حضرت علامہ جلال الدین تھانسیری

حضرت علامہ جلال الدین تھانسیری رحمۃ اللہ علیہ

آپ شیخ عبدالقدوس کے مریدوں میں اور ان کے خلیفہ تھے۔ اپنے وقت کے مشہور عالم، عامل صاحب استقامت شیخ کامل تھے، ابتدائی عمر سے زندگی کے آخری ایام تک اطاعت، عبادت، درس، وعظ گوئی، ذکر سماع اور ذوق و حال میں مشغول رہے۔ اللہ تعالیٰ نے عمر دراز دی تھی، آداب و نوافل کی حفاظت اور اوراد و اوقات کی رعایت میں زندگی کے آخری وقت تک ثابت قدم رہے۔

حکایت ہے اپنے بیٹے کے انتقال کے غم میں ایک مدت تک آپ نے قوالی نہیں سنی اور جب لڑکے کے انتقال کا غم محبت الٰہی میں تبدیل ہوگیا تو پھر قوالی سننے لگے۔ آپ کے پیر و مرشد شیخ عبدالقدوس نے آپ کو اکثر خطوط لکھے ہیں اور آپ نے بھی اپنے پیر و مرشد کے طرز پر خطوط تحریر کیے ہیں۔ آپ نے پچانوے برس کی عمر میں وفات پائی۔

(اخبار الاخیار)

-------------------------------

آپ شیخ عبد قدوس کے گنگوہی کے خلیفہ اعظم  تھے۔ ماں باپ کی نسبت سے فاروقی تھے آپ کا  اصلی وطن بلخ تھا۔ آپ کے والد کا نام قاضی محمود تھا۔ سات سال کی عمر میں قرآن پاک یاد کرلیا اور سترہ سال کی عمر میں سارے علوم سے فارغ ہوگئے آپ درس بھی دیا کرتے  اور فتویٰ بھی لکھا کرتے تھے آخر کار شیخ عبد قدوس گنگوہی کے ظاہری اور باطنی طور سے مرید ہوگئے۔

کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ کی ابتدائی زندگی میں ایک شخص بڑی خوش آواز سے غزل پڑھ  رہے تھا۔ شیخ اُس کی آواز سُن کربے ہوش  ہوگئے اور کوٹھے کی چھت سے نیچے گر پڑے  وہ نیم بسمل  پرندے کی طرح تڑپنے لگے اور زمین پر لیٹتے جاتے ہوش  آیا تو  اُسی دن چشتیہ صابریہ سلسلے میں داخل ہوگئے اور بڑے مقامات تک  پہنچے  آپ  سے بڑی کرامتیں ظاہر  ہوئیں آپ اس طرح یاد الٰہی میں غرق  رہتے کہ مرید آپ کے کان میں نماز کے وقت  اللہ اکبر اللہ کہتے تو پھر جاکر آپ کو ہوش آتا اور نماز ادا کرتے اگر آپ نعت  یا قوالی سُنتے تو  وجد کرنے لگتے سلسلہ چشتیہ صابریہ میں آپ  کے رتبہ والا بزرگ کوئی نہیں ہوا۔

ایک شخص شیخ جلال الدین کے مریدوں میں سے تھا  وہ کئی سال آپ  کی خدمت میں رہا مگر اسے  کچھ فائدہ نہ ہو ایک دن حضور کی خدمت میں بیٹھا دل میں خیال کر  رہا تھا کہ پرانے  زمانے  میں شیخ نجم حسین کبریٰ بڑے صاحب کرامت بزرگ تھے جس شخص پر  ایک نظر ڈالتے  اُسے ولی اللہ بنانے اِن دنوں ایسے بزرگ کہاں شیخ جلال الدین نے اُس  مرید  کے دل میں اس  خیال کو  خود ہی معلوم کرلیا اور  فرمایا ہاں اِن  دنوں میں بھی ایسے بندے اس دنیا میں ہیں جو ایک نگاہ سے طالبِ حق کو  اللہ تعالیٰ تک پہنچا  دیتے  ہیں۔ یہ کہا اور  اُس شخص پر  ایک تیز نگاہ ڈالی وہ اُسی وقت تڑپ کر  لیٹنے لگا  تین دن تک بے ہوش  رہا۔  تیسرے  دن ہوش  میں آیا تو  شیخ کے قدم چوم کر  عرض  کی مجھے اتنے سالوں میں وہ چیز نہ ملی جو ایک نظر میں حاصل  ہوگئی ہے وہ اُسی ہفتے  فوت  ہوگیا حضرت شیخ کو اُس کی موت کی خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا ہر ایک کو  برداشت کی طاقت نہیں ہوتی یہ بے چارہ بھی نگاہ کی تاب نہیں لاسکا ایک ہی نظر میں فوت ہوگیا۔

