حضرت داؤد طائی
حضرت داؤد طائی اکابر وقت میں شمار ہوتے تھے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ فضیل، ابراہیم بن ادھم جیسے جلیل القدر علماء و اولیاء کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ آپ نے ایک مجلس میں ایک نوحہ خواں سے یہ شعر سنا:
بِاَیِّ خَدَیکَ تبدی لیلا |
|
وای عینیک ازا سالا ط |
وہ کون سا منہ ہے جس پر خاک نہیں ڈالی گئی
اور کون سی آنکھ ہے جو زمین میں نہیں ملی
یہ بات سنتے ہی آپ کے دل میں بڑا درد پیدا ہوا اور آپ حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے۔ آپ نے صورتِ حال دریافت کی تو کہنے لگے کہ میرا دل دنیا کے معاملات سے ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ حضرت امام نے فرمایا: تمہیں مبارک ہو تم اللہ کے ہوگئے ہو۔ اس دن کے بعد آپ نے صرف اللہ کے ذکر کو اپنی زندگی بنالیا۔
حضرت داؤد طائی کو اپنے باپ کے ورثہ سے صرف بیس دینار ملے تھے۔ یہ بیس دینار آپ نے اپنی عمر کے بیس سالوں میں خرچ کیے فرمایا کرتے تھے۔ مجھے اتنا ہی کافی ہے آپ ہمہ وقت یاد خدا میں رہتے صرف کھانا یا پینا اختیار کرتے بسا اوقات روٹی کا ٹکڑا پانی میں بھگولیتے اور کھاتے فرمایا کرتے میں جتنا وقت کھانے اور پینے میں ضائع کرتا ہوں اتنے وقت میں پچاس آیت قرآنی تلاوت کرسکتا تھا۔
حضرت داؤد طائی ایک بہت بڑی حویلی کے مالک تھے جس میں کئی کمرے تھے۔ ایک کمرہ گر جاتا تو دوسرے میں قیام کرلیتے لوگوں نے پوچھا آپ عمارت کی تعمیر و مرمت کیوں نہیں کرتے فرماتے میں نے اللہ سے عہد کیا ہے۔ کہ میں دنیا کی تعمیر میں حصہ نہیں لوں گا چنانچہ آپ کی ساری حویلی گر پڑی۔ صرف آپ کی دہلیز بچ گئی۔ وہ بھی آپ کے انتقال کے وقت گر پڑی ایک دفعہ کسی دوست نے بتایا کہ آپ کے گھر کی چھت گرنے والی ہے۔ آپ نے فرمایا بیس سال گزر گئے میں نے کبھی چھت کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھا۔
ایک دن ہارون الرشید نے حضرت امام یوسف کو کہا کہ مجھے حضرت داؤد طائی کے پاس لے چلو، تاکہ میں ان کی زیارت کرلوں۔ حضرت امام یوسف آپ کے مکان پر تشریف لائے دروازہ کھٹکایا۔ مگر آپ باہر نہ آئے۔ آپ کی والدہ سے گزارش کی کہ حضرت داؤد طائی کو ہارون الرشید سے ملنے کی سفارش کریں۔ بایں ہمہ آپ نہ مانے اور اپنی والدہ کو کہا۔ میں اس ظالم سے ملنا نہیں چاہتا۔ والدہ نے کہا کہ میرے دودھ کی قسم ایک بار ہارون الرشید کو زیارت کی اجازت دو۔ آپ مان گئے ہارون الرشید آئے۔ اور ایک ہزار دینار کی تھیلی پیش کی اور عرض کی یہ مالِ حلال سے لایا ہوں، آپ نے فرمایا: مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ میں نے اپنے مکان کا ایک حصہ فروخت کردیا ہے اس سے گزر اوقات کرلیتا ہوں۔ میں نے اللہ سے التجا کی ہے کہ جب یہ خرچ ختم ہوجائے گا میرا انتقال ہوجائے۔ حضرت امام یوسف نے آپ کی والدہ سے پوچھا کہ اب حضرت داؤد طائی کے پاس کتنا خرچہ موجود ہے۔ اس نے بتایا دس درہم۔ ہر روز ایک دینار خرچ کرلیتے ہیں۔ امام یوسف نے حساب دل میں رکھا آخری دن کہنے لگے۔ آج حضرت داؤد طاوئی کی وفات کا دن ہے۔ اس دوران خبر آئی کہ آپ کا انتقال ہوگیا ہے۔ آپ نے نماز عشاء کی ادائیگی کے لیے سر سجدے میں رکھا تھا۔ کہ داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے کسی دیوار کے سایہ میں دفن کرنا تاکہ کوئی میرے سامنے سے نہ گزرے۔
آپ کی وفات ۱۶۲ھ کو ہوئی۔ بعض کتابوں میں ۱۶۵ھ لکھی ہے۔
چوں آں شاہ زمان داؤد و مسعود
|
|
بخلد آمد بصد صدق و صفائی
|
(خزینۃ الاصفیاء)