حضرت شیخ مادھو لال لاہوری

حضرت شیخ مادھو لال لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ شیخ حسین لاہوری کے خلفاء ارجمند اور محبوبانِ دل پسند میں شمار ہوتے ہیں۔ بڑے صاحب عشق و محبّت اور واقفِ ذوق و شوق تھے۔ آپ کے حالات کتاب حقیقتہ الفقراء میں یُوں درج ہیں کہ ایک برہمن کے لڑکے تھے جو شاہد رہ (نزد لاہور) میں رہتا تھا اور بڑے صاحبِ جمال اور خوش شکل تھے۔ ایک دن گھوڑے پر سوار گزر رہے تھے کہ شاہ حسین کی نگاہ ان کے جمال و حسن پر جاپڑی اور ان کے عشق مجازی نے شاہ حسین کا دل چھین لیا۔ چنانچہ شاہ حسین لاہور چھوڑ کر شاہد رہ میں قیام پذیر ہوگئے۔ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ساری رات دیوانہ وار مادھو کے مکان کا طواف کرتے اور دن کے وقت جہاں سے خبر آتی کہ مادھو فلاں جگہ ہے، بسر و چشم چلے جاتے۔ مادھو تو آپ کے اس عشق جہاں سوز سے بے تعلق تھا اور بڑی بے اعتنائی اور بے نیازی سے رہتا۔ البتہ رات کے وقت اپنے گھر والوں سے جو راز وارانہ باتیں کرتا، شیخ حسین علی الصبح بازار میں فاش کردیتے۔ ان حالات نے حسین لاہوری کے عشق کو زمانہ بھر میں مشہور کردیا اور لوگوں نے اس عشق کی کئی کہانیاں بنانا شروع کردیں۔ ’’القلب یہدی الی القلب‘‘ کے پیش نظر شاہ حسین﷫ کی محبت کے اثرات مادھو لال کے دل پر وار ہونے لگے اور کبھی کبھی شاہ حسین﷫ کو ملنے کے لیے آنے لگے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہر وقت شاہ حسین﷫ کی خدمت  میں حاضر رہنے لگے اور جدائی پسند نہ کرتے تھے۔ مادھو لال کے والدین کو اس صورت حال سے بڑی کوفت ہوتی اور اپنے بچے کو شاہ حسین﷫ کے پاس جانے سے روکتے۔ لیکن ان پر اس بات کا کچھ اثر نہ ہوتا۔ بالآخر والدین کو یہ تدبیر سُوجھی کہ مادھو کو کہا: ہم دریائے گنگا پر غسل کرنے جارہے ہیں تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ مادھو شاہ حسین﷫ کے پاس اجازت کے لیے آئے تو آپ نے فرمایا کہ والدین کو کہہ دو، ’’تم گنگا کے غسل کے لیے چلے جاؤ، بوقتِ غسل میں وہاں موجود ہوں گا۔‘‘

مادھو بھی شیخ حسین﷫ کی اس کرامت کے مظاہرے کے لیے لاہور میں رہ گئے۔ جس دن اس کے والدین غسل کے لیے گنگا میں اترے تو ادھر مادھو شاہ حسین﷫ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے: مجھے گنگا میں غسل کے لیے وہاں پہنچایا جائے۔ چنانچہ اس دن شاہ حسین﷫ مادھو کو لے کر شہر کے باہر تشریف لے گئے اور مادھو سے کہنے لگے: آنکھیں بند کر کے میرے قدم پر قدم رکھتے آؤ۔ جب مادھو نے یُوں کیا تو آپ نے کہا: اب آنکھیں  کھول لو۔ مادھو نے دیکھا تو وہ دریائے گنگا میں اپنے والدین کے ساتھ غسل کر رہے ہیں اور شاہ حسین﷫ بھی کنارے پر موجود ہیں۔ مادھو والدین سے ملاقات کرنے کے بعد شاہ حسین﷫ کے پاس آگئے اور جس طرح لاہور سے گئے تھے اسی طرح واپس آگئے۔ مادھو اسی دن حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ دو ماہ بعد بسنت اور ہولی کے تہوار آگئے۔ ہندو عیش و عشرت میں مصروف ہوگئے۔ مادھو کی دل دہی کے لیے شاہ حسین نے مجلسِ سماع و سرود منعقد کی اور عالمِ مستی میں ایک دوسرے پر بسنتی رنگ(گلال) پھینکا گیا۔ چنانچہ تا حال یہ رسم جاری ہے کہ شاہ حسین﷫ کے معتقدین بسنت کے دن آپ کے مزار پر جا کر گلال(رنگ) پھینکتے ہیں۔

