حضرت شیخ جلال الدین محمود فارقی تھانیسری
آں سر حلقہ دردو کشان جام وصال، از انوار لبیرز و مالا مال، مرد میدان ج جاہد و فی قتیل صمصام اقتلوافی سبیل اللہ، آں بنور کتاب و سنت مؤید، آں ناظر جمال مطلق در مقید متحقق در مقام ذوق وہشود، قطب حقیقت حضرت شیخ جلال الدین ابن شیخ محمود قدس سرہٗ جمال اہل طریقت و کمال اہل حقیقت تھے۔ اور سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود (انکی پیشانی میں سجدوں کے اثرات ظاہر ہیں) کا نور آپ کی پیشانی میں ہر شخص کو نظر آتا تھا۔
یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّونہ (اللہ تعالیٰ ان سے محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں) میں سے دونوں مقامات کا سہرا آپ کے سر تھا۔ اور آپکے رخ انور پر جلوہ گر تھا۔ آپ مجذوبان[1] سالک میں سے تھے۔ بلکہ جذب و سلوک دونوں سے گذر کر اقلیم باطن میں جنید وقت اور شبلئ دہر تھے۔ بلکہ ان سے بھی بر تر تھے۔ غرضیکہ آپکا مقام وہ تھا کہ کسی دوسرے سے تشبیہہ نہیں دی جاسکتی۔ آپکے کمالات کی دلیل آپکی اپنی ذات ستودہ صفات کافی ہے نسبتِ عاشقی کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ متشکل ہوتی تو آپکی صورت میں ظہور کرتی اور نسبت معشوقی کا یہ حال تھا کہ اگر وہ غیب ہویت کے پردوں سے باہر آکر کوئی صورت اختیار کرتی وہ آپکے آئینہ روحِ پر فتوح کے سوا کسی جگہ متجلی نہ ہوتی۔ آپ اس بات سے بلند و بالا تر ہیں کہ آپ کو کشف و کرامات سے نسبت دی جائے یا آپ کے احوال و مقامات کی تعریف کی جائےخواجہ حافظ شیرازی کا یہ مصرع آپکےحق میں صادق آتا ہے؏
باب درنگ و خال وخط چہ حاجت روئے زیبارا[2]
(دوست کے حسین وجمیل چہرے کو زیب وزینت کی حاجت نہیں)
آپکی نظر جلال فنا بخش مریدین اور طالبین کے حق میں اکسیر معرفت تھی جس سے ایک لحظ سالک کو جلوہ جمال حق نظر آتا تھا۔ اور عاللم نا سوت سے نکل کر فضائے لاہوت میں پرواز کرتا تھا۔ ریاضت و مجاہدات میں بایزید بسطامی سے بھی بڑھ کر تھے اور ہر لمحہ اور ہر لحظہ عشق و تفرید و قدم بڑھ چڑھ کر رکھتے تھے۔ آپ حضرت قطب ا لعالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کے محبوب ترین خلیفہ تھے۔ اٹھارہ سال میں آپکا مجاہدہ مشاہدہ میں مبدل ہوگیا اور فتح باب حقیقی حاصل ہوئی۔ اور حضرت قطب العالم کے تمام احوال واستغراق آپکو ورچہ میں ملے۔ آپکا اصل وطن بلخ تھا۔ اور تھانیسر میں قیام پذیر تھے۔ آپکا سلسلہ نسب پدری و مادری حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے جا ملتا ہے آپکے والد ماجد کا اسم گرامی قاضی محمود تھا۔ آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا اور سترہ سال میں اکثر علوم کی تحصیل تمام کر کے فتوے لکھتے تھے۔ روز اول سے آخر تک آپ صاحب استقامت رہے۔ ایک دن بیمار ہوئے اور خادم سے دوا طلب کی۔ جب کادم نے دوا تیار کر کے پیش کی تو آپ نے تناوہ فرمانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ شریعت کا حکم یاد آگیا کہ چار پائی پردوائی کھانا ممنوع ہے چنانچہ آپ چارپائی سے فرش پر بیٹھے اور دوائی تناول فرمائی۔ اس سے ظاہر ہے کہ آپکے دل میں شریعت کا کس قدر احترام تھا کہ تھوڑی دوائی بھی حکم شریعت کے خلاف نہ کھائی۔ غرضیکہ متاخرین میں مشائخ کبار میں سے کوئی شخص مشکل سے اپکی طرح ہوگا۔ بلکہ آپ سے بزر گستر بھی کوئی نہ ہوگا۔ آپ صائم الدہر اور قائم اللیل تھے۔
بیعت ہونے کا واقع
آپکے حضرت قطب العالم سے بیعت ہونے کا واقعہ جو ہم نے مشائخ سے سنا ہےیوں ہے کہ تھانیسر کے کچھ جو لا ہے حضرت قطب العالم شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ کے مرید تھے اور حضرت اقدس بعض اوقات سیر و تفریح کی خطار تھانیسر تشریف لایا کرتے تھے اور اُن مریدین کے ہاں قیام فرماتے تھے۔ ایک دفعہ جب آپ تھانیسر تشریف لے گئے تو شیخ جلال الدین کو اسکی اطلاع ہوئی اس وقت وہ تھانیسر کے اکابر علماء اور اجل فضلا میں سے تھے اور طلباء کے درس وتدریس میں مشغول تھے۔ لیکن سماع سے سخت نفرت تھی۔ جب وہ جو لاہے پنجگانہ نماز کیلئے مسجد میں جاتے تھے تو شیخ جلال الدین اُن سے کہتے تھے کہ ہم نے سُنا ہے کہ تمہرا پیر آیا ہوا ہے اور رقص و سماع جیسی بدعات کا مرکتکب ہے میرا خیال ہے آکر اُن سے ان غیر شرع حرکات کی وجہ دریافت کروں۔ خیر فی الحال جب تم لوگ اپنے رقاص پیر کے پاس جاؤ تو میرا سلام کہنا۔ چنانچہ انہوں نے گھر آکر سلام پہنچایا۔ حضرت شیخ نے فرمایا کہ جب تم لوگ نماز کیلئے دوسری بار جاؤ تو شیخ جلال سے کہنا کہ ہمار پیر رقص کرتا ہے اور رقص کراتا بھی ہے۔ الغرض ایک دن جب حضرت قطب العالم شغل باطن میں مصروف بیٹھے تھے تو غیب سے ہاتف ن ے آواز دی اور فرمان ہوا کہ ہم نے جلال تجھے تخشا ہے۔ اسکے مدرسہ میں جاؤ اور اُسے مرید بناکر ہمارے جمال سے آشنا کرو۔ حضرت قطب العالم فوراً اٹھ کر شیخ جلال کے مدرسہ میں پہنچے سامنے پڑا ہے اور وہ درس میں مشغول ہیں۔ حضرت اقدس سلام کر کے مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ جب شیخ جلال درس سے فارغ ہوئے اور ظاہری علم کے طالب رخصت ہوکر اپنے گھر چلے گئے تو وہ وقت آگیا جب انکا تختہ دل ظاہری نقوش سے پاک ہوکر تجلیات ذات وصفات کی جلوہ گا بنے۔ چنانچہ انہوں نے حضرت شیخ کے پاس جاکر اپنے حواس ظاہری وباطنی کو جمع کیا اور پوچھا کہ میاں فقیر کہاں سے آئے ہو۔ چونکہ حضرت اقدس کو معلوم تھا کہ انکے تعینات ختم ہونے اور نور ذات سے واصل ہونے کا وقت آگیا ہے زبان ناطق بحق اور ترجمان اسرار مطلق سے فرمایا کہ میں وہی رقص کرنے والا فقیر ہوں۔ یہ کہہ کر آپ نے نظرِ حق بین سے ایک ایسی شوق انگیز اور کثرت سوز نگاہ ڈالی کہ جس سے نارِ جلال کے شعلے بھڑک اٹھے اور تمام کتب علوم ظاہری ار نقوش غیر وغیریت جو شیخ جلال کے دل میں تھے سب جل کر نیست ونابود ہوگئے انکی حالت دگر گوں ہوگئی اور ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوگئے اور خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضور یہ کتابیں بہت اچھی اور نایاب ہیں انکا جل جانا بہت المناک ہے آپ نے فرمایا کہ یہ آتش جو تم دیکھ رہے ہو نارِ حامیہ اور شرار ذات ہے اور یہ کتابیں عالم صفات ہیں۔ انکو باقی نہیں رہنا چاہیے بلکہ جل جانا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ تم ابھی عالم کثرت کے حروف سیاہ میں پھنسے ہوئے ہو اور اب تک نور توحید وحدت تمہارے دل میں مسلط نہیں ہوا۔ یہ بات کہی اور شیخ جلال کے دل کی طرف تصرف قوی اور توجۂ باطنی سے متوجہ ہوئے۔ جس سے فوراً شیخ جلال کی نظر میں جلال وحدت حقیقی جلوہ گر ہوا۔ اور ظلمت کثرت انکے آئینہ دل سے صاف ہوگئی۔ جب انہوں نے حضرت قطب العالم کی ذات میں جمال حق کا مشاہدہ کیا اور بے اختیار ہوکر بیعت سے مشرف ہوئے اور بیعت کے ظاہری وباطنی لوازم بجا لائے۔ حضرت شیخ نے کلاہِ چار ترکی اپنے سر مبارک سے اتار کر انکے سر پر رکھی جس سے وہ تعلقات قلبیہ، نفسیہ اور حسیہ سے فارغ ہوئے۔
