حضرت شیخ جنید بغدادی

حضرت شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ غوث الاسلام والمسلمین، سلطان الاولیاء والمتقین، امام الائمہ کاشف الغمہ، شیخ شیوخ جہان، فخر مشائخ زمان، صدرالفضلا، بدر العرفاءفنون و علوم میں کامل، اور معاملات و ریاضات میں شامل، اور اصول و فروع میں مفتی تھی، کلمات لطیف اور اشاراتِ عالی میں سب پر سبقت رکھتے تھے، آپ حضرت خواجہ شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و خلیفہ اکبر و جانشینِ اعظم تھے۔

آپ اول حال سے آخر تک تمام فرقوں کے پسندیدہ و محمود و مقبول رہے، اور سب کے سب آپ کی امامت پر متفق تھے۔

نام و نسب

آپ کا نام نامی جنید، کنیت ابوالقاسم، القاب بزرگ سیّد الطائفہ  طاؤس العلما، سلطان المحققین، لسان القوم، اعبد المشائخ، قواریر، زجاج، خزاز[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]، عبدالجبار، عبد اکرم[۱] [۱۔ آئینہ تصوف ۱۲]۔

والد ماجد کا نام شیخ محمد بن جنید تھا، شیشہ اور کپڑے کی تجارت کرتے تھے، وطن مالوف نہاوند تھا۔

ولادت

آپ کی ولادت با سعادت ۲۱۶ دو سو سولہ ہجری مطابق ۸۳۱ آتھ سو اکتیس عیسوی میں بعہد خلافت مامون الرشید عباسی بمقام  بغداد شریف ہوئی۔[۱] [۱۔ جنید بغدادی ۱۲ شرافت]

تربیت و تعلیم

گو آپ کے والد بزرگوار زجاج یعنی تاجر شیشہ تھے لیکن آپ کو تعلیم کے لیے مدرسہ میں داخل کیا تھا، جس میں آپ نے علوم شرعیہ کی پوری تکمیل کی، آپ ایام طفولیت ہی سے صاحب درد داہل فکر با ادب با فراست بڑے ذکی و  فہیم طالب کار تھے، اکثر اپنے ماموں شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوتے، اور فیض صحبت سے مستفیض ہوا کرتے۔

اور فقہ علامہ ابو ثور ابراہیم بن خالد الکلبی رحمۃ اللہ علیہ تلمیذ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سےحاصل کی جو بغداد کے اجلہ فقہا و مشاہیر علما سے تھے۔ [۱] [۱۔ جنید بغدادی بحوالہ وفیات الاعیان ۱۲]

سفر حج

جب آپ سات برس کے ہوئے تو حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ آپ کو اپنے ساتھ لے کر حج کعبہ مکرمہ کو تشریف لے گئے، وہاں چار سو مشایخ کے درمیان مسئلہ شکر کی بحث پیش تھی، ہر چار سو نے اپنی اپنی تقریریں کیں، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اے جنید! تو بھی کچھ بول، آپ تھوڑی دیر سر جھکائے رہے پھر بولے کے شکر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو نعمت دی ہے اس میں اُس کا عاصی نہ بنے، اور اس کی نعمت کو معصیت کا سرمایہ نہ بنائے، یہ سن کر سب نے متفق اللفظ ہوکر کہا احسنت یا قرۃ العین۔ تو نے بہت ٹھیک اور سچ کہا، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا بیٹا! تو نے یہ بات کہاں سے پیدا  کی، آپ نے عرض کیا جناب کی صحبت سے [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]

بیعت و خلافت

آپ نے سن تمیز کو پہنچتے ہی اپنے خال حقیقی حضرت خواجہ شیخ ابوالحسین ضیاء الدین سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کی، اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔

بیعتِ روحی

آپ کو روحی بیعت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اصحاب سبعہ رضی اللہ عنہ  و حضرات امامین علیہما السلام سے تھی۔[۱] [۱۔ آئینہ تصوف ۱۲ شرافت]

مشایخ صحبت

آپ نے دو سو اساتذہ اور شیوخ کی صحبت سے فیض پایا ، جن میں سے شیخ ابوعبداللہ حارث بن اسد محاسبی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابو حفص عمرو بن سلمہ حداد رحمۃ اللہ علیہ، اور شیخ  ابو جعفر محمد بن علی القصاب رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ محمد بن منصور طوسی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابوجعفر بن الکرنبی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابو علی حسن بن علی بن موسیٰ مسوحی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابو یعقوب زیات رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابوسعید احمد بن عیسیٰ خراز رحمۃ اللہ علیہ خاص طور پر مشہور تھے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]

تجارت زجاجہ

آپ اوائل میں بغداد شریف کے اندر شیشہ کی تجارت کرتے تھے، دکان پر  پردہ ڈال دیتے، اور بلا ناغہ چار سو رکعت نماز نفل ادا کرتے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

انقلاب طبیعت

ایک دن آپ بغداد شریف کے بازار میں جا رہے تھے کہ ایک مکان سے کسی نو عمر عورت کے گانے کی اواز آئی جو دلکش انداز سے یہ اشعار گا رہی تھی۔        ؎

اذا قلت اھدی الھجرلی حلل البلے
وان قلت ھذا القلب احرقہ الھوی
وان قلت ما اذنبت قالت مجیبۃ

 

تقولین لولا الھجر لم یطب الحب
تقولی بنیران الھوی شرف القلب
حیاتک ذنب لا یقاس بہ ذنب

آپ نے سنتے ہی ایک نعرہ مارا اور مستوں کی طرح جھومنے لگے، نعرہ کی آواز سن کر مالک مکان اندر سے نکل آیا، اور کیفیتِ واقفہ سے مطلع ہوکر کہا کہ یہ میری لونڈی تھی جو گا رہی تھی، میں نے آزاد کرکے آپ کی نذر کی، حضور نے بھی اس کو آزاد کرکے اپنے ایک دوست سے اُس کا نکاح کردیا، اور خود دنیا سے بے تعلق ہوکر زندگی بسر کرنے لگے۔

خلوت

اس کے بعد آپ نے دکان اٹھادی، اور حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر کی دہلیز میں ایک کوٹھڑی تھی اُس میں گوشہ نشین ہوگئے، اور پاسبانی دلمیں مصروف ہوئے، پھر آپ کو سوائے خدا کے کبھی کسی کا خیال نہ آیا، چالیس برس تک یونہی معتکف رہے۔

عبادت

تیس برس تک آپ کا معمول رہا کہ نماز عشاء پڑھ کر ایک پاؤں پر کھڑے ہوتے اور صبح تک اللہ اللہ کرتے، اور اسی وضو سے نماز فجر ادا فرماتے۔

ندائے غیبی

جب اس طرح پر چالیس برس گزر گئے تو آپ کو گمان ہوا کہ میں مقصود کو پہنچا، اُسی وقت  ہاتفِ غیب نے آواز دی کہ اے جنید! اب وہ وقت آیا ہے کہ تیرے زنار کا گوشہ تجھے دکھایا جائے، آپن ے عرض کیا خداوند ا میرا کیا گناہ ہے؟ ندا آئی اس سے بڑھ کر اور کیا گناہ چاہتا ہے کہ تو ابھی اپنے میں موجود ہے، آپ نے آہِ سرد کھینچی اور شعر پڑھا۔

من لم یکن للوصال اھل

 

فکل حسناتہ ذنوب

پھر آپ مشغول ہوئے اور اللہ اللہ سے کام رکھا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]

دعائے شیخ

ایک مرتبہ حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے پوچھا کہ جب تم میرے پاس سے اُٹھتے ہو تو کس کے پاس بیٹھتے ہو، عرض کیا محاسبی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس، تو انہوں نے فرمایا بہتر، تم اُن کا علم و ادب سیکھنا، اور وہ جو کلام اور متکلموں کا خلاف اور رد کنے میں وہ مت سیکھنا، پھر آپ کے حق میں دعا کی کہ خدا تم کو علم اور حدیث والا صوفی کرے، صوفی حدیث والا نہ کرے۔[۱] [۱۔ مذاق العارفین جلد اوّل ص ۴۳]

حضورِقلب

آپ فرماتے  کہ جب میں نے جانا ان االکلام لفی الفواد یعنی بے شک کلام دل میں ہے تو میں نے تیس برس کی نماز دھرائی اور فرمایا کہ مجھ سے بیس برس تک تکبیر اولیٰ فوت نہیں ہوئی، اس طرح پر کہ اگر نماز میں دنیا کا خیال آجاتا تو اُس کو دوبارہ پڑھتا، اور اگر بہشت و آخرت کا خیال آتا تو بھی سجدہ سہو ادا کرتا۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

ریاضت

شیخ جعفر بن نصر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے ایک درم  دیا کہ انجیر و زیتون خرید لاؤ، جب آپ نے روزہ کھولا تو ایک انجیر منہ میں رکھا، اور نکال کر پھینک دیا اور رونے لگے اور فرمایا اس کو اٹھالے جا، میں نے عرض کیا کیوں، فرمایا مجھے ہاتف نے آواز دی کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ جس چیز کو تو نے میرے واسطے حرام کیا پھر اس کے گرد پھرتا ہے، اور فرمایا۔

لو ان الھوان من الھوامز وقہ

 

وضریع کل ھوی ضریع کل ھوان[۱]

[۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

وضو

ایک بار آپ کی آنکھیں بیمار ہوئیں، اور درد شروع ہوا، ایک نصرانی طبیب نے کہا کہ آنکھوں کو پانی سے بچانا، آپ نے عشا کا وضو کیا تو صبح کو درد جاتا رہا، اور ندا آئی کہ اے جنید! تو نے ہماری عبادت میں آنکھ کا خیال نہیں کیا، اس لیے ہم نے تیرا درد کھودیا، صبح جب طبیب نے پتہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ وضو کرنے سے مجھے صحت ہوگئی، وہ اسی وقت صدق دل سے مسلمان ہوگیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

روزہ

آپ ہمیشہ روزہ رکھتے تھے، لیکن اگر کبھی آپ کے ہاں محب فی اللہ آجاتے تو آپ روزہ افطار کردیتے، اور فرماتے کہ بھائی مسلمانوں کے ساتھ موافقت کرنے کا فضل روزہ کے فضل سے کمتر نہیں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

استغنا

ایک شخص پانچ دینار آپ کے پاس لایا، آپ نے پوچھا اس کے علاوہ بھی تیرے پاس کچھ مال ہے، اس نے کہا ہاں، پھر پوچھا کیا تجھے ابھی کچھ اور بھی مال کی حاجت ہے اس نے کہا ہاں، فرمایا یہ واپس لے جا کیونکہ تو مجھ سے زیادہ محتاج ہے، اور مجھے اس کی حاجت نہیں۔

ایک مرتبہ ایک جوان نے آپ کی صحبت سے متاثر ہوکر اپنا تمام مال واسباب راہِ حق میں لٹادیا، اور ایک ہزار دینار آپ کی نذر کو لے چلا، لوگوں نے کہا کہ تو ایسے بزرگ کو دنیا میں مبتلا کرنا چاہتا ہے، اس نے دجلہ پر جا کر ایک ایک کر کے سب دینار دریا میں ڈال دئیے اور خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے فرمایا کہ تو ہماری صحبت کے لائق نہیں، کیونکہ جو کام ایک بار میں ہوسکتا تھا وہ تو نے ہزار بار میں کیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

اشتیاقِ حق

ایک روز آپ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ آپ ایک دم حاضر ہوں تاکہ میں آپ سے چند باتیں کہوں، آپ نے فرمایا اے شخص تو مجھ سے ایسی چیز طلب کرتا ہے جس کو میں مدت سے تلاش کر رہا ہوں، اور برسوں سے آرزو میں ہوں کہ ایک دن حق تعالیٰ سے حاضر ہوں لیکن میں نے نہیں پایا، اس وقت تیرے ساتھ کیونکر حاضر ہوسکتا ہوں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

خلافِ نفس

ایک مرتبہ آپ کے پاؤں میں درد تھا، آپ نے سورۂ فاتحہ پڑھ کر دم کیا ہاتف نے آواز دی اے جنید! تجھے شرم نہیں آتی کہ میرے کلام کو اپنے نفس کے حق میں صرف کرتا ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

تلقینِ صبر

ایک مرتبہ آپ بیمار تھے ایک روز زبان سے نکل گیا اللھم اشفنی۔ ندا آئی اے جنید! بندہ اور خدا کے درمیان تیرا کیا کام، تو درمیان میں مت آ، جس بات کا تجھے حکم ہے تو اس میں مشغول رہ، اور جس مصیبت میں تجھ کو مبتلا کیا ہے تو اس پر صبرکر، بندہ کو اختیار سے کیا کام ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

آدابِ توحید

ایک روز حضرت شیخ ابوبکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کی مجلس میں کہا اللہ آپ نے فرمایا اے شبلی اگر خدا غائب ہے تو غائب کا ذکر کرنا غیبت ہے، اور غیبت حرام ہے، اور اگر حاضر ہے تو حاضر کے سامنے اُس کا نام لینا ترکِ ادب ہے۔

ہدایت رضائے الٰہی

ایک روز آپ کی مجلس میں شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔ آپ نے فرمایا یہ گفتار تنگدلوں کی ہے اور تنگدلی رضا  سے قضا کی طرف لے جاتی ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

پردہ پوشی

ایک رات ایک چور آپ  کے مکان میں گھس آیا، سوائے ایک پیراہن کے اور کچھ نہ پایا، دوسرے روز آپ بازار سے گزرے، پیراہن دلال کے ہاتھ میں دیکھا خریدار کہہ رہا تھا کہ اگر کوئی واقف کار اس مال کی تصدیق کرے تو میں خریدوں،  آپ  نے فرمایا میں اس مال سے خوب واقف ہوں، پس خریدار نے خرید لیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

لباس

آپ عالمانہ لباس زیب تن فرماتے تھے، ایک بار لوگوں نے عرض کیایا پیر طریقت کیا خوب ہو کہ آپ مرقع پہنیں، فرمایا اگر میں جانتا کہ مرقع پر کشود کار منحصر ہے تو میں لوہے و آگ سے لباس بناتا اور پہنتا، لیکن ہر گھڑی باطن میں یہ ندا آتی ہے لیس الاعتبار بالخرقۃ انما الاعتبار بالحرقۃ یعنی خرقہ کا اعتبار نہیں بلکہ جان جلنے کا اعتبار ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

ماموریتِ وعظ

منقول ہے کہ جب آپ کا کلام عظیم ہوا اور لوگوں کی رغبت زیادہ دیکھی گئی تو ایک روز حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو وعظ کہنے کو فرمایا، آپ بہت متردد ہوئے، اور وعظ کہنے کی رغبت نہ کی، اور فرمایا کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے ہوتے ہوئے میں کیا وعظ کہوں، یہ خلاف ادب ہے، ایک جمعرات کو آپ نے حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں اے جنید! تو وعظ کہہ، آپ جب بیدار ہوئے اس خواب کا حال حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے کہنے چلے، انہوں نے خود ہی فرمایا کہ اب تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بھی ارشاد ہوا تم کو وعظ کہنا ضرور ہے، کیونکہ تمہارا وعظ اہلِ عالم کی نجات کا سبب ہوگا، پس آپ نے وعظ کہنا قبول کیا۔ [۱][۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

تاثیر وعظ

آپ نے فرمایا میں اس شرط سے وعظ کہوں گا کہ میرے وعظ میں چالیس آدمیوں سے زیادہ لوگ نہ ہوں، جس روز آپ نے وعظ فرمایا، چالیس آدمیوں میں سے اٹھارہ آدمی جان بحق اور بائیس آدمی  بیہوش ہوگئے، پھر چند مجلسوں کے بعد آپ گھر میں چھپ رہے اور وعظ کو نہ آئے، ہر چند لوگوں نے التجا کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا، آپ نے فرمایا کہ مجھ کو پسند نہیں کہ میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالوں، جب دو برس گزر گئے، آپ بلا درخواست کسی کے منبر پر چڑھے اور وعظ فرمانے لگے، لوگوں نے پوچھا اب وعظ کہنے کا کیا سبب ہے، فرمایا میں نے ایک حدیث دیکھی ہے کہ حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخر زمانہ میں کفیل خلق ایسا شخص ہوگا جو بدترین خلایق ہوگا، اور وہ خلق کو وعظ کرے گا، پس میں کہ بدترینِ خلائق ہوں اب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قول مبارک کو پورا کرتا ہوں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

مجلسِ وعظ

حضرت قاضی ابن سریح رحمۃ اللہ علیہ آپ کی مجلس وعظ سے گزرے۔ ان سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ حضرت جنید کے کلام کو کس طرح سے دیکھتے ہیں، فرمایا کہ میں ان کے کلام میں عجیب شوکت دیکھتا ہوں، لوگوں نے پوچھا کہ جو کچھ وہ کہتے ہیں اپنے علم سے کہتے ہیں؟ فرمایا یہ تومیں نہیں کہہ سکتا البتہ ان کے کلام کی نسبت میں کہہ سکتا ہوں کہ گویا حق تعالیٰ ان کی زبان سے وہ باتیں کہلاتا ہے، جب آپ توحید کا ذکر کرتے تو ہر بار دوسری عبارت میں شروع فرماتے۔[۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

فرمانِ بدلا

ایک بار آپ نے فرمایا کہ میں نے وعظ نہیں کہا جب تک کہ تیس شخصوں نے جو ابدال میں سے تھے مجھ سے اصرار کے ساتھ نہ کہا کہ تجھ کو وعظ کہنا اور لوگوں کو خدا کی طرف بلانا ضرور ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

بلندی کلام

ایک بار آپ کچھ فرما رہے تھے، اتنے میں ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا میں آپ کی بات تک نہیں پہنچا، فرمایا ستر برس کی عبادت قدموں کے نیچے رکھ تو پہنچے گا، اُس نے کہا میں نے رکھی لیکن نہیں پہنچا، فرمایا سر قدموں کے نیچے رکھ، پھر اگر نہ پہنچے تو میرا قصور ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

فخر نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

ایک بزرگ نے حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ جلوہ افروز ہیں، اور حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ بھی خدمت میں حاضر  ہیں، اسی اثناء میں ایک شخص آیا اور ایک فتوےٰ پیش کیا، حضرت رسالت  مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ سے فرمایا کہ جنید کو دے تاکہ وہ جواب دیں، اُس نے عرض کیا،  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جس حال میں کہ خود حضور موجود ہیں حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کو  کیونکر دوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کو اپنی ساری امتوں پر فخر تھا مجھ کو جنید رحمۃ اللہ علیہ پر ہے۔‘‘ [۱][۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]

تاثیر کلام

ایک سیّد صاحب ناصر نامی حج کے قصد سے چلے، جب بغداد شریف پہنچے تو آپ کی زیارت کو گئے، آپ نے پوچھا کہاں سے آئے، انہوں نے کہا: گیلان سے پوچھا کس کی اولاد سے ہو، کہا حضرت امیرالمومنین علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی اولاد سے، آپ نے فرمایا کہ آپ کے دادا صاحب دو تلواریں مارتے تھے ایک کافروں کو دوسری نفس کو، اے سید صاحب! تم کہ ان کی اولاد سے ہو کون سی تلوار مارتے ہو، سیّد صاحب نے جب یہ سنا تو اپنے کو سنبھال نہ سکے، گر پڑے، اور زمین پر لوٹنے لگے، روتے تھے اور کہتے تھے اے شیخ! میرا حج یہیں تھا، مجھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف رہنمائی کیجیے، آپ نے فرمایا یہ سینہ خاص حرم حق ہے جب تک تم سے ہوسکے کسی نامحرم کو اس کے حرم خاص میں راہ نہ دو، جونہی آپ کی نصیحت تمام ہوئی سیّد صاحب بھی تمام ہوچکے تھے۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]

ہزار مسئلہ

حضرت ابوبکر کسانی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے درمیان ہزار مسئلوں کا مراسلہ ہوا تھا آپ نے سب کے جواب لکھے، کسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے انتقال کے وقت فرمایا کہ ان مسئلوں کو میرے ساتھ قبر میں رکھ دینا، آپ نے فرمایا میں ان کو ایسا دوست رکھتا ہوں کہ چاہتا ہوں کہ یہ مسئلے خلق کے ہاتھ سے بھی نہ چھوئے جائیں۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]

 

مقاماتِ فقر

طریقہ سلوک

آپ نے فرمایا کہ میں نے یہ تصرف قیل و قال میں اختیار نہیں کیا، اور لڑائی و کارزار میں حاصل نہیں کیا، لیکن گرسنگی اور بیخوابی اور دنیا کی ترک اور اس چیز سے علیحدہ ہونے سے جو مجھ کو مرغوب اور میری نظر میں آراستہ و پیراستہ تھی۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]

مرتبہ کمال

ایک شخص نے پوچھا کہ آپ اس درجہ کمال کو کیسے پہنچے، فرمایا چالیس برس تک  حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ مبارک پر ایک قدم سے تمام شب کھڑا رہنے سے۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲]

غلبۂ توحید

آپ ایک رات ایک مرید کے ساتھ جا رہے تھے، اثناء راہ میں ایک کتا بھونکا، آپ نے فرمایا: لبیک لبیک۔ مرید نے پوچھا آپ نے یہ کیا کہا، فرمایا میں نے کتے کا دمدمہ حق تعالیٰ کے قہر سے دیکھا، اور اس آواز کو آوازِ حق سنا، کتے کو درمیان میں نہیں دیکھا، اس لیے جواب لبیک لبیک کہا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

