حضرت شیخ نصیرالدین محمود چراغ

پیدائش ھ۔۔۔وصال575ھ

آپ شیخ نظام الدین اولیاء کے مشہور ترین اور ممتاز خلیفہ تھے، آپ کے احوال کے وارث اور صاحب سر بزرگ تھے، آپ اپنے پیر خواجہ نظام الدین اولیاء کے انتقال کے بعد دہلی کی ولایت کے مالک قرار دیے گئے تھے آپ اپنے مُرشد کے مکمل پیروکار تھے فقر و فاقہ، صبر و ثبات رضا و تسلیم آپ کے قابل ذکر اوصاف تھے۔

منقول ہے کہ ایک روز شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی نے شیخ نظام الدین اولیاء کے خاص مشیر اور راز دار امیر خسرو سے کہا کہ آپ براہ کرم خواجہ صاحب کی خدمت میں میرا یہ پیغام عرض کردیں کہ میں اودھ میں رہتا ہوں اور لوگوں کی کثرت سے آمد و رفت کی وجہ سے عبادتِ الٰہی میں مزاحمت ہوتی ہے اگر ارشاد ہو تو اودھ کو ترک کرکے جنگل میں چلا جاؤں اور وہاں یکسوئی سے اللہ کی عبادت میں مشغول ہوجاؤں، امیر خسرو کا معمول تھا کہ وہ عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد شیخ کی خدمت میں جایا کرتے تھے اور دن بھر کے تمام حالات شیخ کو نسیا اکرتے تھے، چنانچہ انہوں نے شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی کا پیغام بھی سنایا، شیخ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دینا کہ تمہیں لوگوں کے ساتھ ہی رہنا چاہیے اور ان کی شدت و سختی برداشت کرکے اس کا بدلہ بخشش و عنایت سے دینا چاہیے، نیز یہ بھی مشہور ہے کہ ایک دفعہ خواجہ نظام الدین اولیاء شیخ نصیرالدین محمود کو خلوت میں لے گئے اور پوچھا بتائیے آپ کے دل میں کیا ہے، جنگل میں جانے سے تمہارا مقصد کیا ہے اور تمہارے والد کیا کام کرتے تھے؟ شیخ نصیرالدین محمود نے عرض کیا کہ جنگل میں جانے سے میرا مقصد آپ کی درازیٔ عمر کی دعا مانگنا اور درویشوں کی جوتیوں کو سیدھا کرنا ہے، میرے والد اپنے غلاموں کی اعانت سے روئی کی تجارت کا کام کیا کرتے تھے، یہ سن کر شیخ نظام الدین اولیاء نے فرمایاکہ اب میری بات غور سے سنو، میں جب اپنے شیخ کی خدمت میں لیل و نہار بسر کر رہا تھا تو اسی زمانے میں میرا ایک دوست جو میرا ہم سبق تھا میرے پاس آیا اور مجھے پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس دیکھ کر کہنے لگا کہ نظام الدین ! تمہاری حالت کیا خستہ ہوگئی ہے، اگر تم اسی شہر میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری فرمادیتے تو معاش کے فکر سے آزاد ہوجاتے، اس دوست کی ان تمام باتوں کو سن کر میں خاموش رہا اور کوئی جواب نہ دیا، اس کے بعد میں اپنے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ اے نظام اگر تم سے تمہارا کوئی دوست یہ کہے کہ تم نے یہ حالت بنا رکھی ہے اگر درس و تدریس کا پیشہ اختیار کرکے فکر معاش سے آزاد ہوجاتے تو تم کیا جواب دو گے، میں نے عرض کیا جو حکم ہو وہی عرض کردوں گا تو آپ نے فرمایا ان سے یہ کہہ دینا۔

نہ ہمرہی تو مراراہ خویش گیرد برد
ترا سعادت بادا مرا نگونساری

(تم میرے ساتھی نہیں جاؤ اپنا راستہ پکڑو، تمہیں اقبال مندی مبارک اور مجھے عاجزی) اس کے بعد شیخ نے کھانے سے لبریز ایک خوان منگوایا اور میرے حوالہ کرکے فرمایا کہ اے نظام الدین اسے لے جاؤ تمہارا دوست جہاں ٹھہرا ہوا ہے اسے دیدو، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، تب اس دوست نے میرے کام کو پسند کیا اور کہا کہ تمہیں یہ صحبت اور حال مبارک ہو۔