تلقین اذکار ومشاغل اور انکے اثرات
حضرت اقدس نے انکو شغل تقی اثبات تلقین فرمایا اور خلوت تام اور مجاہدۂ دو ام کا حکم دیا۔ چنانچہ شیخ جلال الدین نے اپنے پیر دستگیر کے حکم کے مطابق شب وروز ذکر نفی اثبات بہ طریق خفی وجلی حبس دم کے ساتھ اور بغیر حبس دم پر کمر بستہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ کے بعد حق تعالیٰ کہ فضل وکرم سے صوت مستقیم (صوت سرمدی یا ذکر اللہ) آپکے دماغ تیزی سے پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ اس آواز سے آپکے جسم پر لرزہ اور بیہوشی طاری ہوگئی جو ظہور الہامات ذاتیہ وٖاتیہ کی ابتدا ہے۔ کچھ عرصہ تک یہ حالت مخفی طور پر پیش آتی رہی اسکے بعد اس ظہور پیالے اور متواتر ہونے لگا اور قدرے بیخودی طاری ہونے لگی جب انہوں نے حضرت شیخ سے یہ ماجرہ بیان کیا تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا ہمارے مشرب کے احباب دو تین سال میں اس نعمت عظمیٰ سے سر فراز ہوتے تھے۔ لیکن تم نے دیر لگادی ہے۔ خیر اگر چہ دیر ہے آہو در چنگ شیر ہے۔ بڑی دیگ دیر سے پکتی ہے۔ خوش اور خرم رہو۔ فکر بالکل نہ کرو اور دلیر بن کے رہو۔ کیونکہ اس صورت کے بعد اس شغل کا عظیم غلبہ ہوگا اور یہ آواز متجسم ہوجائے گی اور ونفخ فی الصور فصعق من فی السموت ومن فی الارض (اور صور پھونکا جائیگا جس سے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں بے خود ہوجائیگا) کی حالت پیدا ہوجاتی ہے جس سے سالک کون و مکان سے باہر نکل جاتا ہے (یعنی زمان و مکان کی قید سے رہائی پاکر عالم قدس میں پہنچ جاتا ہے) اور ایسا محو اور مستغرق ہوتا ہے کہ اپنے وجود سے بالکل بے خبر (اور پاک) ہوجاتا ہے۔ اس فقیر پر جب یہ حالت طاری ہوئی تو جنگلوں میں نکل گیا تھا۔ لیکن یاد رہے کہ یہ مریدین کی ابتدائی حالت ہوتی ہے اور جب شیر ولایت مشائخ کے پستان سے نکل کر مریدین کی پرورش کرتا ہے تو شنیدہ دیدہ بلکہ عین شہود ونمودبن جاتا ہے۔ جب شیخ جلال الدین نے اپنے پیر روشن ضمیر سے یہ بشارت دلپذیر سنی تو مجاہدات وریاضت تیز تر کردیئے حتیٰ کہ اس صوت مستقیم کا غلبہ ہوا اور آپکی نیند جاتی رہی اور آپ ک ے سینہ میں ذکر اس شدت سے جاری ہوا کہ نیند میں بھی جاری رہتا تھا۔ اس وقت آپ پر حقیقت ذکر کا راز منکشف ہوا۔ اسکے بعد بجلی کی سی کڑک سن ائی دینے لگی اور اس برقی آواز کا آپکے دماغ پر اس قدر اثر ہوتا تھا کہ محویت اور بیخودی طاری ہوجاتی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد بجلی کی اس آواز جسکی خاصیت محویت اور بیخود ہے کا آپ پر اس کثرت سے ورد ہونے لگا کہ تھوڑی دیر میں سترہ بار یا کم و بیش آپکے دما غ پر گرنے لگی جس سے محویت در محویت پیدا ہوتی رہی۔ اس سے آپکے میں اس قدر درد پیدا ہوا کہ گویا سب اعضاء الگ الگ ہوگئے ہیں اور وہ حالت پہاڑ کی طرح آپ پر بوجھل ہوگئی لیکن کچھ دیر کے بعد افاقہ ہوجاتا تھا جس سے ذوق وفرحت میسر ہوتی تھی لیکن تھکان دیر تک رہتی تھی۔ چنانچہ آپ نے یہ کیفیت بھی حضرت قطب العالم سے بیان کی اور یہ بھی عرض کیا کہ اب قدرے نیند بھی آجاتی ہے اور شدت حال میں کچھ کمی بھی واقع ہوئی ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا یہ غیبی دودھ ہے جو شیخ پستان ولایت سےن کل کر طفلان صادق اور عاشقان واثق کو اس طریقے سے ملتا ہے اور بتدریج انکی پرورش ہوتی ہے اگر اسکا درود یکبار گی ہو طالب کا وجود جَعَلہٗ دکاً کے کے بمصداق پارہ پارہ ہوجائے اور خَرَّ موسیٰ صَعِقا کا عمل جاری ہوجائے اب تجھے یہ تین چیزیں لازم پکڑنی چاہیں اول دوام، دوم خلوہ معدہ از طعام اگر طعام خشک ہو تو زیادہ بہتر ہے سوم شغل باطن بمع جمیع آداب وشرائط بالخصوص مخالفت نفس جیسا کہ حضرت رسالت پناہﷺ ابتدائے حال میں غارِ حرا میں جاکر مشغول رہتے تھے تھےحتیٰ کہ جبرائیل علیہ السلام آکر آپکو جھنجھوڑتے تھے اور چلے جاتےتھے اسکے بعد آپ پختۂ روزگار اور حاجب وحی ہوئے۔ روایت ہے کہ بعض اوقات نزول وحی کے وقت آپ بیخود ہوکر گر پڑتے تھے۔ یہ بیخودی تجھے مبارک ہو ۔ اپنے کام میں لگے رہو اور ارحم الرحامین اپنا کم کریگا۔ اور تجھے بلند مرتبہ پر پہنچادیگا۔ حضرت شیخ سے یہ مژدۂ جانفرا سُن کر شیخ جلال الدین کے دل میں جہاد کا جذبہ اور بھی مضبوط ہوا ۔
شغل سہ پایہ اور شغل بہونکم کی تلقین
اسکے بعد حضرت قطب العالم نے آپکو شغل بہونکم اور شغل سہ[3] پایہ تلقین فرمایا۔ کچھ عرصے کے بعد آپ نے حضرت قطب العالم کی خدمت میں عرض کیا کہ اب تک ‘‘اِذا زلزلت الارض زلزالہا واخرجت الارض اثقالہا وقال الانسان مالہا’’ کی کیفیت جاری ہے لیکن اس بات کا یقین نہیں کہ یومئذٍ تحدث اخبارھا بِاَنَّ ربک اوحی لھا کا وقت آیا ہے یا نہیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ جب وہ حالت قائم ہے تو تحدث اخبارھا بان ربک اوحی لھا کے جمال انوار کی کیفیت بھی قائم ہے کیونکہ یہ چیز اگر چہ مخفی ہے لیکن روشن بھی ہے اور عشق اور دیگر جوشندہ کبھی مخفی نہیں رہتے بلکہ جھاگ منہ سے نکل ہی آتی ہے۔ تمام کام میں لگے رہو جب وقت آئیگا وہ کیفیت خود بخود بتادیگی کہ کیا ہے۔ جب حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ نے یہ بشارت سُنی تو انکی ہمت بلند ہوئی اور مجاہدات کو تیز تر کر دیا حتیٰ کہ اس چیز کا مشاہدہ ہوگیا سبحان اللہ!
حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری قدس رہٗ حضرت قطب لعالم کے اصحاب میں ممتاز تھے اور آپکے کمالات انبیاء علیہم السلام کے مشابہ تھے۔ آپکے کسی پیر بھائی کی یہ حالت نہیں تھی۔
حضرت شیخ عبدالرحمٰن کا ایک خط حضرت قطب العالم کی خدمت میں
البتہ حضرت شیخ عبدالرحمٰن بھی حضرت قطب العالم کے اکابر خلفائیں سے تھے۔ حضرت اقدس کی خدمت میں شیخ عبدالرحمٰن نے ایک خط لکھا جس میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک رات تہجد کے بعد نیم بیداری کی حالت میں بیٹھا تھا کہ غیب سے گوش جان میں ہاتف کی یہ آواز سنائی دی ‘‘تم اسی جگہ بیٹھے رہو حال تمہارے استقبال کیلئے آتا ہے اور تجھ سے دوری کو دور کرتا ہے ’’ میرے دل میں خیال آیا کہ شاید مجھ سے حال نہیں گیا اور کشائش کا دروزہ تم پر بند نہیں ہوا۔ دورات بعد سلطان ذکر کا ورود ہوا اور آیۂ اِنَّ الملوک اذا دخلو اقریۃ افدوھا (جب بادشاہ کسی شہر میں داخل ہوتے ہیں تو اسے تاخت و تاراج کر ڈالتے ہیں) کے مطابق میرے وجود کو تاخت و تاراج کر ڈالا اور آیہ وَجعلوا اعزۃ اھلھا اذلہ (اور لوگوں کی عزت کوذلت میں تبدیل کردیتے ہیں) کے مطابق میرا نفس مغلوب ہوا ور مجھے تصنیہ قلب نصیب ہوا۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا آسمان پھٹ گیا ہے اور بجلی کی سی آواز میرے گوش جان میں آئی۔ اس وقت آسمان سے ایک گرز نازل ہوا جسکی وجہ سے بے پناہ شور و شغب برپا ہوا اور میرے گرد وپیش اور بالائے سر معلق ہوگیا۔ اس آواز کی ہیبت سے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا، میں دم بخود ہوکر بیٹھ رہا اور اس خنجر حال کے سامنے سر تسلیم کرلیا۔ اپنے آپ سے بھی بے خبر ہوگیا اور فنا سے گذر فناء الفنا [4] میں جا پہنچا۔ جب اپنی خودی پر کھیل گیا تو نئی جان اور نئی روح پائی۔ اور اس شعر کو اپنے حال پر صادق پایا ؎
گشتگان خنجر تسلیم را |
|
ہر زماں از غیب جان دیگر است |
(جو لوگ دوست کے خنجر کے سامنے جان تسلیم کرلیتے ہیں انکو غیب سے ہر لحظ نئی جان ملتی ہے)
دوسری رات حسب وعدہ اس چیز کو اپنے وجود میں ظاہر دیکھا اور سارے وجود سے وہ آواز نکلنے لگی جسکی وجہ میراگوشت وپوست ودل پگھلنے لگا۔ چونکہ یہ حال مجھ پر سخت دشوار تھا لہٰذا میں کوشش کر کے اس سے باہرآیا۔ لیکن جب مقام صحو (ہوشیاری) میں آیا تو ر نجیدہ خاطر ہوا کہ کیوں اپنے آپکو اس جہان سے علیٰحدہ کیا۔ اور اپنے آپکو اس حال کے سپرد کیوں نہ کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات درویش کو واردات میں بھی اختیار ہوتا ہے۔
دوسری واردات
اس خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ ایک اور رات یہ فقیر اپنے حجرہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہی زلزلہ (سلطان ذکر) وارد ہوا اور تیز و تند ہوا چلنے لگی۔ اسکے ساتھ بجلی کی گرج پرزور پر تھی اور درودیوار بلنے لگے۔ نیز طاق میں جو کتابیں پڑی تھیں انکے اوراق بھی اڑنے لگے۔ اور میں انکو چننے لگا۔ اس بات سے بی ڈر رہا تھا کہ ہوا قبلہ کی جانب سے آرہی تھی اور بڑی شدت سے اس فقیر کے سر سے گذررہی تھی۔ سبحان اللہ! کس قوت سے چل رہی تھی اور میرے وجود کو کس طرح جھنجھوڑ رہی تھی ج سکی وجہ سے یہ فقیر زمین پر غلطاں وپیچاں تھا اور انعام الم کا مزا چکھ رہا تھا در اصل وہ ہوا نہ تھی بلکہ فضا میں بالکل سکوت تھا۔ نہ کوئی ابر تھا نہ بجلی اور نہ بجلی کی آواز لیکن یہ معاملہ صرف فقیر کے وجد میں تھا جسکی وجہ سے یہ فقیر بیخود اور بے جان ہورہا تھا۔ یہ معاملہ سال بھر جاری رہا اور کئی کئی دن کے بعد اسکا ورود ہوتا تھا۔ بعض اوقات ایک دو ماہ کے بعد یہ واردات ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ اب ان واردات اور واقعات کا طور طریقہ بدل گیا ہے اور دوسرا طریقہ جاری ہوا ہے؎
مشدۂ گل مے دہد ودیگر نسیم نو بہار
بلبلاں راہر سحر قیل وقال دیگر است
(اب دوسری نسیم نو بہار پھولوں کی خوشخبری دے رہی ہے اور اب بلبلیں دوسرے نغمات گارہی ہیں)
اب اس فقیر کو اندیشہ لاحق ہوا ہے کہ مباد اس نئے طریق کے واردات کا وجود کہیں استدراج[5] نہ ہو۔ یا ممکن ہے مکر شیطان ہوکر کیونکہ میرا ظاہر باطن کے مطابق نہیں ہے (یعنی ظاہر میں نیک اور باطن میں نیک نہیں ہوں) اور نہ ہی مجھ سے کوئی ریاضت و مجاہدہ ہوسکتا ہے (یہ کسر نفسی ہے حالانکہ آپ بڑے مر تاض تھے) ان واقعات کی اصل کیا ہے؟
حضرت قطب العالم کا جواب
اس خط کا حضرت قطب العالم قدس سرہٗ نے یوں جواب دیا کہ تحقیقی انبیاء علیہم السلام کو حاصل ہے اور اولیاء کے حصے میں خونِ دل نوش کرنا ہے۔ خدا تعالیٰ کی ذات پاک ہے اور مومن اور مرید صادق سے خطا نہیں ہوتی اور حق تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ لیکن ڈرتے رہنا چاہیے کیونکہ خوف حقیقت کی دلیل ہے۔ اگر واردات غیب کی وجہ سے فخر پیدا ہو اور نفسانیت کا غلبہ ہو تو یہی استدراج، مکروسحر ہے۔ اس سے انبیاء علیہم السلام سے خائف رکھتے ہیں اور آہ دنالہ کرتے رہے حالانکہ وہ اصحاب تحقیقی تھے اور انکی تحقیقی میں کشی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں۔ جب انیباء کا حال ہے تو دوسروں کی کیا مجال۔
حضرت قطب العالم کے ایک اور مرید شیخ عبدالشکور کے واردات
حضرت قطب العالم کے ایک اور مرید حضرت شیخ عبدالشکور کے احوال بھی حضرت شیخ جلال الدین کی طرح تھے۔ چنانچہ حضرت شیخ جلال الدین نے اپنے ایک خط میں جو انہوں نے حضرت قطب العالم کو لکھا شیخ عبدالشکور کے احوال اس طرح بیان کیے ہیں کہ شیخ عبدالشکور کی حالت یہ ہے کہ تھوڑی رات گئے انکے جسم سے ایسی آواز نکلتی ہے کہ جو دائرہ تحریر سے باہر ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سور اور گیڈر چاروں طرف سے آوازیں نکال رہے ہیں۔ اور شورو غل مچارہے ہیں یہ آواز انکے سارے جسم سے نکلتی ہے۔ بعض اوقات یہ آزواز اسم اعظم کی آواز ہوتی ہے اور بعض اوقات اس سے مختلف ہوتی ہے اس سے ذوق شوق پیدا ہوتا ہے اور منہ سے اس قسم کے الفاظ نکلتے ہیں؎
در ہر طرف شور ہمیں یار یار |
|
در کوچہ وبازار ہمیں یاریار |
برادرِ بلا ھمیں یار یار |
|
در تیغ بلا نیز ہمیں یار یار |
(ہر طرف یہی شور ہے کہ اے دوسر اے دوست، اور ہر کوچہ و بازار میں یہی آواز ہے اے دوست اے دوست! تختۂ دار سے بھی یہی آواز آتی ہے کہ اے دوست اے دوست اور تیغ جفا کے نیچے بھی یہی آواز ہے کہ اے دوست اے دوست)
حضرت شیخ جلال الدین کی واردات
اس خط میں حضرت شیخ جلال الدین اپنی حالت یوں بیان کرتے ہیں کہ آج رات میں نے اٹھ کر وضو کیا، دوگانہ نماز کا ادا کیا تھا کہ دل میں جنبش اور آواز اسم اعظم پیدا ہوئی۔ اسکے علاوہ دوسرے قسم کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ یہ واردات دیر تک رہیں اسکے بعد نماز تہجد ادا کر کے بیٹھ گیا۔ جب نیند کا غلبہ ہوا تو ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے دھکہ دیکر بیدار کردیا ہے۔ اسی طرح تیس چالیس مرتبہ جب نیند نے غلبل کیا تو کسی نے د ھکہ لگاکر بیدار کردیا جس سے دل کو از سرِ نوجنبش ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ صبح ہوگئی اور حالت فرو ہوئی۔
