 

اولاد امجاد:

        آپ کے اولاد امجاد کی کوئی فہرست دستیاب نہ ہوسکی۔ البتہ ایک صاحبزادے کے نام کا پتہ چلتا ہے۔ جن کو آپ سے خلافت بھی حاصل تھی اور جن کا اسم گرامی حضرت شیخ ظاہر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ اور اس کے بعد سے آپ کی اولاد و امجاد کی نشاندہی ریاست بہاولپور، اضلاع جھنگ، گوجرنوالہ، سیالکوٹ، لائل پور، اور لاہور وغیرہ میں بکثرت ملتی ہیں اور وہ بیسوں گاؤں کے مالک ہیں[9]۔

خلفاء کرام:

        خلفاء کی بھی فہرست نامکمل ہے صرف (۱) حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی               (۲) دوسرے آپ کے ہی فرزند حضرت شیخ ظاہر رضوان اللہ تعالی ٰعلیہم اجمعین ہیں۔

تاریخ وصال:

        آپ کا وصال بروز دو شنبہ بوقت صبح صادق یکم محرم الحرام ۴۴۲؁ھ میں ہوا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون یہ عہد خلافت المستظہر باللہ عباسی کا تھا۔ مگر بعض نے آپ کی وصال کی تاریخ ۲۵ محرم الحرام ۴۸۵؁ھ، ۳۸۴؁ھ بھی لکھی ہے۔ مگر شجرہ رضویہ میں اول الذکر کو اختیار کیا گیا ہے۔

تاریخ وصال

بوالحسن آں رہبر دین رسول
آفتاب، آمدگر "تاج عطا"
سرور ہادی بگواے خوشخصال
ہم شہ عادل امام اولیاء
گفتہ ام اہل محبت اے عزیز

 

چوں زدنیا گشت راہی جناں
سال وصل آں شہ والا مکاں
شاہ طیب بوالحسن داں اے جواں
قطب ربانی ولی اللہ خواں
بازمہ تاب ازل کردم بیاں

مزار مبارک:

آپ کا مزار مبارک بغداد شریف کے ہکّار گاؤں میں مرجع خلائق ہے۔

 

 

 

 

[1] وفیات الاعلام قلمی از شاہ خوب اللہ الہ آبادی رحمۃ اللہ علیہ ص ۱۹ و مسالک السالکین  ج۱، ص ۳۲۸

[2] ذکر حسن از علامہ غلام دستگیر ص۲۷

[3] ذکر حسن از علامہ غلام دستگیر ص۲۶۲

[4] الدرالمنظم فی مناقب غوث الاعظم ج۲، ص ۱۰۷

[5] خزینۃ الاصفیاء ج۱ ، ص ۹۰

[6] مسالک السالکین ج۱ص ۳۲۸  وانوار صوفیہ ص ۱۲۱

[7] ذکر حسن

[8] ذکر حسن

[9] ذکر حسن

تجویزوآراء