شیخ نصیرالدین محمود فرماتے ہیں کہ اور علاوہ ازیں اسی قسم کی تلقین کرکے شیخ نے مجھے ریاضت و مجاہدہ کا حکم فرمایا، اس دوران میں یوں بھی ہوتا کہ کبھی دس دس دن گزر جاتے اور کچھ نہ کھاتا، بیشتر اوقات یہ ہوتا تھا کہ جب خواہشات کا غلبہ ہوتا تو میں کٹھائی کھایا کرتا تھا۔ کہتے ہیں کہ سلطان محمود تغلق بادشاہ دہلی نے شیخ نصیرالدین محمود کو باوجود آپ کے کمالات عطیہ کے تکالیف دینا اپنا بہترین مشغلہ بنا رکھا تھا، اپنے ہمراہ سفر میں آپ کو پیدل چلاتا، اس نے آپ کو اپنا خانساماں مقرر کیا، شیخ نصیرالدین ان تمام تکالیف کے کاموں کو صرف اپنے شیخ کی وصیت کی بنا پر برداشت کرتے اور اُف تک نہ کرتے، شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی نے 18 رمضان 557ھ کو وفات پائی۔

ایک مرتبہ سلطان محمد تغلق بادشاہ نے شیخ نصیرالدین محمود کے لیے سونے اور چاندی کے برتنوں میں اس غرض سے کھانا بھیجا کہ اگر نہ کھائیں گے تو اسی کو ایذا رسانی کا سبب بناکر جرم عائد کردوں گا اور اگر کھالیں گے تو پوچھوں گا کہ آپ نے سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا کھاکر غیر شرعی اور ناجائز کام کا ارتکاب کیوں کیا، جب شیخ کے سامنے کھانا پیش کیا گیا تو آپ نے زبان سے کچھ نہ فرمایا، البتہ سونے کے ایک برتن سے تھوڑی سی یخنی اٹھائی اور اسے ہتھیلی پر رکھ کر چکھ لیا، اس سے بد اندیش اور بدخواہوں کے ارادے معرضِ وجود میں نہ آسکے۔

خیرالمجالس میں ہے کہ ایک دوست نے ایک مرتبہ آپ سے عرض کیا کہ ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی میں ہے جو شخص دو گائے ذبح کرے اس کی گردن پر ایک خون اور جو چار گائے ذبح کرے اس کی گردن پر دو خون اور جو دس بھیڑیں ذبح کرے اس کی گردن پر ایک خون ہوگا، یہ سن کر شیخ نصیرالدین نے فرمایا کہ پہلی بات تو یہ کہ ہارونی لفظ صحیح نہیں بلکہ اصل لفظ ہرونی ہے اس لیے کہ ہر ون ایک گاؤں کا نام ہے۔ جہاں خواجہ عثمان رہا کرتے تھے، پھر فرمایا کہ یہ عبارت ان کی نہیں ہے، ان کے ملفوظات کے کئی نسخے ہمارے ہاں بھی موجود ہیں جن میں اکثر باتیں ایسی مندرج ہیں جو فی الواقع ان کی نہیں ہیں، اس کے بعد فرمایا کہ شیخ نظام الدین فرمایا کرتے تھے کہ میں نے کوئی کتاب نہیں لکھی، اس لیے کہ شیخ الاسلام فریدالدین اور شیخ الاسلام قطب الدین اور خواجگان چشت جیسے لوگوں نے کوئی کتاب نہیں تصنیف فرمائی۔

