حضرت شیخ امام ابو محمد عبد اللہ سمر قندی صاحب مسند دارمی

حضرت شیخ امام ابو محمد عبد اللہ سمر قندی صاحب مسند دارمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

اسم گرامی عبداللہ،، کنیت ابو محمد۔ سلسلۂ نسب یہ ہے عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن فضل بن بہرام بن عبدالصمد تمیمی دارمی، سمر قندی ولادت ۱۸۱؁ھ میں بمقام سمر قند ہوئی۔ قبیلہ تمیم کی ایک شاخ دارم سے نسبی تعلق تھا جس کی بنا پر تمیمی دارمی مشہور ہوئے۔ امام دارمی نے رسمی تعلیم کے بعد تحصیل علم حدیث کے لیے شام، خراسان، عراق، مصر، حجاز کا سفر کیا اور وہاں کے اصحاب فضل و کمال کی بارگاہوں سے وابستہ ہوکر سب فیض کیا۔ چند مشہور اساتذہ یہ ہیں:

نضر بن شمیل، یزید بن ہارون، سعید بن عامر ضبعی، جعفر بن عون، زید بن یحییٰ بن عبید دمشقی، وہب بن جریر، ابو نضر ہاشم بن قاسم، مروان بن محمد طاطری، یزید بن ہارون اشہل بن حاتم، حبان بن ہلال، اسود بن عامر شاذان، جعفر بن عون، سعید بن عامر ضبعی، ابو علی حنفی، عثمان بن عمر بن فارس، وہب بن جریر، یحییٰ بن حسان، یعلی بن عبید، ابو عاصم اور ابو نعیم۔ (تہذیب، ج۵، ص۲۵۸)

حلقۂ درس و تلامذہ:

آپ کی گوناگوں ذاتی اور علمی خصوصیات نے خلائق کو آپ کا گرویدہ بنا دیا تھا درسگاہ حدیث چائقین کے لیے نعمت عظمیٰ تھی لوگ دور دراز سے آکر سماع حدیث کرتے۔ آپ کے چند اہم تلامذہ یہ ہیں:

مسلم، ابو داؤد، ترمذی، مطین،جعفر فریابی، عمر بن بحیر، نسائی، حفص بن احمد، عبداللہ بن احمد بن حنبل، عیسیٰ بن عمر سمر قندی، ابو زرعہ، ابو حاتم، بقی بن مخلد، جعفر، حسن بن صباح، صالح بن محمد، عبداللہ بن واحل بخاری، عمر بن محمد، رجاء بن مرجی، بخاری، حسن بن صباح، بنداری، ذہلی۔(تذکرہ، ج۲، ص۱۰۵۔ تہذیب التہذیب، ج۵، ص۲۵۸)

علم و فضل زہد و تقویٰ میں آپ کا پایہ نہایت بلند تھا ائمہ وقت نے آپ کے تبحر علمی جلالت شان ضبط و حفظ حدیث اور عظمت و ورع کا اعتراف کیا ہے۔