مقامِ محبت

لوگوں نے کہا کہ شیخ ابوسعید خراز رحمۃ اللہ علیہ کو موت کے وقت بہت تواجد اور ذوق  وشوق تھا، آپ نے فرمایا کچھ تعجب نہیں اگر ان کی روح نے اسی شوق سے پرواز کی ہو، لوگوں نے پوچھا یہ کون مقام ہے ، فرمایا انتہائے محبت، اور یہ ایسا غزیر مقام ہے جہاں عقول مستغرق اور نفوس فراموش ہوں، اور ایسا عالی ترین درجہ ہے جہاں علم و معرفت کو راہ نہیں، بندہ جب اس مقام اور درجہ پر پہنچتا ہے تو جانتا ہے کہ حق تعالیٰ  اس کو دوست رکھتا ہے، اس واسطے بندہ کہتا ہے میرے حق کی قسم کہ تجھ پر ہے، اور میرے مرتبہ کی طفیل کہ تیرے نزدیک ہے، اور یہ بھی کہتا ہے کہ تیری دوستی کی قسم، پھر فرمایا یہ وہ لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ پر ناز کرتے ہیں، اور اسی سے انس پکڑتے ہیں، اور خدا تعالیٰ اور ان کے درمیان سے وحشت اٹھ جاتی ہے، اور ایسے ایسے کلمات ان سے صادر ہوتے ہیں جن کو عوام الناس بد و بیہودہ سمجھتے ہیں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

مقامِ حیرت

آپ فرماتے تھے کہ مجھ پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے کہ اہل زمین و اہل آسمان مجھ پر روتے تھے، پھر ایسا ہوا کہ میں ان کے حال پر روتا رہا، اور اب ایسا ہوگیا ہے کہ  نہ میں ان کی خبر رکھتا ہوں نہ اپنی، اور فرماتے کہ میں دس برس تک دل کی حفاظت کو دل کے دروازے پر بیٹھا اور اس کی حفاظت کرتا رہا، پھر دس برس تک میرا دل میری  حفاظت کرتا رہا، اب بیس برس ہوگئے کہ نہ میں دل کی خبر رکھتا ہوں اور نہ دل میری۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

فنائے اتم

ایک شخص مجلس میں آپ کی بہت تعریف کرتا رہا، آپ نے فرمایا ان اوصاف سے کہ تو کہتا ہے میرے لیے کچھ نہیں، تو تو خدا تعالیٰ کا ذکر کر رہا ہے، اور اس کی تعریف میں سر گرم ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

مرتبہ بقا باللہ

آپ فرماتے تیس برس ہوگئے ہیں کہ حق تعالیٰ جنید کی زبان سے بات کرتا ہے، اور جنید رحمۃ اللہ علیہ درمیان نہیں ہے، اور خلقِ خدا اس سے بے خبر ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

مقامِ جمع الجمع

آپ نے فرمایا ہے جب خلق گناہ کرتی ہے تو مجھے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ خلق کو مثل اپنے اعضا کے خیال کرتا ہوں۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

قبض و بسط

آپ فرماتے خوف مجھ کو بستگی میں لاتا ہے، اور رجاء مجھے کشادگی دیتی ہے، پس جس وقت خوف سے منقبض ہوتا ہوں بے خود و فنا ہوتا ہوں، اور جس وقت کہ رجاء سے منبسط ہوتا ہوں مجھے میرے حال پر پھیر لاتے ہیں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

مقامِ رضا

ایک روز شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر مجھے دوزخ بہشت قبول کرنے کا اختیار دیں تو میں دوزخ کو اختیار کروں، کیونکہ بہشت میری خواہش کی چیز ہے اور دوزخ مرادِ دوست، آپ نے فرمایا: شبلی! تو لڑکپن کرتا ہے، اگر مجھے مخیر کریں تو میں کچھ اختیار نہ کروں، عرض کروں کہ بندہ کو اختیار سے کیا سروکار، جہاں تیری مرضی ہو رکھ میں اسی میں راضی ہوں۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

وقوفِ مقامات

لوگوں نے عرض کیا کہ ایک سال گزر گیا کہ فلان شخص نے زانو سے سر نہیں اٹھایا، اور کھانا پانی نہیں چکھا، جو میں اُسے پڑ گئی ہیں اُس کو اُن کی بھی کچھ خبر نہیں، آپ ایسے شخص کے حق میں کیا فرماتے ہیں، وہ مقام جمع الجمع میں ہے یا نہیں، آپ نے فرمایا ان شاء اللہ تعالیٰ ہوجائے گا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]

مشاہدۂ الٰہی

آپ فرماتے ہیں اگر کل قیامت کے دن حق تعالیٰ مجھے فرمائے گا کہ مجھے دیکھ، میں کہوں گا کہ نہیں دیکھوں گا، کیونکہ آنکھ تیری دوستی میں غیر و بیگانہ ہے، مجھے غیریت کی غیرت تیرے دیدار سے باز رکھتی ہے، میں نے دنیا میں بلاواسطہ آنکھ کے تجھے دیکھا ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]

مقامِ حضوری

آپ نے فرمایا ایک دن میرا دل گم ہوگیا تھا، میں نے کہا یا لہ العالمین میرا دل مجھ کو پھیردے، ندا آئی اے جنید! میں نے تیرا دل اس لیے لیا ہے کہ تو میرے حضور میں میرے ساتھ رہے، اور تو واپس مانگتا ہے کہ میرے غیر سے متوجہ ہو۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]

رویتِ الٰہی

: آپ نے  فرمایا میں نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ میں حق تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہوں، اُس نے مجھ سے فرمایا کہ تو یہ باتیں کہاں سے کہتا ہے، میں نے  عرض کیا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں حق کہتا ہوں، فرمایا کہ تو راست کہتا ہے۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]

کرامات

کتاب آئینہ تصوف میں ہے کہ ایک ہزار پانسو اسی خوارق آپ سے ظہور میں آئے، از انجملہ

استجابت دعا

ایک ضعیفہ آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میرا بیٹا غائب ہے، دعا کیجیے کہ لَوٹ آوے، آپ نے فرمایا صبر کر ، ضعیفہ چلی گئی اور صبر کیا، تھوڑی دبر کے بعد پھر آئی، آپ نے فرمایا صبرکر، اُس نے کہا اب مجھے صبر کی طاقت نہیں رہی، فرمایا اگر تو سچی ہے تو تیرا بیٹا عنقریب آجائے گا، کیونکہ ارشاد باری ہے امن یجیب المضطر اذا دعاہ ویکشف السوء (النمل، ع۵) اور آپ نے دعا کی، بڑھیا گھر گئی تو اُس کا بیٹا گھر میں آگیا تھا۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ۱۲ شرافت]

کشفِ قلوب

ایک روز جامع مسجد میں آپ وعظ کہہ رہے تھے، ایک غلام، تر سا مسلمانوں کے لباس میں آیا اور کہا اے شیخ! حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اتقوا فراسۃ المومن فانہ ینظر بنور اللہ یعنی مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے دیکھتا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تو مسلمان ہوجائے، اور زنار توڑ ڈالے، کیونکہ یہ تیرے مسلمان ہونے کا وقت کا ہے، پس وہ اُسی وقت مسلمان ہوگیا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲شرافت]

اثرِ جلالیّت

ایک بار آپ وعظ کہہ رہے تھے کہ ایک مرید نے نعرہ مارا، آپ نے اُس کو منع کیا اور فرمایا اگر پھر تو نعرہ مارے گا تو میں تجھے اپنی مجلس سے علیحدہ کر دوں گا، اور پھر اُسی بات سے وعظ کہنا شروع کیا، اُس نے اپنے آپ کو بہت سنبھالا اور بہت ضبط کیا مگر سنبھل نہ سکا اور مرگیا، لوگوں نے دیکھا کہ گدڑی کے اندر راکھ کا ڈھیر تھا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲شرافت]

تصرف

آپ کا ایک مرید بصرہ میں خلوت نشین ہوا تھا، ایک روز کسی گناہ کا خیال اُس کے دل میں گزرا، معاً اُس کا منہ کالا ہوگیا، وہ حیران اور اپنے کیے پر پشیمان تھا، رفتہ رفتہ تین روز میں اُس کی سیاہی مبدل بسفیدی ہوئی، ناگاہ ایک شخص نے دستک دی  اور آپ کا خط اُس کو دیا، اُس نے پڑھا تو لکھا تھا کہ کیوں بارگاہ عزت میں مقام عبادیت پر ادب سے نہیں رہتا، تین روز سے میں دھوبی کا کام کرتا رہا کہ تیرے منہ کی سیاہی سفیدی سے تبدیل ہوئی۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲شرافت]

نگاہِ غضب

جب آپ کا عام چرچا ہوا تو مخالفین نے خلیفۂ وقت کو کہا کہ ان کو قتل کرادینا چاہیے، خلیفہ نے الزام لگانے کے واسطے ایک خوبصورت حورسیما نازنین لونڈی آپ کے پاس بھیجی، اُس نے خانقاہ میں آکر کہا کہ مجھے بھی اپنی صحبت میں رہنے کی اجازت دیجیے، آپ اُس کی فریب دہ باتوں کو سر جھکائے ہوئے سنتے رہے، جب وہ  معشوقہ گفتگو کرکے خاموش ہوئی تو آپ نے سر اٹھایا،اور نگاہِ غضب سے اُس کی طرف دیکھا، اور آہ کرکے اس پر پھونک ڈالی، وہ ماہ جبین غش کھاکر گر پڑی اور مر گئی، خلیفہ نے حاضر خدمت ہوکر کہا  کہ آپ نے ایسی حسین محبوبہ کو مار ڈالا، فرمایا امیرالمومنین تم نے کوشش کی تھی کہ میری چالیس برس کی ریاضتیں آنِ واحد میں مٹادیویں ہو  میرے خدا نے کیا جو کیا۔ [۱][۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲]

سزائے مخالفت

شیخ ابوالعباس بن عطاء رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول تھا ’’فقیر صابر غنی شاکر سے افضل ہے‘‘ میں نے اس کے خلاف کہا کہ ’’غنی شاکر فقیر صابر سے افضل ہے‘‘ آپ اس سے ناراض ہوئے، اور میرے حق میں بد دعا کی میں نہایت سختیوں میں مبتلا ہوا، میرا مال جاتا رہا، اولاد قتل ہوگئی، چودہ سال تک میری عقل پریشان ہوگئی، آخر میں اپنے قول سے باز آیا، اور آپ کے ارشاد کو ترجیح دی۔[۱] [۱۔ مذاق العارفین جلد چہارم ۱۲]

طےارض

شیخ کہمش  بن حسین رحمۃ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ ہمدان میں بیٹھے ہوئے رات کو آپ کو یاد کیا، اسی وقت کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، جب دیکھا تو وہ آپ ہی  تھے، دوسرے روز ہمدان میں پتہ کیا تو کسی نے آپ کا نشان نہ دیا، بغداد کے لوگوں نے کہا کہ آپ اُس روز بغداد سے کہیں غائب نہیں ہوئے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]

عملیات

رویتِ خداوندی و فرمانِ حق تعالیٰ

کتاب جواہر الاولیاء جو ہر پنجم میں ہے کہ حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک لاکھ ننانوے ہزار مرتبہ خدا تعالیٰ کو خواب میں دیکھا، ہر بار یہی فرمان ہوتا اے جنید رحمۃ اللہ علیہ! ہمارے حضور سے کیا چاہتا ہے، عرض کیا یا الٓہ العالمین  عاقبت بالخیر چاہتا ہوں، فرمان ہوا اے جنید رحمۃ اللہ علیہ! جو شخص اس دعا کو ہر نماز کے بعد تین مرتبہ پڑھے یا اپنے پاس رکھے وہ ہمیشہ امن و امان میں رہے گا، اور عاقبت بخیر ہوگی، دعائے مکرم و معظم یہ ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم یا من قامت السموت والارضون بامرہ یا من یمسک السماء ان تقع علی الارض الا باذنہ یا من امرہ اذا اراد شیئا ان یقول لہ کن فیکون فسبحان الذی بیدہ ملکوت کل شیئ والیہ ترجعون برحمتک یا ارحم الراحمین۔

برائے صفائی قلب

آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ اسمِ جمالی نماز فجر کے بعد سو بار پڑھے، خدا تعالیٰ اس کے دل کو سیاہی اور زنگ سے صاف کردیتا ہے، اسم جمالی یہ ہے یاقدوس اجب یا عطرائیل یا حروزائیل بحق یا قدوس۔ [۱] [۱۔ جواہر الاولیا جوہر دوم ۱۲]

برائے کشادگی بخت

آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ بتیسواں اسم با مؤکلات چہار شنبہ کے دن نوے بار پڑھے، اگر اس کے بخت بستہ بھی ہوں گے تو کھل جائیں گے، اسم یہ ہے یا عالی الشامخ فوق کل شیء علوار تفاعہ اجب یا عطرائیل یا حروزائیل بحق یا عالی۔[۱] [۱۔ ایضًا جوہر سوم ۱۲]

برائے حصولِ دولت

آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اس چودھویں اسم کو شب یکشنبہ کو اسی بار پڑھے، خدا تعالیٰ اس کو دولت بے شمار عطا فرماتا ہے، چودہواں اسم یہ ہے یا وھاب انت الذی تھب لمن تشاء الا ناث وتھب لمن تشاء الذکور بعزتہ۔ [۱] [۱۔ ایضًا جوہر پنجم ۱۲ شرافت]

برائے شفاء مریض

آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص دوگانہ نماز ادا کرکے اور ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد تین بار سورۂ اخلاص پڑھے، اور سلام کے بعد مصلے پر بیٹھ کر ایک ہزار بار یہ تسبیح پڑھے، اور تا اختتام کسی سے کلام نہ کرے، تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ مریض کو شفا دیوے گا، اور اس کی عمر لمبی کرے گا، تسبیح یہ ہے، یا بدیع العجائب بالخیر ارحمنی الیٰ یوم الدین۔ [۱] [۱۔ ایضًا جوہر پنجم ۱۲ شرافت]

تصنیفات

کتاب مسالک السالکین جلد اول میں ہے کہ آپ کی تصانیف [۱] [۱۔ کل تصانیف سید الطائفہ یہ ہیں۔ ۱۔ آخر مسئلہ فی التوحید۔ ۲۔ امثال القرآن۔ ۳۔ باب فی التوحید۔ ۴۔ تصحیح الارادہ۔ ۵۔ حکایت (صوفیہ)۔۶۔ دواء الارواح۔ ۷۔ دواء التفریط۔ ۸۔ رسالہ فی السکرد الا فاقۃ۔ ۹۔ رسالہ فی تکذیب الرؤیتہ۔ ۱۰۔ رسالہ فی مسائل الشامئین۔ ۱۱۔ السر فی انفاس الصوفیہ۔ ۱۲۔ شرح شطحیات ابی یزید بسطامی۔ ۱۳۔ عمدۃ الصلوک۔ ۱۴۔ القصدانی اللہ۔ ۱۵۔ قصیدہ فی التصوف۔ ۱۶۔ کتاب آداب الم؟؟۔ ۱۷۔ کتاب الالو معمتہ۔ ۱۸۔ کتاب الفرق بین الاخلاص والصدق۔ ۱۹۔ کتاب الفناء۔ ۲۰۔ کتاب المناجات۔ ۲۱۔ کتاب المیثاق۔ ۲۲۔ مسائل سِتہ۔ ۲۳۔ معالی الھمم۔ ۲۴۔ مکتوب بنام ابو اسحاق بارستانی۔ ۲۵۔ بنام ابو العباس۔ ۲۶۔ بنام ابو بکر کسانی۔ ۲۷۔ نام عمرو بن عثمان مکی۔ ۲۸۔ بنام یوسف بن حسین رازی۔ ۲۹۔ ؟؟۔ ۳۰۔ بنام یحییٰ بن معاذ رازی۔ ۳۱۔ ۳۲۔ ۳۳۔ بنام یارانِ طریقت۔ ۳۴۔ منتخب الاسرار فی صفات الصدیقین و الابرار۔ ۳۵۔ المتفرفات ائماثور، عن الجنیدد الشبلی دابی یزیدا ابسطامی۔ ۳۶۔ شرح اقوال جنید بغدادی۔ شرافت] اشارات و حقایق و معانی میں بہت ہیں، اول جس نے علم اشارات کو منتشر کیا وہ آپ ہیں، آپ شریعت و طریقت و حقیقت و معرفت میں انتہائی درجہ پر تھے، اور عشق و زہد میں بے نظیر اور طریقت میں مجتہد تھے، معروف ترین طریق طریقت، اور مشہور ترین مذہب، مذہب آپ کا ہے، بہت سے مشائخ رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا مذہب اختیار کیا ہے۔

عمدۃ السلوک

خواجگانِ چشت رحمہم اللہ کے ملفوظات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی تصنیف سے ایک کتاب عمدۃ السلوک نام ہے چنانچہ بعض مضامین اس کے یہ ہیں۔

خواجہ معین الدین حسن چشتی اجمیری  رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کتاب عمدۃ السلوک میں سید الطائفہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز شیطان علیہ اللفتہ کو دیکھا کہ دبلا اور زرد رنگ ہو رہا ہے، آپ نے سبب دریافت کیا، اُس نے جواب دیا کہ میں آپ کی امت کی چار باتوں سے از حد تنگ آگیا ہوں منجملہ اس کے اول یہ ہے کہ آپ کی امت میں موذن  ہیں وقت نماز آنے پر اذان دیتے ہیں، جو شخص اذان سنتا ہے جواب میں اذان میں مصروف ہوجاتا ہے، اور نماز کی تیاری کرتا ہے، اذان دینے والا اور سننے والے سب بخشے جاتے ہیں، دوسرا یہ کہ نمازیوں کے گھوڑے ہنہناتے ہیں، اور وہ تکبیریں کہتے ہوئے راہِ خدا میں میدانِ جنگ میں آتے ہیں، خدا تعالیٰ کا فرمان ہوتا ہے کہ میں نے ان کو ان کے اہل سمیت بخش دیا تیسرا کسب حلال درویشوں کا ہے وہ اپنے کسب حلال میں سے اوروں کو بھی دیتے ہیں، خدا تعالیٰ ان کو بھی ان درویشوں کی وجہ سے بخش دیتا ہے، چوتھا میری کمر ان لوگوں کی وجہ سے ٹوٹ گئی ہے جو نماز صبح پڑھ کر اشراق کے وقت تک اسی جگہ بیٹھے رہتے ہیں، جب میں فرشتوں میں رہتا تھا اُس وقت میں نے ایک صحیفہ میں لکھا دیکھا تھا کہ جو شخص نماز صبح پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہے یہاں تک کہ آفتاب نکل آئے اور وہ نمازِ اشراق پڑھے، حق تعالیٰ اس کو معہ ستر ہزار آدمیوں کے جو اس کے اہل سے ہوں بخش دیتا ہے۔[۱] [۱۔ دلیل العارفین ۱۲]

خواجہ فرید الدین گنج شکر اجودہنی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے قیامِ بغداد کے ایام میں مجلس حضرت خواجہ اجل شیرازی رحمۃ اللہ علیہ میں سنا تھا، آپ فرماتے تھے کہ کتاب عمدۃ السلوک مصنفہ حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ میں مرقوم ہے کہ درویش کو مطلق حرام ہے کہ دنیا اور اہل دنیا سے آمیزش کرے، اور امراء کے پاس آوے جاوے۔[۱] [۱۔ راحت القلوب ۱۲ شرافت]

شعر

ایک مرتبہ شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ دریائے وحدت میں ڈوبے ہوئے، اور عشق الٓہی سے بے تاب و بیقرار آپ کی مجلس میں حاضر ہوئے، اور جوش و خروش کی حالت میں یہ اشعار پڑھے۔     ؎

عود ونی الوصال والوصل عذب
زعموا حین ازمعوا ان ذنبے
لا وحق الخضوع عند التلاتی

 

ورمونی بالصدوا الصد صعب
فرط حبی لھم وما ذاک ذنب
ماجزا من یحب الا یحب

یہ اشعار سن کر آپ کو بھی حالتِ ذوق وارد ہوئی اور بیتابی میں یہ شعر پڑھا۔

وتمنیت ان اراک فلما رایتکا

 

غلبت دھشہ السرور فلم املک البکا

یعنی مجھے تیرے دیکھنے کی تمنا تھی لیکن جب تجھے دیکھا تو مسرت کی حیرت اس قدر طاری ہوئی کہ جوش ہوئی  کہ جوش گریہ کو نہ روک سکا۔ [۱] [۱۔ وفیات الاعیان ۱۲]

مناجات

شیخ ابوبکر قطیعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک روز میں نے حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کو سنا کہ اس طرح مناجات کر رہے تھے، یا من ھو کل یوم ھو فی شان اجعل لی من بعض شانک۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]

ایک مرتبہ آپ مناجات میں فرماتے تھے اے اللہ! قیامت کے روز مجھے نابینا اُٹھانا  کیونکہ جسے تیرا دیدار حاصل نہ ہو، اُس کا اندھا ہونا اچھا ہے۔[۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

آپ کی زبان مبارک کے اشعار فارسی بطور مناجات منقول ہیں۔ وہو ہذا

الٰہی واقفی بر حالِ زارم
الٰہی کردہ ام بسیار تقصیر
الٰہی رفتہ ام در خوابِ غفلت
الٰہی برکشا از غیب را ہے
الٰہی گر بخوانی ور برانی
الٰہی چوں غزیزم کردی لعروز
الٰہی غرقم اندر بحرِ عصیاں
الٰہی از کمالِ ضعف و پیری
الٰہی نفس و شیطاں در کمین ست
الٰہی گر نہ توفیق از تو باشد
الٰہی گرچہ مردن سخت راہ است
الٰہی بریکے گفتن مدد بخش
الٰہی چوں در نیجا رستہ کردی
الٰہی در شبِ سر منزلِ گور
الٰہی خاطرم راجمع گرداں
الٰہی بر جنید ایماں نگہدار

 