منقول ہے کہ شیخ نظام الدین کے مریدوں نے ایک مرتبہ محفل سماع کا پروگرام بنایا، مرید غزل خوانوں سے دف پر سماع سن رہے تھے اور اس محفل میں شیخ نصیرالدین محمود دہلوی بھی موجود تھے، آپ اٹھ کر جانے لگے، دوستوں نے بیٹھنے کے لیے اصرار کیا تو فرمایا یہ خلاف سنت چیز ہے میں اسے ہرگز گوارہ نہیں کرتا، اس پر لوگوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے آپ سماع کے ناجائز ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور اپنے شیخ کے طریقے سے انحراف کرتے ہیں، آپ نے ان دونوں کو جواب دیا کہ شیخ کا قول حجت شرعیہ نہیں، قرآن و حدیث سے دلیل پیش کرنا چاہیے بعض اہل ہوا اور خوض غرض لوگوں نے یہ بات شیخ نظام الدین کی خدمت میں پیش کی اور کہا کہ شیخ نصیرالدین یوں کہتے ہیں، چونکہ شیخ نظام الدین کو اصل واقعہ کی پہلے سے اطلاع مل چکی تھی اس لیے ان لوگوں سے فرمایا کہ شیخ نصیرالدین ٹھیک فرماتے ہیں اور جو کچھ وہ فرماتے ہیں وہی حق ہے۔

سیرالاولیا میں ہے کہ شیخ نظام الدین اولیاء کی محفل سماع میں مزامیر (باجے) وغیرہ نہ ہوتے تھے اور نہ ہی تالیاں بجائی جاتی تھیں، اگر آپ سے کوئی کسی کے متعلق یہ کہتا کہ فلاں باجے وغیرہ سنتا ہے تو آپ اسے منع فرمادیتے اور فرماتے کہ باجے وغیرہ سننا شریعت میں ناجائز اور ممنوع ہیں۔

خیرالمجالس میں ہے کہ ایک شخص نے شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی سے آکر پوچھا کہ یہ کہاں جائز ہے کہ محفل سماع میں دف، بانسری، ستار باجے وغیرہ بجائے جائیں اور صوفی ناچیں اور رقص کریں، آپ نے جواب دیا کہ باجے وغیرہ تو بالاتفاق اور بالاجماع ناجائز و گناہ ہیں، اگر کوئی طریقت سے نکل جانا چاہے تو شریعت میں رہنا ضروری ہے اور اگر شریعت سے بھی نکلنا چاہے تو پھر کہاں جائے گا؟ اولاً تو سماع ہی زیر بحث ہے اور علماء کا اس میں اختلاف ہے، اگر چند شرائط کے ساتھ جائز بھی کرلیا جائے تب بھی ہمہ قسم کے باجے وغیرہ بالاتفاق ناجائز و حرام ہیں۔

جوامع الکلم میں ہے کہ ایک دن شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کو اپنی خانقاہ میں بیٹھے ہوئے اس شعر پر وجد آگیا۔

جفا بر عاشقاں گفتی نخو اہم کرد ہم کردی
قلم بر بیدلاں گفتی نخوا ہم راند ہم راندی

ترجمہ: (تم نے خود ہی یہ کہا تھا کہ عاشقوں پر ظلم نہ کیا کروں گا باوجود اس کے پھر بھی ظلم کیا اور تم نے یہ بھی کہا تھا کہ بے دلوں پر سختی نہ کروں گا مگر اس کے باوجود بھی سختی کی) مشہور شاعر مولانا مغیث نے اپنے ایک خط میں اس مجلس کا پورا حال ضبط کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ یہ شعر کسی حقیقت پر مبنی نہیں قرار دیا جاسکتا ، اگر ظلم و ستم کو اللہ کی طرف نسبت کریں تو یہ صریح کفر ہے غرض کہ اسی قسم کی چند باتیں تحریر فرماکر یہ خط مولانا معین الدین عمرانی کے حوالہ کیا، انہوں نے وہ خط شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کی خدمت میں پیش کیا، شیخ نے یہ خط اپنے ہاتھ میں لیا اور پھر مولانا معین الدین کو واپس کردیا اور کچھ فرمایا نہیں البتہ عمامہ باندھ کر اور خرقہ پہناکر واپس کردیا۔

ایک دن شیخ نصیرالدین محفل سماع میں یہ اشعار سن کر رقص کرنے لگے اور اس وقت نہایت ہی مضطرب نظر آ رہے تھے۔

رباعی

ما طبل مغانہ دوش بیباک زدیم
عالمی علمش برسر افلاک زدیم
از بہر یکے مغبچہ مے خوارہ
صد بار کلاہ توبہ برخاک زدیم