  • احمد بن حنبل: ‘‘امام کان ثقۃ وزیادۃ واثنی علیہ خیرا’’ وہ امام ثقہ کثیر الحدیث تھے اور ان کی نیکیوں کی تعریف کی گئی۔ (تہذیب، ج۵، ص۲۵۹)
  • محمد بن عبداللہ بن نمیر: ‘‘غلبنا بالحفظ والوع’’ وہ ہم ہر حفظ و ورع میں غالب آئے۔ (تہذیب، ج۵، ص۲۵۸)
  • ابوحاتم: ‘‘امام اھل زمانہ۔۔۔ ثقۃ صدوق’’ دارمی اپنے زمانہ کے امام تھے اور ثقہ و صدوق ہیں۔(ایضاً)
  • محمد بن ابراہیم بن منصور شیرازی: ‘‘کان علیٰ غایۃ من العقل والدیانۃ ممن یضرب بہ المثل فی العلم والدرایۃ والحفظ والعبادۃ والزھد اظھر علم الحدیث والآثار بسمر قند و ذب عنھا الکذب وکان مفسرا کاملا وفقیھا عالما’’ وہ انتہائی عقل مند اور دیانت دار تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے علم، درایت، حفظ، عبادت اور زہد میں جن کی مثال دی جاتی تھی۔ سمر قند میں حدیث اور آثار کی اشاعت کی اور حدیث کو کذب وافتراء سے پاک کیا وہ ایک کامل مفسر قرآن، فقیہ اور عالم تھے۔ (ایضاً)
  • احمد بن سیار: ‘‘کان حسن المعرفۃ قد دون المسند والتفسیر’’ وہ معرفت میں عمدہ تھے۔ حدیث میں مسند اور تفسیر قرآن لکھی۔ (ایضاً)
  • ابو حاتم بن حبان: ‘‘کان من حفاظ المتقنین واھل الورع فی الدین ممن حفظ وجمع وتفقہ وحدث واظھر السنۃ فی بلدہ ودعا الیھا وذب عن حریمھا وقمع من خالفھا’’ وہ حدیث کے متقن حفاظ میں تھے اور دین میں صاحب تقویٰ ان محدثین میں تھے جنہوں نے حدیثوں کو حفظ کیا اور جمع کیا وہ فقیہ اور محدث تھے اور اپنے شہر میں سنت کو پھیلایا اور اس کی طرف دعوت دی اور حدیث کو کذب سے پاک کیا اور جس نے حدیث کی مخالفت کی اس کو زیرکیا۔ (ایضاً)
  • خطیب: ‘‘کان احد الرحالین فی الحدیث والموصوفین بحفظہ وجمعہ والاتقان لہ مع الثقۃ والصدق والورع والزھد واستقضیٰ علیٰ سمر قند فابی فالح علیہ السلطان فقضیٰ بقضیۃ واحدۃ ثم اعفی وکان یضرب بہ المثل فی الدیانۃ والحلم والرزانۃ’’ آپ کا شمار حفاظ حدیث میں تھا طلب علم کے لیے کثرت سے سفر کرتے تھے۔ ثقہ، متقی اور زاہد تھے۔ آپ کو سمر قند کا قاضی مقرر کیا گیا صرف ایک مقدمہ کا فیصلہ کرکے مستعفی ہوگئے۔ دیانت داری، بردباری اور محنت و جدوجہد میں ضرب المثل تھے۔ (تہذیب، ج۵، ص۲۵۹)
  • رجاء بن مرجی: ‘‘ما اعلم احداً اعلم بالحدیث منہ’’ میں کسی کو نہیں جانتا کہ ان سے بڑا عالم حدیث ہو۔ (ایضاً)
  • ابو عبداللہ حاکم: ‘‘کان من حفاظ الحدیث المبرزین’’ وہ مشہور برگزیدہ حفاظ حدیث میں تھے۔ (ایضاً)
  • ابو حاتم رازی: ‘‘محمد بن اسماعیل اعلم من دخل العراق ومحمد بن یحییٰ اعلم نم بخر اسان الیوم و محمد بن اسلم اور عھم و عبداللہ بن عبدالرحمٰناثبتھم’’ جولوگ عراق آئے ان میں امام بخاری سب سے زیادہ حدیث جاننے والے ہیں اور محمد بن یحییٰ خراسان میں اور محمد بن اسلم ان میں سب سے بڑے متقی ہیں اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی ان میں سب سے اثبت فی الحدیث ہیں۔ (ایضاً)

تصانیف اور سنن دارمی:

امام دارمی تفسیر، حدیث، فقہ اور دیگر علوم اسلامی کے زبردست عالم و ماہر تھے ان کی تصانیف کتاب التفسیر، کتاب الجامع، سنن الدارمی، مشہور ہیں:

سنن دارمی حدیث میں امام دارمی کی سب سے مشہور تصنیف ہے جسے مسند دارمی بھی کہتے ہیں صحاح ستہ کے بعد جو کتابیں آتی ہیں ان میں سنن دارمی بھی ہے محدثین عظام نے اس کی حدیثوں کو مستند گردانا ہے بعض علماء اس کو ابن ماجہ پر فوقیت دیتے ہیں۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں سنن دارمی مرتبہ میں دیگر کتب سنن سے کم نہیں ہے بلکہ اسے پانچ کتابوں بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی کے ساتھ ابن ماجہ کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کیوں کہ یہ سنن ابن ماجہ سے بدر جہا فائق ہے۔ (تدریب الراوی، ص۱۰۲)