ہمیدانی کہ جز تو کس ندارم
وزاں حضرت بغایب شرمسارم
بدہ بیداری زیں کار بارم
کہ چندیں سالہ رہ در انتظارم
تو وانی بندۂ بے اختیارم
مکن فرد ابزدِ خلق خوارم
زدستِ رحمت افگن بر کنارم
دل سوزان و چشم اشکبارم
ز تقوے و عنایت کن حصارم
برآرد دیو نفس از جاں دمارم
تو آساں بگذراں زیں رہگزارم
کہ تامن جاں بآسانی سپارم
قیامت ہمچناں امید وارم
تو لطفِ خویش گرداں غمگسارم
کہ مسکین و پریشاں روزگارم
کہ این ست حاصلِ جاں اعتبارم

 

مکتوبات

آپ کے مراسلات مملو از حقائق و معارف و نصایح ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک خط درج کیا جاتا ہے۔

مکتوب

یہ خط آپ نے اپنے مرید شیخ ابوبکر واسطی رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ ابن الفرغانی کو لکھا کہ لوگوں کو فہم و ادراک کے مطابق ان سے کلام کیا کرو۔

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ سلام علیک یا ابابکر ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عافانا اللہ وایاک بالکرامۃ۔ علماء و حکماء از اللہ تعالیٰ بر خلق رحمت اند، چناں کن در سخنِ خویش کہ خلق را رحمت باشی و خود را بلا، از حالِ خویش بیروں آئے و با حالِ الشاں شوکہ با ایشاں چوں سخن میگوئی بقدرِ طاقت   و حالِ ایشاں سخن گوئی، و خطاب براں موضع نہ کہ ایشاں را براں مے یابی، فھذا بلغ لک ولھم وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا۔ والسلام۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]

کلمات طیبات

آپ کا کلام طریقِ محبت میں حجت اور تمام زبانوں تعریف کیا گیا ہے، کوئی شکص بخلاف سنت سنیہ آپ کے ظاہر و باطن پر انگشت نمائی اور اعتراض نہیں کرسکا مگر وہ شخص کہ تمیز سے بے بہرہ اور  عقل کا اندھا تھا۔

اخلاص

پوچھا گیا اخلاص کیا ہے، فرمایا فنا ہے اپنے فعل سے، اور اس کو آگے سے اٹھادینا اور پھر نہ دیکھنا، اور اخلاص یہ ہے کہ تو خلق کو معاملہ نفس سے باہر نکال دے، اس لیے کہ نفس دعوٰے ربوبیت کرتا ہے۔

اشارات

فرمایا: ہمت اشارت خدا کی ہے، اور ارادت اشارت فرشتہ کی، اور خاطر اشارت معرفت کی، اور وصیت اشارت شیطان کی، اور شہوت اشارت نفس کی، اور لہو اشارت کفر کی۔

اقرار و تصدیق و عمل

فرمایا اقرار زبان کو نہ زیادتی ہے نہ نقصان، اور تصدیق کو زیادتی ہوتی ہے اور نقصان نہیں ہوتا، اور عمل ارکان کو زیادتی ہوتی ہے اور نقصان بھی پہنچتا ہے۔

اُنس

فرمایا اُنس یہ ہے کہ وحشت اٹھ جائے۔

فرمایا: اہل انس خلوت اور مناجات میں ایسی باتیں کہتے ہیں جو عوام کو کفر معلوم ہوں، اگر عوام ان کی باتوں کو سنیں تو ان کی تکفیر کریں، اور وہ اپنے احوال میں اس پر زیادتی کرتے ہیں، اور جو کچھ ان کو کہیں اس کی برداشت کرتے ہیں،  اور ان کے لائق بھی یہی ہے۔

بقا و فنا

فرمایا بقاحق کے واسطے ہے اور فنا اس کے غیر کے واسطے۔

بلا

فرمایا بلاعارفوں کا خراج ہے اور مریدوں کو بیدار کرنے والی اور غافلوں کو حلال کرنے والی ہے۔

تجرد

فرمایا تجرد یہ ہے کہ ظاہر اس کا اعراض سے مجرد ہو، اور باطن اغراض سے۔

تصوف

فرمایا تصوف ایک ذکر ہے اجتماع سے، اور ایک وجد ہے استماع سے اور ایک عمل ہے اتباع سے۔

فرمایا تصوف ایسی نعمت ہے کہ بندہ کا قیام اس پر موقوف ہے، پوچھا گیا نعمت حق ہے یا نعمت خلق، فرمایا اس کی حقیقت نعمتِ حق ہے، اور اس کی رحمت نعمتِ خلق۔

فرمایا تصوف وہ ہے کہ تو سارے علاقوں کو ترک کرکے حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہوجائے۔

فرمایا: تصوف  وہ ہے کہ تجھ کو تجھ سے مارے اور اپنے ساتھ زندہ کرے۔

فرمایا: تصوف ایک ذکر ہے پھر ایک وجد ہے، پھر نہ یہ ہے اور نہ وہ، نیست ہوجاتا ہے جیسا کہ تھا۔

فرمایا تصوف کی حقیقت دل کا صاف کرنا ہے مخلوق کی طرف رجوع ہونے سے، اور علیحدگی اختیار کرنا طبعیت کی پیروی اور خواہش سے اور مار ڈالنا صفاتِ بشری کا، اور دور رہنا خواہشاتِ نفسانی سے اور قایم ہونا صافتِ روحانی پر، اور بلند ہونا علوم حقیقی پر، اور عمل میں لانا اُس چیز کو کہ قیامت تک فائدہ دینے والی ہے، اور نصیحت کرنا تمام امت کو، اور بجالانا حقیقت کا، اور پیروی کرنا حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام شریعت کا۔

فرمایا تصوف ایک غیرت ہے جس میں مصالحت نہیں۔

شیخ رویم رحمۃ اللہ علیہ نے ذات تصوف کی نسبت پوچھا، فرمایا خدا تعالیٰ تجھ کو اس کے دریافت سے دور رکھے، خبردار تصوف کو ظاہر میں ڈھونڈنا، ذات سے ہرگز نہ پوچھنا جب انہوں نے بہت الحاح کیا تو فرمایا کہ صوفی ایک قوم قائم بخدا ہے کہ اس کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا۔

تفکر

پوچھا گیا تفکر کیا ہے، فرمایا اس کی کئی قسمیں ہیں، ایک تفکر ہے حق تعالیٰ کی آیات میں اس سے معرفت پیدا ہوتی ہے، ایک تفکر ہے حق تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات پر  اس سے اس کی محبت پیدا ہوتی ہے، ایک تفکر ہے حق تعالیٰ کے وعدہ میں اس سے ہیبت پیدا ہوتی ہے، ایک تفکر ہے نفس کی صفات اور حق تعالیٰ کے اُس احسان میں جو نفس پر ہے اس سے حیا پیدا ہوتی ہے۔

تواضع

پوچھا گیا تواضع کیا ہے؟ فرمایا سر کا جھکانا، اور پہلو کا نیچا رکھنا۔

فرمایا: تواضع یہ ہے کہ تو ہر دو جہان میں سے کسی پر تکبر نہ کرے، اور حق تعالیٰ کے ساتھ مستغنی رہے۔

توبہ

فرمایا توبہ کے تین معنے ہیں، اول ندامت، دوم قصد بہ ترکِ معاودت، سوم مظالم و خصومت سے اپنے آپ کو پاک کرنا۔

توحید

فرمایا توحید کے یہ معنی ہیں کہ علوم اس میں ناچیز و ناپید ہوجاویں، اور حق تعالیٰ موجود ہووے جیسا کہ ہمیشہ تھا۔

فرمایا توحید  خدا تعالیٰ کو جانتا ہے اور اس کے قدم کو اس کے حدوث سے پہچاننا ، یعنی تو جانے اگر دریا میں ہو لیکن نہ دریا ہو۔

فرمایا: غایت توحید انکارِ توحید ہے، یعنی ہر ت وحید کہ تو جانے انکار کرے کہ نہ توحید ہے۔

توکل

فرمایا توکل بغیر کھانے کے کھانا ہے یعنی کھانا درمیان نہ ہو۔

فرمایاتوکل یہ ہے کہ تو خدا کا اس طرح سے ہوجائے جیسا کہ جب موجود نہ تھا خدا کاتھا۔

فرمایا توکل پہلے حقیقت تھا اب علم ہے۔

فرمایا توکل نہ کسب کرنا ہے نہ نکرنا، صرف حق تعالیٰ کے وعدہ پر جو اس نے کیا ہے دل کا ساکن رہنا ہے۔

جمع و تفرقہ

فرمایا قرب ساتھ وجد کے جمع ہے، اور غیبت بشریت میں تفرقہ ہے۔

حال

فرمایا حال ایک چیز ہے کہ دل میں آتی ہے لیکن ہمیشہ نہیں رہتی۔

حجاب

 پوچھا گیا کہ آپ فرماتے ہیں حجاب تین ہیں، نفس، خلق، دنیا، فرمایا یہ حجاب عام کے لیے ہیں، لیکن وہ حجاب جو خاص کے لیے ہیں وہ بھی تین ہیں، عبادت کا دیکھنا، ثواب کا دیکھنا، کرامت کا دیکھنا۔

حیا

فرمایا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی تقصیروں کے دیکھنے سے ایک حالت پیدا ہوتی ہے، اس کو حیا کہتے ہیں۔

حیات

فرمایا جس کی حیات سانس پر ہے اُس کی ممات جان نکلنے پر ہے، اور جس کی حیات خدا تعالیٰ پر ہے وہ حیات طبعی سے حیات اصلی کی طرف انتقال کرتا ہے، اور اصل حیات یہی ہے۔

خطرات

فرمایا خطرات چار قسم کے ہیں، ایک خطرہ حق کی طرف سے کہ بندہ کو طرف آگاہی کے دعوت کرتا ہے، دوسرا خطرہ فرشتے کی طرف سے کہ بندہ کو عبادت کی طرف رغبت دلاتا ہے، تیسرا خطرہ نفس کی طرف سے کہ بندہ کو آرائش و تنعم دنیا کی طرف بلاتا  ہے، چوتھا خطرہ شیطان کی طرف سے کہ بندہ کو ظلم و حسد و عداوت کی طرف پکارتا ہے۔

خلق

فرمایا خلق کی چار قسمیں ہیں، سخاوت، الفت، نصیحت، شفقت، میں نیک خلق فاسق کی صحبت کو بد خلق اقربا کی صحبت سے بہتر سمجھتا ہوں۔

خوف

فرمایا خوف یہ ہے کہ تو خوف سے بے خوف ہوجائے تاکہ خوف پیر تیرا عمل نہ رہے۔

ذکر

فرمایا ذکر کی حقیقت ذاکر کا ذکر میں فانی ہونا ہے، اور مشاہدہ مذکور کا۔

راہِ خدا

پوچھا گیا خدا کی طرف کیا راستہ ہے؟ فرمایا دنیا کو ترک کر تو پالے گا۔ اور نفس کو خلاص کر تو واصلِ بخدا ہوگا۔

رضا

فرمایا رضا اختیار کا اٹھادینا ہے۔

فرمایا۔ رضا یہ ہے کہ تو بلا کو نعمت شمار کرے۔

روزہ

فرمایا روزہ نصف طریقت سے۔

زہد

فرمایا زہد کی حد یہ ہے کہ تہی دست رہنا اور اس کے مشغلہ سے خالی رہنا۔

سماع

لوگوں نے پوچھا  کہ آدمی آرام سے ہوتا ہے، جب سماع سنتا ہے تو اس میں اضطراب کیوں پیدا ہوجاتا ہے؟ فرمایا کہ حق تعالیٰ نے بروزِ میثاق ذریت حضرت آدم علیہ السلام کو ساتھ الست برکم (الاعراف۔ ع۲۲) کے خطاب فرمایا، تمام ارواح اس کی لذت میں ڈوب گئے، جب اس جہان میں سماع سنتےہیں، اسی کی یاد و اثر سے جوش میں آتے ہیں، اور اضطراب پیدا ہوجاتا ہے۔

فرمایا۔ فقیروں کے اوپر تین موقعوں پر رحمت الٓہی نازل ہوتی ہے اول سماع میں کہ اُس وقت وہ سوا حق کی آواز کے کچھ نہیں سنتے ہیں، اور جو کچھ ان کی زبان سے نکلتا ہے عالمِ وجد میں نکلتا ہے، دوم کھانا کھاتے وقت کیونکہ وہ تب ہی کھاتے ہیں جب فاقہ ہوچکتا ہے سوم علم کا چشمہ جاری کرتے وقت کیونکہ وہ سوا اولیاء اللہ کی صفتوں کے اور کچھ نہیں بیان کرتے۔

فرمایا: سماع تین چیزوں کا محتاج ہے، زمان کا، مکان  کا، اخوان کا۔

فرمایا: سماع اس شخص کے لیے فتنہ ہے جو اس کی تلاش میں رہتا ہو، اور اس کے لیے ترویح ہے جو اس کی مزاحمت کرے۔

شکر

فرمایا شکر یہ ہے کہ اپنے نفس کو اہل نعمت سے نہ شمار کرے۔

فرمایا۔ شکر کے واسطے ایک علت ہے، اور وہ یہ کہ اپنے نفس کی خوب مطالبت کرے تاکہ نفس بحظ تمام خدا کے ساتھ رہے۔

صبر

فرمایا صبر کی انتہا تو کل ہے، ارشاد الٓہی ہے الذین صبروا وعلی ربھم یتوکلون۔ (النحل۔ ع۶)

فرمایا صبر پھیر لانا نفس کا ہے طرف خدا تعالیٰ کی بے اس کے کہ جزع کرے۔

فرمایا: صبر تلخیوں پر تحمل کرنا ہے، اور ناخوشی کا اظہار نہ کرنا۔

صدق صادق صدیق

فرمایا صدق کی حقیقت یہ ہے کہ تو دشوار ترین کام میں بھی جس میں بغیر جھوٹ نجات ناممکن ہو سچ بولے۔

فرمایا: کوئی ایسا نہیں جس نے صدق کو طلب کیا اور نہیں پایا، اگر بالکل نہیں تو کچھ تو ضرور پایا۔

فرمایا: صادق ایک روز میں چالیس بار ایک حال سے دوسرے حال پر پہنچتا ہے، اور ریا کار چالیس برس تک ایک ہی حالت پر رہتا ہے۔

فرمایا: صدق صفت صادق کی ہے،اور صادق وہ ہے کہ تو اس کو ویسا ہی دیکھے جیسا کہ تو نے اس کو سنا ہو، اور تمام عمر اس کو ویسا ہی پائے جیسا کہ ایک بار اس کی خبر تجھے  ملی ہو، اور صدیق وہ ہے کہ اس کے اقوال و افعال و احوال میں ہمیشہ صدق ہو۔

صوفی

فرمایا صوفی مثل زمین کے ہے کہ تمام پلیدی اس میں ڈالتے ہیں، اور ساری نیکوئی باہر لاتے ہیں۔

فرمایا صوفی وہ ہے جو داہنے ہاتھ میں قرآن اور بائیں ہاتھ میں سنت نبوی لیوے۔

فرمایا صوفی وہ ہے کہ دل اس کا مثل دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دنیا کی دوستی سے سلامت ہو، اور خدا کا حکم بجالانے والا ہو، اور تسلیم اس کی مثل تسلیم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ہو، اور اندوہ اس کا مثل  اندوہ حضرت داؤد علیہ السلام کے، اور فقر اس کا مثل فقر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے، اور صبر اس کا مثل صبر حضرت ایوب علیہ السلام کے، اور شوق اس کا مثل شوق حضرت موسیٰ علیہ السلام کے، اور مناجات کے وقت اخلاص اس کا مثل اخلاص حضرت محمد رسول الہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہو۔

فرمایا: صوفی وہ ہیں کہ قیام اُن کا خدا پر ہے اس لیے کہ وہ نہیں جانتے لیکن اس کو، پوچھا گیا سب برایوں سے زیادہ برائی کیا ہے؟ فرمایا: صوفی کے لیے بخل۔

عارف

فرمایا عارف کے کم و بیش ستر مقام ہیں، ان میں سے ایک اس جہان کی مراد نہ پانا ہے۔

فرمایا: عارف کو ایک حال ایک حال سے اور ایک منزلت ایک منزلت سے جدا نہیں کرتی۔

فرمایا: عارف وہ ہے کہ حق تعالیٰ اس کے سر سے بات کہے اور وہ خاموش ہو۔

فرمایا: عارف وہ ہے کہ در جات میں گردش کرے اس طرح سے کہ کوئی چیز اس کے درمیان حاجب نہ ہو، اور اس کو جدا نہ رکھے۔

عبودیت

فرمایا عبودیت دو خصلت میں ہے، ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ ظاہر و باطن میں صدق اختیار کرنا، دوسرے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ ولیہ وآلہ وسلم کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرنا۔ فرمایا: عبودیت شغلوں کا ترک ہے، اور مشغول ہونا اس کے ساتھ جو اصل فراغت ہے۔ فرمایا عبودیت چھوڑنا ان دو نسبتوں کا ہے، ایک سکون در لذت۔ دوسرے اعتمار بر حرکت، جب یہ دو نو تجھ سے دور ہوئیں پس تو عبودیت کا حق بجالایا۔

پوچھا گیا بندہ کون ہے؟ فرمایا جو دوسروں کی بندگی سے آزاد ہو۔

علم

فرمایا تمام علم عالموں کا دو حرف پر منحصر ہے، ایک تصحیح ملت، دوسرا تجرید خدمت فرمایا جس کا علم یقین کو نہیں پہنچا ہے، اور یقین خوف کو، اور خوف عمل کو، اور عمل ورع کو، اور ورع اخلاص کو، اور اخلاص مرعی مشاہدہ کو، وہ ہلاک ہونے والوں سے ہے۔

عنایت

فرمایا عنایت کا وجود آب و گل کے پہلے سے ہے۔

فتوت

فرمایا فتوت یہ ہے کہ تو فقیروں کے پرکھنے اور امیروں سے جھگڑنے میں نہ پڑے۔

فرمایا: قنوت یہ ہے کہ تو اپنا بوجھ کسی پر نہ رکھے، اور جو کچھ تیرے پاس ہو اس کو بخشش کرے۔

فقر

فرمایا فقر بلا کا دریا ہے، اور خالی ہونا دل کا اشکال سے۔

فقیر

فرمایا فقرائے صادق کی علامت یہ ہے کہ سوال نہیں کرتے، اور معارضہ نہیں کرتے اور اگر کوئی شخص ان کے ساتھ معارضہ کرتا ہے تو وہ خاموش رہتے ہیں۔

لغزش

فرمایا لغزش عالم کی رغبت ہے حلال سے طرف حرام ہے، اور لغزش زاہد کی رغبت ہے بقا سے طرف فنا کے، اور لغزش عارف کی رغبت ہے کریم سے طرف کرامت کے۔

محبت

پوچھا گیا محبت کیا ہے، فرمایا یہ کہ محبوب کی صفات محب کی صفات کے عوض قایم ہوں، جیسا کہ فرمایا حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فاذا احببتہ کنت لہ سمعا وبصرا۔

فرمایا محبت خدا کی امانت ہے۔

فرمایا: محبت جو عوض میں ہوتی ہے، جب عوض نہیں رہتا چلی جاتی ہے۔

فرمایا: محبت درست نہیں ہوتی درمیان دو شخصوں کے لیکن ایسے کہ ایک دوسرے کو کہے اے میں، اور حب محبت درست ہوجاتی ہے شرط ادب اُٹھ جاتی ہے۔

فرمایا: اللہ تعالیٰ نے صاحبِ علایق کی محبت حرام کی ہے۔

فرمایا: محبت افراطِ میل  ہے بے مثل پر، کوئی خدا کی محبت کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اپنی جان اس کی راہ میں سخاوت نہ کرے۔

مراقبہ

پوچھا گیا حقیقت مراقبہ کیا ہے؟ فرمایا وہ ایک حال ہے جس میں مراقب کو اس چیز کا انتظار ہو، جس کے وقوع سے ڈرتا ہے، اس لیے وہ ایک حالت ہوتی ہے جیسے کوئی شیخون سے ڈرے اور نہ سوئے، فرمایا حق تعالیٰ نے فارتقب یعنی فانتظر۔ جس کے معنی ہیں انتظار کر۔

پوچھا گیا مراقبہ اور حیا میں کیا فرق ہے؟ فرمایا مراقبہ غائب کا انتظار ہے، اور حیا حاضر مشاہدہ سے خجلت۔

فرمایا۔ مراقبہ یہ ہے کہ تو ڈرنے والا ہو اوپر فوت شدہ کے۔

مرید و مراد

فرمایا مرید وہ ہے کہ سیاست میں ہو علم سے، اور مراد رعایت میں حق تعالیٰ کے، اس لیے کہ مرید دوڑنے والا ہے اور مراد اڑنے والا، دوڑنے والا اڑنے والے تک کب پہنچ سکتا ہے۔

مشاہدہ

فرمایا: مقامات ساتھ مشاہدوں کے ہیں، جس کو مشاہدہ احوال ہے وہ رفیق ہے، اور جس کو مشاہدہ صفات ہے وہ اسیر ہے، کیونکہ یہاں رنج پہنچتا ہے اس لیے کہ اپنی خودی باقی ہوتی ہے، اس کو رات دن میں ہزار بار مرنا چاہیے جب کہ و ہ فانی ہو اور حضورِ حق حاصل ہوا امیر ہوا۔

فرمایا: نبیوں کا کلام خبر ہے حضور سے، اور صدیقوں کا کلام اشارہ ہے مشاہدہ سے۔

فرمایا: مشاہدہ غرق ہے، اور وجد ہلاک۔

فرمایا: وجد زندہ کرنے والا سب کا ہے، اور مشاہدہ مارنے والا سب کا۔

فرمایا: مشاہدہ ربوبیت کو قائم کرنا ہے، اور عبودیت کو دور کرنا ہے، لیکن اس شرط پر کہ تو اپنے آپ کو درمیان میں مطلق نہ دیکھے۔

فرمایا: کسی چیز کا دکھائی دینا ساتھ پانے ذات اس چیز کے مشاہدہ  ہے۔

معرفت

فرمایا معرفت کی دو قسم ہیں، معرفت تعرف، اور معرفت تعریف، معرفت تعرف یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس کے ساتھ آشنا کرے، اور معرفت تعریف یہ ہے کہ اس کو ا پنے ساتھ شناسا کرے۔

