حضرت شیخ مادھو لال حسین لاہور
حضرت شیخ مادھو لال حسین لاہور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مادھو لال حسین جمال معرفت اورکمال حقیقت سےآراستہ ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ کےآباؤاجداد کاستھ تھے۔
والد:
آپ کےوالدکانام کلسن رائےتھا،انہوں نےسلطان فیروزشاہ کےعہدمیں اسلام قبول کیااوران کا نام شیخ عثمان رکھاگیا،وہ کپڑابنتےتھے۔
ولادت:
آپ ۹۴۵ھ میں لاہورمیں پیداہوئے۔
نام:
آپ کانام شیخ حسین ہے،لیکن آپ مادھولال حسین کےنام سے مشہورہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ایک برہمن لڑکےپرجس کانام مادھوتھا،عاشق ہوئے،عشق نےاپناکام کیا۔انتہائے عشق نے دونوں کانام بھی یک جاکردئیےاوربجائےشیخ حسین کےآپ مادھولال حسین کہلانےلگے۔
تعلیم وتربیت:
آپ جب سات سال کےہوئے،مکتب میں بھیجےگئے،حافظ ابوبکرسےچھ پارےحفظ کئے،آپ نے شیخ سعداللہ سےتفسیرمدارک کاکچھ حصہ پڑھا،آپ تعلیم زیادہ دن جاری نہ رکھ سکے۔
حضرت بہلول سےملاقات:
ایک دن آپ مکتب میں درس لےرہےتھےکہ حضرت بہلول مسجدمیں تشریف لائے۔حضرت
بہلول قطب زمان تھے،وہ حضرت امام علی موسیٰ کےمزارسےلاہورتشریف لائےتھے،ان کو حضرت امام رضاکےمزارسےحکم ہواتھاکہ وہ لاہورجاکرآپ (حضرت حسین)کو توجہ دیں۔
چنانچہ وہ مسجدمیں آئےاورحافظ ابوبکرسےآپ کانام معلوم کرکےآپ سےدریاسےوضوکےلئے پانی لانےکوفرمایا،آپ نےحکم کی تعمیل کی۔حضرت بہلول نےوضوکیااوردورکعت نمازاداکرکے آپ کےواسطےاس طرح دعاکی:
"یاالٰہی اس بچےپرکرم کر،اس کوعرفان کی دولت سےمالامال کراوراپناسچاعاشق بنا"۔
ختم قرآن:
حضرت بہلول نےحافظ ابوبکرسےفرمایاکہ ماہ رمضان قریب ہے،اس سال رمضان میں شیخ حسین قرآن سنائیں گے،یہ سن کر آپ نےبہلول سے عرض کیا۔
"یہ کیسےممکن !مجھےتوصرف چھ پارےحفظ ہیں"۔
حضرت بہلول نےفرمایاکہ:
"فکرکی کوئی بات نہیں ہے،تم ضرورقرآن سناؤگے،دریاجاؤاوروہاں سےہمارےلئےپانی لاؤاور ایک باربات کاخیال رکھنا،وہاں جوبزرگ تمہیں ملیں،ان کی ہدایت پرعمل کرنا"۔
آپ دریاپرجوگئےتودیکھاکہ ایک بزرگ وہاں آپ کےمنتظرہیں،ان بزرگ نےآپ سےفرمایاکہ لوٹے کاپانی ان کےہاتھ پرڈال دیں،آپ نےایساہی کیا،ان بزرگ نےخوش ہوکرآپ کےمنہ پر پانی کےچھینٹےمارے،اس کی برکت سےآپ نےاس سال رمضان المبارک میں پوراقرآن شریف سنایا۔حضرت شیخ نےآپ کوامام بنایا۔
رخصت:
حضرت شیخ بہلول نےآپ کومریدکیااورخرقہ خلافت سےسرفرازفرمایا،اب ان کاکام پوراہوچکاتھا، وہ آپ سےرخصت ہوئے۔
ہدایت:
رخصت ہونےسےقبل حضرت شیخ بہلول نےآپ کواس امرکی ہدایت فرمائی کہ حضرت داتاگنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کےمزارپرانوارپرپابندی سےحاضرہواکریں۔
عبادت و ریاضت:
آپ نے(۲۶)چھبیس سال عبادت،ریاضت اورمجاہدےمیں گزارے،روزانہ ایک کلام پاک ختم کرناآپ کامعمول تھا،حضرت داتاگنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کےمزارپرنہایت پابندی سےحاضرہوتے۔
معمولات:
رات تلاوت کلام پاک اورعبادت میں گزارت،دریاکےکنارےاورحضرت گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے مزارپرسکون،یک سوئی پاتے،صبح کی نمازسےفارغ ہوکرمکتب میں تفسیرکادرس لینےجاتے، وہاں عصرتک رہتے،عصرکی نمازکےبعدذکروفکرمیں مشغول ہوتے،مغرب کی نمازاداکرکےعشاء کی نمازتک نفل پڑھتے،بیماری کی حالت میں آپ کےمعمولات میں فرق نہیں آتاتھا۔
عطیہ:
آپ نےبارہ برس تک نہایت پابندی سےحضرت داتاگنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کےمزارپرحاضری دی، آخراس حاضری کاصلہ آپ کومل ہی گیا،ایک دن آپ حسب معمول مزارمبارک پرحاضرتھےکہ نورانی صورت نمودارہوئی اورآپ سےفرمایاتم جانتےہو،میں کون ہوں؟پھرخودہی بتایاکہ۔
"میں علی ہجویری ہوں"۔
آپ کےحال پرنہایت لطف وکرم فرمایا،آپ کونعمت باطنی سےمالامال کردیا،آپ کوولایت عطا فرمائی اور شراب وحدت سےمدہوش و سرشارکیااورفرمایاکہ:
"یہ اس خدمت کاصلہ ہے،جوتم نےبارہ سال کی ہے"۔
کایاپلٹ:
ایک روزآپ شیخ سعداللہ سےتفسیرمدارک کادرس لےرہےتھے،جب ایک آیت پرپہنچے،جس کے معنی یہ ہوتےتھےکہ اس جہان کی زندگی لہوولعب ہےتوآپ نےشیخ سعداللہ سےاس کی وضاحت اورتشریح بیان کرنےکی درخواست کی،انہوں نےفلسفیانہ اورعالمانہ طورپرآپ کوسمجھایااوراس بات پرزوردیاکہ یہ تمام دنیاہے لہوولعب ہے۔
یہ سن کرآپ پروجدانی کیفیت طاری ہوئی،آپ اسی حالت میں رقص کرنےلگےاوریہ کہتےہوئے وہاں سےنکلےکہ جب خداوندتعالیٰ نےساری دنیاکوبازی فرمایاہےتوبس اس میں مصروف رہنا چاہیے،آپ نےکتابیں ایک کنوئیں میں ڈال دیں،داڑھی مونچھ کےبارسےسبک دوش ہوئے،جام آپ کےہاتھ میں ہوتااورآپ گلی کوچوں اوربازاروں میں نشےکی حالت میں پھرتےتھے،طوائفوں میں جاتے،ناچ گانےمیں ہمہ تن مشغول رہتےاورمحفل نشاط میں شریف ہوتےتھے،غرض آپ نے
"ملامتیہ طریقہ اختیارکرلیاتھا"۔