حضرت اقدس کا جواب
حضرت قطب العالم نے جواب میں یہ لکھا کہ یہ سب ذکر کے ابتدائے حال کی کیفیت ہے اگر چہ یہ حالت پسندیدہ ہے۔ حق تعالیٰ سے پھر بھ ی بُعد ہے۔ اصل بات واصل بحق ہونا ہے۔ مردانہ وار رہنا چاہیے اور مردانہ وارجد وجہد کرنی چاہیے۔ تاکہ کام مرتبۂ ستر سے گذر کر مرتبہ روح تک پہنچ جائے اور فنائے مطلق حاصل ہو۔ اور وصال حق میسر آئے۔ اور جس چیز نے تم کو بیدار کیا وہ ولایت شیخ تھی جو مرید صادق کو بیدار کرتی ہے اور اُسکا وقت ضائع نہیں ہونے دیتی تاکہ شریعت مستقیم ہوجائے اور کام میں خ لل اور خرابی واقع نہ ہو۔ ایک دفعہ یہ فقیر ابتدائے حال میں تاریک خلوقت میں تھا تو حضرت شیخ مخدوم احمد عبدالھق قدس سرہٗ کی روحانیت مجھے بیدار کردیتی تھی اور فرمان ہوتا تھا کہ وقت تہجد ہے اٹھو۔ چنانچہ میں اٹھ کر نماز پڑھتا تھا۔ اور کوئی وقت ضائع نہیں ہوتا تھا۔
شیخ عبدالرحمٰن کا اک اور کشف
شیخ عبدالرحمٰن کا دوسرا واقعہ بھی شیخ جلال الدین کے واقعات کے مشابہ ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے حضرت قطب العالم کی خدمت میں ایک اور خط لکھا کہ ایک دن یہ فقیر میاں اللہ دیہ کی شرح کا مطالعہ کر رہا تھا۔ مضمون مشکل تھا اور سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یکا یک ان حروف میں جنبش پیدا ہوئی اور ان میں سے آواز نکلنے لگی وہ آواز میرے گوش جان میں پہنچی اور عبارت کا پورا مفہوم میری سمجھ میں آگیا اور حروف کا جنبش میں آنا میں نے اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔ وہ آواز گویا بے آواز تھی اور آواز کی تیزی اور اسکی جنبش کی تیزی بیان سے باہر ہے۔ سبحان اللہ! کاملین کے واقعات کیسے پُر اسرار ہوتے ہیں۔
حضرت اقدس کا جواب
اس خط کے جواب میں حضرت اقدس نے یہ تحریر فرمایا کہ اہل غیب جب حروف پر غور کرتے ہیں تو ان حروف کو جنبش دی جات ہے اور سامنے اٹھالیا جاتا ہے تاکہ حرف متوہم الوجود (وہ حروف جنکے متعلق وہم تھا) متنز لزل ہوتے ہیں اور معاملہ عالم غیب میں پہنچ جاتا ہے وَالسَّمٰوٰتِ مطوّویات بِیَمیْنِہٖ ( ) پڑھو اور حقیقت کو سمجھو آیہ اِذَا زلزلت الارض۔۔۔ گواہی دے رہی ہے تاکہ یہ دولت ہاتھ آے۔ جب حروف کونی (عالم ناسوت سے تعلق رکھنے والا) سے گذر کر اسکی ہیبت روح و جان میں واصل ہوتی ہے بلکہ زیادہ بلند جاتی ہے وہ آواز بنکر سنائی دتی ہے۔ عارف اس وقت مکمل گوش بلکہ گوش جان بن جاتا ہے۔ اسکا نام صوت خفی یا ہمس (آہٹ) ہے۔ اب تک یہ آواز کونی (اس دنیا سے تعلق رکھنے والی) ہوتی ہے۔ جب عالم قدس میں رسائی ہوتی ہے۔ تو بے حرف اور بے آواز بات ہوتی ہے اور اسکی سرعت کن فیکون کے جہان کی سرعت ہوتی ہے جو عالم قدرت ہے اور عالم حکمت[6] سے بر تر ہے۔
شیخ منور کا واقعہ
شیخ منور لکھنو کے صوفی عالم کا واقعہ بھی حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری کے واقعہ کے مشابہ ہے۔ انہوں نے یہ واقعہ حضرت قطب العالم کے ایک خط میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بعض اوقات یہ بندہ اپنی صورت کو بعینہٖ پیر دستگیر کی صورت دیکھتا ہے۔
حضرت اقدس کا جواب
حضرت شیخ نے جواب میں لکھا ہے کہ یہ دولت چابی ہے تجلیات احدیّت وانوار صمدیت کی۔ اس مقام میں حضرت صدیق اکبر اس قدر بلند چلے گئے تھے کہ اول سے لیکر آخر تک کوئی ولی اللہ انکی گرد تک نہیں پہنچ سکتا عالم باطن میں صدیق اکبر کی صورت حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی صورت بن چکی تھی۔ بلکہ وہ اپنی صورت سے گذر کر اپنے پیر (نبی علیہ السلام) کی صورت میں ظاہر ہوئے اور اپنے پیر کے ساتھ ایک ہوگئے تھے۔ صدق اکبر شبِ معراج محمد مصطفیٰﷺ کے ساتھ مقام قاب قوسین او ادنیٰ میں ایک ہی صورت اور حقیقت میں تھے۔ حضرت قطب العالم کے دوسرےمریدین کے واقعات اس قدر ہیں کہ اس مختصر کتاب میں انکی گنجائش نہیں ہے۔
ہمہ دانی میں ہیچمدانی کا شکوہ
آمدم بر سر مطلب۔ جب حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری نے ہمت سے کام لیا تو شغل سہ پایہ کو پوری شرائط و اہتمام سے انجام دیا یعنی ایک سانس میں دو سو بار اس ذات (اسم اللہ) کا ذکر اس طرح کرتے تھے کہ اپنے شیخ کے برزخ[7] میں آکر نور بار اللہ اللہ کہتے اور تسبیح کا ایک دانہ پھیرتے تھے بعض کہتے ہیں کہ ایک سانس میں تین سو یا چار سو بار ذکر اسم ذات کرتے تھے۔ یاد رہے کہ شغل سہ پایہ کا ایک سانس میں دو سو بار تک پہنچانا سالک کیلئے سلطان ذکر ہے غرضیکہ گر ہوئیں۔ لیکن چونکہ آپکی ہمت بلند تھی ہر وقت ھل من مزید کا نعرہ لگاتے تھے اور تجلی ذات[8] کے شہود کے سوا کسی اور چیز پر اکتفا نہیں فرماتے تے۔ لیکن جب آپ نے طویل مجاہدہ کے بعد بھی مقصود کو نہ پایا (یعنی آپکی طبیعت سیر نہ ہوئی) تو غلبہ شوق اور عشق میں بے اختیار ہوکر حضرت شیخ کی خدمت میں لکھا ہے کہ مجھے معلوم یوں ہوتا ہے کہ اس بیچار کے نصیب محرومی کے سوا کچھ نہیں اور حضرت اقدس کے کمال میں کوئی کمی نہیں ہے لیکن کیا کروں یہ محرومی ازلی وہ قابلیّت نہیں رکھتا۔ اگر حکم ہو تو بندہ درس وتدریس میں عمر گذاردے اس وجہ سے کہ اگر ھقیقت تک نہ پہنچ سکوں تو مجاز تو ہاتھ سے نہ جائے۔
حضرت شیخ کا جواب باصواب
حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی قدس سرہٗ نے جواب میں لکھا ہے کہ شیخ جلال تم اس تھوڑے سے مجاہدہ میں طول (غمگین) ہوگئے۔ حالانکہ تمہاری یہ ساری مدت کی ریاضت میرے ایک شبانہ روز کے مجاہدہے کے برابر بھی نہیں ہے۔ انشاء اللہ ہمت کرو اور چھ ماہ کبھی ایک ایسی خلوت کرلو جسکا دروازہ خشت و گار اسے بند کردو۔ جلدی مقصد حاصل ہوجائیگا۔
تعمیل و ارشاد ومشاہدہ