 فرمایا: معرفت مکر خدا ہے، یعنی جو  خیال کرے کہ عارف ہے ممکور ہے، یعنی مکر سے پُر ہے۔

فرمایا معرفت وجود جہل ہے تیرے حصولِ علم کے وقت، لوگوں نے کہا زیادہ کیجیے؟ فرمایا عارف اور معروف وہی ہے۔

فرمایا علم ایک چیز ہے محیط، اور معرفت ایک چیز ہے محیط، پس خدا کہاں ہے اور بندہ کہاں، یعنی علم خدا کے واسطے ہے، اور معرفت بندہ کے واسطے، اور دونو محیط ہیں، اور یہ محیط اس سبب سے ہے کہ عکس اس کا ہے، جب یہ محیط اُس محیط میں غرق ہوجاتا ہے شرک نہیں رہتا، اور جب تک کہ تو خدا اور بندہ کہتا ہے شرک ہے، بلکہ عارف و معروف ایک ہے۔

مکر

فرمایا مکر یہ ہے کہ کوئی پانی پر چلتا ہے، کوئی ہوا پر اڑتا ہے، اور سب اُس کی اس امر میں تصدیق کرتے ہیں، اور اس کے اشارہ کی یہ حالت دیکھ کر تصحیح کرتے ہیں، یہ اُس شخص کے نزدیک کہ جانتا ہے بالکل مکر ہے۔

فرمایا مرید کا مکر سے بے خوف رہنا گناہ کبیرہ ہے، اور واصل کا مکر سے بے فکر رہنا کفر ہے۔

موحد

فرمایا سنت بندگی کی تمام تر ذلت اور عاجزی و ضعف ہے، اور صفت خداوند کی تمام تر عزت و قدرت ہے، اور جو کوئی یہ جدا کرسکے باوجود یکہ کم ہوا ہو وہ موحد ہے۔

مومن و منافق

فرمایا مومن کا دل ایک ساعت میں ستر بار گردش کرتا ہے اور منافق کا دل ستر برس میں ایک بار بھی نہیں پھرتا ۔

وجد

فرمایا وجد علیحدگی اوصاف کی ہے ظہور ذات میں اور سرور، یعنی جو کچھ اوصاف توئی کے تجھ میں ہیں جدا ہوجائیں، اور وہ چیز کہ تیری ذات ہے ایک ناچیز دکھائی دیوے۔

وقت

فرمایا جو وقت کہ گزر جاتا ہے ہرگز اس کو نہیں پاسکتے، اور کوئی چیز عزیز اور قیمتی زیادہ وقت سے نہیں۔

فرمایا اولیاء اللہ پر اوقات میں انفاس کی نگہداشت سے زیادہ سخت کوئی شے نہیں۔

یقین

فرمایا یقین علم کا دل میں قرار پکڑنا ہے ایسا کہ تغیر نہ آوے، اور دل اس سے خالی نہ ہو۔

فرمایا: یقین یہ ہے کہ تو ارادہ رزق کا نہ کرے، اور غم رزق کا نہ کھائے، اور اس علم کے ساتھ کہ یقیناً تیرا رزق تجھ کو ملے گا مشغول رہے۔[۱] [۱۔ کلمات طیبات کا مضمون تذکرۃ الاولیا، نفحات الانس، مسالک السّالکین جلد اوّل، جنید بغدادی وغیرہ کتابوں سے لیا گیا ہے۔ ۱۲]

 

معرفین کمال

۱۔      ایک روز کسی نے حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ کوئی مرید درجہ میں پیر سے بھی بڑھ گیا ہے، فرمایا جنید رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر کے مرتبہ سے بلند مرتبہ رکھتا ہے[۱] [۱۔ تاریخ الاولیا ۱۲]۔

۲۔     حضرت موئل جصاص شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ حکمت جنید رحمۃ اللہ علیہ کو دیگی اور وجد شاہ شجاع کرمانی رحمۃ اللہ علیہ کو دیا گیا، اور اخلاق ابو حفص رحمۃ اللہ علیہ کو عطا ہوا، اور بایزید رحمۃ اللہ علیہ منزل حیرت سے مشرف ہوئے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]

۳۔     حضرت ابوجعفر حداد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر عقل مشخص ہوتی تو حضرت سید الطائفہ کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]

۴۔     حضرت ابوسعید خراز رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے کہ میں نے دو ہی صوفی دیکھے، ایک حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ[۱] [۱۔ طبقات الکبرٰے ۱۲ شرافت]۔

۵۔     حضرت ابو عثمان خیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ ساری دنیا میں صرف تین شخص ہیں جن کا چوتھا نہیں، ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ (راوی مذکور) نیشا پور میں، جنید رحمۃ اللہ علیہ بغداد میں، ابو عبداللہ بن جلا رحمۃ اللہ علیہ شام میں۔[۱] [۱۔ رسالہ قشیریہ ۱۲]

۶۔     خلیفہ بغداد نے ایک دن حضرت رویم رحمۃ اللہ علیہ کو کسی بات پر کہا او بے ادب انہوں نے فرمایا میں ایک دن دوپہر تک جنید رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بیٹھا رہا ہوں، اور جس کو نصف یوم جنید رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت نصیب ہو وہ بے ادب نہیں ہوسکتا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]

۷۔     قاضی ابن سریج فقیہ شافعیہ، آپ کی تقریر سن کر بے اختیار بول اٹھے کہ یہ شوکت جھوٹ بولنے والے کے کلام میں نہیں ہوسکتی، اور پھر حضرت جنید کے بعد اپنی خوش بیانی پر کبھی نازاں ہوتے تو کہا کرتے کہ یہ صرف حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت کا فیض ہے۔ [۱] [۱۔ مراۃ الجنان ۱۲]

۸۔     حضرت ابوعلی حسن المسوحی رحمۃ اللہ علیہ نے انس کے بیان میں آپ کی تقریر سنی تو فرمایا کہ آسمان کے نیچے جتنے ہیں سب مرجائیں تو بھی یہ پر اثر تقریر سن لینے کے بعد مجھے وحشت نہ ہوگی۔[۱] [۱۔ نفحات الانس  ۱۲]

۹۔     حضرت ابوعبداللہ محمد بن خفیف ضبی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اپنے مریدوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ ہمارے شیوخ سابقہ میں سے پانچ بزرگ ایسے ہیں جن کی تم ہر امر میں اقتدا کیا کرو حارث بن اسد محاسبی رحمۃ اللہ علیہ، سیّد الطائفہ جنید بن محمد بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، ابو محمد رویم رحمۃ اللہ علیہ، ابو العباس ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ، عمرو بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ، اس لیے کہ یہ سب بزرگ علم ظاہر و باطن کے جامع تھے۔[۱] [۱۔ رسالہ قشیریہ ۱۲ شرافت]

۱۰۔    ایک دن حضرت ابو عبداللہ بن خفیف رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ علی بن بندار صوفی رحمۃ اللہ علیہ شیراز کی گلیوں میں گزر رہے تھے، ابو عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے علی بن بندار رحمۃ اللہ علیہ کو کہا کہ آپ آگے چلیے، انہوں نے کہا کہ مجھ میں کون سی فضیلت ہے کہ آگے چلوں؟ تو ابو عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اس سے  بڑی کیا فضیلت ہوسکتی ہے کہ تمہاری آنکھوں کو حضرت سیّد الطائفہ کی زیارت نصیب ہوئی ہے۔[۱] [۱۔ عوارف المعارف ۱۲]

۱۱۔     حضرت ابو العباس احمد ابن عطاء رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہمارے امام اور وہ مرکز جس کی پیروی کی جائے حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]

۱۲۔    حضرت ابوعمرو محمد بن ابراہیم الزجاجی رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے کہ میں نے تیس سال تک حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بیت االخلا صاف کی ہے، اور اس پر فخر کیا کرتے۔[۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]

اولادِ کرام

آپ کے دو بیٹے تھے۔ اول حضرت شیخ قاسم رحمۃ اللہ علیہ انہیں کے نام سے آپ کی کنیت ابوالقاسم مشہور ہوئی۔

دوم     حضرت شیخ عثمان رحمۃ اللہ علیہ

ان کی اولاد میں سے شاہ منور علی مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ ابن شیخ عبداللہ بن شیخ عبدالرحمٰن بن شیخ عثمان رحمہم اللہ۔[۱] [۱۔ حقیقت گلزار صابری ص ۷۵ شرافت]

حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے بڑے بڑے مشاہیر اولیاء اللہ رحمۃ اللہ علیہ ہوتے رہے چنانچہ بعض کے حالات یہ ہیں۔

۱۔      حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں ایک بزرگ شیخ عبدالقادر بن شیخ عارف بغدادی رحمۃ اللہ علیہ مشہور تھے۔

۲۔     حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کتاب انیس الارواح میں لکھتے ہیں۔

بعد اس کے ہم (خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ اللہ علیہ و خواجہ معین الدین رحمۃ اللہ علیہ مدینہ طیبہ سے) روانہ  ہوکر شہد بدخشان میں آئے، ایک بزرگ سے ملاقات کی، وہ اولاد خواجہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے تھے، عمران کی ایک سو چالیس برس کی تھی، از حد مشغول مع اللہ  تھے، وہ ایک پاؤں سے لنگڑے تھے، وہ پاؤں جَڑ سے کٹا ہوا تھا، ہمیں دیکھنے اِس امر سے تعجب ہوا، سبب قطع ہونے پاؤں کا دریافت کیا،فرمانے لگے کہ میں ایک مدت سے اِس صومعہ میں معتکف ہوں، کبھی خواہش نفس سے ایک قدم بھی اِس صومعہ سے باہر نہیں رکھا، ایک روز ایسا اتفاق ہوا کہ ہوائے نفسانی سے یہ بُریدہ پاؤں باہر نکالا، اور دوسرا نکال کر ارادہ روانگی کا تھا کہ ہاتف نے آواز دی ’’اے مدعی ہمیں عہد بود کہ فراموش کردی‘‘ یہ آواز سُن کر متنبہ ہوا، اور اپنی وعدہ خلافی سے پشیمان ہوا، چھُری میرے پاس تھی، فی الفور نیام سے نکالی، اور اس پاؤں کو جو باہر نکالا تھا کاٹ کر باہر پھینک دیا، اِس واقعہ کو چالیس برس ہوگئے ہیں، اس وقت سے عالم تحیر میں مبتلا ہوں، اور نہایت شرمندہ ہوں کہ گل کیونکر درویشوں میں منہ دکھاؤں گا، یہ سن کر ہم وہاں سے روانہ ہوئے اور بخارا پہنچے۔ [۱] [۱۔ انیس الارواح ص ۶ شرافت]

۳۔     کتاب راحت القلوب میں ہے۔

اس کے بعد (خواجہ فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے) ارشاد فرمایا کہ ایک مرتبہ میں جانب بغداد مسافر تھا، جب بغداد میں پہنچا، اور وہاں کی سیر کی، اور مطلب اِس سیر و سیاحت سے یہ تھا کہ کسی اہل اللہ کی زیارت نصیب ہو، چنانچہ میں اپنا یہ ارادہ ہر کس و ناکس کے آگے ظاہر کرتا، اور ان سے بزرگانِ دین کا سراغ پوچھتا، الغرض مجھے ایک بزرگ کا حال معلوم ہوا کہ کنارۂ دریائے دجلہ پر مسکن گزین ہیں، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، وہ نماز میں مصروف تھے، مجھے اِس قدر انتظار کرنا پڑا کہ وہ نماز سے فارغ ہوئے، اس وقت میں نے سلام کیا، وہ جواب سلام دے کر فرمانے لگے کہ بیٹھ جاؤ، میں حسب الامر بیٹھ گیا، ان کے چہرہ سے عظمت و ہیبت طاری تھی اور منہ ان کا مانند چاند چودہویں رات کے تاباں و درخشاں تھا، الغرض وہ میری جانب مخاطب ہوئے۔ اور ارشاد فرمایا کہاں سے آئے ہو؟ میں نے کہا اجودہن سے آتا ہوں، ارشاد فرمایا کہ اگر بزرگوں کی زیارت کی غرض سے یہ سفر اختیار کیا ہے اللہ تعالیٰ تم کو بھی بزرگی عنایت فرما دے گا، جب انہوں نے یہ فرمایا، میں نے سَر تسلیم خم کیا، اس کے بعد انہوں نے اپنی حکایت بیان کرنا شروع کی کہ اے مولانا فرید! مجھے پچاس (۵۰) برس یا اس سے کچھ کم و بیش اس غار میں رہتے ہوئے گذرے ہیں، میں حضرت خواجہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے ہوں، جَڑی بوٹی میری خورش ہے، شب گذشتہ کو ستائیسویں (۲۷) رجب کی شب تھی، میں شب بیدار تھا، اے فرید! اگر تم آج کی رات کی حکایت سنو تو میں بیان کروں، میں نے عرض کیا کہ بسر و چشم سنوں گا، فرمانے لگے کہ عرصہ بیس سال سے شب زندہ دار ہوں، لیکن شب گذشتہ اتفاقًا میری آنکھ مصلّٰے پر لگ گئی،  کیا خواب دیکھتا ہوں کہ آسمانِ اوّل سے ستر ہزار فرشتے اُترے اور میری روح کو عالمِ بالا میں لے گئے، جب آسمانِ اول پر پہنچا، فرشتوں کو دیکھا کہ کھڑے ہوکر یہ تسبیح پڑھ رہے ہیں، سبحان ذی الملک والملکوت میں نے پوچھا یہ کَب سے اس طور پر کھڑے ہیں؟ آواز آئی جس روز سے مخلوق ہوئی اُسی روز سے اِس طرح کھڑے ہیں، اور عبادت ان کی یہی تسبیح ہے، بعدہٗ اس آسمان سے آسمان دوم پر پہنچا، اور عجائباتِ قدرتِ الٰہی مشاہدہ کیے کہ وصف اور حال ان کا بیان نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ سے کیا کیا اشیاء عجیبہ پیدا کی ہیں، القصہ زیر عرش پہنچا، آواز آئی کہ وہیں ٹھہراؤ، میں میں ٹھہرایا گیا، جملہ انبیا و اولیا اس جگہ حاضر تھے، میں سے اپنے دادا حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی دیکھا کہ متفکر سَر نیچا کیے ہوئے کھڑے ہیں، اُس وقت میرا نام لَے کر پکارا، میں نے جواب میں لبّیک عرض کی، فرمان ہوا اچھے آئے اور عبادت کا حق خوب بجا لائے، اب تم پر عنایت کی جاتی ہے، تمہارا مقام علیین ہوا، میں اس امر کے سننے سے بہت خوش ہوا، اور سَر سجدہ میں رکھا، فرمان ہوا سَر اٹھاؤ، میں نے سَر اٹھایا اور عرض کی اِس سے بالا تر رتبہ کا خواستگار ہوں، حکم ہوا اے فلانے اس جگہ سے آگے نہ جا سکو گے، معراج تمہارا اِسی جگہ تک ہے، جب اپنا کام زیادہ کرو گے اعلٰے رتبہ کے مستحق ہوگے، جب میں نے یہ آواز سنی واپس ہوا، اور نزدیک جدّ اپنے حضرت خواجہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے آیا، اور پَیروں میں گِر پڑا، اور دریافت کیا کہ آپ متفکر اور سر افگتدہ کِس واسطے تھے؟ ارشاد فرمایا کہ جب تجھے اس جگہ لائے میں متحیر ہوا کہ شائد اس سے کوئی خلاف امر صادر ہوا ہو، اور اِس وجہ سے لائے ہوں کہ مجھے شرم دلائی جاوے کہ یہ تمہارا پوتا ہے جو تمہارے طریقہ کے خلاف تھا، میں یہ سن کر بیدار ہوگیا، اور اپنے تئیں اِس مقام میں پایا، پس اے فرید! جو طلب خدا کرتا ہے حق تعالیٰ بھی اس کا طالب ہوتا ہے، آدمی کو لازم ہے کہ ہر وقت اپنی علوم مرتبہ کی کوشش کرتا رہے، جو شخص اس رات کو جاگے گا البتہ سعادت اِس رات کو جاگے گا البتہ سعادت اِس شب کی اس کو حاصل ہوگی، یہ فرما کر خاموش ہورہے، میں (خواجہ فرید رحمۃ اللہ علیہ) بوجہ ہوجانے رات کے ٹھیر گیا، ان کا قاعدہ دیکھنے میں آیا کہ بعد نماز عشا کے نماز معکوس پڑھتے ہیں، اور صبح تک نماز معکوس میں رہتے ہیں، میں علی الصّباح وہاں سے روانہ ہوکر بغداد واپس آیا۔ [۱] [۱۔ راحت القلوب ۱۲]

خلفائے عُظام

آپ فرماتے ہیں کہ دس ہزار صادق مریدوں کو جنید رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ صدق کے طور پر لائے، اور ان سب کو معرفت کی راہ میں قہر کے سمندر میں غرق کر دیا، آخر کار ابو القاسم جنید رحمۃ اللہ علیہ کو اوپر لائے، اور ہماری ارادت کے آسمان کا آفتاب بنایا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

۱۔      حضرت شیخ ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ

اِن کا ذکر آگے آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۲۔     حضرت شیخ ابو الحسین احمد بن سعد المالکی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ

نوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھتے، فصیح الکلام تھے، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۱] طرسوس میں بروز چہار شنبہ ۱۴؍ محرم ۲۷۷ھ کو انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوّف ۱۲]

اِن کے ایک مرید شیخ ابو بکر علی بن احمد بن محمد طرسوسی رحمۃ اللہ علیہ الملقب بہ طاؤس الحرمین متوفی ۳۷۴ھ اکابر مشائخ سے تھے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۳۲]

۳۔     حضرت شیخ ابو بکر محمد بن عبد اللہ دقّاق رحمۃ اللہ علیہ

جامع علوم ظاہری و باطنی تھے، ابو حمزہ خراسانی رحمۃ اللہ علیہ اور نوری رحمۃ اللہ علیہ کے اقران سے تھے، ۲۹۰ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲]

۴۔     حضرت شیخ ابو حمزہ خراسانی نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ

جوان مردان مشائخ سے تھے، ابو تراب نخشبی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو سعید خرّاز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، ہوا کا جھونکا آنے پر اِن کو وجد ہوجایا کرتا، ایک بار حارث محاسبی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر بکری کی آواز سُن کر اِن کو وجد ہوگیا، اور بیساختہ کہہ اٹھے عز اللہ جلّ جلالہٗ۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۴۹] ۲۹۰ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ رسالہ قُشیریہ ۱۲]

۵۔     حضرت شیخ ابو اسحاق ابراہیم بن احمد خوّاص رحمۃ اللہ علیہ

توّکل و تجرید میں شانِ بلند رکھتے تھے، معاصرین اِن کو رئیس المتوکلین کہا کرتے، [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ص ۱۶۷] نوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض پایا تھا، صحبت دار حضرت خضر علیہ السلام تھے، فرمایا ہے العلم کلّہٗ فی کلمتین لا تتکلّف ما کَفیتَ ولا تضیع ما استکفیتَ، ۲۹۱ھ میں فوت ہوئے، یوسف بن حسین رحمۃا للہ علیہ نے غسل دیا، قبر رَے میں زیر حصار طبرک ہے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۹۴ شرافت]

اِن کے ایک مرید شیخ ابو الحسن دُرّاج بغدادی متوفی ۳۲۰ھ کامل بزرگ تھے۔ [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲]

۶۔     حضرت شیخ ابو عبد اللہ عمرو بن عثمان مکی صوفی رحمۃ اللہ علیہ

یمنی لاصل محترم محدث تھے، صحیح بخاری کی روایت کرتے تھے، [۱] [۱۔ طبقات الکبرٰے ۱۲] ابو سعید خراز رحمۃ اللہ علیہ اور ابو عبد اللہ نباجی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، اِن کا کلام لوگوں کے فہم سے بلند ہوا تو مکہ مکرمہ سے نکالے گئے، پھر جدّہ میں چلے گئے، اور وہاں کے قاضی مقرر ہوئے، علمِ حقائق کے عالم تھے، [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ص ۱۷۱] فرمایا ہے المروّۃ التغافل عن زلل الاخوان۔ اور فرمایا لَا یقع علٰی کیفیّۃ الوجد عبارۃ لانّہٗ سِرّ اللہ عند المؤمنین، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۵۸] ۲۹۶ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ صفۃ الضوفیہ ۱۲]

۷۔     حضرت شیخ ممشاد دِینوری رحمۃ اللہ علیہ

مشائخ عراق سے تھے، علم و کرامات و احوال نیک میں یگانہ وقت تھے، یحییٰ جَلّا رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، ایک دن راستہ میں جا رہے تھے، ایک کتّا بھونکا، انہوں نے فرمایا لا الٰہ الّا اللہ واللہ اکبر کتا وہیں مرگیا۔ فرمایا ہے چالیس سال سے بہشت کو تمام نعمتوں سمیت مجھ پر پیش کر رہے ہیں، لیکن میں نے گوشہ چشم سے بھی اس کی طرف التفات نہ کی، اور فرمایا عارِف کو سِرّ میں ایک آئینہ دیا گیا ہے، جس وقت اس میں دیکھے اللہ کو دیکھتا ہے، اور فرمایا طریق الحقّ بعیدٌ والسّیر مع الحقّ شدیدٌ اور فرمایا۔ ادب المرید فی التزام حرمات المشائخ وخدمۃ الاخوان والخروج عن الاسباب وحفظ اٰداب الشرع، ۲۹۹ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۶۴ شرافت]