امتحان:
آپ کےپیردستگیرحضرت شیخ بہلول کوچینوٹ میں معلوم ہواکہ آپ(حضرت حسین)شراب پیتے ہیں،مدہوش رہتےہیں اورجادۂ شریعت سےبھٹک گئےہیں،وہ آپ کودیکھنےکی غرض سےلاہور تشریف لائے،آپ کودیکھااورمطمئن ہوکرواپس تشریف لےگئے۔
پیرومرشدکاوصال:
کچھ ہی عرصےکےبعدآپ کےپیرومرشدحضرت شیخ بہلول کاوصال ہوگیا۔پیرومرشدکےوصال کے بعدآپ مستانہ واررباب پرناچتےتھے۔
تیرعشق:
ایک روزشاہدرہ سےگزرتےہوئےآپ کی نگاہ ایک نوجوان مسمی مادھوپرپڑی،مادھوبرہمن لڑکے تھے،اس وقت ان کی عمرکوئی سولہ سال کی تھی،ان کی شادی ہوچکی تھی۔مادھوکودیکھناتھاکہ آپ ان پرعاشق ہوئے،سولہ سال تک آپ نےمادھوکےمکان کاطواف کیا،مادھونےکچھ التفات نہیں برتا۔
عشق کی فتح:
آخرکارمادھوپرآپ کےسچےعشق کااثرپڑا،مادھوآپ کی خدمت میں آنےجانےلگےاورآپ کے مئے ناب سےشغل فرمانےلگے۔مادھوکےگھروالوں کو یہ بات سخت ناگوارتھی،رفتہ رفتہ مادھو آپ سے قریب ہونےلگے،دائرہ اسلام میں داخل ہوئے،ان کانام میاں محبوب الحق رکھاگیا،لیکن وہ مشہورمادھوہی کےنام سے ہیں۔
ایک واقعہ:
ایک دفعہ بسنت کےتہوارکےموقع پرمادھونےگلال لاکرآپ پر ڈالا،آپ پروجدانی کیفیت طاری ہوئی،آپ ناچنےلگے،بعدازاں آپ یہ تہوارمنانےلگے۔
قاضی کوجواب:
ایک دن قاضی لاہورنےآپ کوڈھول پرناچتےدیکھا،مخدوم الملک کویہ بات ناگوارہوئی،اس نے چاہاکہ آپ کوسرزنش کرے،آپ نےقاضی لاہورسےفرمایا۔
"کیوں قاضی صاحب۔ارکان اسلام کے پانچ ہیں۔
پہلاکلمہ توحیداوررسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کااقراراس میں توہم دونوں شریک ہیں۔
دوسرانمازاورتیسراروزہ،ان دونوں کومیں نےترک کیا۔
چوتھازکوٰۃ،پانچواں حج اوردونوں کوتم نےترک کیا۔
پھرکیابات ہے کہ حسین ہی کوفقط مستوجب سزاقراردیاجائے"۔
قاضی صاحب یہ سن کر مسکرائےاورچلےگئے۔
شاہی دربارمیں:
آپ کےقلندرانہ مشرب کی شکایت اکبرکےپاس پہنچی۔اکبرنےآپ کودربارمیں بلایا۔اکبرنے آپ سے دریافت کیا۔
"اےدرویش !سناہےتم خدارسیدہ ہو"۔
آپ نےجواب دیا۔اس میں کیاشک ہے۔
اکبرنےپوچھا:
"اچھایہ توبتائیےکہ آپ خداتک کس طرح پہنچے؟"۔
آپ نےجواب دیا۔
"اےبادشاہ!میں خداتک نہیں پہنچا۔خدامجھ تک پہنچاہے"۔
ایک درباری نےاس کاثبوت مانگا،آپ نےاکبرسےمخاطب ہوکرفرمایا:
"اےہندوستان کےسیاہ وسپیدکےمالک!موٹی سی بات ہے،اگر
آپ نےچاہتےتویہ گداآپ تک کیسےپہنچتا"۔
اکبرآپ کایہ جواب سن کرخوش ہوااورآپ کوعزت واحترام سےرخصت کیا۔