یہ سنکر شیخ جلال الدین کے دل میں جوش پیدا ہوا اور حضرت شیخ کے فرمان کے مطابق اپنی خلوت گاہ کا دروازہ اینٹوں سے چنواکر بند کردیا۔ یہاں تک کہ ایک سوراخ تک نہ چھوڑا۔ اسکے بعد آپ شغل باطن میں پوری طرح منہمک ہوگئے۔ جب اس طرح رات دن گذر گئے اور مجاہدہ کی سختی محسوس ہونے لگی تو حق تعالیٰ کی عنایت نے ساتھ دیا اور ساتویں شب کا ایک پہر باقی تھا کہ عرش سے تحت الثریٰ تک تمام حجابات مکانی و جسمانی اٹھ گئے اور نور سرخ غایت سرخی ولطافت میں جلوہ گر ہوا۔ اسکے بعد وہ نور ایک صاحب جمال اَمرد (نوجوان) کی صورت میں ظاہر ہوا اور آپکے جسم کے اندر سرایت کر کے غیب ہوگیا۔ اسکا اثر یہ ہوا کہ آپکا جسم وسیع ہوگیا یہاں تک کہ آسمان سے زمین تک ساری فضا آپکے وجود سے پر ہوگئی اور ایک ہاتھ مشرق اور ایک مغرب تک پہنچ گیا۔ کچھ دیر کے بعد بحرِ نور ذوت بہ صفت بیرنگی آپکی باطنی آنکھوں سے سامنے موجزن ہوئی اور آپکو قبضے میں لیکر معراج حقیقی کہ مقام حضرت بے کیف ہے پہنچادیا۔ چنانچہ آپ جسد عنصری (ظاہری جسم) سولہ دن میت کی طرح اس خلوت گاہ میں پڑا رہا۔ آپکو اپنے وجود کی کچھ خبر باقی نہ رہی۔ آپ مقام تنزیہہ میں اس قدر پرواز کر گئے کہ تشبیہہ کی خبر نہ رہی۔ سترھویں دن کچھ افاقہ ہوا تو آپ نے قلم لیکر حضرت شیخ کی خدمت میں عریضہ تحریر کیا۔ حضرت اقدس ن ے جواب میں لکھا کہ اب خلوقت سے باہر۔ فوراً میرے پاس پہنچ جاؤ کیونکہ تمہارا کام اتمام کو پہنچ چکا ہے۔ خط کے ملتے ہی آپ خلوت سے باہر آئے اور حضرت شخ کی خدمت میں حاضر ہوئے ساری کیفیت بیان کی۔ یہ حال سُنکر حضرت اقدس بہت خوش ہوئے اور اسی وقت اپنے مشائخ عظام کی نعمت بمعہ تلقین اسم اعظم آپکے سپرد کی اور خرقۂ خلافت عطا فرماکر اپنا نائب مطلق اور خلیفہ برحق مقرر فرمایا۔ بعض کہتے ہیں کہ جب شیخ جلال الدین نے اپنی اس آخری خلوت کا حال حضرت قطب العالم کو سنایا تو آپ سنتے ہی بے ہوش ہوگئے، جب افاقہ ہوا تو فرمایا کہ پھر کہو۔ جب انہوں نے دوبارہ بیان کیا تو آپ پر دوبارہ محویت طاری ہوگئی۔ اسی طرح تین مرتبہ یہی حالت وقع پذیر ہوئی۔
آزمائش کی ایک روایت
بعض کہتے ہیں کہ حضرت شیخ جلال الدین حضرت قطب العالم کی سرائے میں مدت تک مجاہدہ کرتے رہے آخر ایک دن حضرت شیخ کی اہلیہ محترمہ نے عرض کیا کہ شیخ جلال نے اپنے آپکو آتش مجاہدہ میں جلادیا ہے اب اس قابل ہوگیا ہے کہ آپ انہیں خلافت عطا فرمادیں۔ حضرت شیخ نے جواب دیا کہ اب تک اسکے اندر انانیت کی بو باقی ہے۔ میں کل تجھے اسکی حقیقت دکھاؤنگا۔ دوسرے دن حضرت اقدس نے بھنگن کو حکم دیا کہ آج نجاست کی ٹوکری شیخ جلال پر گرادو۔ اور آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ چھپ کر دیکھتے رہے۔ جب بھنگن نے نجاست کی ٹوکری شیخ جلال پر پھینکی تو اسکی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ اگر پیر کا گھر نہ ہوتا تو تجھے اچھی طرح سمجھ لیتا۔ یہ سن کر حضرت اقدس نے اپنی اہلیہ سے فرمایا کہ دیکھا زنار انانیت اب تک اسکے گلے میں ہے۔ جو شخص اس طرح خود نمائی کرتا ہے وہ مشائخ عظام کی امانت کا کیسے مستحق ہوسکتا ہے۔ لیکن جب شیخ جلال الدین کی ہستی کی بالکل بیخ نکل گئی تو ایک دن حضرت اقدس نے اپنی اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ اب شیخ جلال الدین مشائخ عظام کی امانت وخلافت کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوا ہے۔ چنانچہ کل میں تجھے اسکا ثبوت دکھادونگا۔ آپ نے بھنگن کو دوبارہ حکم دیا کے پہلے کی طرح نجاست کی ٹوکری انکے سر پر ڈال دو۔ اس نے حکم کی تعمیل کی۔ لیکن آپ انوار ذات میں اس قدر غرق تھے کہ نجاست کی خبر تک نہ ہوئی۔ جب شیخ جلال الدین کمال نیستی کو پہنچ گئے تو حضرت شیخ نے آپکو خلافت کبریٰ عطا فرمائی اور مریدین کی تربیت کا حکم فرمایا۔ چنانچہ آپکے حسن تربیت سے بہت لوگ مرتبہ کمال و تکمیل کو پہنچے اور ایک جہان آپکے فیض سے بہرہ مند ہوا۔ آپکے خلفاء کی تعداد کثیر تھی جو اطراف عالم میں پہنچ کر ہدایت خلق میں مشغول ہوئے۔
صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ حضرت جلال الدین تھانیسری قدس سرہٗ کو استغراق دوام حاصل تھا۔ لیکن اسکے باوجود آپ ذوق سماع، عبادات اور اد اور آدابِ شریعت و طریقت کے جامع تے۔ اور کبھی ترک نہیں کرتے تھے۔ آپ اسی سال کی طویل مدت تک روزانہ ایک ختم قرآن کرتے تھے چنانچہ آپکے کمالات اظہر من الشمس ہیں۔
اکبر بادشاہ کا سوال اور آپکا جواب
مراۃ الاسرار میں اقبال نامۂ جہانگیری سے منقول ہے کہ جب جلال الدین اکبر بادشاہ نے بروز دو شنبہ دوئم محرم ۹۸۹ھ کو اپنے بھائی مرزا محمد حکیم کی بغاوت فرو کرنے کیلئے صوبہ پنجاب کی طرف لشکر کشی کی اور قصبۂ تھانیسر میں قیام کیا۔ بادشاہ حقائق آگاہ حضرت قطب الاقطاب شیخ جلال الدین کی خانقاہ میں حاضر ہوا خیر وعافیت دریافت کرنے کے بعد بادشاہ نے حقائق و معارف کی گفتگو شروع کی۔ حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ جو بحر اسرار ورموز تھے نے جوش میں آکر ایسے حقائق و معارف بیان فرمائے کہ بادشاہ اپنی انانیت اور خودی کو ترک کر کے فقر و درویشی اختیار کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ دوران گفتگو میں بادشاہ نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ حق تعالی نے جو واحد حقیقی ہے اپنی وحدت کے باوجود کس طرح متعدد ومظاہر میں ظہور فرمایا ہے۔ حضرت اقدس نے بادشاہ کے سامنے مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آفتاب کی وحدت میں کسی کو کوئی شک نہیں ہے لیکن جب پانی کے بیشمار برتن بھر کر آفتاب کے سامنے رکھے جاتے ہیں تو ہر برتن میں آفتاب ظہور پذیر ہوتا ہے اور پھر اس کثرت سے ظہور کے باوجود آفتاب کی وحدت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ کس نے خوب کہا ہے؎
آفتاب در ہزاراں آبگینہ تافتہ
پس برنگے ہر یکے تاب عیاں انداختہ
جملہ یک نور است امار نگہائے مختلف
اختلافے درمیان این و آں انداختہ
(آفتاب وحدت ہزاروں آبگینوں پر جلوہ گر ہے جس سے ہر آبگینہ میں علیحدہ آب و تاب ہے اصل میں وہی ایک نور ہے جس کے مختلف رنگوں کی وجہ تمام اشیاء مختلف نظر آتی ہیں)۔ اس مثال کے بعد فرمایا کہ جب مخلوق (یعنی آفتاب) کا یہ حال ہے کہ مظاہر کثرت کے باوجود اسکی وحدت میں فرق نہیں آتا تو آفتاب کے خالق قدرت لازماً اس سے زیادہ قوی وبرتر ہونی چاہیے۔
بادشاہ کا دوسرا سوال اور اسکا جواب
آخر میں بادشاہ کے اشارہ پر ابو الفضل نے حضرت اقدس سے دریافت کیا کہ دردِ عشق کی دوا کیا ہے اور منزل مقصود کی نزدیک ترین راہ کیا ہے۔ یہ سنکر حضرت اقدس پر گریہ طاری ہوا اور نوک مژہ سے چہرہ مبارک پر جواب لکھ دیا ۔ اسکے بعد یہ شعر پڑھا؎
آہ زاستغائے دلبر آہ آہ |
|
جز تعظم نیست برکونین راہ |
(آہ دوست کس قدر بے پروا ہے۔ اس کو چہ میں سوائے نیاز کے اور کوئی راستہ نہیں ہے)
یہ سنکر بادشاہ پر بھی گریہ طاری ہوا اور کہنے لگا کہ مجھے بھی فقیر بنادیجئے مجھے اس بادشاہی کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ پہلے اپنے جیسا کوئی بادشاہ اپنی جگہ پر بٹھاؤ اور پھر اس کام کی طرف آؤ۔ نیز فرمایا کہ آپکے عدل کا ایک گھنٹہ عابد اور فقیر کی ہزار سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ آپکی درویشی یہی ہے کہ عدل وانصاف سے کام لیں اور خلق خدا کو نفع پہنچائیں۔ اور خود بھی یاد خدا میں مشغول رہیں کیونکہ سلطنت ذکر خدا سے مانع نہیں ہے۔ اسکے بعد بادشاہ اجازت لیکر اپنے کیمپ میں آیا۔
فیضی کا سوال اور حضرت کا جواب