ف     سلسلہ چشتیہ میں بھی ایک بزرگ خواجہ عِلْو ممشاد دینوری رحمۃ اللہ علیہ کا نام آتا ہے، جن کا سنہ وفات بھی یہی ہے جس سے عام مورخین کو اشتباہ واقِع ہوا ہے، لیکن صاحبِ سفینۃ الاولیا اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے تصریح کی ہے وہ علیحدہ بزرگ تھے اُن کا نام خواجہ علو دینوری رحمۃ اللہ علیہ تھا، فقیر شرافت عافاہ اللہ کے نزدیک بھی یہی صحیح ہے۔

۸۔     حضرت شیخ ابو محمد رُویم بن احمد بن یزید بن رویم بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

بغداد کے عظمائے مشائخ سے تھے، فقہ داوٗد اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کے فقیہ و عالم تھے، صائم الدہر رہتے، ابو عبد اللہ خفیف رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میری آنکھوں نے رویم جیسا کوئی نہیں دیکھا جو توحید میں کلام کرتا ہو، اخیر عمر میں اپنے آپ کو دنیا داروں میں پوشیدہ رکھا، اِن کو تصوّف کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا ھو الذی لا یملک شیئًا ولا یملکہٗ۔ اور فرمایا۔ التصوّف ترک التغاضل بین الشیئین۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۶۵] ۳۰۲ھ میں وفات پائی، قبر شونیزیہ بغداد میں ہے۔ [۱] [۱۔ رسالہ قشیریہ ۱۲]

ان کے سلسلہ میں شیخ ابو عبد اللہ حموی رحمۃ اللہ علیہ مقتدائے سلسلہ حمویہ مشہور بزرگ گذرے ہیں، وہ مرید شیخ ابو علی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو القاسم سندوسی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ رُویم کے، [۱] [۱۔ خلاصۃ السّلاسل ۱۲] رحمۃ اللہ علیہم۔

۹۔     حضرت شیخ ابو یعقوب یوسف بن حسین الرّازی رحمۃ اللہ علیہ

اعاظم مشائخ رَے سے تھے، عمر دراز پائی، ادیب اور عالم تھے، ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اِن سے مراسلت تھی، طریق ملامتیہ رکھتے تھے، ۳۰۴ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۶۷]

۱۰۔    حضرت شیخ قاضی ابو العباس احمد بن عمران بن سریج فقیہ رحمۃ اللہ علیہ

علم ظاہری کے بڑے عالم اور فقیہ عراق تھے، لوگ اِن کو شافعی صغیر کہتے تھے، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۰۲] اِن کا سلسلہ تلمذ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ تک اس طرح پہنچتا ہے کہ یہ قاسم انماطی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے، اور وہ اسمٰعیل مزنی رحمۃ اللہ علیہ کے، اور وہ شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے، [۱] [۱۔ جنید بغدادی ص ۱۰۷] ابو عبد اللہ خفیف رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابن سیربح رحمۃ اللہ علیہ کے شیراز جانے سے پہلے سب علماء صوفیوں کو جاہل خیال کرتے تھے، جب یہ شیراز گئے تو سب کو صوفیہ کے مراتب کی پہچان ہوئی، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۰۳ شرافت] ایک دن علما کے ساتھ مشغول رہتے، اور ایک دن صوفیا کے ساتھ، انہوں نے چار سو کتابیں تصنیف کیں، فقہ شافعیہ کو اِن سے بہت تقویت ہوئی، محمد بن داؤد ظاہری رحمۃ اللہ علیہ سے اِن کا مناظرہ بھی رہا تھا، [۱] [۱۔ جنید بغدادی ص ۱۰۷۔ بحوالہ مراۃ الجنان ۱۲] ۳۰۵ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۰۲]

۱۱۔     حضرت شیخ ابو المغیث حسین بن منصور حَلّاج بیضاوی رحمۃاللہ علیہ

فارس کے شہر بیضا میں پیدا ہوئے، اور عراق کے شہر واسط میں نشود نما ہوئی، عمرو بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے، نوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھتے، ابو عبد اللہ خفیف رحمۃ اللہ علیہ نے اِن کو امامِ ربّانی کہا ہے، شیخ ابو سعید ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اِن کے عہد میں مشرق سے مغرب تک کوئی شخص علوِّ حال میں اِن جیسا نہ تھا، ہر دن رات میں ہزار رکعت نفل پڑھتے، جس روز شہید ہوئے اُس روز بھی پانسو (۵۰۰) رکعت پڑھی تھیں، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۰۳] بوقت محویت و استغراق اِن سے نعرۂ انا الحقّ صادر ہوا، جس کی وجہ سے علمائے ظاہر نے اِن کے قتل کا فتوٰے دیا،  [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ص ۱۸۰] اور بروز سہ شنبہ ۲۴؍ ذیقعد ۳۰۹ھ میں بغداد کے باب الطّاق میں ہاتھ پاؤں کاٹ کر نہایت بے رحمی سے شہید کیے گئے۔  [۱] [۱۔ دفیات الاعیان ۱۲]

ان کے چار مرید اکابر مشائخ سے تھے، ۱۔ شیخ احمد بن حسین حَلّاج رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ شیخ عبد الملک اِسکاف رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ شیخ ابراہیم بن فاتِک رحمۃ اللہ علیہ، ۴۔ شیخ ابو القاسم فارس بن عیسیٰ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۳۴۲ھ۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲]

۱۲۔    حضرت شیخ ابو العباس احمد بن محمد بن سہل بن عطاء آلادمی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ

علمائے مشائخ اور صوفیائے ظرفا سے تھے، اِن کا کلام نیک اور زبان فصیح ہے، ابراہیم مارستانی رحمۃ اللہ علیہ اور خرّاز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھتے،  [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲ شرافت] قرآن مجید کی تفسیر اوّل سے آخر تک بزبانِ اشارات کی ہے، آیت شریف یمیتنی ثم یحیین (الشعراع ۵) کی تفسیر میں لکھا ہے یمیتنی عنّی ثم یحینی بہٖ۔ نیز آیہ کریمہ انّ الّذین قالوا ربّنا اللہ ثمّ استقاموا (الاحقاف ع ۲) کے ترجمہ میں کہا ہے ثم استقاموا علٰی انفراد القلب باللہِ تعالٰی ابن العطا رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا افضل طاعات کیا ہے؟ فرمایا۔ ملاحظۃ الحقّ علٰی دوام الاوقات اِن کو خلفائے عباسیہ کے وزیر علی بن عیسیٰ نے حَلّاج رحمۃ اللہ علیہ کے بعد شہید کروایا، ماہ ذیقعد ۳۰۹ھ میں شہادت ہوئی۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۹۷]

اِن کے ایک مرید شیخ ابو الحسن علی بن احمد بن سہیل الصّوفی الفوشنجی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۳۴۸ھ مشہور بزرگ تھے۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۵]

۱۳۔    حضرت شیخ ابو محمد احمد بن محمد بن حسین الجُریری رحمۃ اللہ علیہ

حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کبار اصحاب سے تھے، اُن کے بعد خانقاہ کے جانشین ہوئے سہل بن عبد اللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ اور ابو بکر خبّاز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی،  [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۹۶] فقہ و اصول میں امام تھے، ایک سال مکہ مکرمہ میں رہے، اتنا عرصہ نہ سوئے نہ لیٹے نہ پاؤں دراز کیے، اور نہ ہی کلام کیا۔  [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲]

جنگ قرامطہ میں پیاس سے شہید ہوئے، ایک درویش کہتا ہے کہ میں نے قرامط کے کشتوں میں اِن کو دیکھا کہ جان توڑ رہے ہیں، میں نے کہا یا شیخ! دعا کرو کہ خدا بلا کو دفع کرے، فرمانے لگے نزولِ بلا سے پہلے دعا کا وقت ہے، اور جب بلا نازل ہوجائے تو پھر تسلیم و رضا کا وقت ہے، فرمایا ہے۔ التصوّف عنوۃ لا صلحٌ انہوں نے سو سال سے زیادہ عمر پائی، ۳۱۴ھ میں شہید ہوئے۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۹۶]

اِن کے سلسلہ میں شیخ ابو علی زر گر رحمۃ اللہ علیہ مشہور بزرگ گذرے ہیں۔ وہ مرید شیخ ابو العباس احمد بن محمد بن عبد الکریم القصّاب آلا ملی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ محمد بن عبد اللہ الطبری رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو محمد جُریری رحمۃ اللہ علیہ کے۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]

۱۴۔    حضرت شیخ بَنان بن محمد الحمال رحمۃ اللہ علیہ

واسطی الاصل تھے، لیکن مصر میں رہتے، فقہ، حدیث، تفسیر، تصوّف کے عالم تھے، ایک دن کسی کو امرِ شرعی میں احتساب کیا، اُنہوں نے ایک کمرہ میں شیر کے آگے ڈال دیا شیر اِن کو چاٹنے لگا، جب باہر نکالے گئے تو پوچھا کہ آپ کس خیال میں تھے؟ تو فرمایا کہ شیر کے لعاب کے مسئلہ میں خیال کر رہا تھا کہ یہ پاک ہے یا نہیں۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ص ۱۸۶]

اِن کو پوچھا گیا کہ صوفیوں کے بزرگ تر احوال کیا ہیں؟ فرمایا۔ الثقۃ بالمضمون والقیام بالا وامر والمراعات السّرّ والتّخلی من الکونین بالتّشبّث بالحق تعالٰی۔ رمضان ۳۱۶ھ میں وفات پائی، قبر مصر میں ہے۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۰۹]

۱۵۔    حضرت شیخ ابو بکر محمد بن موسیٰ الوَاسطی المعروف بہ ابن الفرغانی رحمۃ اللہ علیہ

اصل وطن خراسان کا شہر فرغانہ تھا،  [۱] [۱۔ جنید بغدادی ص ۱۰۸] علمائے مشائخ سے تھے، اصول و فروع میں عالمِ تھے، نوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھتے، اصولِ تصوّف میں اِن جَیسا کلام کسی نے نہیں کیا، شیخ الاسلام عبد اللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ واسطی رحمۃ اللہ علیہ امام توحید ہے، فرمایا ہے۔ مَیں اور وُہ اور وُہ اور مَیں اور میرا کام اور اس کی جزا اور میری دعا اور اس کی قبولیت و عطاسب ثنویت اور دوگانگی ہے، نیز فرمایا۔ جو کہتا ہے میں نزدیک ہوں وہ دور ہے اور جو کہتا ہے میں ہستی میں دور ہوں وہ نیست ہے اور یہی تصوّف ہے ۳۲۰ھ میں وفات پائی، قبر مَرو میں ہے۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۲]

ان کے سلسلہ میں شیخ ابو علی محمد بن محمد عمر بن شبویہ المروزی رحمۃ اللہ علیہ مشہور بزرگ گذرے ہیں، وہ مرید شیخ ابو العباس قاسم بن مہدی سیّاری رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۳۴۲ھ مقتدائے سلسلہ سیّاریہ کے، وہ مرید شیخ ابو بکر واسطی رحمۃ اللہ علیہ کے۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]

۱۶۔    حضرت شیخ ابو علی احمد بن محمد بن ابو القاسم بن منصور رو دباری رحمۃ اللہ علیہ

نشود نما بغداد میں ہوئی، آخر مصر میں اقامت گزین ہوئے، حافظِ حدیث عالم فقیہ، ادیب، امام، سید قوم تھے۔ نوری رحمۃ اللہ علیہ اور ابو حمزہ رحمۃ اللہ علیہ اور مسوحی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، ابو علی کاتب رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے میں نےعلمِ شریعت و حقیقت کا جامع ابو علی رود باری کے سوا کوئی نہیں دیکھا، اور جب کبھی اِن کا نام لیتے سیّد نا کہتے۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۳۸]

یہ اپنے اساتذۂ علوم پر فخر و ناز کیا کرتے تھے کہ تصوّف میں میرے استاد حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ، اور فقہ میں ابو العباس سریج رحمۃ اللہ علیہ، اور ادب میں ثعلب رحمۃ اللہ علیہ، اور حدیث میں ابراہیم حَربی رحمۃ اللہ علیہ تھے،  [۱] [۱۔ جنید بغدادی ص ۱۰۸] فرمایا ہے علامۃ اعراض اللہ تعالٰی عن العبد ان یشغلہ بما لا ینفعہ۔ اور فرمایا۔ مالم تخرج من کلیّتک لم تدخل فی حد المحبّۃ۔ نزع کے وقت فرمایا۔

وحقّک لا نظرتُ الٰی سِواکا

 

بعین مودّۃٍ حتّٰی ارا کا

۳۲۱ھ میں وفات پائی۔  [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۳۹ شرافت]

اِن کا سلسلہ فقر دنیا میں کافی ہے چنانچہ اس سلسلہ کے ایک بزرگ ہماری دیار میں مشہور گذرے ہیں، جن کا نام شیخ اسمٰعیل المعروف شاہ نعمت اللہ ولی الملقب بہ حاجی دیوان رحمۃ اللہ علیہ بن سلیمان بن شاہ دِتّہ بن بھَٹی بن لاڈو قوم ڈوگر عرف سوہن تھا، ۹۰۰ھ میں بمقام لاڈو آنہ متصل ننکانہ پیدا ہوئے، لاہور میں تعلیم ظاہری پائی، مقبول اولیاء اللہ سے صاحب خوارق و کرامات تھے، اِن کے دو بیٹے شیخ صدر الدین رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ کالا رحمۃ اللہ علیہ بھی کامل درویش تھے، ۱۰۱۱ھ میں انتقال کیا، اور قصبہ خانقاہِ ڈوگراں ضلع شیخوپورہ میں مزار مبارک مرجع عوام ہے، روضہ شریف پر یہ تاریخ درج ہے۔

آفتاب حقیقت و عرفاں
از مریدانِ خاص حضرتِ نوح
از حضورِ جنابِ مرشد خود
نائب سہرور دیانِ عظام
روضہ اش راکہ نورِ یثرب ہست
گر تو خواہی خبر ز سالِ وصال
ہمہ اولادِ او گرامی باد

 

نعمت اللہ پیر قطبِ زماں
آنکہ بودست مقتداے جہاں
شد ملقّب بہ حاجی دیوان
خطۂ ڈوگراں بدو نازاں
رَوضۃٌ من ریاض جنت داں
روضہ اش راببین و روضہ نجواں
بحرِ فیضش ہمیشہ باد رواں

حضرت حاجی دیوان رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد بہت ہے، صاحبِ مخزنِ پنجاب نے لکھا ہے کہ اِن کی اولاد کے واسطے ایک ہزار تیس روپیہ سالانہ جاگیر سَرکار سے مقرر ہے۔

زمانہ حاضرہ میں اِن کی اولاد میں سے میاں حاتم علی صاحب اہلِ علم و فقر و زُہد صوفی مشرب مہمان نواز ہیں، اکثر مطالعہ کتب میں مصروف رہتے ہیں، فقیر شرافت عافاہ اللہ کے بھی خاص کرم فرما ہیں سلّمہ اللہ تعالیٰ۔ خلفا الرشید میاں حیات شاہ بن میاں حسین شاہ بن میاں امام شاہ بن میاں پیر شاہ بن میاں محمد غوث بن شاہ نور جلال بن شیخ صدر الدین معلّٰے دیوان (متوفی ۱۰۹۳ھ) بن حضرت حاجی دیوان رحمہم اللہ۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ طریقت اس طرح پر ہے، وہ مرید مخدوم شیخ نوح ہالا کندی سندھی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید مخدوم فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے وہ مرید مخدوم جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید مخدوم تاج الدین رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ غر الدین محمود الکاشی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ نور الدین عبد الصمد نطنزی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ، وہ مرید شیخ نجیب الدین علی بن بُزغش شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شعبان ۶۷۸ھ) کے، وہ مرید شیخ الشیوخ شہاب الدین عمر [۱] [۱۔ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سوائے نسبت سہروردیہ کے حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے بھی مستفیض ہوئے، چنانچہ اِن کا تذکرہ خلفائے غوثیہ میں بھی آئے گا ان شاء اللہ تعالیٰ ۱۲ شرافت] سُہروردی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۶۳۲ھ) کے، وہ مرید شیخ ضیاء الدین ابو النجیب عبد القاہر سُہروردی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۲؍ جمادی آلاخر ۵۶۳ھ) مقتدائے سلسلہ سُہروردیہ کے، وہ مرید شیخ ابو الفتوح شہاب الدین احمد بن محمد غزالی طوسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۵۱۷ھ) کے، وہ مرید وہ مرید شیخ ابو بکر بن عبد اللہ نساج طوسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۴۸۷ھ) کے، وہ مرید شیخ ابو القاسم علی کرگانی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۴۸۰ھ) کے، وہ مرید شیخ ابو عثمان سعید بن سلام مغربی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۷۳ھ) کے، وہ مرید شیخ ابو علی کاتب مصری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۴۶ھ) کے، وہ مرید شیخ ابو علی رودباری رحمۃ اللہ علیہ کے۔ [۱] [۱۔ اِس سلسلہ سہروردیہ کے تواریخ وفات خزینۃ الاصفیا جلد دوم سے نقل کی گئی ہیں۱۲]

۱۷۔    حضرت شیخ ابو بکر محمد بن علی بن جعفر الکتانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ

نوری رحمۃ اللہ علیہ اور خراز رحمۃ اللہ علیہ سے بھی برکت حاصل کی، مدت تک مکہ مکرمہ میں مجاور رہے مرتعش رحمۃ اللہ علیہ کہا کرتے الکتّانی سراج الحرم، [۱] [۱۔ جنید بغدادی ص ۱۰۹] تمام رات نماز پڑھتے، بارہ ہزار ختم قرآن مجید بحالتِ طواف کیے، تیس سال تک پشت زمین پر نہ لگائی، اور کعبہ شریف کے پَر نالہ کے نیچے مصروفِ عبادت رہے۔ [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲]

صحبت دار حضرت خضر علیہ السلام اور حضور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تھے، اس لیے معاصرین اِن کو شاگردِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے، جو کچھ کوئی سوال کرتا آپ بالمشافہہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ کر جواب بتا دیتے، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۴] ایک مرتبہ ایک رات میں اِن کو اِکاون (۵۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی تھی۔ [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲]

ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں فرمایا کہ جو شخص روزانہ یا حیّ یا قیّوم یا لا الٰہ الّا انت اکتالیس بار پڑھا کرے اُس کا دل نہیں مرتا، فرمایا ہے۔ الصّوفیّۃ عبید الظواھر احرار البواطن۔ اور فرمایا۔ مَن لّم یتادّب باستادٍ فھو بطّالٌ۔ اور فرمایا۔ کن فی الدّنیا ببدنک وفی الاٰخرۃ بقلبک۔ ۳۲۲ھ میں وفات پائی، قبر مکہ معظمہ میں ہے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۳ شرافت]

۱۸۔    حضرت شیخ ابو اسحاق ابراہیم بن داوٗد القصار الرَّقِی رحمۃ اللہ علیہ

اجلہ مشائخ شام سے تھے، ذو النون مصری رحمۃ اللہ علیہ اور ابو عبد اللہ جَلّا رحمۃ اللہ علیہ کو بھی دیکھا تھا فرمایا ہے۔ فیمۃ کلّ انسان بقد رھمّتہٖ فان کانت ھمّتہ الدّنیا فلا قیمۃ لہٗ وان کانت ھمّتہٗ رضٰی اللہِ فلا یمکن استدراک غایۃ قیمتہ ولا الوقوف علیہا اور فرمایا۔ دنیا سے تجھ کو دو چیزیں کافی ہیں، ایک صحبت درویش دوسری حرمت ولی، اور فرمایا، درویشوں کا کفاف توکل ہے اور تونگروں کا کفاف ملکیت  واسباب پر اعتماد کرنا، ۳۲۶ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۱۴]

۱۹۔    حضرت شیخ ابو الحسن علی بن محمد المزین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

اتقا و ورع میں بیمثل تھے، مدت تک مکہ مکرمہ میں مجاور رہے، سہل تستری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، صاحب خوارق تھے، ایک بار شیر سامنے آگیا تو پڑھا ثمّ اماتہٗ فاقبرہٗ۔ شیر اُسی جگہ مرگیا، پھر جب پہاڑ پر چڑھ گئے تو پڑھا اذا شاء انشرہ۔ تو اسی وقت شیر زندہ ہوگیا، فرمایا ہے الکلام من غیر ضرورۃ مقتٌ من اللہ تعالٰی بالعبد۔ ۳۲۸ھ میں وفات پائی، قبر مکہ مکرمہ میں ہے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۱۱]

۲۰۔    حضرت شیخ ابو محمد عبد اللہ بن محمد مرتعش نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ

نیشا  پور کے محلہ حیرہ کے رہنے والے تھے،  وہاں سے بغداد چلے آئے، ابو حفص حدّاد رحمۃ اللہ علیہ اور ابو عثمان رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت سے بھی مستفیض ہوئے، مشائخ عراق کے اماموں میں سے تھے، ہر سال ننگے پاؤں اور ننگے سر ہزار فرسنگ سفر کرتے، اور کسی جگہ دس روز سے زیادہ قیام نہ کرتے، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۴۲] تیرہ سال متواتر متوکلانہ شرف حج سے مشرف ہوتے رہے، [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد دوم ص ۱۹۳] کسی نے پوچھا تصوّف کیا ہے؟ فرمایا۔ اشکال وتلبیس وکتمان۔ کسی نے پوچھا افضل اعمال کونسا ہے؟ فرمایا۔ رویۃ فضل اللہ۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۴۳] اور فرمایا۔ ہوائے نفس کے خلاف چلنا پانی یا ہوا پر چلنے سے بہتر ہے، ۳۲۸ھ میں وفات پائی۔ قبر بغداد میں ہے۔ [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