شہزادہ سلیم جو"جہاں گیر"کےلقب سےتخت پربیٹھاآپ کامعتقدتھا،اس نےآپ کاروزنامچہ لکھنے کی خدمت بہادرخاں کےسپردکی۔
وفات:
آپ نے۱۰۰۸ھ میں وفات پائی،بوقت وفات آپ کی عمرتریسٹھ سال کی تھی۔مزارلاہورمیں واقع
ہے،ہرسال"میلہ چراغاں"بڑی دھوم دھام سےمنایاجاتاہے۔
خلفاء:
حضرت مادھوآپ کےسجادہ نشیں ہوئے،آپ کےسولہ خلیفہ تھا،جس میں سے چارشاہ غریب کہلاتےتھے،چاردیوان کہلاتےتھے۔۔یعنی مادھودیوان،گرکھ دیوان،بخشی دیوان ،الہ دیوان۔ تین خاکی کہلاتے تھے،یعنی مولانابخش خاکی،خاکی شاہ وزیرآبادی،حیدربخش خاکی۔چاربلاول کہلاتے ہیں،یعنی شاہ رنگ بلاول،بدھوبلاول اورشاہ بلاول دکنی۔
سیرت:
آپ نےملامتیہ طریقہ اختیارکیاتھا،آپ کامشرب قلندرانہ تھا،آپ کوناچ گانےکابہت شوق تھا، آپ لباس فقرمیں اپنےآپ کوچھپائےرکھتےتھے،روزانہ صبح کوقرآن مجیدکی تلاوت کرتےتھے، رات ہنسنےاوررونےمیں گزاردیتےتھے،آپ نشیلی چیزوں کااستعمال بھی کرتےتھے۔
اقول:
۔ جب علم کےساتھ عمل نہ ہوتواس علم سےناچنابہترہے۔
۔ میں نہ مقیم ہوں اورنہ مسافر،نہ مسلمان،نہ کافر۔
کشف وکرامات:
آپ نےجب مکتب چھوڑاتوساری کتابیں کنوئیں ڈال دیں،آپ کےساتھیوں نےاپنی کتب آپ سےطلب کی،آپ نےکنوئیں کےپاس تشریف لےگئےاورکنوئیں سےکہا،کتابیں واپس کردےگا، یکایک پانی اوپرآیا،کتابیں پانی میں تیررہی تھیں،کتابیں ذرابھی نہیں بھیگی تھیں،آپ نےچندکتابیں لےکرساتھیوں کودےدیں۔
حضرت مادھوکےوالدین گنگااشنان کےلئےگئے،وہ حضرت مادھو کو بھی اپنےہمراہ لےجاناچاہتے
تھے،لیکن حضرت مادھوکواجازت نہیں دی،آپ نےان سےفرمایاکہ جس دن اشنان ہوبتانا،جب حضرت مادھونےآپ کووہ دن یاددلایاتوآپ نے حضرت مادھو سےآنکھیں بندکرنےاورانکے پاؤں پرپاؤں رکھنےنےکوکہا،انہوں نےایساہی کیا،آنکھیں کھولیں تودیکھاکہ گنگاکےکنارےکھڑے ہیں، اپنےوالدین کےساتھ اشنان کرکےاسی طرح لاہورواپس آئے۔حضرت مادھوکےوالدین جب اشنان سےلاہورواپس آئےتوانہوں نےاس کاذکرکیا۔
ایک مرتبہ موضع منڈیاکےلمبردارنےآپکواورآپ کےساتھیوں کو ایک کمرےمیں بندکردیااور کہا، جب تک بارش نہ ہوگی،رہائی ناممکن ہے،آپ نےلمبردارسےفرمایاکہ،اچھی بات ہے،لیکن نان اور مرغ کھلاؤ،پھردعاکریں گے۔نان اورمرغ کھانےکےبعدآپ نےآسمان کی طرف دیکھ کرکہا۔ "اب دیر کیاہے"۔
آپ کایہ کہناتھاکہ ابرگھرکرآیااورخوب بارش ہوئی۔
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)