حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری(رحمتہ اللہ علیہ)
حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری گوہردریائےفضل وکمال ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کانسب نامہ پدری ومادری چندواسطوں سےامیرالمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ پرمنتہی ہوتاہے،۱؎آپ کےآباؤاجدادبلخ کےرہنےوالےتھے۔
والد:
آپ کےوالد کانام قاضی محمودہے۔
ولادت مبارک:
آپ بلخ میں ۸۹۴ھ میں پیداہوئے۔
نام:
آپ کانام جلال الدین ہے۔
ہندوستان میں آمد:
آپ اپنےوالدکےساتھ سات سال کی عمرمیں ہندوستان آئے اورتھانیسرمیں سکونت اختیارکی۔
تعلیم وتربیت:
آپ نےہندوستان آنےسےقبل بلخ میں قرآن شریف حفظ کیا،ہندوستان آکرتحصیل علوم ظاہری میں مشغول ہوئےاورصرف ونحو،تفسیر،حدیث،فقہ،منطق وغیرہ میں دستگاہ حاصل کی۔سترہ سال کی عمرمیں تحصیل علوم ظاہری سےفارغ ہوکردرس اوروعظ میں مصروف رہتےتھے،آپ فتویٰ بھی دیتےتھے۔۲؎
کایاپلٹ:
آپ ایک عالم تھے،علوم باطنی سےآپ کوکوئی لگاؤ نہ تھا،سماع کوناجائزسمجھتےتھےاورآپ کی زندگی کی کایاپلٹ اس طرح ہوئی تھی کہ تھانیسرکاحاکم حضرت عبدالقدوس گنگوہی کامریداورمعتقد تھا۔حضرت عبدالقدوس گنگوہی نےایک مرتبہ سیروسیاحت فرماتےہوئےتھانیسرکےحاکم سے فرمایا۔۳؎
"مشنیدہ ایم کہ پیرشماآمادہ است وبرقص وسماع مشغول است مامی خواہم کہ بوی ملاقاتی شدہ وجہ ارتکاب ایں امورمینہ بیرسم اکنوں آں پیررقاص راسلام مابگوئید"۔
ترجمہ:"ہم نےسناہےکہ تمہارےپیرآئےہیں اوروہ رقص وسماع میں مشغول ہیں،ہم چاہتےہیں کہ ان سےمل کران امورمینہہ کےارتکاب کی وجہ دریافت کریں،اب تم ان پیررقاص سےہمارا سلام کہنا"۔
تھانیسرکےحاکم نےآپ کاپیغام حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کوپہنچایا،انہوں نےآپ کےسلام کا جواب دیااورفرمایاکہ۔
"آں پیررقاص خود می رقصدودیگرآں رامی رقصد"۔
(وہ پیررقاص خودرقص کرتاہےاوردوسروں کوبھی رقص کراتاہے)۔
اس نامہ وپیام کےبعدایک دن حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی یادالٰہی میں مشغول تھے۔کہ انہوں نےایک آوازسنی کہ۔
"ہم نےجلال کوتمہیں بخشا"اس کواپنےحلقہ میں لاؤ اورہمارےجمال سے آشناکرو"۔
ان کےلئےیہ اشارہ کافی تھا،وہ اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئےآپ کےمدرسےمیں پہنچ کااورآپ کوسلام کرکےایک طرف خاموش بیٹھ گئے،آپ تدریس میں مشغول رہے،آپ نےان کی طرف کوئی التفات نہیں برتا،جب آپ پڑھاچکےاورطلباءچلےگئے،توآپ نےان(حضرت عبدالقدوس) سےپوچھا:
"میاں فقیر!کہاں سےآئےہو؟"
حضرت عبدالقدوس نےجواب دیا:
"میں وہی فقیررقاص ہوں"۔
ان کایہی فرماناتھااورتوجہ کادیناتھاکہ ازخودرفتہ ہوگئےظلمت دورہوئی،تاریکی سےروشنی میں آئے، سرنیازحضرت عبدالقدوس گنگوہی کےقدموں پررکھا۔
بیعت وخلافت:
حضرت عبدالقدوس گنگوہی کےدست حق پربیعت ہوئے۔انہوں نےکلاہ چارترکی اپنےسرسے اتار کرآپ کےسرپررکھی۔آپ کوشغل نفی واثبات تعلیم فرمایا،اس کےبعددیگرافکارواشغال مثلاً شغل ہوا،سلطان الاذکار،شغل سہ پایہ وغیرہ آپ کوتعلیم فرمائے،بعدہ آپ کےپیردستگیرنےآپ کو خرقہ خلافت سےسرفرازفرمایا۔
پیرومرشدکی خدمت:
آپ نےایک عرصےتک پیرومرشدکی خدمت میں شاہ آبادرہ کرفیوض وبرکات حاصل کئے۔
پیرومرشدسےخط وکتابت:
آپ اپنےحالات و واقعات وارادت کےمتعلق اپنےپیرومرشدکولکھتےرہتےتھے،آپ کےپیرروشن ضمیربھی جواب میں لکھتے۔۴؎
"دیگ مرداں دیرپختہ می شودوخوش وخرم باد"۔
(مردوں کی دیگ دیرمیں پکتی ہے،خوش و خرم رہیں)۔
اورکبھی لکھتے:
"خوف رانجودراہ ندہند۔دلاورباشند"۔
(خوف کوخودمیں راہ نہ دیں۔بہادررہیں)۔
اورکبھی تحریرفرماتے۔
"مبارک باد"۔
اکبرکی باریابی:
شہنشاہ اکبربروزشنبہ بتاریخ ۲محرم ۹۸۰ھ کومرزامحمد حکیم کی بغاوت کو فروکرنےکی غرض سے پنجاب جاتےہوئےتھانیسرمیں رکااوراس نےآپ کی خانقاہ پرحاضرہوکرآپ کی خدمت میں گل ہائےعقیدت پیش کئے۔۵؎اکبرکےخاص خاص درباری بھی آپ کی قدم بوسی سے مشرف ہوئے۔
شادی واولاد:
آپ کی ایک صاحب زادی کی شادی شیخ نظام الدین خلجی سےہوئی۶؎
وفات:
آپ نے۲۴ذی الحجہ۹۸۹ھ کواس جہان فانی سےسفردارالاخرت فرمایا۔۷؎مزارتھانیسرمیں واقع ہے۔
خلفاء:
حضرت شیخ نظام الدین خلجی آپ کے سجادہ نشین ہیں۔آپ کےمشہورخلیفہ حسب ذیل ہیں۔۸؎
حضرت شیخ نظام الدین خلجی،شیخ عبدالشکور،قاضی سالم کیرانوی، شیخ موسیٰ،شیخ عیسیٰ،سید فاضل توہانہ۔
سیرت مبارک:
آپ اپنےزمانےکےقطب وغوث تھے،ترک وتجریدمیں یگانہ اورخلق سےبیگانہ تھے،زہدوتقویٰ بے مثال تھا،عبادت،ریاضت ومجاہدہ میں ساری عمرگزاردی،اسی سال کی عمر میں ایک قرآن روزانہ ختم کرناآپ کامعمول تھا،استغراق کایہ عالم تھاکہ جب آپ کےکان میں حق حق کہاجاتاتوآپ ہوش میں آتےاورنمازاداکرتے،آپ جامع علوم ظاہری وباطنی تھے۔
علمی ذوق:
آپ کی کتاب "ارشاد الطالبین"آپ کی علمی یادگارہے۔۹؎آپ کےمکتوبات کوشہرت دوام حاصل ہے۔
تعلیمات:
آپ کی بعض تعلیمات حسب ذیل ہیں۔
عشاق:
آپ فرماتےہیں کہ۔۱۰؎
"عشاق کو چاہیےکہ کشف وکرامات کی منازل پرتوقف کوروانہ رکھیں اوراس سےترقی کریں اورکسی چیزمیں مقیدنہ ہوں۔۔خون پئیں اورکھوجائیں اورموت سےپہلےمرجائیں"۔
سوال وجواب:
فیضی آپ کی خدمت میں اکبرکےخانقاہ سےچلےجانےکےبعدحاضرہوا۔۔آپ محافہ میں سوار ہوئے جارہےتھے،فیضی کی خاطرواپس آئے،فیضی نےآپ سےسوال کیاکہ۔
"انسان کی سواری کےلئےحیوانات پیداکئےگئےہیں،پھرکیابات ہےکہ آپ آدمیوں پرسوار ہوتےہیں؟"۔
آپ نےجواب دیاکہ:
"اصل بات یہ ہے کہ بعض آدمی مثل چارپایوں کےہیں،بلکہ حیوان ان سے بہترہیں!"
کشف وکرامات:
آپ کےایک مریدکاواقعہ ہےکہ آپ کی خدمت میں چندسال رہا،لیکن اس کوحالت جذب وکیف محسوس نہ ہوئی،جب اس نےکوئی فائدہ نہیں دیکھاتوایک روزدل میں کہنےلگاکہ پہلےزمانےمیں نجم الدین کبریٰ ایسےصاحب عظمت اورصاحب حال بزرگ تھے،جوذراسی دیرمیں مرتبہ ولایت پرپہنچا دیتےتھےاورآج اس قسم کاکوئی بزرگ نہیں ہے۔
آپ بذریعہ کشف اس خطرے سےآگاہ ہوئے۔۔۔۔آپ نےاسکی طرف دیکھااورفرمایاکہ۔۱۱؎
"آج بھی ایسےلوگ ہیں کہ ان کی نگاہ سےمرتبہ ولایت حاصل ہوجاتاہے"۔
اسی وقت وہ مریدبےخودہوااوراعلیٰ درجےپرپہنچا،تھوڑےدنوں میں اس کاانتقال ہوگیا۔
آپ کوجب اس کےانتقال کی خبرملی توآپ نےفرمایا:
"ہرشخص کواس کام کےبرداشت کی تاب نہیں ہے"۔
حواشی
۱؎سیرالاقطاب(فارسی)صفحہ۲۱۸اقتباس الانوار
۲؎سیرالاقطاب(فارسی)صفحہ۲۲۹،۲۱۸
۳؎انوارالعارفین(فارسی)ص۲۶۵
۴؎انوارالعارفین(فارسی)
۵؎انوارالعارفین(فارسی)صفحہ۳۶۷
۶؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)صفحہ ۵۲۵
۷؎تذکرۃ العابدین صفحہ ۳۷،۳۶
۸؎سفینتہ الاولیاء(فارسی)صفحہ۱۰۲
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)