اِن کے سلسلہ میں حضرت خواجہ ابو نصر احمد بن ابو الحسن النامقی الجامی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۵۳۶ھ) مقتدائے سلسلہ جامیہ مشہور بزرگ گذرے ہیں، وہ مرید شیخ ابو سعید فضل اللہ بن ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شب جمعہ ۴؍ شعبان ۴۴۰ھ) کے وہ مرید شیخ ابو الفضل محمد بن الحسن السّرخسی رحمۃ اللہ علیہ کے، [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲] وہ مرید طاؤس الفقرا شیخ ابو نصر سراج طوسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۷۸ھ) کے، [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲] وہ مرید شیخ ابو محمد مرتعش رحمۃ اللہ علیہ کے۔ رحمہم اللہ۔

۲۱۔    حضرت شیخ ابو یعقوب اسحاق بن محمد نہر جوری رحمۃ اللہ علیہ

علمائے مشائخ سے تھے،  ابو یعقوب موسی رحمۃ اللہ علیہ اور عمرو بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بھی رہے، کئی سال تک مکہ مکرمہ میں مجاور رہے، فرمایا ہے۔ الدنیا بحرٌ والاٰخرۃ ساحلٌ والمرکب التقوٰی والناسُ علٰی سفرٍ۔ اور فرمایا۔ من اخذ التوحید با لتقلید فھومن الطریق بعید۔ ۳۳۰ھ میں وفات پائی، قبر مکہ مکرمہ میں ہے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۸۹]

۲۲۔    حضرت شیخ ابو سعید احمد بن محمد بن زیاد الاعرابی البَصری رحمۃ اللہ علیہ

بصری الاصل تھے، مکہ مکرمہ میں مقیم رہے، شیخ الحرم تھے، عمرو بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ اور حسن مسوحی رحمۃ اللہ علیہ اور ابو جعفر حفار رحمۃ اللہ علیہ اور ابو الفتح حمال رحمۃ اللہ علیہ کے قریب ہیں، عالم و فقیہ تھے، علمِ تصوف میں کئی تصنیفیں کیں، فرمایا ہے۔ التصوّف کلہٗ ترک الفضول والمعرفۃ کلھا الاعتراف بالجھل۔ اور فرمایا۔ لا یکون الشوق الّا الی الغائب۔ ۳۴۱ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۳ شرافت]

۲۳۔    حضرت شیخ ابو محمد جعفر الحذاء رحمۃ اللہ علیہ

شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض پایا تھا، اور وہ اِن کے فضائل بیان کیا کرتے تھے، ایک دن ایک شخص صوفیوں کے لباس میں آیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب سے اِس طائفہ کے باطن خراب ہوگئے ہیں انہوں نے ظاہر کو آراستہ کر لیا ہے، ۳۴۱ھ میں وفات پائی، قبر شیراز میں ہے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۶۴]

۲۴۔    حضرت شیخ ابو الخیر حماد الاقطع التیناتی رحمۃ اللہ علیہ

توکل و تجرید میں عالی مرتبہ تھے، ابو عبد اللہ جلا رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، خلقت کے احوال پر مشرف تھے، اِن کے ہاتھ کٹے ہوئے تھے، باوجود اس کے زنبیل بافی کیا کرتے، کبھی کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ کس طرح بنتے ہیں، درندے مثل شیر وغیرہ کے اِن سے موانست رکھتے، ان سے کہا گیا سُنا ہے کہ درندے آپ سے اُنس رکھتے ہیں، فرمایا کُتے کتوں سے اُنس رکھتے ہیں، فرمایا ہے، جو شخص اپنا عمل ظاہر کرے وہ ریاکار ہے، اور جو اپنا حال ظاہر کرے وہ مدعی ہے، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۴۴] رحمۃ اللہ علیہ ۳۴۳ھ میں وفات پائی، قبر موضع تینات توابع مصر میں ہے۔ [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲]

اِن کے سلسلہ میں شیخ الاسلام شیخ ابو اسمٰعیل عبد اللہ الانصاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۹ ربیع الآخر ۴۸۱ھ) مقتدائے سلسلہ انصاریہ مشہور بزرگ گذرے ہیں، وہ مرید اپنے والد شیخ ابو منصور محمد حکیم بن علی الانصاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی شعبان ۴۳۰ھ) کے، وہ مرید شریف حمزہ عقیلی ہروری رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو الخیر تیناتی رحمۃ اللہ علیہ کے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲] رحمہم اللہ۔

۲۵۔    حضرت شیخ ابو بکر محمد بن ابراہیم مصری رحمۃ اللہ علیہ

ابو الحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، رمضان ۳۴۵ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۳۰]

۲۶۔    حضرت شیخ ابو بکر محمد بن علی بن حسین بن وہب عطوفی رحمۃ اللہ علیہ

اِنہوں نے بھی ۳۴۵ھ میں انتقال کیا، قبر رَملہ ملک شام میں ہے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۹ شرافت]

۲۷۔    حضرت شیخ ابو عمرو محمد بن ابو اسحاق ابراہیم بن یوسف بن محمد زُجاجی نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ رُویم رحمۃ اللہ علیہ اور خواص رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، چالیس سال تک کعبہ شریف کے مجاور رہے، اور کبھی حرم کی سرحدوں میں بول و براز نہ کیا، ساٹھ حج  ادا کیے، شیخ الحرم کہے جاتے تھے، [۱] [۱۔ طبقات الکبرٰے ۱۲] تیس سال تک حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کی جائے خلا کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیا، فرمایا ہے لان ینتقص من البشریّۃ شئی احب الیّ من ان من ان امشی علی الماء۔ ۳۴۸ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۳]

۲۸۔    حضرت شیخ ابو محمد جعفر بن محمد بن نصیر الخواص الخلدی رحمۃ اللہ علیہ

خلد بغداد کے ایک محلہ  کا نام ہے، وہاں حصیر بافی کیا کرتے، ابراہیم خواص رحمۃ اللہ علیہ نوری رحمۃ اللہ علیہ رویم رحمۃ اللہ علیہ، سمنون رحمۃ اللہ علیہ جریری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، اس طائفہ کے علوم سے متبحر عالم تھے، صاحب جمع کتب و تواریخ و  حکایت مشائخ تھے، فرماتے تھے کہ میں دو سو دیوان رکھتا ہوں مشائخ سے، اور دو  ہزار پیروں کو پہچانتا ہوں، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۴] اور فرماتے میں نے چھپن (۵۶) حج کیے ہیں، [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲] اِن سے پوچھا گیا عارِف کون ہیں؟ فرمایا۔ ھم ماھم ولو کانوا ھم لما کانوا ھم۔ اور فرمایا الفتوۃ احتقار النفس وتعظیم جرمۃ المسلمین۔ اور فرمایا۔ کن شریف الھمّۃ فان الھمم تبلغ بالرّجال لا المجاھدات۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۴] ۳۴۸ھ [۱] [۱۔ رسالہ قشیریہ ۱۲] میں بعمر پچانوے (۹۵) سال فوت ہوئے، قبر بغداد کے گورستان شونیزیہ میں حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ہے۔ [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲]

اِن کے سلسلہ میں حضرت شیخ علاؤ الدین طوسی رحمۃ اللہ علیہ مشہور بزرگ گذرے ہیں، وہ مرید شیخ وجیہ الدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو اسمٰعیل احمد بن محمد بن حمرۃ الصّوفی رحمۃ اللہ علیہ الملقب بہ شیخ عمو رحمۃ اللہ علیہ (متوفی رجب ۴۴۱ھ) کے، وہ مرید شیخ ابو العباس احمد بن محمد بن الفضل نہاوندی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۷۰ھ) کے، وہ مرید شیخ جعفر خُلدی رحمۃ اللہ علیہ کے، رحمہم اللہ۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت]

۲۹۔    حضرت شیخ ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن عبد الرحمٰن عطاء الرَّازی الشعرانی نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ، محمد بن الفضل رحمۃ اللہ علیہ، رویم رحمۃ اللہ علیہ، سمنون رحمۃ اللہ علیہ، ابو علی جوز جانی رحمۃ اللہ علیہ، محمد حامد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، فقیہ اور عالم علوم تصوّف تھے، حدیث میں ثقہ اور متبحر فاضل تھے فرمایا ہے، معرفت بندہ اور حق تعالیٰ کے درمیان سے حجاب اٹھا دیتی ہے، اور فرمایا۔ دنیا وہ ہے جو تجھے اللہ تعالیٰ سے محبوب کرے، اور فرمایا۔ شکایت و تنگدلی معرفت کے کم ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے، ۳۵۳ھ میں انتقال فرمایا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۷]

۳۰۔    حضرت شیخ ابو الحسن علی بن بُندار بن حسین الصوفی الصّیرفی رحمۃ اللہ علیہ

اصول تصوف کے گراں پایہ عالم، نیشا پور کے معظم ترین مشائخ سے تھے، حدیث تفسیر فقہ میں ثقہ وقت تھے، اکابر اولیاء اللہ سے صحبت رکھی، نیشا پور میں ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ اور محفوظ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا، اور سمر قند میں محمد حامد رحمۃ اللہ علیہ کو، اور جوز  جان میں ابو علی رحمۃ اللہ علیہ کو، اور رَے میں یوسف بن الحسین رحمۃ اللہ علیہ کو، اور بغداد میں رُویم رحمۃ اللہ علیہ، سمنون رحمۃ اللہ علیہ، ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ، جریری رحمۃ اللہ علیہ، کی زیارت کی، شام میں مقدسی رحمۃ اللہ علیہ اور ابن جلّا رحمۃ اللہ علیہ، ابو عمر و دمشقی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں پہنچے، اور مصر میں ابو بکر حمۃ اللہ علیہ و زَقاق رحمۃ اللہ علیہ و رود باری رحمۃ اللہ علیہ سے ملے، فرمایا ہے۔ خلقت کی مشغولی سے دور رہو کیونکہ آج مشغولی میں کوئی فائدہ نہیں، ۳۵۹ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۷۹]

اِن کا ایک بیٹا شیخ محمد رحمۃ اللہ علیہ مقبول اولیاء اللہ سے تھا۔

۳۱۔    حضرت شیخ ابو بکر محمد بن احمد بن ابراہیم مفید رحمۃ اللہ علیہ

خراسانی الاصل شہر جر جر آباد میں پیدا ہوئے، بزرگان مشائخ سے تھے، ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ اور یوسف بن الحسین رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، مودَب، شریف ہمت، مستقیم الاحوال تھے، عمر دراز پائی، ۳۶۴ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۳۶۔ سفینۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

۳۲۔    حضرت شیخ ابو عمرو اسمٰعیل بن نجید بن احمد السّلمی نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ

شیخ خراسان تھے، ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی فیض پایا، حدیث میں ثقہ تھے، روایت حدیث کیا کرتے، اِن سے پوچھا گیا وہ کیا ہے جس سے بندہ کو چارہ نہیں، فرمایا۔ ملازمۃ العبودیّۃ علیہ السّنّۃ ودوام المراقبۃ۔ اور فرمایا الانس بغیر اللہ وحشۃ۔ اور فرمایا۔ من کرمت علیہ نفسہٗ ھان علیہ دینہٗ۔ اور فرمایا۔ تربیۃ الاحسان خیر من الاحسان۔ اور فرمایا۔ رُبّ سکوتٍ ابلغ من کلامٍ۔ ۳۶۶ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۶۔ سفینۃ الاولیا ۱۲]

۳۳۔   حضرت شیخ ابو  بکر قطیعی رحمۃ اللہ علیہ

حافظ و امام بغداد تھے، حدیث میں حضرت عبد اللہ بن امام احمد حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے، حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کا کلام سنا تھا، ماہ ذی الحجہ ۳۲۸ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۳۷]

۳۴۔   حضرت شیخ ابو اسحاق ابراہیم بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ

بغداد کے اجلّہ مشائخ سے تھے، شیخ ابو عبد الرحمٰن سُلَمِی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا میرے لیے دعا کرو، فرمایا جو کچھ ازل سے تیرے اختیار کیا گیا ہے وہ معارضہ وقت سے بہتر ہے، پھر کیا مجھے کوئی وصیّت کرو، فرمایا۔ ایسا کام مت کرو جس سے بعد میں پشیمان ہونا پڑے، ۳۲۹ھ میں وفات پائی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۹۴]

۳۵۔    حضرت شیخ ابو بکر فالیز بان بخاری رحمۃ اللہ علیہ

اصحاب حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ سے عمر دراز پائی، ۳۷۰ھ میں شیخ عمو رحمۃ اللہ علیہ اِن کی زیارت کو گئے دیکھا کہ ایک حجرہ میں بیٹھے ہیں۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۹ شرافت]

۳۶۔    حضرت شیخ ابو بکر کسائی دینوری رحمۃ اللہ علیہ

قہستانِ عراق سے تھے، دینور میں رہتے، اِن کی ریاضات بہت اور سفر مشہور ہیں، حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اگر ابو بکر کسائی رحمۃ اللہ علیہ نہوتے تو  میں عراق میں نہ رہتا، آپس میں ان کے درمیان خط و کتابت تھی، انہوں نے ہزار مسئلہ پوچھا حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے سب کا جواب لکھ کر بھیجا، ابو بکر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ سوتے تو ان کے سینہ سے قرآن کی آواز سنائی دیتی، حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۸۷]

۳۷۔   حضرت شیخ ابو جعفر حفار بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

یہ حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہم عصر اور اُن کے اقران میں سے تھے، اور یہ خود اپنے آپ کو اصحاب سید الطائفہ سے شمار کرتے تھے، کسی نے پوچھا خدا کی طرف راہ کیا ہے؟ فرمایا۔ اگر وہ تیرا خریدار نہ ہوتا تو تو اُس  کا خریدار نہ ہوتا، اور اگر وہ تجھے نہ چاہتا تو تو کبھی اُس کو نہ پوچھتا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۱۵]

۳۸۔   حضرت ابو بکر احمد زَقاق کبیر بن نصر مصری رحمۃ اللہ علیہ

مصر کے اعلیٰ مشائخ میں سے تھے، فرمایا ہے، ثمن ھٰذا الطّریق روحھ الانسان اور فرمایا۔ یہ باتیں اُس کو کرنی لائق ہیں جس نے کئی سال تک خدا تعالیٰ کے واسطے جان کے ساتھ مزبلہ صاف کیا ہو، [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۳] اور فرمایا۔ جس میں فقر کے ساتھ اتقا نہیں وہ حرام کھانا کھاتا ہے، [۱] [۱۔ جنید بغدادی ص ۱۰۳] جس وقت اِن کا انتقال ہوا، ابو بکر کَتّانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا انقطع حجّۃ الفقراء فی دخولھم مصر۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۳]

اِن کے مریدوں میں سے شیخ ابو بکر زقّاق صغیر رحمۃ اللہ علیہ مشہور بزرگ ہوئے ہیں۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۳]

۳۹۔    حضرت شیخ زیاد الکبیر ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ

فقیہ مستجاب الدعوات تھے، کہمش ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں جامع مسجد میں گیا، دیکھا کہ زیاد رحمۃ اللہ علیہ محراب میں بیٹھ کر دعائے اِستسقا کر رہے ہیں، ابھی دعا پوری نہ ہوئی تھی کہ مینہ زور سے برسا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۶۰]

۴۰۔    حضرت شیخ ثابت الخَبّاز رحمۃ اللہ علیہ

رُوَیْم رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں بھی رہے، ہمیشہ اپنے پیر کی باتیں کرتے رہتے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۶۸ شرافت]

۴۱۔    حضرت شیخ غیلان السمر قندی رحمۃ اللہ علیہ

کبار مشائخ سے تھے، معارف میں کلام عالی تھا، فرمایا ہے، عارِف حق سے حق کو دیکھتا ہے، اور عالمِ دلیل سے حق کو جانتا ہے، اور صاحب وجد دلیل سے مستغنی ہوتا ہے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۹۷]

۴۲۔    حضرت شیخ ابو جعفر محمد بن عبد اللہ الفرغانی رحمۃ اللہ علیہ

نزیلِ بغداد تھے، ابو عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کے روایت کرنے والے تھے، فرمایا ہے۔ التوکّل باللّسان یورث الدّعوٰی والتوکّل بالقلب یورث المعنٰی۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۱۶]

۴۳۔   حضرت شیخ ابو بکر احمد بن محمد بن ابی سَعْدان محمد البغدادی رحمۃ اللہ علیہ

مشائخ وقت سے علوم باطن میں عالم تر تھے، ابو الحسین حدیق رحمۃ اللہ علیہ اور ابو العباس فرغانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اِس زمانہ میں صوفیوں سے دو شخصوں کے سوا کوئی نہیں، ابو علی رود باری رحمۃ اللہ علیہ مصر میں، اور ابو بکر بن ابی سعدان رحمۃ اللہ علیہ عراق میں، اور ابو بکر رحمۃ اللہ علیہ لائق تر ہیں ابو علی رحمۃ اللہ علیہ سے، فرمایا ہے۔ جو شخص صوفیوں سے محبت رکھے چاہیے کہ اُس کا دل نہ ہو، نفس نہ ہو، ملک نہ ہو، کیونکہ جب اسباب میں سے کسی چیز پر نظر رکھے گا تو مقصود کو نہ پائے گا۔ اور فرمایا۔ الصّوفی ھوالخارج عن النّعوت والرّسوم والفقیر ھوالفاقد الاسباب ففقد السّبب وجب لہٗ اسم الفقر وسھّل لہ الطّریق الی السبّب۔ اور فرمایا۔ من لّم یتطرف فی التّصوّف فھو غَبیٌّ اَے جاھلٌ۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۲۹]

اِن کے سلسلہ میں حضرت شیخ ابو الخیر اقبال حبشی طاؤس الحرمین رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۸۳ھ) [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲ شرافت] مقتدائے سلسلہ طاؤسیّہ مشہور بزرگ گذرے ہیں، وہ مرید شیخ مومل آلینا رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو بکر بن ابی سعدان رحمۃ اللہ علیہ کے۔ [۱] [۱۔ خلاصۃ السّلاسل ۱۲]

۴۴۔   حضرت شیخ ابو طالب خزرج بن علی رحمۃ اللہ علیہ

ابو عبد اللہ خفیف رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اِن کو علمتِ شکم تھی، رات کو سولہ سترہ بار اُٹھتے اور میں ہر بار ساتھ اٹھتا، اور خدمت کیا کرتا، اِن کے شیراز میں اس حد تک قبولیت تھی کہ لوگ اِن کے قدموں کی خاک کو شفائے بیماروں کے لیے لے جاتے تھے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۷۲]

اِن کے سلسلہ میں شیخ بدر الدین زاہد رحمۃ اللہ علیہ، [۱] [۱۔ یہ سلسلہ خلاصۃ السّلاسل سے نقل کیا گیا ہے ۱۲] مقتدائے سلسلہ زاہدیہ مشہور بزرگ گذرے ہیں، وہ مرید شیخ فخر الدین زاہد سمر قندی رحمۃا للہ علیہ کے، وہ مرید شیخ محمد صدر الدین روز بہان رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو بکر محمد خطیب قرشی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو اسحاق ابراہیم بن شہر یار گاذرونی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۵؍ ذیقعد ۴۲۶ھ) مقتدائے سلسلہ گاذرونیہ کے، وہ مرید شیخ ابو علی حسین بن محمد الاکّار فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے، وہ مرید شیخ ابو عبد اللہ محمد بن خفیف بن اِسفکشار الضبی الشیرازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۳۱ھ) [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲] مقتدائے سلسلہ خفیفیہ کے، وہ مرید شیخ ابو طالب خزرج کے۔ رحمہم اللہ۔

۴۵۔    حضرت شیخ ابو القاسم قصری رحمۃ اللہ علیہ

کبار اصحاتب حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ سے تھے، ہفتہ کے بعد افطار کیا کرتے، ایک مومن جن ان کی خدمت میں آیا کرتا، ایک دن کہنے لگا کہ مجلس میں جو لوگ آتے ہیں جو کچھ اُن کے سروں پر ہے دیکھتے ہو؟ انہوں نے فرمایا نہیں، اُس نے اِن کی آنکھوں کو ملا تو نظر آنے لگا ہر ایک آدمی کے سر پر ایک کوا بیٹھا ہے، پوچھا یہ کیا ہے؟ اُس جن نے کہا کہ قرآن مجید میں ہے ومن یعش عن ذکر الرّحمٰن نقیّض لہٗ شیطٰنًا فھو لہٗ قرین (الزخرف۔ ع ۴) یہ ہر ایک آدمی کے سر پر شیطان سوار ہیں۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۷۴ شرافت]

۴۶۔    حضرت شیخ ابو الحسین حکیمی رحمۃ اللہ علیہ

ایک دِن انہوں نے حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ فلان شیخ کا اقتدا کرنا چاہیے یا نہیں؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ اگر پرہیز گاری اور طلب قوتِ حلال اُس میں ہے تو اقتدا کرنا چاہیے ورنہ چھوڑ دینا چاہیے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۷۵]

۴۷۔   حضرت شیخ ابو الحسن علی بن سہل الازہر الاصفہانی رحمۃ اللہ علیہ

اصفہان کے بزرگ مشائخ سے تھے، محمد بن یوسف رحمۃ اللہ علیہ، ابو تراب نخشبی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رہی، حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اِن سے خط و کتابت رہتی، ریاضات شاقہ کرتے، بیس روز کے بعد افطار کرتے۔

ایک بار عمرو بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ کو تیس ہزار درم قرض ہوگیا، اِن کو پتہ چلا تو اُن سے مخفی ہی تمام قرض اُتار دیا، فرمایا ہے۔ اعاذنا اللہ وایّا کم من غرور حسن الاعمال مع فساد بواطن الاسرار۔ اور فرمایا۔ درویش تونگر ترینِ خلائق ہیں۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۷۱]

۴۸۔   حضرت شیخ ابو یعقوب اَقطع رحمۃ اللہ علیہ

مکہ معظمہ میں سکونت رکھتے تھے، حضرت سیّد الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ کی اِن سے خط و کتابت رہتی ابو الحسن مزین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مَیں اِن کی نزع کی حالت میں پاس گیا اور کہا ایّھا الشیخ تشہد ان لا الٰہ الّا اللہ۔ انہوں نے فرمایا ایّای تعنی بعزّۃ من لا یذوق الموت مابقی بینی وبینہ الّاحجاب العزّۃ۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۹۰ شرافت]

