شیخ ابوالحسن نوری ہراتی

شیخ ابوالحسن نوری ہراتی علیہ الرحمۃ

اسم مبارک احمد بن محمد یا محمد بن محمد ابن الفتوری﷫ تھا، آپ کے والد ماجد لغثور کے رہنے والے تھے جو ہرات اور مرو کے درمیان ہے  آپ بغداد میں پیدا ہوئے مشائخ و صوفیہ آپ کو امیر القلوب کے لقب سے یاد کیا کرتے تھے بعض صوفیاء آپ کو قمر الصوفیہ کے نام سے پکارتے تھے آپ نے حضرت شیخ سری سقطی قدس سرہ سے خرقہ خلافت پایا تھا اور حضرت شیخ احمد حواری کی مجالس سے بھی استفادہ کیا، آپ حضرت جنید بغدادی کے معاصر تھے خود مجتہد صاحب مذہب امام طریقت اور سلسلہ نوریہ کے بانی تھے آپ کو نوری اس لیے کہا جاتا تھا کہ رات کی تاریکی میں گفتگو فرماتے تو منہ سے نور کی کرنیں نظر آتیں جن سے سارا ماحول روشن ہوجاتا تھا آپ نور کرامت سے لوگوں کے دلوں کے حالات معلوم کرلیتے، آپ صحراء میں ایک صومعہ میں رہا کرتے تھے، لوگ آپ کی زیارت کو جاتے تو آپ کے صومعہ سے نور کی شعاعیں دیکھتے جو آسمان کو چھوتیں۔

آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابتدائے کار میں ایک دن میں دریائے  دجلہ پر گیا دو کشتیوں کے درمیان کھڑے ہوکر کہنے لگا، جب تک مجھے ساٹھ سیر کی ایک مچھلی نہ ملے گی میں یہاں سے نہیں جاؤں گا دریا سے ایک بہت بڑی مچھلی اچھلی میں کنارے پر لایا، اور کہا الحمدللہ میرا کام ہوگیا، میں نے یہ کرامت حضرت جنید بغدادی کو سنائی، تو آپ نے فرمایا ابوالحسن اگر مچھلی کی بجائے اتنا بڑا سانپ نکل آتا اور تجھے ڈس لیتا اور تم مرجاتے تو اس سے کہیں بہتر تھا کہ تم اپنی کرامت کا فخریہ اظہار کرتے۔

خلیفہ بغداد کا ایک مقرب خلیل صوفیہ کی مخالفت پر کمربستہ ہوا، دربار میں کھڑے ہوکر کہنے لگا۔ امیر المومنین! یہاں ایک ایسی جماعت پیدا ہوئی ہے جو سرور گاتی ہے اور رقص کرتی ہے، لوگ ان سے دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں وہ خلاف شرع باتیں کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی وجہ سے لوگ اسلام سے برگشتہ ہو رہے ہیں، اگر آپ ان زندیقوں کے قلع قمع کرنے کا اختیار دیں تو میں اس فتنہ کو اکھاڑ پھینکوں، خلیفہ نے ان لوگوں کو دربار میں طلب کیا، شیخ ابوحمزہ، حضرت شبلی، حضرت رقام حضرت ابوالحسن نوری اور شیخ الطائفہ حضرت جنید بغدادی  کے علاوہ بہت سے صوفیاء حاضر دربار ہوئے، رحمۃ اللہ علیہم، خلیفہ نے سب کو قتل کرنے کا حکم دیا، جلّاد نے سب سے  پہلے حضرت رقام کی گردن اڑانی چاہی مگر حضرت نوری کود کر آگے بڑھے اور اپنی گردن پیش کردی ، مسکراتے اور ہنستے ہوئے موت کے سامنے کھڑے ہوگئے، اہل دربار آپ کی اس جرات پر دنگ رہ گئے، لوگوں نے کہا، اللہ کے بندے تلوار لحاظ نہیں کیا کاتی، آپ نے فرمایا میرا طریقۂ تصوف تو ایثار ہے، یہی  میری دنیا کی عزیز ترین چیز ہے، میں اپنی زندگی کے چند لمحات اپنے بھائی پر نثار کرنا چاہتا ہوں حالانکہ میں اس زندگی  کو آخرت کے ہزار سال سے قیمتی جانتا ہوں، خلیفہ  نے سنا، جلّاد کو کہا  ہاتھ روک لو، مجھے علماء وقت سے فتویٰ لینے دو، قاضیِ شہر کو بلایا گیا  قاضی نے کہا ان سب میں سے میں کامل علوم حضرت جنید ہیں، ابوالحسن تو دیوانہ مزاج انسان ہیں، ان سے شرعی مسئلہ کیا پوچھوں، حضرت جنید بغدادی نے قاضی سے پوچھا، حضرت بیس دینار پر زکوٰۃ کتنی دی جائے گی، حضرت شبلی نے پڑھ کر جواب دیا کہ ساڑھے بیس دینار قاضی نے پوچھا کوئی شرعی دلیل ، آپ نے فرمایا، سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس چالیس ہزار  دینار تھے   آپ نے سب کے سب دے دیے، اور کچھ نہ رکھا ہم صوفیاء سیدنا صدیق اکبر کی اتباع میں بیس کے بیس دیں گے۔ قاضی نے کہا کہ آدھا دینار کیا ہے؟ حضرت شبلی نے فرمایا یہ کفارہ ہے اس بات کا کہ بیس دینار اپنے پاس کیوں جمع کیے رکھے، قاضی نے خلیفہ کی طرف منہ کرکے کہا، اگر یہ لوگ زندیق اور ملحد ہیں، تو میں فتویٰ دیتا ہوں کہ آج عالم اسلام  میں کوئی بھی موحد نہیں ہے، خلیفہ اپنے تخت سے نیچے اترا، صوفیاء کو احترام سے ملا اور کہنے لگا میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حاضر ہوں، صوفیاء  نے کہا بس ایک تکلیف دیں گے کہ آج کے بعد ہم سب کو اپنی مقبولیت سے  دور رکھیے ، اور پھر کبھی دربار میں طلب نہ کریں خلیفہ رونے لگا، اور بے پناہ احترامات کے ساتھ الوداع کہنے دور تک پا پیادہ باہر آیا۔