بعد میں ابو الفضل کا بھائی فیضی حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت حضرت اقدس پالکی میں بیٹھ کر نوح علیہ السلام کے پوتے حضرت سالار اسحاق کی مزار تو تھانیسر کے نواح میں ہے کی زیارت کیلئے جارہے تے۔ آپ اسکی خاطر پالکی سے اتر کر خانقاہ میں تشریف لے گئے۔ بیٹھتے ہی فیضی نے سوال کیا کہ حق تعالیٰ نے سواری کیلئے جانوروں کو پیدا کیا اور اُن پر سوار ہونے کا حکم دیا ہے نہ کہ انسان پر سوار ہونے کا۔ حق تعالیٰ کا حکم یہ ہے وعلیھا وعلیٰ الفلک تحملون (ان پر اور کشتی پر تم سوار ہوتے ہو) لیکن آپ اس قدر عارف ، متقی و پرہیز گار ہونے کے باوجود افسوس ہے کہ انسان پر سوار ہوتے ہیں اور پالکی میں سفر کرتے ہیں۔ لیکن گھوڑے پر سوار نہیں ہوتے۔ حضرت اقدس نے جوب دیاکہ تعجب ہے کہ تم اس علم وفضل کے باوجود اب تک یہ بات نہیں سمجھ سکے کہ بعض آدمی جانوروں کی مانند ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں چنانچہ حق تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے حق میں فرمایا اولک کا لا نعام بل ھم اضل سبیلا ( وہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر) یہ بات سنکر فیضی شرمندہ ہوا اور جب تک بیٹھا رہا پھر کوئی بات نہ کی اور خاموش بیٹھا رہا۔ آخر رخصت ہوکر اپنے مقام پر چلا گیا۔
بیربل کا سوال اور جواب
حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ پر استغنائے ذاتی اس قدر جلوہ گر تھی کہ اک دفعہ بیربل جو اکبر بادشاہ کے مقربین میں سے تھا حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت اقدس اسکی طرف بالکل متوجہ نہ ہوئے لیکن جب بیربل حضرت شیخ محمد غوث گوالیاری کی خدمت میں ھاضر ہوا تو انہوں نے اس کے راستے میں فرش بچھایا اور فرش کے کنارے تک استقبال کیلئے تشریف لے گئے بیربل نے اُن سے دریافت کیا کہ جب تمام اولیاء اللہ کمالات باطنیہ میں برابر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ میں حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری کی خدمت مین حاضر ہوا تو انہوں نے میری طرف بالکل التفات نہ کیا۔ لیکن آپ کے گھر آیا تو آپ نے میری اس قدر تعظیم وتکریم فرمائی ہے۔ حضرت شیخ محمد غوث نے فرمایا برادرم! شیخ جلال الدین غایت شہود ذاتی تک پہنچ گئے ہیں ا ور دنیا واہل دنیا کی انکےن زدیک کوئی قدر نہیں ہے وہ آپ جیسوں کی کب پرواہ کرتے ہیں جبکہ شاہ وگدا انکے نزدیک ایک ہوگئے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں اب تک د نیا کے بعض علائق باقی ہیں ۔اس وجہ سے میں آپکی تعظیم کرتا ہوں۔ یہ جوب سنکر بیربل بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ یا حضرت آپ نے حق بات فرمائی ہے۔
حضرت شاہ کمال کیتھلی سے ملاقات اور سوال و جواب
روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت شاہ کمال قادری ابتدائے حال میں حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے اپنے باطنی کمالات کو سپاہیانہ لباس میں چھپا رکھا تھا۔ حضرت اقدس نے انکو اس لباس میں دیکھ کر دریافت فرمایا کہ تمہارے بادشاہ کا کیا حال ہے۔ انہوں نےجواب دیا کہ اگر آپکو بادشاہ کا حال دریافت کرنا مطلبو ہے تو کسی خادم کو شاہرہ پر بٹھادیں تاکہ آنے جانے والے سے بادشاہ کا حال پوچھ کر آپکو بتاتا رہے ایک درد مند درویش حضور کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہے کہ فیض ح اصل کرے اور آپ اس سے بادشاہ کا حال دریافت فرماتے ہیں۔ چنانچہ حضرت اقدا اُن سے خلق وتواضع سے پیش آئے اور سمجھ گئے کہ یہ مرد عارفان حق میں سے ہے۔ اسکے بعد آپ نے چند اسرار کی باتیں کہہ کر فرمایا کہ آپکا مقام قصبۂ کیتھل ہے۔ وہاں جاکر قیام کریں۔ چنانچہ حضرت شاہ کمال[9] وہاں سے رخست ہوکر کیتھل پہنچے اور اسی جگہ وصال فرمایا اور دفن ہوئے۔ جہاں آپکا مزار فیض بخش وزیارت گاہ خلائق ہے۔
حضرت اقدس کا رقس اور روحانیت رسول اللہ کا موجود ہونا
اس فقیر نے اپنے مشائخ سے نقل تواتر سے سنا ہے کہ دوسری بار جب حضرت شیخ کمال اپنے خلفاء صاحب حال سمیت حضرت شیخ جلال الدین کی زیارت کیلئے تھانیسر تشریف لائے تو اُس وقت حضرت شیخ محفل سماع میں رقص کر رہے تھے اور ساری مجلس دست بستہ کھڑی تھی۔ حضرت شاہ کمال نے مجلس میں داخل ہوتے ہی دست بستہ ہوکر حضرت شیخ کے پیچھے پیچھے پھرنا شروع کیا۔ اُنکے اصحاب نے عرض کیا کہ حضور اپنے کمالات کے باوجود کس وجہ سے اُنکے پیچھے گردش فرمارہے ہیں۔ شاہ کمال نے فرمایا کیا تم نہیں دیکھتے کہ روحانیت رسول اللہﷺ انکی تعظیم کی خاطر انکے ہمراہ گردش کر رہی ہے۔ پس میں کون ہوں جو گردش نہ کروں۔
یہ خبر بھی تواتر کے ساتھ منقول ہے کہ جب حضرت شیخ جلال الدین پر سماع میں وجد طارہ ہوتا تو حضرت رسالت پناہﷺ کی روحانیت مجلس میں موجود ہو اور محبوبان ہوگئے۔
ایک نظر سے کام بن گیا لیکن مرگیا
طبقاب حسامیہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ جلال الدین تھانیسری قدس سرہٗ کا ایک مرید تھا کہ جسکو تجلی ذاتی کا بے حد شتیاق تھا۔ اور اسکے حصول کیلئے ریاضات و مجاہدات اور اربعین (چلہ کشی) میں مشغول تھا۔ لیکن وہ حالت اُن پر مکشوف نہیں ہوتی تھی۔ ایک دن انکے دل میں خیال آیا کہ اس زمانے میں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ جیسا کوئی عارف نہیں ہے جنکی ایک نظر سے ایک کتا بھی صاحب حال ہوگیا۔ اسکے دل میں یہ خطرہ آتے ہی حضرت شیخ جلال الدیلن اس سے آگاہ ہوگئے۔ اور اسکی طرف ایک ایسی عاشقانہ نظر ڈالی کہ اسی وقت تجلی زاتی اس پر منکشف ہوگئی۔ لیکن اسکے فوراً بعد وہ شخص مرگیا اس وجہ سے کہ اسکے اندر اب تک تجلئ ذاتی کیلئے قوت برداشت نہ پیدا ہوئی تھی۔ اور اسی وجہ سے حضرت اقدس اب تک توقف فرمارہے تے۔
شاہ قمیص کی فیضیابی
اس فقیر نے بعض لوگوں سے سُنا ہے کہ حضرت شاہ قمیص سیر کرتے ہوئے حضرت شیخ جلال الدین کی خدمت میں جا پہنچے اور آپکے ہاں ایک چلہ ب ھی کیا۔ اسکے بعد حضرت اقدس سے اجازت لیکر بمقام سادھو پورہ قیام پذیر ہوئے اور وہاں پوری نشو ونما حاصل کر کے خلق خدا کو فیض پہنچایا۔ آپکا مزار آج تک مرجع خلائق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
غلبہ استغراق
اخبار الاخیار میں لکھا ہے کہ جب شیخ جلال الدین کا بیٹا فوت ہوا تو آپ نے کافی عرسہ تک سماع ترک کردیا۔ اس وجہ سے کہ اسکی موت کا درد حق تعالیٰ کی محبت کے درد سے مخلوط نہ ہوجائے اور شرک کا ارتکاب نہ ہو۔ آخر عمر میں حضرت اقدس پر استغراق کا اس قدر غلبہ ہوگیا تھا کہ آپکے کان م یں تین بار بلند آواز سے حق حق حق کہا جاتا تھا جس سے آپ عالم ہوشیاری میں آتے تھے اور نماز وغیرہ کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ جب ان مشاغل سے فارغ ہوتے تھے تو پھر عالم احدیت ذات میں مستغرق ہوجاتے تھے۔ حتیٰ کہ لب گور تک یہی حالت رہی۔
حضرت اقدس کی تصانیف و بیان اسرار رموز
حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہٗ کے مکتوبات بھی آپکے شیخ کے مکتوبات کی طرح حقائق ومعارف کا خزانہ ہیں۔ آپکی تصانیف کا بھی یہ حال ہے اسرار ورموز سے لبریز ہیں۔ بالخصوص آپکی کتاب ’’ارشاد الطالبین‘‘ طالب حق کیلئے دستور العمل ہے۔ اس میں سے چند اقتباسات تبرکاً یہاں درج کیے جاتے ہیں۔