۴۹۔    حضرت شیخ ابو الحسین علی بن ہند الفارسی رحمۃ اللہ علیہ

کبار مشائخ فارس سے تھے، جعفر حداد رحمۃ اللہ علیہ اور عمر و بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ سے بھی صحبت رکھی، فرمایا ہے۔ اجتھد ان لا تفارق باب سیّدک بحالٍ فانّہٗ ملجاء الکلّ فمن فارق تلک السّدّۃ لا یری بعدھا قرارًا ولا مقامًا۔ اور فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن خلق یہ ہے کہ تو اُس کی شکایت نہ کرے، اور اس کے اوامر کو بطیبِ نفس و خوشنودی دل قیام کرے، اور اس کی مخلوق سے نیکی و برد باری کر لے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۵۱]

۵۰۔    حضرت شیخ ابو عمرو حماد قریشی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

بزرگانِ مشائخ سے تھے، جعفر خلدی رحمۃ اللہ علیہ اِن کے پاس جایا کرتے، ایک بار ان سے ملنے گئے، کوئی چیز گھر میں موجود نہ تھی، اپنی اہلیہ کا مقنعہ (دوپٹہ) بیچ کر کھانا لائے اور کھِلایا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۵۴]

۵۱۔    حضرت شیخ ابو یعقوب مزا بِلی رحمۃ اللہ علیہ

اِن سے پوچھا گیا تصوّف کیا ہے؟ فرمایا۔ حال تضمحل فیہا معالم الانسانیّۃ۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۹۰]

۵۲۔    حضرت شیخ عبد العزیز بُحرانی رحمۃ اللہ علیہ

قاضی ابو العباس سُریج رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھی آیا جایا کرتے، جو کچھ فتوح پہنچتی صرفِ فقرا  کر دیتے۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۱۷۵]

۵۳۔    حضرت شیخ ذُوالنون فرا فلیج مجنون رحمۃ اللہ علیہ

صاحب باطن بزرگوں سے تھے، بظاہر دیوانہ بنے رہتے، ایک دن حضرت سید الطائفہ رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ تم مجنون کیونکر ہوگئے؟ کہا میں دنیا میں قید کیا گیا تو اُس (محبوبِ حقیقی) کے فراق میں مجنون ہوگیا۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۵۷]

۵۴۔    حضرت شیخ عبد اللہ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ

اربابِ طریقت و حقیقت سے تھے، کتاب روزِ روشن میں اِن کی یہ رُباعی مذکور ہے۔        رباعی

بے تو لفسے قرار وآر امم نیست
بے چاشنی تو درجہاں کامم نیست

 

بے نامِ تو ذات و صفتِ نامم نیست
بے روئے تو صبح و زلفِ تو شامم نیست

۵۵۔    حضرت فاطمہ زینونہ رحمۃ اللہ علیہ

عارفاتِ کا ملات سے تھیں، ابو حمزہ رحمۃ اللہ علیہ اور نوری رحمۃ اللہ علیہ سے بھی مستفیض ہوئیں۔ [۱] [۱۔ نفحات الانس ص ۴۲۵ شرافت]

اِس کے علاوہ وہ بعضے مشائخ وقت جو دوسروں کے مرید تھے انہوں نے بھی حضرت سیّد الطائفہ کی ذات سے فیوض حاصل کیے، مثلاً شیخ ابو عبد اللہ احمد بن یحییٰ جَلّا رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۰۶ھ) [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲] اور شیخ ابو مزاحم شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۴۵ھ) [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا ۱۲] اور شیخ ابو بکر محمد بن داوٗد الدمشقی الدُّقِّی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۳۵۹ھ) [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲] اور شیخ مومل جصاص رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲] اور شیخ ابو عبد اللہ مکانسی رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ جنید بغدادی ۱۲] اور شیخ ابن شاہین رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ جنید بغدادی ۱۲] اور شیخ ابو محمد کہمش بن حسین ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت] اور شیخ ابو حاتم عطار رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ نفحات الانس ۱۲ شرافت] وغیرہم فیضیا بان صحبت تھے۔

سلسلہ جنیدیہ

آپ سے جو سلسلہ فقر چلا اُس کا نام صنف فقرا میں جنیدیہ کہا جاتا ہے، تاریخ الاولیا میں ہے کہ سلسلہ جنیدیہ کے درویش اکثر جنگلوں اور پہاڑوں میں گوشہ نشین رہتے ہیں، اور آدمیوں کی صحبت سے دور رہتے ہیں، اور ایک ہفتہ کے بعد فقط سبزی سے افطار کرتے ہیں، اور حیوانات کو نہ ستانا اِن کا طریقہ ہے۔ راحت القلوب میں ہے کہ طبقہ جنیدیہ میں مُدّت خلوت کی بارہ (۱۲) سال ہے۔

فوائد السّالکین میں ہے کہ اولیاء طریقہ جنیدیہ نے سلوک کا سو درجہ لکھا ہے جن میں سترواں (۷۰) درجہ کشف و کرامت کا ہے۔

واقعہ وفات

جب آپ کے وصال کا وقت قریب ہوا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے وضو کرادو، لوگوں نے وضو کرایا مگر انگلیوں کا خلال کرنا بھول گئے، آپ نے یاد کرایا تب خلال کیا، پھر آپ سجدہ میں پڑ کر زار زار رونے لگے، لوگوں نے عرض کیا اے سید طریقت! اس تمام طاعت و عبادت کے ہوتے ہوئے جو آپ آگے بھیج چکے ہیں، یہ کیا سجدہ کا وقت ہے؟ فرمایا۔ جنید رحمۃ اللہ علیہ اِس وقت سے زیادہ کسی وقت محتاج نہیں تھا، اور قرآن مجید پڑھنے لگے، ایک مرید نے کہا آپ قرآن پڑھتے ہیں؟ فرمایا اِس وقت میرے واسطے اس سے بہتر کیا ہوگا، کیونکہ وقت قریب ہے کہ میرا نامۂ اعمال طے کریں، اور میں اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہوں کہ میری ستر برس کی عبادت ہوا میں ایک بال میں لٹک رہی ہے، اور ایک ہوا اُس کو آکر ہلاتی ہے، میں نہیں جانتا کہ یہ ہوا قطعیت کی ہے یا وصلت کی، اور ایک طرف جو نظر کرتا ہوں پُل صراط ہے، اور دوسری طرف ملک الموت اور قاضی ہے جس کی صفت عدل ہے، وہ متوجہ میں راہ میرے سامنے ہے، میں نہیں جانتا کہ کہاں لے جانا چاہتے ہیں، پھر آپ نے قرآن مجید ختم کیا، اور سورہ بقرہ سے ستر آیتیں پڑھیں اور حالتِ سکرات طاری ہوئی۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

وصایائے آخرین

آپ کے مرید خاص ابو محمد جریری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کچھ وصیت فرمائیے فرمایا۔ میں جب مرجاؤں تو نہلا کفنا کے میری نماز پڑھ دینا، پھر فرمایا میرے دوستوں کے لیے دعوتِ ولیمہ کا سامان مہیا رکھنا کہ مجھے دفن کر  کے جب واپس آویں تو کھانا کھِلادیا جائے۔

حالتِ نزع میں لوگوں نے کہا فرمائیے اَللہُ۔ فرمایا مجھے یاد ہے، میں نے اُس کو فراموش نہیں کیا، پھر تسبیح انگلیوں کے پوروں پر پڑھنے لگے، جب انگشتِ شہادت پر پہنچے تو اس کو اٹھا کر فرمایا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ پھر آنکھیں بند کرلیں اور واصل بحق ہوئے۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

غسل تجہیز

غُسّال نے غسل دینے کے وقت چاہا کہ آپ کی آنکھوں میں پانی پہنچائے ہاتف نے آواز دی کہ اپنے ہاتھوں کو ہمارے دوست کی آنکھوں سے علیٰحدہ رکھ کیونکہ جو آنکھیں ہمارے نام کے ذکر میں بند ہوئی ہیں بغیر ہمارے دیدار کے وانہونگی پھر غسّال نے کوشش کی کہ انگلیاں جو شمار تسبیح کے وقت بند ہوئی تھیں کھولے نہ کھول سکا، ندا ہوئی کہ جو ہاتھ ہمارے بے نام پر بند ہوا ہے وہ ہمارے حکم کے بغیر نہ کھُلے گا۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

جنازہ

جب جنازہ اٹھایا گیا ایک سفید کبوتر آیا اور جنازہ کے ایک گوشہ پر بیٹھ گیا لوگوں نے کوشش کی کہ اُڑجائے پر وہ نہ اُڑا، اور گویا ہوا کہ مجھ کو اور اپنے آپ کو رنج مت دو، میرے پنجے مسمارِ عشق سے جنازہ کے گوشہ پر جَڑے ہوئے ہیں، اور تم جنازہ اٹھانے کی تکلیف گوارا مت کرو کیونکہ آج حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کا قالب نصیبِ کرّ و بیاں ہے، اور اگر تمہاری زحمت و غوغا کا اندیشہ نہ ہوتا تو ان کا کالبد باز سفید کی طرح ہوا میں اُڑ جاتا۔  [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

واقعات بعد از وفات

ایک شخص نے آپ کو خواب میں دیکھا، پوچھا کہ آپ نے منکر نکیر کا کیا جواب دیا، فرمایا جب وہ دونو شوکت و عظمت سے میرے پاس آئے اور کہا مَن رّبّک میں نے کہا اُس روز کہ وہ خود پوچھنے والا تھا الست بربّکم میں نے جواب دیا بَلٰی۔ اب تم پوچھتے ہو کہ تیرا خدا کون ہے؟ پس جس نے بادشاہ کا جواب دیا ہو اُس کو غلام کا کیا اندیشہ ہے، پس میں اسی کی زبان سے کہتا ہوں الّذی خلقنی فھو یھدین۔ وہ حرمت کے سبب سے چلے گئے، اور آپس میں کہتے گئے کہ یہ اب تک محبت کے نشہ میں ہے۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

ایک اور شخص نے آپ کو خواب میں دیکھا پوچھا کہ حق تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا، فرمایا مجھ پر رحمت کی، اور تمام اشارات و عبادات برباد گئے، اور کام بھی میرا اُس کے قیاس پر نہ تھا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ جہاں ہزاروں نقطہ نبوّت سر افگندہ اور خاموش ہیں وہاں میرا کیا کہنا؟  [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

جریری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ کو خواب میں دیکھا، پوچھا کہ حق تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا، فرمایا رحمت کی اور بخش دیا، اور کوئی چیز کام نہ آئی سوائے دو رکعت نماز کے جو آدھی رات کو پڑھا کرتا تھا۔  [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲  شرافت]

شیخ ابو بکر شبلی رحمۃ اللہ علیہ ایک دن مرقد مبارک کے سامنے کھڑے تھے، کسی نے اُن سے مسئلہ پوچھا انہوں نے فرمایا۔

انّی لا ستحییتُ فی التراب بیننا

 

کما کنتُ استحییتُ وھو یرانی

یعنی مجھے اِس شخص سے جو قبر میں ہے اُسی طرح شرم آتی ہے جیسا کہ وہ میری طرف دیکھتا تھا اور مجھے شرم آتی تھی۔ [۱] [۱۔ تذکرۃ الاولیا ۱۲ شرافت]

تاریخ وفات

حضرت سیّد الطائفہ شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقولِ صاحبِ رسالہ قشیریہ و نفحات الانس و سفینۃ الاولیا و تحفۃ الابرار بروز جمعہ وقت نمازِ ظہر ستائیسویں (۲۷) ماہِ رجب المرجب ۲۹۷ دوسو ستانوے ہجری مطابق ۱۱؍ اپریل ۹۱۰ء نو سو دس عیسوی میں بعہد خلافت المقتدر باللہ جعفر بن المعتضد خلیفہ ہژ دہم (۱۸) عبّاسی کے ہوئی۔

مدفن پاک

آپ دوسرے دن بروز ہفتہ اپنے پیر روشن ضمیر حضرت شیخ سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں مدفون ہوئے، مزار پر انوار بغداد شریف گورستان شونیزیہ میں ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔

مرثیہ

طبقات الکبرٰے میں بروایت جُریری رحمۃ اللہ علیہ منقول ہے کہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے پڑوس میں ایک گھوڑا تھا، جہاں ایک مجنون پڑا رہتا تھا، جنازہ کے ساتھ وہ بھی قبرستان میں گیا، بعد دفن جب ہم پلٹے تو وہ بڑھ کر ایک ٹیلے پر چڑھ گیا، اور مجھ سے کہا اے ابو محمد جریری رحمۃ اللہ علیہ! کہا تمہارا خیال ہے کہ اپنے اس سردار کو ہاتھ سے کھونے کے بعد میں پھر اس گھورے پر جاؤں گا؟ اس کے بعد یہ اشعار پڑھے۔      ؎

وا اسفا من فراق قوم
والمدن والمزن والرّواسی
لم تتغیّر لنا اللّیالی
فکل جمر لنا قلوب

 

ھم المصابیح والحصون
والخیر والا من والسّکون
حتّٰی توفتھم المنون
وکلّ ماء لنا عیون

یہ اشعار ختم کرتے ہی وہ ایک طرف بھاگا اور چلا گیا، اس کے بعد کبھی اس کی صورت دکھائی نہ دی۔

قطعہ تاریخ

از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ

سید الطائفہ جنید ولی
سالِ ترحیل پیر نوشاہی

 

شد بجنت زُخر نہا محروس
گفت ہاتف ز واصلِ قدّوس (۲۹۷)

منہ

رحلتِ پیر خواں بصد شادی

 

سیّد الطایفہ (۲۹۷) جنید ہادی

منہ

وصالِ پیر کہ بود آں منیر ہمچوں ماہ

 

حبیب زاہد (۲۹۷) زاہد علامہ ولی اللہ

منہ

بجنت چو حضرت نمودہ ورود

 

ز وصلش بخواں نور طیّب (۲۹۷) ودود

منہ

پیشوائے ما چو رفت اندر جناں

 

وصل گفتم ہادی و پیر (۲۹۷) جہاں

منہ

چوں ز دنیا گذشت پیر منیب

 

سالِ رحلت ولی (۲۹۷) بزرگ حبیب

منہ

رفت در عدن پیرِ ما مکرم

 

رحلتِ شیخ کامل و منعم (۲۹۷)

منہ

درجناں شد بہ پیر فضلِ جلی

 

رحلتِ پیر خواں امیر ولی (۲۹۷)

دیگر

از اسماء الحسنیٰ

اکرم الٰہ (۲۹۷)          کبیر دیّان (۲۹۷)         صانع بدیع (۲۹۷)

مقسط حلیم (۲۹۷)      مالک جبّار (۲۹۷)                مقدّم باقی (۲۹۷)

معز سمیع (۲۹۷)         مومن مانع (۲۹۷)                عفوّمنّان (۲۹۷)

قیّوم منّان  (۲۹۷)

(شریف التواریخ)

------------------------

کنیت ابوالقاسم۔ لقب :سیّد الطائفہ ،و طاؤس العلماء ،وقواریری ،و زجاج تھا۔

قواریری و زجاج آپ کو اِس وجہ سے کہتے ہیں کہ آپ کے والد محمد بن جنید آبگینہ فروش تھے نہاوند کے رہنے والے تھے لیکن حضرت جنید﷫ کا مولدد منشاء بغداد تھا۔ حضرت سفیان ثوری[1]﷫ کے مذہب کے پیروکار  تھے۔ حضرت سری سقطی﷫  کےبھانجے تھے اور انھی سے بیعت بھی تھے۔ حضرت ردیم[2]، حضرت شیخ ابوالحسن[3] نوری﷫، حضرت شیخ ابوبکر شبلی﷫ (آپ کا ذکر آگے آئے گا)۔

اور اسی طرح دوسرے مشائخ اپنے سلسلوں کو اُن کی طرف نسبت کر کے درست کرتے ہیں۔ آپ سے نسبت رکھنے والوں کو جنید یہ کہتے ہیں۔ حضرت مخدوم علی ہجویری کشف المحجوب میں فرماتے ہیں: ایک روز کسی نے شیخ سری سقطی ﷫ سے پُوچھا: کیا کسی مرید کا درجہ اپنے پیرومرشد سے بڑھ سکتا ہے۔‘‘ فرمایا: ’’ہاں کیوں نہیں۔ اور یہ ظاہر دلیل ہے کہ جنید بغدادی﷫ کا درجہ مجھ سے بہت بلند ہے۔‘‘

خلیفۂ بغداد نے ایک روز حضرت ردیم﷫  ﷫ کو بے ادب کہا۔آپ نے کہا سبحان اللہ بھلا میں کس طرح بے ادب ہوسکتا ہوں جبکہ اپنا نصف دن حضرت جنید قدس سرہٗ کی صحبت میں گزارتا      ہوں۔

شیخ ابو جعفر حداد﷫ فرماتے ہیں: اگر عقل مرد ہوتی تو جنید کی صورت پر ہوتی۔آپ نے کامل تیس سال تک عشا کی نماز پڑھ کر اور ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر اللہ اللہ کیا ہے اور اسی عشا کی نماز کے وضو سے نمازِ صبح ادا کی ہے۔ صاحب تذکرۃ الاولیا لکھتے ہیں۔ حضرت جنید قدس سرہٗ نے فرمایا: بزرگوں میں سے ایک بزرگ نے حضرت رسول مقبول ﷺ کو خواب میں دیکھا کہ آپ تشریف فرما ہیں۔ حضرت جنید﷫ سامنے حاضر ہیں۔ ایک شخص نے آکر فتویٰ طلب کیا۔ آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ جنید﷫ سے فتویٰ لو۔ اس شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ آپ کی موجودگی میں دوسرے سے فتویٰ کیوں لُوں ۔ فرمایا: ‘‘تمام انبیاء کو جس طرح اپنی اپنی امت پر فخر و مباہات ہوتا ہے  اسیطرح  مجھے اپنے جنید﷫ پر فخر ہے’’

شیخ جنید﷫ نہ سماع سنتے تھے نہ وجد کرتے تھے۔ بہ ظاہر و باطن بشرع مقدس آراستہ و پیراستہ تھے۔ ایک روز مجلس میں توحید کے متعلق کلام فرما رہے تھے کہ ایک مرید نے نعرہ لگایا۔ شیخ نے اسے منع کیا اور کہا اگر تو نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو تجھے مہجور کر دوں گا۔ یہ کہہ کر پھر اپنے کلام میں مشغول ہوگئے۔ اس نوجوان میں تابِِ ضبط نہ تھی۔ دوبارہ نعرہ لگایا۔ شیخ جنید﷫ نے اُس کی طرف نگاہِ غضب  سے دیکھا۔ وُہ اسی وقت ہلاک ہوگیا۔ لوگوں نے جاکر دیکھا تو وُہ جل کر راکھ ہوچکا تھا۔

ابتدا ٔے احوال میں ایک روز شیخ جنید﷫ مدرسے سے گھر آئے۔ دیکھا کہ والد رو رہے ہیں۔ سبب پوچھا۔ کہا کہ تمہارے خالو شیخ سری سقطی﷫ کے پاس حصۂ مالِ زکوٰۃ لے کر گیاتھا۔ انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اس پر گریہ کر رہا ہوں کہ جس مال کے لیے عمرِ عزیز ضائع کردی وہ دوستانِ خدا کے لیے قابلِ قبول بھی نہیں۔ شیخ جنید﷫ نے کہا: مجھے دیجیے میں جاکر دیتا ہوں۔ شیخ نے مالِ زکوٰۃ لیا اور دروازۂ شیخ سقطی﷫ پر جاکر دستک دی۔ اندر سے پوچھا کون ہے؟ کہا جنید﷫۔ پوچھا کیوں آئے! کہا یہ مالِ زکوٰۃ لے لیجیے۔ شیخ نے جواب دیا: ہرگز نہ لوں گا۔ حضرت جنید﷫ نے کہا: اسے خدا کے لیے لے لیجیے۔ جس نے آپ پر فضل اور میرے باپ پر عدل کیا۔

فرمایا: اے جنید! خدا نے مجھ پر کیا فضل کیا؟ اور تیرے باپ پر کیا عدل کیا؟۔شیخ جنید﷫ نے کہا: خدا نے آپ پر یہ فضل کیا کہ آپ کو درویشی اور ترکِ دنیا عطا کی اور میرے باپ کے ساتھ یہ عدل کیا کہ اسے دنیوی کاروبار میں مشغول کردیا۔ اب آپ کو اختیار ہے کہ اسے قبول کریں یا نہ کریں اور میرا باپ چاہے نہ چاہے مگر زکٰوۃ کا ادا کرنا اس پر حکماً فرض ہے۔ اس لیے کہ یہ مال حقداروں کا حصّہ ہے اور اس کا یہ فرض ہے کہ یہ مال ان تک پہنچائے۔ شیخ سری﷫ اس پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا: اے بیٹا میرے پاس آ۔ اس سے پہلے کہ میں یہ مال قبول کروں تجھے قبول کرتا ہوں۔ پس دروازہ کھولا اور مرحبا کہا۔ اور شیخ جنید﷫ کو اپنے دامن میں جگہ دی۔

ایک دفعہ شیخ سری﷫ حضرت جنید﷫ کو اپنے ساتھ حج کے لیے لے گئے جبکہ ان کی عمر ابھی آٹھ برس کی تھی۔ وہاں جاکر دیکھا کہ حرم شریف میں چار سو پیرانِ روشن ضمیر بیٹھے مسئلہ شکر پر بحث کر رہے ہیں۔ ہر بزرگ ادائے حقِ شکر میں تقریر کررہا ہے۔ شیخ سری﷫ نے حضرت جنید سے کہا: اے نورالعین! تو بھی اس مسئلہ کے متعلق کچھ کہہ۔ شیخ جنید﷫ نے سر اٹھایا اور کہا: شکر یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کو گناہ میں خرچ نہ کرے اور اسے معصیت سازی کا سبب نہ بنائے۔ تمام حاضرین نے آفرین و تحسین کہی اور آپ کے اس قول پر اتفاق کیا۔

