حضرت شیخ آدم بنوری

حضرت شیخ آدم بنوری علیہ الرحمۃ

چونکہ  حضرت شیخ اللہ بخش لاہوری کے تذکرہ میں شیخ آدم  بنوری کا نام آگیا ہے اس لیے انکے حالات بھی مختصراً بیان کیے جاتے ہیں یاد رہے کہ حضرت شیخ آدم بنوری اتباع سنت اور دفع بدعت میں مشہور تھے۔ فقراء  کو اغنیاء پر ترجیح دیتے تھے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر آپکا مشرب تھا آپ حضرت شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے اکابر خلفاء میں سے تھے لیکن آپکی باطنی نسبت کو شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کی نسبت  پر فوقیت تمام تھی۔ شیخ آدم بنوری تربیت مریدین میں بے نظیر تے۔ تھوڑی سی توجہ سے   طالبان حق کو لطائف ستہ میں سے ہر لطیفہ میں مرتبل فناتک پہنچادیتے تھے۔ اور آپکی صورت دیکھتے ہی طالبان ھق کو ذکر قلبی حاصل ہوجاتا تھا۔ اس فقیر کو بھی بلاواسطہ (براہ راست) لطائف ستہ کی تعلیم آپکی روحانیت سے ح اصل ہوئی ہے۔ شیخ آدم بنوری کے خلفاء ایک سو کے قریب ہیں اور مریدین کی تعداد ایک لاکھ  کے لگ بھگ ہے۔ آپکا وطن روہ (پہاڑ یا روہی تھا)۔ آپ کسی وجہ سے   روہ سے ترک سکونت کر کے بنور جاکر مقیم ہوئے۔ اور پھر وہاں سے چند لوگوں کے ساتھ لاہور تشریف لے گئے۔ جب بادشاہ وقت صاحبِ قرآن محمد شاہجہان کو  اس بات کی اطلاع ہوئی تو اپنے وزیر  اعظم سعد اللہ خان  اور مخدو م الملک مُلا عبدالحکیم سیالکوٹی کو انکے پاس بھیجا۔ جب یہ دونوں اکابر شیخ آدم بنوری کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے انکی پرواہ نہ کی۔ ملا عبدالحکیم نے شیخ سے کہا کہ درویشوں کیلئے تکبیر  اچھا نہیں ہے شیخ نے فرمایا کہ حضرت رسالت پناہﷺ کی یہ حدیث مبارکہ آپکو یاد نہیں ہے  کہ التکبر مع المتکبرین صدقتہ (متکبرین کے سامنے  تکبر سےپ ید انا صدقہ ہے) اس  وجہ سے ملا عبدالحکیم اور سعادللہ خان حضرت اقدس  سے رنجیدہ ہوکر چلے گئے اور بادشاہ کی خدمت میں جاکر کہا کہ شیخ آدم کے ساتھ افغانوں کا اجتماع ہے اگر وہ چاہیں تو سلطنت میں بد امنی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ سنکر بادشاہ کا مزاج شیخ آدم سے متغیر ہوگیا۔ اور ملک سے بدر کردیا۔ آپ  وہاں سے روانہ ہوکر پہلے اپنے وطن پہنچے  اسکے بعد مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ گئے اور زیارت روضہ اقدس سے مشرف  ہوئے۔ وہاں انکی بہت مقبولیت ہوئی۔ آخر ۱۰۵۳؁ھ میں بتاریخ تیرہ شوال مدینہ منورہ میں وفات پائی اور امیر المومنین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عن ہ کے روضہ  کے قریب دفن ہوئے۔ چنانچہ  حضرت عثمان کے گنبد  مبارک  کا سایہ انکی قبر پر پڑتا ہے۔

سید اللہ  بخش کی طب مدار سےملاقات

روایت ہے کہ سید اللہ بخش  لاہوری قدس سرہٗ  ابتداے حال میں حق تعالیٰ سے دعا کرتے تھے ک ہ آپکے دوستوں میں سے کسی کی  مجھے زیارت نصیب ہو۔ ایک دن چاشت کے وقت آرام کر رہے تھے کہ خواب میں حق تعالیٰ نے انکے دل یہ بات ڈالی کہ تمہارا  دیرینہ مطلوب تمہارے دروازے پر کھڑا ہے۔ اٹھو اور اس سےملاقات کرو۔  جب وہ دروازے پر گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چرم پوش[1] درویش کھڑا ہے اور ایک گھنٹی میں رسی ڈال کر ہاتھ میں لیے ہوئے ہے۔ وہ درویش نے انکو دیکھتے  ہی صحرا کی طرف روانہ ہوگیا۔ اور میر سید اللہ بخش انکے پیچھے روانہ ہوگئے۔ جب صحرا میں پہنچے تو درویش نے دریافت کیا کہ تم کس لیے انکے پیچھے آرہے ہو  اور تمہارا کیا مطلب ہے۔ میر سید اللہ بخش نے کہا کہ میرا عرض یہ ہے  کہ آپ نے اس کمال کے باوجود یہ  لباس کیوں اختیار  کر رکھا ہے۔ درویش نے کہا کہ میرے محبوب کی مرضی یہ ہے،  کہ میں اپنے جمال باطن   کو اس لباس میں چھپا رکھاہوں۔  حالانکہ میں زمانے کا قطب مدار ہوں۔ تمام ریاضات کا مقصد یہ ہے کہ آدمی رضائے حق  کے  حصول کی کوشش کرے۔ اور اپنی ہستی  کو گم کردے۔ اسکے بعد انہوں نے سید اللہ بخش کو شغل مصباح الاسرار تلقین کیا اور انکو رخصت کر کے اُسی وقت گم ہوگئے۔

آیات کے معانی کا جلوہ گر ہونا

روایت ہے کہ جب سید اللہ  بخش تلاوت قرآن مجید کرتے تھے تو ہر آیت کے معانی آپ پر متجلی ہوکر کئی صورتوں میں جلوہ گرتے ہوتے تھے۔ اس وجہ سے آپ دروزہ بند کر کے تلاوت کرتے تھے۔ تاکہ حال مخفی رہے۔ آپکا مزار لاہور میں حاجت روائے خلق ہے۔

 

[1]۔نفی اثبات سے مراد ذکر  لَا اِلاٰہَ اِلاَّ اللہ ہے۔ لا الہ کو نفی  اور الا اللہ کو اثبات کہا جاتا ہے۔ ذکر اسم ذات سے مراد ذکر اسم پاک اللہ اللہ ہے۔

(قتباس الانوار)

تجویزوآراء