شیخ جلال الدین  کا ایک بیٹا فوت ہوگیا کئی دنوں تک اُس  کے صدمے سے آپ مجلسِ سماع میں نہ جاسکے۔ اور یہ درد حقیقی محبت میں تبدیل ہوگیا شیخ کی تفصیلات میں سے مکتوبات قدسیہ بہت مفید کتاب ہے۔

شیخ جلال الدین  چودہ  ماہ ذالحج ۹۸۹ھ میں ۹۵ سال [۱] کی عمر میں فوت  ہوئے آپ کا مزار تھا نیسر میں ہے۔

جلال از جہاں چوں بجنت رسید
بے سال ترخیال  ہاں زسی کمال
سیاہ شیخ پاکیزہ  دل  شد عیاں
دیگر  ہست ماہتاب  عزت جلال

[۱۔ صاحب  اقتباس الانوار حضرت مولانا شیخ محمد  اکرم قدوسی قدس سرہ نے آپ  کے مفصل حالات سپرد تذکرہ  کرتے  ہوئے لکھا ہے کہ شیخ جلال الدین فاروقی محمود تھانیسری قدس سرہ جمال اہل طریقت اور کمال حقیقت  تھے۔ حضرت  عبدالقدوس گنگوہی کے بہت سے مرید  آپ  کے گاؤں میں رہتے تھے ایک بار حضرت گنگوہی آپ  کے گاؤں آئے تو مسجد  اور مدرسہ حضرت جلال الدین کے ارشاد و  تدرس کا گہوارہ  بنا ہوا تھا۔  آپ نے حضرت کے مریدوں کو کہا سنا ہے تمہارے گھر تمہارا  مرشد رقاص بھی ہے اور  سماع کی مذمت بھی کرتا ہے مریدوں نے حضرت گنگوہی کو آپ کی طعن آمیز بات سنائی تو آپ نے فرمایا ہاں رقص کرتا بھی ہے اور  کراتا بھی ہے دوسرے روز خود مسجد میں جا  پہنچے مولانا جلال تدریس میں مصروف تھے آپ نے ایک سر  سری نگاہ ڈالی اور  ایک طرف بیٹھ گئے اس  بات سے فارغ ہوکر حضرت جلال حضرت گنگوہی کے پاس آئے اور  دریافت کیا میاں فقیر کہاں سے آئے ہو آپ نے ایک نظر بھر کر دیکھا اور فرمایا میں تو رقاص ہوں تمہیں رقص کرانے آیا ہوں بس ایک نگاہ سے حضرت جلال کے تمام ظاہری علوم سلب ہوگئے اور وہ واقعی تڑپنے لگے  اور حضرت جلال  رحمۃ اللہ علیہ آپ کے حلقۂ ارادت میں پھنس گئے تھے۔ آپ نے ساری عمر اپنے مرشد کی خدمت گزار دی اور سلسلہ چشتیہ صابریہ کی اشاعت میں دن رات ایک کر دیے آپ ہی آپ کے ممتاز خلیفہ تھے جلال الدین اکبر ۹۸۹ھ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر معارف تصوف پر گفتگو کرتا رہا اور فلسفہ وحدت الوجود بہت سے نکات خاص کیے فیضی نے تھانسیر میں حاضر ہوکر علمی مباحث کیے ببریل نے خود آکر اپنی ذہنی مشکلات کا حل تلاش کیا حضرت شاہ کمال کتھیلی قدس سرہ سپاہیانہ لباس میں آپ سے ملے اور ایک مجلس سماع میں شرکت بھی کی شاہ قمیص رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی نگرانی میں ایک چلہ کاٹا آپ کی کتاب ارشاد الطابین آپ کے ازکار رموز کا ذخیرہ ہے آپ کے خلفاء میں سے نظام الدین بلخی بڑے با کمال بزرگ ہوئے ہیں ان کے مفصل حالات بھی اقتباس الانوار میں ملتے ہیں۔

تجویزوآراء