ذکر معنوی یعنی ذکر ذات یا ذکر مشاہدہ
آپ فرماتے ہیں کہ جب سالک اذکار جہریہ، صوریہ، خفیہ اور سریہ سے بفضل پروردگار ترقی کر کے مرتبۂ کملا کو پہنچتا ہے تو مقام ذکر معنوی وحقیقی پیش آتا ہے۔ جمال مذکور (جمال حق) حاصل ہوتا ہے۔ اس ذکر کو ذکر سر، ذکر روح، ذکر ذات، ذکر مشاہدہ وذکر تجلی بھی کہتے ہیں۔ اس ذکر حقیقی معنوی میں ھواس خمسہ معطل ہوجاتے ہیں۔
تعطیل حواس کی دو صورتیں
تعطیل حواس کی دو صورتیں ہیں یا یہ ہوتا ہے کہ حس کو کسی چیز کا ادراک نہیں ہوتا اور غیبویت (بے خودی) طاری ہوجاتی جیسے نیند کی حالت میں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ حس ظاہر وباطن سے کسی چیز کو محسوس نہیں کرتی اور کوئی چیز اسکے لیے حاضر نہیں ہوتی جیسے جانورون کی حالت ہوتی ہے۔ (یعنی چیزوں کو دیکھتے ہی لیکن سمجھتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے) اور وَھُوَ معکم کے بمصداق سالک جو کچھ دیکھتا ہ یا سنتا ہے اللہ سے سنتا ہے اور جو کچھ جانتا ہے اللہ سے جانتا ہے۔ اسکی نظر فی البدیہہ بغیر استدلال نقاش پر پڑتی ہے جسکے نور کی تجلی میں نقش کم نظر آتا ہے۔ مرتبہ اول میں نظر معرفت صنع سے صانع (یعنی خلق سے خالق) کی طرف جاتی ہے اس وجہ سے کوئی مخلوق خالق کے بغیر وجود میں نہیں آتی۔ مَا رَایت شیاً ال ورات اللہ فیہ (میں نے کوئی چیز نہ دیکھی جسکے اندر اللہ کو نہ دیکھا) کا ا سی مقام کی طرف اشار ہے۔ مرتبۂ دوم میں نظر معرفت صانع سے صنع (خالق سے مخلوق) کی طرف آتی ہے۔ ما رائت شیئا الا رائت اللہ قبلہ (میں نے کوئی چیز نہ دیکھی بجز اسکے کہ اس سے پہلے اللہ کو دیکھا) سے یہی مقام مراد ہے۔ مرتبۂ سوم یہ ہے کہ سب کچھ صانع ہے اور صنع کا وجود ہی نہیں۔ یہاں پہنچ کر مَنْ عَرَ فَ نَفْسُہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبُّہٗ (جس نے اپنے نفس کو پہنچانا وہ اپنے رب کو پہچانتا ہے) کا راز منکشف ہوتا ہے اور الا انھم فی م ریۃ من لقاء ربھم الا انہ بکل شئیٍ مُحیط۔ (کیا کسے اسکی زیارت میں شک ہے خبردار! وہ ہر چیز کو محی ہے یعنی ہر چیز اس میں شامل ہے) کا جمال اس پر ظاہر ہوتا ہے اور وَھُوَ معکم ایمناکنتم (اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو) کے بمصداق دوست کےل جمال کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے؎
در ہر چہ بدیدیم ندیدیم بجز دوست
معلوم چنیں شد کہ کسے نیست مگر اوست
کہ جہاں صورت است ومعنی اوست
وربہ معنی نظر کنی ہمہ اوست
(جس چیز میں ہم نے نظر کی دوت کے سوا کچھ نہ دکھا اس سے معلوم ہوا کہ دوست کے سوا کسی چیز کا وجود نہیں ہے۔ یہ جہاں صورت ہے اور اسکا معنی وہی ہے اور معنی میں نظر کرو تو ہمہ اوست یعنی سب کچھ وہی ہے)
آداب مشائخ
نقل تواتر سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جب تک حضرت شیخ جلال الدین اپنے شیخ حضرت قطب العالم کی خدمت میں شاہ آباد یا گنگوہ شریف میں رہے شہر سے باہر دو کوس جاکر قضاے حاجت کرتے تھے اور معذوری کے سوا کبھی شیخ کے شہر بول براز نہ کیا۔ مشائخ کی اولاد پاک نہاد کا احترام اس درجہ کا تھا کہ ایک دفعہ جب حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنجشکر قدس سرہٗ کے خاندان کے ایک رکن اجودھن (پاکپتن) سے دہلی جارہے تے اور تھانیسر سے گذر ہوا اور جب ر تھانیسر تین منزل دور رہ گیا تو حضرت قطب العالم شاہ عبدالقدوس گنگوہی کی روحانیت نے حضرت شیخ جلال الدین سے عالم معاملہ میں فرمایا کہ حضرت خواجہ گنجشکر کی اولاد میں سے ایک خراباقی مشرب رند مخمور آرہا ہے اور حضرت گنجشکر کی روحانیت انکے ساتھ ہے اور ہم سے کہہ رہی ہے کہ دکھیں تمہارے سجادہ نشین شیخ جلال میرے فرزند کی تعظیم کرتے ہیں یا نہیں۔ لہٰذا اگر تجھے میری عزت مشائخ عظام کے سامنے بر قرار رکھنا منظور ہے تو انکی عزت وتکرم میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑنا اور آداب ضیافت پوری طرح بجا لانا۔ انکے حال پر نظر نہ کرنا میری طرف اور حضرت گنجشکر کی روحانیت کی طرف نظر کرنا۔ اور کما حقہٗ خدمت بجالانا۔ جب حضرت شیخ جلال الدین بیدار ہوئے تو فوراً اٹھے اور ایک کوس دور جاکر انکی انتظار میں بیٹھ گئے۔ جب شام ہوئی تو گھر واپس آگئے۔ اسی طرح تین دن متواتر ہ جاتے رہے۔ تیسرے دن حضرت گنجشکر کے فرزند ہاتھی پر سوار اس حالت میں نظر آئے کہ انکی اک طرف حضرت خواجہ گنجشکر کی روحانیت تھی اور دوسری طرف حضرت شاہ عبدالقدوس گن گوہی کی انکو۔ دیکھتے ہی آپ نے دوڑ کر قدمبوسی کی اور ہاتھی کے پاں کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ نایا۔ اسکے بعد رکاب تھامے ہوئے اس صاحب زادہ کو اپنے گھر لے آئے۔ وہ صاحبزادہ مست شراب تھے اور ازراہ مہربانی اپنا شراب آلودہ رومال شیخ جلال الدین کو عطا فرمایا۔ آپ نے فوراً رومال لیکر اپنے سر پر باندھا اور انکو تھانیسر لے آئے۔ اپنی بڑی حویلی میں انکے قیام کا انتظام کیا اور تمام ضروری اشیاء مہیا کر کے اُن سے اجازت لی اور اپنی خانقاہ میں تشریف لائے۔ حضرت اقدس کے بعض اصحاب نے کہا کہ یہ صاحبزادے اگر چہ پیر زادے ہیں لیکن فسق وفجور میں مبتلا ہیں حضور والا چونکہ حجت مشائخ ہیں آپکے لیے یہ مناسب نہ تھا کہ اس شرابی کے سامنے اس طرح پیش آئیں۔ آپ نے فرمایا کہ میری نظر ان پر نہ تھی۔ بلکہ حضرت خواجہ گنجشکر اور حضرت قطب العالم کی روحانیت پر تھی جو انکے ہمراہ تھے۔ اور حضرت گنجشکر کی روحانیت نے میرے پیر کی روحانیت سے فرمایا کہ دیکھیں کس طرح شیخ جلال میرے بیٹے کی تعظیم بجالاتے ہے اس لیے حضرت قطب العالم کی روحانیت نے مجھ سے فرمایا کہ تم نے اس صاحبزادہ کی کما حقہٗ تعظیم کی تو میری عزت میرے مشائخ کے سامنے بر قرار رہے گی۔ چنانچہ میں نے حضرت گنجشکر اور اپنے پیر کی تعظیم کی ہے جس سے حضرت خواجہ گنجشکر کی روحانیت میرے پیر سے خوش ہوئی اور میرے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ یاد رہے کہ اس فقیر کے تمام پیر اپنے شیوخ اور ان کی اولاد کی تعظیم میں کوب اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ منقول ہے کہ جب حضرت قطب العالم قدس سرہٗ حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی قدس سرہٗ کے مزار کی زیارت کیلئے پت جاتے تو جونہی شہر نظر آتا آپ پاپیادہ ہوجاتے تھے اور حضرت شیخ کی اولاد کے پاؤں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ سمجھتے تھے۔ چنانچہ پانی پت کے افغان (پٹھا) جو حضرت قطب العالم کے مرید تھے حضرت اقدس سے کہتے تھے کہ ہم نے آپ سے اس لیے بیعت کی ہے کہ ہمیں حضرت شیخ جلال الدین پانی پتی کی اولاد جو ہماری ہموطن ہے کی تعظیم نہ کرنی پڑے جب آپ ان حضرات کا اس قدر اداب کرتے ہیں ہمارے لیے بھی انکا ادب لازم ہوگیا ہے اور جس چیز سے ہم بھاگے تھے اسی میں مبتلا ہوئے ہیں یہ سن کر حضرت قطب العالم نے جواب دیا کہ افغنانان جاہل ترین قوم ہے اور قطبی قوم ہے جو فرعون کی قوم تھی۔ انکی مریدی کا چنداں اعتبار نہیں پیر سے انحراف کرنا اور مردود ہونا اس گمراہ قوم کا دین وایمان ہے۔ چنانچہ شاہ آباد میں کئی افغان اس ووجہ سے مجھ سے منحرف ہوگئے اور مرتد ہوگئے کہ انکے سردار کی ہمشیرہ نے ہم سے نام خدا سیکھا تھا اور کبھی کبھی مسائل دریافت کرنے کی خاطر ہمارے پاس آیا کرتی تھی۔ اب اگر تم لوگ بھی مجھ سے منحرف ہوتے ہو اور مردود ہوتے ہو تو تمہیں اختیار ہے میں تمہاری مریدی کی خاطر اپنے مشائخ کی اولاد کا ادب بجا لانے میں کوتاہی نہیں کرونگا۔یہ جواب سنکر وہ افغان بدکیش بہت شرمندہ اور لوجواب ہوئے۔ مرشدان دین کو یاد رہے کہ حضرت رسالت پناہﷺ سے لیکر آج تک کسی افغان نے اپنے پیر کے ساتھ وفا نہیں کی۔ سوائے اس جاہل پیر کے کہ جو انکی اپنی قوم سے ہوتا ہے البتہ ان میں بعض اچھے اور بااعتقاد لوگ بھی ہیں چنانچہ اس فقیر کے افگان مریدوں میں بعض نیک سرشت اور راسخ العقیدہ لوگ بھی ہیں لیکن شاذوناہ اور غرضیکہ کوئی شخص انکی مریدی پر اعتماد نہ کرے اور نہ انکی فضیلت وصلاحیت کی امید رکھے کیونکہ یہ قوم جن فطرت ہے اور انکے فاضل اور صالح لوگ بھی جن عالموں کی طرح ہیں اور انکی شرارت سب سے زیدہ ہوتی ہے۔ پس م یری نصیحت کو دل میں جگہ دیکر اس گمراہ قوم کے مکر سے ڈرتے رہو کیونکہ پہلےیہ لوگ مرید ہوتے ہیں اور پھر پیر پر بیہودہ تہمیں لگاتے ہیں۔ نعوذ باللہ من شرررھم ومن سیات اعالھم من یھدی اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ (خدا تعالیٰ انکے شر اور بر سے کاموں سے محفوظ رکھے۔ جسکو اللہ ہدایت دے اسکو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسکو اللہ گمراہ کرے اسکو کوئی ہدایت نہیں دے سکتا)۔
وصال
صاحب طبقات حسامیہ فرماتے ہیں کہ حضرت قطب الاقطاب شیخ جلال الدین تھانیسری قدس سرہٗ کی نزع کی حالت طویل ہوئی اور قلق و بے آرامی زیادہ ہوئی تو آپکے ایک خلیفہ نے دریافت کیا کہ معلوم نہیں اس وقت آپکی ذات بابرکات پر کیا گذر رہی ہے حضرت اقدس نے جواب میں یہ شعر پڑھا؎
قومے زو جود خویش |
|
رفتہ زحرف در معانی |
(ہم ایسی قوم (طبقہ ) ہیں جو اپنے وجود سے خالی ہوچکی ہے اور حرف سے گذر کر معنی تک پہنچ چکی ہے یعنی ظاہر سے نکل کر باطن میں پہنچ چکی ہے)۔ اسکے بعد آپ نے اپنے مشائخ کی امانت بمع اسم اعظم اور خرقۂ خلافت حضرت شیخ نظام الدین بلخی قدس سرہٗ کو عطا فرمائی اور شاداں وخنداں جان شہود دوست میں دیدی۔ آپکا وصال بتاریخ چودہ ماہ ذی الحجہ ۹۸۹ھ ہوا۔ آپکی تاریخ وفات یہ ہے ‘‘سرِّ دفتر اولیاء’’۔ لیکن اس تریخ میں تین سال کی زیادتی ہے جسکا کوئی مضائفہ نہیں۔ حضرت اقدس کی عمر پچانوے سال تھی۔ آپکا مزار مبارک تھانیسر میں زیارت گاہ وحاجت روائے خلق ہے۔
خلفاء
حضرت اقدس کے خلفاء کی تعداد بہت زیادہ ہے جنکا بیان اس مختصر کتاب میں نہیں ہوسکتا۔ اُن سے بعض کا ذکر یہاں درج کیا جاتا ہے۔
آپکے خلیفۂ اول واعظم حضرت شیخ نظام الدین بلخی ابن عبدالشکور الفاروقی تھانیسری ہیں جن کے نام نامی سے سلسلہ عالیہ قدوسیہ مشہور ہے اور آج تک آپکے وجود سے جاری ہے اور ایک جہان کی آپکی ظاہری وباطنی تربیت سے مطلوب حقیقی تک رسائی ہوئی آپکے دوسرے خلیفہ آپ کے بڑے بھائی شیخ عبدالشکور ہیں جو حضرت شیخ نظام الدین کے والد ماجد تھے۔ تیسرے خلیفہ قاضی سالم کیرانوی، چوتھے حضرت شیخ موسیٰ، پانچویں حضرت شیخ عیسیٰ تھے جو اپنے وقت کےموسیٰ اور عیسیٰ تھے۔ آپکے چھٹے خلیفہ میر سید فاضل ساکن توہانہ جنکو ح ضرت میر خطاب کہہ کر پکارا کرتے تھے اور بیشک آپ جامع کمالات ظاہری وباطنی تھے۔ رحمۃ اللہ علیہم۔
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد ٍوَالہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْن۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
[1]۔ درویش دو قسم کے ہوتے ہیں ایک مجذوب سالک، دوسرے سالک مجذوب، مجذوب سالک وہ ہوتے ہیں جنکو پہلے جذبۂ الٰہی اپنی آغوش میں لیتا ہے اور مست و بے خود ہوجاتے ہیں اور پھر سلوک تمام کرتے ہیں۔ سالک مجذوب انکو کہتے ہیں جو پہلے مجاہدات وریاضات کرتے ہیں اور پھر اُن پر جذب طاری ہوتا ہے۔
[2]۔ پورا شعر یہ ہے؎
زعشق نا تمام با جمال یار مستغنی است
باب ورنگ و خال وخط چہ حاجت روئے زیبارا
اقبال نے اس پر یوں تضمین لگائی ہے؎
سماں انفقر وفخری کا رہا شان امارت میں
باب ورنگ و خال وخط چہ حاجت روئے زیبارا
یہ بھی شاید اقبال کی تضمین ہے؎
نہیں محتاج زیور کا جسے خوبی خدا نے دی
باب ورنگ و خال وخط چہ حاجت روئے زیبارا
[3]۔ شغل سہ پایہ در اصل سلسلہ عالیہ قادریہ کا شغل ہے اور دائرہ قادریہ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ شغل آنحضرتﷺ نے براہِ راست حضرت غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کو تعلیم فرمایا تھا اور انہوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو تعلیم فرمایا۔ اسی طرح شغل سر گوشی آنحضرتﷺ نے براہ راست حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کو تعلیم فرمایا اور آپ نے حضرت غوث الاعظم کو تعلیم فرمایا۔ یہ شگل سہ پایہ اسلیے کہا جاتا ہے کہ تین اسمائے الٰہیہ اللہ سمیع، اللہ بصیر، اللہ علیم کی ضربیں لطائف پر لگائی جاتی ہیں جس سے لطائف زندہ ہوکر ذاکر ہو جاتے ہیں اور پورا گھر نوارنی ہوجاتا ہے بے حد موثر شغل ہے اور برزخ شیخ میں کیا جاتا ہے۔
[4]۔ فنا اور فنا میں یہ فرق ہے کہ فنا میں فنا کا احساس وشعور رہتا ہے لیکن فناء الفناء میں یہ شعور بھی نہیں رہتا کہ میں فنا ہوچکا ہوں۔
[5]۔ فنا اور فنا میں یہ فرق ہے کہ فنا میں فنا کا احساس وشعور رہتا ہے لیکن فناء الفناء میں یہ شعور بھی نہیں رہتا کہ میں فنا ہوچکا ہوں۔
[6]۔ عالم حکمت سے مراد ہماری یہی ناسوتی دنیا ہے جس میں علت ومعلول (CAUSE & EFFECT) کا قانون چلتاہے۔ لیکن عالم قدس عالم قدرت کہلاتا ہے جہاں کسی کام کیلئے علت یا سبب کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کو جو حکم ہوتا ہے فوراً بلا سبب اور بلاوجوہ پورا ہوجاتا ہے۔
[7]۔ برزخ شیخ میں ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سالک تصور میں اپنے آپ کو اپنے شیخ کی صورت میں دیکھتا ہے۔ یہاں اختصار کی خاطرمصنف نے ان تین لطائف کا نام نہیں لیا جن کے اندر ذکر اسم ذات کیا جاتا ہے اور اس وجہ شغل سہ پایہ کہلاتا ہے۔
[8]۔ عالم اسماء وصفات جسے عالم جبروت کہتے ہیں چونکہ کشف وکرامات کا زور ہوتا ہے آپ کشف و کرامات سے بے نیاز ہوکر بحر ذات میں غواصی کرتے تھے۔ یہ عارفین بلند مقام کا مشرب ہے کہ کشف و کرامات سے م نہ موڑ کر ذات میں منہمک رہتے ہیں اس لیے عرفاء کا قول ہے کہ سالک کو طالب ذات ہونا چاہیے نہ کہ طالب صفات
[9]۔ غالبا یہ وہی شاہ کمال کیتھلی ہیں جو بعد میں حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی قدس سرہٗ کے استاد ہوئے۔
(قتباس الانوار)