ایک دن حضرت ابوالحسن کے پاس ایک شخص حاضر ہوا ، آپ اور وہ شخص دونوں رونے لگے، کچھ وقت گزرا تو وہ شخص رخصت ہوا، حاضرین  مجلس نے پوچھا یا حضرت یہ کون شخص ہے ، آپ نے فرمایا یہ ابلیس تھا، وہ اپنی خدمات اور قربت اللہ کے واقعات بیان کرکے رو رہا تھا اور اسے اللہ کی بارگاہ سے محرومی پر رونا آتا تھا ، میں  اس کی باتیں سن کر رو رہا تھا، کہ جب اتنا قریب ترین دھتکارا جاسکتا ہے، تو دوسرا کون ہے جو دم مارے ایک دن آپ دریائے دجلہ میں نہا رہے تھے ایک چور آگے بڑھا آپ کے کپڑے  اٹھا کر بھاگ نکلا ابھی تھوڑی دور ہوگیا تھا کہا س کا ہاتھ سوکھ گیا واپس آیا جس جگہ سے کپڑے اٹھائے تھے لار کھے، حضرت نوری نے دعا کی، اے اللہ اس چور نے میرے کپڑے لوٹا دیے ہیں، تو بھی اس کے بازو کو توانائی بخش دے۔ وہ اسی وقت صحت یاب ہوگیا۔ ایک بار بغداد کی مارکیٹ میں آگ بھڑک اٹھی سینکڑوں مکانات جل گئے، لاکھوں کی جائیداد راکھ ہوگئی، دو رومی غلام جو نہایت حسین و جمیل تھے، آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آگئے، ان کے مالک کو وہ بہت پیارے تھے، اس نے اعلان کیا، آج جو ان دو غلاموں کو بچائے گا اسے دو ہزار دینار خالص انعام  دوں گا، کسی کو جرات نہ ہوتی تھی کہ بھڑکتے ہوئے شعلوں میں آگے بڑھے اتفاقاً حضرت ابوالحسن نوری وہاں سے گزر رہے تھے، آپ نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا، اور آگ میں قدم رکھ کر آگے بڑھے بچوں کو آگ کے شعلوں سے لے آئے، اُس نے آپ کی خدمت میں دو ہزار دینا رپیش کیےمگر آپ نے لوٹادیے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے دنیا کی دولت قبول نہ کرنے کی وجہ سے مجھے یہ انعام دیا ہے۔