علامہ شیخ محمد عابد سندھی امام صلاح الدین سے نقل کرتے ہیں اگر مسند دارمی کو سنن ابن ماجہ کی جگہ میں رکھ دیا جائے اور اسے چھٹی کتاب قرار دیا جاے تو بہت اچھا ہو۔ (مقدمہ سنن دارمی، ص۱۰۸)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ سنن دارمی اس بات کی مستحق ہے کہ اس کو صحاح ستہ میں چھٹی کتاب کی جگہ رکھا جائے اس لیے کہ اس میں ضعیف رجال بھی بہت کم ہیں اورمنکر و شاذ روایات بھی نادر ہیں اور اس کی سندیں عالی ہیں اور اس میں بخاری سے زیادہ ثلاثیات ہیں۔ (مقدمہ، مشکوٰۃ، ص۷)

  • صحت کا التزام ہے علمائے جرح و تعدیل نے اس کے اکثر رجال کی ثقاہت اور بیشتر احادیث کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔
  • اس کتاب میں فقہی مسائل و مباحث اور ان کے متعلق فقہا کے اختلافات و دلائل بھی ذکر کیے گئے ہیں مختلف اقوال میں تطبیق و توضیح یا مختار مسلک کی وضاحت کی گئی ہے۔
  • افادیت کی طور پر صحابہ و تابعین کے آثاروفتاویٰ بھی منقول ہیں۔
  • روایات کے مفہوم کی وضاحت، ابہام کی تشریح، دقیق الفاظ و مشکل لغات کا حل رواۃ کے ناموں کی مختلف حیثیتوں سے وضاحت، تعدد طرق و اسناد، روایت اور ان کے الفاظ کا فرق و اختلاف ذکر کیاگیا ہے۔ مسند، مرفوع، مقطوع کی توضیح، خطا، شک، تردد اور اشباہ کی تصریح کی گئی ہے۔

فضائل اخلاق:

‘‘امام دارمی کا دامن علم و عمل کی خوبیوں سے مالامال تھا زہد وتقویٰ کے اعتبار سے بھی بلند مرتبہ رکھتے تھے علمی مشاغل کے ساتھ انہیں عبادت و ریاضت میں بھی بڑا انہماک تھا جس طرح انہوں نے سنت رسول کی اشاعت کی اسی طرح اپنے اخلاق و کردار کو سنت نبوی کے سانچے میں ڈھال لیا تھا انہوں نے دنیاوی عیش و عشرت سے سروکار نہیں رکھا۔قناعت و توکل کے ساتھ بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے انہیں سمر قند کا منصب قضا پیش کیا گیا سلطان کے اصرار پر قبول تو کرلیا مگر ایک مقدمہ کا فیصلہ دینے کے بعد منصب سے علیحدہ ہوگئے انہوں نے حدیث و سنت کی اشاعت میں سرگرمی دکھائی اور مخالفین سنت کا زور توڑ دیا لوگوں کے دلوں میں اتباع سنت اور محبت رسول کا جذبہ پیدا کیا یہ وہ فضائل اخلاق تھے جنہوں نے ان کی ذات کو مرجع خلائق بنادیا۔’’

وفات:

اس پیکر علم و تقویٰ محدث و فقیہ کا وصال ۸؍ذوالحجہ؍  ۲۵۵؁ھ بروز پنج شنبہ ہوا دوسرے دن۹؍ذوالحجہ کو تجہیزو تدفین عمل میں آئی۔ آپ کے وصال سے علمی دنیا سوگوار ہوگئی۔ حضرت امام بخاری نے جب سانحۂ ارتحال کی خبر سنی فرط غم سے سرجھکا لیا اور یہ شعر پڑھا۔

ان تبق تفجع بالا حبۃ کلھا

وفناء نفسک لا ابالک افجع

اگرتو زندہ رہے گا تو تمام دوستوں کا غم تجھ ہی کواٹھانا پڑھے گا مگر تیری موت کا سانحہ ان سب سے دردناک ہے۔ (تہذیب، ج۵، ص۲۵۹)

 

تجویزوآراء