حضرت جنید﷫ کے اقوالِ توحید جب زبان زدِ خاص و عام ہوئے تو مخالفانِ شیخ نے خلیفہ سے شکایت کی کہ شیخ جنید﷫ ایسی باتیں کرتا ہے کہ جن کو عقل قبول نہیں کرتی۔ ایسے فتنہ انگیز کو درمیان سے ہٹا دینا چائیے۔ خلیفہ نے کہا: حجتِ شرعی کے بغیر یہ کام مشکل ہے۔ آخر اس کے لیے ایک حیلہ پیدا کیا گیا۔ خلیفہ کے پاس ایک نہایت ہی حسین و جمیل کنیز تھی اُسے مزید بناؤ سنگار کے ساتھ شیخ کے پاس یہ سبق پڑھا کر بھیجا کہ اپنے حسن و جمال، نازو کرشمہ اور تحریصِ مال و دولت سے شیخ کو اپنے پر مائل کرنے میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھے۔ چنانچہ وُہ خدمتِ شیخ میں حاضر ہوئی اور عرض کی کہ میرے پاس بڑا زر و مال ہے۔ چاہتی ہوں کہ یہ مال و دولت آپ پر نثار کرکے تمام عمر خدمت میں گزار دوں۔ مجھے قبول فرمائیے۔ شیخ نے کوئی توجہ نہ دی۔ اس کنیز نے اپنے حسنِ دل فریب اور عشوہ و غمزہ سے شیخ کو اپنے دامِ مکرو فریب میں لانے کی بڑی کوشش کی مگر شیخ نے نظر اٹھاکر بھی اس کی جانب نہ دیکھا۔ جب اس کا عجزوانکسار حد سے بڑھ گیا تو شیخ نے اپنے دِلِ پر سوز سے آہ آہ تین بار کہا۔ شیخ کی آہِ سوزاں کی چنگاریوں سے کنیز کو آگ لگ گئی اور وہ چشمِ زدن میں جل کر خاکستر ہوگئی۔ خادمہ جو کنیز کے ساتھ آئی ہوئی تھی یہ حال دیکھ کر خلیفہ کے پاس بھاگی بھاگی گئی اور تمام حالات بیان کیے۔ خلیفہ یہ سن کر خدمتِ شیخ میں حاضر ہُوا اور کہا: اے شیخ تو نے اس خُوب رُوکنیز کو جلا کر راکھ کر ڈالا ہے۔ ایسے ظلم کی توقع آپ سے نہ تھی۔ شیخ نے فرمایا: تُو چاہتا تھا کہ میری چالیس سالہ ریاضت و عبادت تباہ و برباد ہوجائے۔ تم دونوں نے اپنا کیا پا لیا۔ اس وقت رحم و شفقت خود میرے حال پر ظلمِ عظیم تھا۔

شیخ جنید﷫ نے جب علومِ ظاہر و باطن میں تکمیل کرلی تو شیخ سری﷫ نے انھیں وعظ و نصیحت کی اجازت دی مگر شیخ جنید﷫ نے اپنے مرشد کے سامنے وعظ کہنا ترکِ ادب و گستاخی پر محمول کر کے وعظ نہ کہا۔ ایک رات شیخ جنید﷫ نے حضرت رسالت مآبﷺ کو خواب میں دیکھا کہ حضور فرماتے ہیں: اے جنید تو وعظ کیوں نہیں کہتا۔ اللہ تعالیٰ نے تیری زبان میں بڑی تاثیر دی ہے۔ صبح کو شیخ جنید﷫ جب خدمتِ مرشد میں حاضر ہوئے دیکھا کہ شیخ سری﷫ دروازے میں کھڑے ہیں۔ شیخ جنید﷫ کو دیکھتے ہوئے فرمایا: اے جنید﷫ میں نے نہ کہا کہ لوگوں سے کلام کرو۔ پس اب رسول اللہﷺ کے حکم کے مطابق لوگوں سے کلام کرو۔ چنانچہ شیخ جنید﷫ کی پہلی مجلس میں جالیس آدمی حاضر ہوئے جن میں سے سترہ شیخ کی تاثیرِ کلام سے جاں بحق ہوگئے اور بیس بے ہوش ہوگئے۔

حسین بن منصور حلاج حضرت شیخ عمر[4] بن عثمان مکی الصوفی سے غلبۂ حال میں اظہارِ بیزاری کرکے شیخ جنید ﷫کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا: اے حسین تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جو تم نے شیخ عمر بن عثمان مکی اور سہیل بن عبداللہ تستری[5] سے سلوک کیا ہے۔

حسین﷫ نے کہا: صحوو سکر دو وصف ہیں۔ بندہ کو ہمیشہ وصفِ خدا میں فانی ہونا چاہیے۔ شیخ نے فرمایا: اے پسرِ منصور﷫ تو غلطی پر ہے صحوِ حق کے ساتھ صحتِ حال ہے۔ اے منصور﷫ کے بیٹے! میں تیرے کلام میں بڑی فضول اوربے معنی عبارت دیکھتا ہوں۔ مجھے اس کا انجام نیک نظر نہیں آتا۔

فرمایا: میرے دل میں آرزو تھی کہ ابلیس کو دیکھوں۔ پس ایک روز میں مسجد سے باہر آرہا تھا دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص میری طرف آرہا ہے۔ جب وُہ میرے قریب پہنچا تو مجھے اُس سے وحشت آئی۔ میں نے اس سے پوچھا:تُو کون ہے؟ اس نے کہا: جس سے ملنے کی تمہیں آرزو تھی۔ میں نے کہا: اے ملعون! کس چیز نے تجھے آدم کو سجدہ نہ کرنے دیا۔ وحدتِ حق تعالیٰ میں نے نہ چاہا کہ غیر اللہ کو سجدہ کروں۔ میں اس کے جواب سے متحیر ہوا۔ میں ابھی اسے جواب دینے نہ پایا تھا کہ ندائے غیبی آئی: ’’اے جنید! اسے کہو کہ تم جُھوٹ بولتے ہو۔ اگر میرے بندے ہوتے تو میرے حکم سے سرتابی نہ کرتے۔‘‘ ابلیس نے جب یہ ندا سُنی تو نعرہ مارا اور کہا: اے جنید! خدا کی قسم تُونے مجھے جلا ڈالا اور غائب ہوگیا۔

شیخ جنید کے مریدوں میں سے ایک مرید نے آبادی سے کہیں دور ایک ویرانے میں عبادت خانہ بنایا اور وہیں اہل دنیا سے کنارہ کش ہوکر رہنا شروع کیا۔ حتّٰی کہ ہر رات اُس کے پاس ایک اونٹ لایا جاتا اور لانے والے کہتے کہ ہم آسمانی فرشتے ہیں۔ آپ اِس اُونٹ پر سوار ہوجائیے۔ ہم آپ کو بہشت کی سیر کرائیں گے۔ وُہ اس اونٹ پر سوار ہوگیا۔ اسے مقاماتِ دلکش کی سیر کرائی گئی۔ جہاں گل ہائے رنگارنگ تھے۔ آبِِ رواں تھا۔ صورت ہائے زیباتھیں۔ رات بھر وُہ اس پُر فضا مقام کی گل گشت کرتا۔ صبح کو پھر اپنے اُسی مقام پر آجاتا۔ یہ سلسلہ تادیر قائم رہا۔ اِس چیز نے اُس کے دماغ میں رعونت پیدا کردی اور وُہ متکبّر و مغرور ہوگیا۔

رفتہ رفتہ یہ خبر شیخ جنید﷫ کےکانوں تک پہنچی۔ آپ وہاں تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ مغرورانہ بیٹھا ہوا ہے شیخ نے تمام احوال پوچھے۔ اس نے سب کچھ اسی طرح بتایا۔ شیخ نے کہا آج رات جب تو وہاں جائے تو تین بار لاحول پڑھنا۔ رات کو حسبِ معمول اسے انہی مقامات کی سیر کرائی گئی۔ اس نے برأے امتحان کلمۂ لاحول پڑھا۔ شیاطین جو اس کام کے موکل تھے فرار ہوگئے۔ وہ تنہا رہ گیا اور اپنے آپ کو ایسی گندگی کے ڈھیر پر پایا جس کی عفونت سے دماغ پھٹا جاتا تھا۔ آس پاس مردار جانوروں کی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ اپنی غلطی سے آگاہ ہوکر بے حد پشیمان ہوا توبہ کی اور دوبارہ خدمتِ شیخ میں رہنے لگا۔ ایک بار شیخ کے ایک مرید سے کوئی بے ادبی سرزد ہوگئی۔ وہ مارے ندامت کے باہر چلا گیا۔ اتفاقاً راستے میں شیخ سے دوچار ہوگیا۔ شیخ کی نظر اس پر پڑگئی۔ وہ ہیبت سے ایسا گرا کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ چند قطرے خون کے زمین پر گرے جن سے لفظِ اللہ لکھا گیا۔ شیخ نے جب یہ دیکھا تو کہا: اچھا میرے سامنے جلوہ گری کرتا ہے۔ خدا کی قسم یہ بچّے جو میرے سامنے کھیل رہے ہیں اس مقام میں تیرے برابر ہیں۔ شیخ کی یہ بات اُس پر نہایت سخت گزری حتّٰی کہ جاں بحق ہوگیا۔

بصرہ میں شیخ جنید کا ایک مرید رہتا تھا۔ ایک روز اس کے دل میں خطرۂ گناہ گزار جس سے اس کا چہرہ سیاہ ہوگیا۔ آئینہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ہر چند کوشش کی مگر چہرے کی سیاہی دُور نہ ہوئی۔ تین روز اسی طرح گزر گئے۔ پھر سیاہی آہستہ آہستہ دُور ہونی شروع ہوئی اور چند روز میں چہرہ بالکل سفید ہوگیا۔ شیخ کا ایک خط اس کے نام پہنچا کہ بارگاہِ رب العزت میں با ادب کیوں نہیں رہتے۔ مجھے چند روز سے دھوبی بننا پڑگیا ہے تاکہ تیرے چہرے کی سیاہی سفیدی میں تبدیل ہوجائے۔

شیخ جنید کے آٹھ مرید تھے جو سب کے سب ولایت میں کامل و اکمل تھے ایک روز انہوں نے خدمتِ شیخ میں عرض کی: اے شیخ شہادت ایک عجیب نعمتِ جانفزا ہے۔ اسے حاصل کرنا چاہیے۔ شیخ نے ان کی تائید کی اور ان کے ساتھ ملکِ روم کی طرف جہاد کے لیے چل پڑے۔ ایک جگہ کفار سے مقابلہ ہوگیا۔ ایک گبر (آتش پرست) کے ہاتھوں شیخ کے آٹھوں مرید ایک ایک کرکے شہید ہوگئے۔ شیخ فرماتے ہیں میں نے اس وقت ہوا میں نوکجاوے معلق دیکھے۔ میرے ساتھیوں میں سے جو شہید ہوتا تھا اس کی روح ایک کجاوے میں رکھتے اور آسمان کی طرف لے جاتے۔ آخر ایک کجاوہ باقی رہ گیا۔ میں نے یہ کہا یہ میرے لیے ہے۔ جنگ میں مشغول ہوگیا۔ دورانِ جنگ میں وہ گبر جس نے میرے ساتھیوں کو شہید کیا تھا، میرے پاس آیا اور کہا: اے ابوالقاسم! یہ آخری کجاوہ میرے لیے ہے تو بغداد واپس چلا جا۔ اپنی قوم کی قیادت و سیادت کر اور اپنا مذہب میرے سامنے پیش کر۔ میں نے اسے تلقینِ اسلام کی۔ وہ مشرف بہ اسلام ہوکر کفار سے لڑتا ہوا شہید ہوا۔ میں نے دیکھا کہ اس آخری کجاوے میں اس کی رُوح رکھ کر آسمان کی طرف لے گئے ہیں۔

ایک شخص نے شیخ سے دریافت کیا: ‘‘دل کس وقت خوش رہتا ہے۔’’

فرمایا: ‘‘جس وقت خدا دل میں جلوہ گر ہو’’۔

فرمایا:مرد کو مردانہ خصلت اختیار کرنی چاہیے اور شبہات و وہم میں گرفتار نہیں ہونا چاہیے۔

فرمایا: جس نے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی، وہ کبھی شاد نہیں رہ سکتا۔ وقت سے زیادہ کوئی قیمتی شے نہیں۔ جب یہ گزر جاتا ہے تو پھر اسے حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

فرمایا: جوان مردی یہ ہے کہ اپنا بوجھ دوسروں پر نہ ڈالا جائے اور جو کچھ پاس ہو اُسے راہِ خدا میں دے دیا جائے۔

فرمایا: خُلق چار چیزیں ہیں:

۱۔ سخاوت                ۲۔ الفت

۳۔ نصیحت                   ۴۔ شفقت۔

کسی نے پوچھا: کسِ شخص کی صحبت اختیار کریں؟

فرمایا: جو تیرے ساتھ نیکی کرکے بھلادے۔

کسی نے بندہ کی تعریف پوچھی۔ فرمایا: جو دوسروں کی بندگی سے آزاد ہو۔

پوچھا گیا: خدا تک پہنچنے کا راستہ کون سا ہے؟

فرمایا: ترکِ دنیا اختیار کر۔ نفس کے خلاف کر۔ خدا تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ بروز شنبہ ۲۷؍رجب ۲۹۷ھ میں وفات پائی۔ مزارِ اقدس بغداد میں زیارت گاہِ خلق ہے۔ بیان کیا جاتا ہے جب آپ کی وفات کا وقت قریب پہنچا۔ آپ کی زبان پر تسبیح جاری تھی چار انگلیوں کو باندھے ہُوئے تھے۔ بڑی انگلی کھولے ہوئے تھے۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھی آنکھیں بند کیں اور واصلِ بحق ہوگئے۔

غسال نے چاہا کہ آنکھوں کے اندر پانی ڈالے۔ ندائے غیبی آئی۔ ہمارے دوست کی آنکھوں سے اپنے ہاتھ کو الگ رکھ۔ جو آنکھ ہمارا نام لے کر بند ہُوئی ہے وہ ہمارے لیے ہی کھولی جاسکتی ہے۔

غسال نے چاہا کہ آپ کی انگلیوں کو کھول کر سیدھا کر دے۔ پھر ندا آئی۔ جو انگلیاں ہمارا نام لے کر بند ہوئی ہیں وہ ہمارے حکم ہی سے کھل سکتی ہیں۔ جب آپ کا جنازہ اٹھایاگیا تو ایک سفید کبوتر جنازہ پر آکر بیٹھ گیا۔ اسے ہر چند اڑانا چاہا مگر وہ نہ اڑا اور کہنے لگا اپنے آپ کو اور مجھے پریشان نہ کرو۔ میرے پنجے عشق کی میخوں سے اس جنازہ کے گوشوں پر جمے ہوئے ہیں آج جنید﷫ کا قالب فرشتوں کے دوش پر ہے۔ اگر تمہارا شور و غل نہ ہوتا تو جنید﷫ کا جسم سفید باز کی طرح ہمارے ساتھ ہوا میں اڑتا۔ پھر وُہ کبوتر جو دفن کے وقت جنازہ کے اُوپر تھا، غائب ہوگیا۔

قطعۂ تاریخِ وفات:

سید الطائفہ ولئیِ زماں!
رفت چوں ازجہاں بباغِ جناں!

 

یعنی حضرت جنید﷫ عالیشاں
نامور گشت سالِ رحلت آں
۲۹۷ھ

 

[1]۔ سفیان نام۔ ابو عبداللہ کنیت۔ باپ کا نام سعید تھا۔ کوفہ کے رہنے والے تھے۔ بزرگانِ وقت آپ کو امیرالمومنین و امام المسلمین کہا کرتے تھے۔ اپنے وقت کے اکابر علما و صلحا سے تعلیم و تربیت پائی تھی۔ حضرت ابو بکر صدیق اکبر   کے اویسی تھے۔ علومِ ظاہری و باطنی میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ بڑے انیس و شفیق تھے طبع میں بے حد سوزوگداز تھا۔ اپنے آپ کو ثوری یعنی چار پایہ کہا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک روز مسجد میں انتہائے استغراق کے باعث بایاں پاؤں رکھا۔ غیب سے ندا آئی۔ سفیان شاید تو چوپایہ ہے۔ سنتے ہی حالتِ محو میں آگئے اور داڑھی پکڑ کر اپنے منہ پر طمانچہ مارا اور کہا کہ مسجد میں با ادب قدم نہ رکھنے کی وجہ سے تیرا حیوانوں کے زمرے میں نام آگیا۔ ہوش کر۔ ۱۶۱ء میں وفات پائی۔

[2]۔ کنیت ابو محمد اور ابوالحسن تھی۔ باپ کا نام احمد بن یزید بن ردیم تھا۔ اصل وطن بغداد تھا۔ جید عالم اور فقیہ تھے۔ علومِ ظاہر و باطن میں مہارت کامل حاصل تھی۔ حضرت جنید بغدادی کے مریدِ کامل اور شاگردِ رشید تھے خواجہ عبداللہ انصاری فرماتے ہیں: اگرچہ ردیم خود کو جنید کا شاگرد بتاتے تھے مگر آپ اپنے استاد سے زیادہ کامل  تھے۔ میں ان کے ایک بال کو بھی ایک سو جنید سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں۔ حضرت جنید فرماتے ہیں: ہم فارغ ہوتے ہوئے بھی مشغول ہیں اور ردیم مشغول بھی فارغ ہے۔ ۳۰۳ھ میں وفات پائی۔ مزار بغداد میں شونیز کے مقام پر ہے۔

[3]۔ نام احمد بن محمد اور لقب نوری ہے۔ آپ کے آباو اجداد بفشور کے رہنے والے تھے جو ہرات اور مرد کے درمیان واقع ہے مگر آپ کا مولد بغداد ہے۔ شیخ سری سقطی کے مرید اور سید الطائفہ جنید کے ہم عصر ہیں۔ راہِ طریقت میں مجتہد اور صاحب مذہب گزرے ہیں۔ آپ کے طریقہ کو طریقۂ نوریہ کہتے ہیں۔ آپ کو نوری اس وجہ سے کہتے ہیں۔ جب آپ کسی تاریک مکان میں گفتگو کرتے تو آپ کے باطنی نور سے وہ گھر روشن ہوجاتا تھا اور اُس نورِ حق کی وجہ سے مریدوں کے اسرار پر مطلع ہوجاتے۔ آپ کا ارشاد ہے جس نے خدا کو دنیا میں نہیں پہچانا وُہ آخرت میں بھی اُسے نہ پہنچان سکے گا۔ ۲۹۵ھ میں وفات پائی۔ ‘‘سیددیں بوالحسن’’ آپ کی تاریخ وفات ہے۔

[4]۔ ابو عبداللہ کنیت۔ یمن کے رہنے والے اکابر سادات سے تھے۔ تمام عمر مکہ میں گزاری تھی اس لیے مکی مشہور ہوئے۔ سیدالطائفہ شیخ جنید بغدادی کے مرید اور حسین بن منصور حلاج کے استاد تھے۔ علومِ حقائق و معارف میں بڑے پایہ کے عالم تھے۔ آپ کا کلام جب باریک و گہرا ہوا تو لوگوں نے آپ سے قطع تعلق کرلیا۔حتّٰی کہ مکّہ سے بھی نکال دیا۔ جب آپ جدّہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے انہیں اپنا قاضی بنالیا۔ کہا جاتا ہے حسین بن منصور حلاج پر جو کچھ آیا وہ انہی کی دعا کا اثر تھا کہ انہیں رنج پہنچایا تھا۔ ۲۹۷ء میں وفات پائی۔‘‘منور اور نامور‘‘ آپ کی تاریخِ وفات ہے۔

[5]۔ کنیت ابو محمد ہے ۔ مذہباً حنفی تھے۔ حضرت ذوالنون}ابو عبداللہ کنیت ہے۔ بصرہ کے رہنے والے تھے۔ مگر اصول وطن اقلیم مصر ہے۔ امام مالک کے شاگرد تھے۔ آپ کا شمار متقدمین علما و مشائخ میں ہوتا ہے۔ توحیدو تجرید میں یکتائے روزگار، عارفِ کامل اور صاحبِ کشف و کرامت تھے۔ آپ کا ارشاد ہے راہِ راست پر وُہ ہے جو خدا سے ڈرتا ہے۔ جب خدا کا ڈر اٹھ گیا تو راہِ راست سے بھٹک گیا۔ فرمایا: خدا کی محبت کی علامت یہ ہے کہ خدا کے حبیبﷺ کے اخلاق و افعال اور امرو سنت سب میں پوری اتباع کی جائے۔ فرمایا: عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور خواص کی توبہ غفلت سے ۲۴۰۰ھ میں وفات پائی۔ مرقد مصر میں ہے۔{مصری کے مرید ہیں۔ عراق کے مشائخِ عظام اور علمائے کبار سے تھے۔ حقیقت و شریعت کے جامع تھے۔ طریقۂ سبیلہ آپ کی طرف منسوب ہے۔ اس طریقہ کی بناء اجتہاد اور مجاہدہ پر ہے۔ فرمایا بدبختی کی علامت یہ ہے کہ علم ملے لیکن عمل کی توفیق نہ ہو۔ فرمایا: جہالت سے بڑھ کر کوئی معصیت زیادہ بُری نہیں۔ بڑی کرامت یہ ہے کہ اپنی بُری عادتوں کو اچھی عادتوں میں تبدیل کردو۔ خدا کی غفلت سے بڑھ کر کوئی معصیت نہیں۔ ۲۸۳ھ میں وفات پائی۔ ‘‘صدیقِ ہادیِ جہاں’’ تاریخِ وفات ہے۔

تجویزوآراء