ایک دن حضرت ابوالحسن نوری﷫ کی خادمہ جس کا نام زیتونہ تھا، آپ کی خدمت میں نان اور دودھ لے کر آئی، حضرت نوری نے چولہے میں آگ جلائی تھی، آپ کے ہاتھ سیاہی سے بھرے ہوئے  تھے، دھوئے بغیر کھانا کھانے لگے، خادمہ نے دل میں کہا یہ کیسا غلیظ انسان ہے کہ گندھے ہاتھوں کھانا کھانے لگا ہے، ناگاہ ایک شخص اندر آیا اور شور مچانے لگا کہ زیتونہ نامی عورت نے میرے کپڑے چرالیے ہیں، میں اسے کوتوال کے پاس لے جاؤں گا وہ زیتونہ کو بازو سے پکڑ کر گھسیٹنے لگا، حضرت نوری اٹھے اور کہنے لگے اسے  نہ لے جاؤ، تمہارے کپڑے ابھی مل جاتے ہیں یہ بات کہہ ہی رہے تھے کہ ایک  شخص کپڑوں کی ایک گھڑی اٹھائے اندر آیا اور کہا یہ کس کے کپڑے ہیں؟ اس شخص نے اپنے کپڑے پہچان کر زیتونہ کو چھوڑ  دیا، حضرت نوری نے زیتونہ کو کہا، ایک بار پھر کہو کہ ’’یہ کتنا غلیظ آدمی ہے کہ گندے ہاتھ سے کھانا کھاتا ہے۔‘‘ خادمہ نے توبہ کی اور  قدموں میں آگری۔

ایک دن حضرت نوری نے ایک شخص کو دیکھا کہ جس کا گدھا مرگیا تھا اور زور دار ژالہ باری ہو رہی تھی وہ شخص بہت گھبرایا ہوا تھا، حضرت آگے بڑھے اور گدھے پر قدم رکھ کر فرمانے لگے، اُٹھ اور اس شخص کو اپنی منزل پر پہنچا، اس شخص نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور چلتا بنا۔

صاحب نفحات الانس اور سکینہ الاولیاء نے آپ کا سال وفات ۲۹۴ھ یا ۲۹۵ھ لکھا ہے۔

[احمد بن محمد بن عبداللہ ابوالحسین نوری قدس سرہ حضرت سری سقطی کے شاگرد خاص اور حضرت جنید بغدادی کے جلیس مجالس خراسان کے رہنے والے تھے۔ بغداد میں زندگی گزاری، علم شریعت میں یگانہ روزگار تھے،  نوریہ کا سلسلۂ طریقت آپ کے نام سے موسوم ہوا، شاعری میں ممتاز مقام کے مالک تھے، آپ کی ظاہری  زندگی پابند شریعت تھی، حضرت جنید کی علمی آراء کے مرید تھے، شرع کے نفاذ میں خلیفہ وقت کے شراب خانہ کو توڑ پھوڑ دیا، خلیفہ نے پوچھا تم ایسا کرنے والے کون ہو، فرمایا میں محتسب ہوں، پوچھا تمہیں کس نے محتسب بنایا، فرمایا جس نے تجھے خلیفہ بنایا تھا، طریقت میں معارف الٰہیہ بیان کرتے ہیں جس سے ظاہر بین علماء اور امراء بھڑک اٹھتے غلام جلیل  نے آپ کے خلاف کفر کا فتویٰ حاصل کیا، مگر خلیفہ کے دربار میں آپ نے سب کو لاجواب کردیا، آپ پر الزام تراشی کی گئی، مگر معترفین کو بجز ندامت کچھ ہاتھ نہ آیا ، حضرت خواجہ فریدالدین عطار نے تذکرہ اولیاء میں حضرت سیّد علی ہجویری داتا گنج بخش لاہوری نے کشف  المحجوب میں صاحب رسالہ قشیریہ اور طبقات شعرانی نے آپ کو ہدیۂ تحسین پیش کیا ہے، آپ کا سلسلہ  طریقت صدیوں تک عراق، ایران میں مقبول و محبوب رہا۔  (مترجم فاروقی)]

حضرت نوری کہ از انوار وے
رفت چوں زین خانہ ظلمات
رحلت او سید دین ابوالحسن

 

گشت منور بجہاں نور دین
صورت خورشید بخلد برین
طرفہ خرد گفت بصدق و یقین
۲۹۵ھ

(خزینۃ الاصفیاء)

تجویزوآراء