اس مجلس رقص و سماع میں آپ کے خلفاء میں سے شیخ مادھو کے علاوہ میاں شعبان، شعبان ثانی، ابراہیم، میاں محمود، شیخ یعقوب، بہار خاں قوم منڈا، قاضی شاہ تایا باجی، عبدالسلام، شہاب الدین، شیخ کالو، شیخ یٰسین اور شیخ صالح بھی شریک تھے۔ یہ تمام حضرات اپنے پیر و مرشد کی اتباع میں رقص و سرود میں شامل ہوگئے اور ایک دوسرے پر رنگ پھینکنے لگے اور وجد و رقص میں جُھومتے رہے۔ اسی مجلس میں حضرت مادھو شاہ حسین﷫ سے بیعت ہوئے اور شیخ کی نگاہِ کیمیا اثر نے آپ کو کمالات فقر پر پہنچا دیا۔

جب شیخ مادھو پُورے کمالات حاصل کرچکے تو شاہ حسین﷫ نے فرمایا: اب تمہیں راجہ مان سنگھ کے فوجی رسالے میں بھرتی ہوکر دکن کی مہم پر چلے جانا چاہیے اور کچھ عرصہ ہم سے جدا رہنا چاہیے۔ چنانچہ مادھو آپ کے حکم پر راجہ مان سنگھ کے ساتھ اس مہم پر روانہ ہوگئے۔ دکن کے حاکم نے اس فوج کا زبردست مقابلہ کیا۔ مان سنگھ کی فوج کے پاؤں اکھڑنے والے تھے تو مان  سنگھ فوراً شیخ مادھو سے التجا کرنے لگا کہ فتح کے لیے دعا فرمائیں مادھو نے اپنے مرشد شیخ حسین﷫ سے استمداد کی۔ شاہ حسین﷫ کو بھی اس صورت حال کا علم ہوگیا تو آپ بہ نفس نفیس لشکر گاہ میں پہنچے اور کہا: راجہ کو کہہ دو کہ سوار ہو کر ایک بھرپور حملہ کردے اِن شاء اللہ اب فتح ہوگی۔ راجہ مان سنگھ نے حملہ کردیا۔ اس نے دیکھا کہ ایک لشکر کثیر بصورتِ ملنگاں آسمان سے اتر رہا ہے اور دشمن سے نبر و آزما ہو رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دشمن کو شکست ہوگئی اور شیخ حسین﷫ لاہوری مادھو لال کے ساتھ واپس لاہور آگئے۔

جب شیخ حسین﷫ کی وفات کا وقت قریب آیا تو شاہد رہ کے قریب ایک باغیچہ بنایا اور فرمایا: میرے مرنے کے بعد مجھے اس باغ میں دفنا دیا جائے لیکن یہ عارضی مدفن ہوگا۔ ایک سال بعد مادھو لال لاہور آئیں گے اور میری نعش یہاں سے اٹھا کر بمقام بابو پورہ(باغبان پورہ) دفن کریں گے۔ پھر بارہ سال تک راجہ مان سنگھ کی فوج میں رہیں گے اور اس کے بعد یہاں آکر ہماری قبر کی مجاوری(سجادہ نشینی) اختیار کریں گے۔

چنانچہ آپ کی وفات کے ایک سال بعد مادھو لال لاہور آئے اور پھر بارہ سال تک فوج میں رہے۔ تیرہ سال بعد نوکری چھوڑ دی اور پھر ۳۵ سال تک حسین﷫ کے مزار کے سجادہ نشین رہے۔

شیخ مادھو لال ۹۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۰۵۶ھ میں وفات پائی۔ حقیقتہ الفقراء میں لکھا ہے کہ آپ ۲۲ ماہ ذی الحجہ ۹۸۰ھ کو پیدا ہوئے۔

حسینے بندہ مادھو شیخ عالم
عیاں گردید سالِ ارتحالش

 

کہ بودے مست از پیمانۂ عشق
’’ز ہاوی ہدیٰ مستانہ عشق!‘‘
۱۰۵۶ھ

تجویزوآراء