ترجمہ: (رات ہم نے بڑی فرحت و انبساط سے منائی، جس کا چرچہ آسمانوں پر بھی ہوگیا اور ایک مےخوار معشوق کی خاطر کلاہ توبہ کو ہزار بار زمین پر پھینکا) اسی سخت بے چینی کے عالم میں اپنے مکان کی چھت پر جاکر بیٹھ گئے اور مولانا مغیث کو طلب کیا، مولانا گھبرائے ہوئے آپ کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے تب شیخ نصیرالدین محمود چراغ نے فرمایا ہاں مولانا لکھیے اس جگہ کیا جہالت تھی، یہ کہہ کر مولانا کو رخصت کیا اس کے بعد پھر مولانا خانقاہ میں نہیں آئے، اور بہت جلد رحلت فرماگئے۔

نیز منقول ہے کہ شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی نے ارشاد فرمایا کہ میں کس لائق ہوں جو پیری مریدی کروں، آج تو یہ کام بچوں کا کھیل سمجھا جانے لگا ہے پھر شیخ سنانی کا یہ شعر پڑھا۔

مسلماناں مسلماناں مسلمانی مسلمانی
ازیں آئین بیدیناں پشیمانی پشیمانی

ترجمہ: (اے مسلمانو! شریعت پر عمل کرو اور جو تم نے طریقہ اختیار کر رکھا ہے یہ دراصل بے دینوں کا طریقہ ہے جس سے سوائے پشیمانی کے اور کچھ حاصل نہیں) آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ایمان محفوظ رکھنے کی فکر کرو اور کرامتوں کے در پے نہ ہو، نیز فرمایا کرتے تھے کہ میں نہایت ہی پریشان ہوں کہ لوگ بغیر مشاہدہ کیے لوگوں کے پیچھے کیوں دوڑتے ہیں۔

میر سید محمد گیسو دراز فرماتے ہیں کہ میں شیخ نصیرالدین کی زندگی میں دہلی میں تھا، ایک سال وہاں بارش نہ ہوئی، لوگ شیخ نصیرالدین محمود کے ساتھ نماز استسقاء کو نکلے گریہ و زاری کے ساتھ نماز پڑھی اور بزرگوں کی طرح دعائیں مانگی مگر بارش نہ ہوئی، مجبوراً واپس آنا پڑا، واپسی کے بعد میں آپ کے در دولت پر حاضر ہوا تو فرمایا کیا تم نماز استسقاء میں شریک نہیں ہوئے تھے میں نے عرض کیا کہ شریک ہوا تھا، آپ نے فرمایا آج تم نے دیکھا کہ لوگ ہمیں ایسا ویسا کچھ کہہ رہے ہیں، مخلوق ہم پر ہجوم کیے ہوئے ہمارے ساتھ باہر گئی، ہم نے لاکھ کوشش کی مگر بارش نہ ہوئی آخر کار مجبوراً پشیمان ہوکر ہم لوگ واپس لَوٹ آئے

نیز حضرت گیسو دراز فرماتے ہیں کہ شیخ نصیرالدین دہلوی فرمایا کرتے تھے کہ جس وقت میں بچہ تھا اور مسجد میں استاد سے پڑھا کرتا تھا اس مسجد میں ایک خشک درخت تھا، ایک کوا اس درخت پر روزانہ آکر بیٹھتا اور جو کچھ وہ کہتا اور بولتا تھا میں اس کی زبان کو خوب سمجھتا تھا۔

یہ شان ہے خدمت گارں کی سردار کا عالم کیا ہوگا؟

خیرالمجالس میں ہے کہ شیخ نصیرالدین محمود دہلوی سے ان کے ایک دوست نے درویشوں کی کیفیت اور ان کے حال کی ماہیت دریافت کی، آپ نے فرمایا کہ مال نتیجہ ہے عمل کے صحیح ہونے کا اور عمل دو قسم پر ہے۔ ایک عمل بالجوارح جس کو سب لوگ جانے ہیں دوسرا ہے عمل بالقلب اس کو مراقبہ بھی کہتے ہیں اور مراقبہ کے معنی یہ ہیں (دل میں اس بات کا یقین کرنا کہ اللہ دیکھ رہا ہے) اس کے بعد فرمایا کہ انوارِ خداوندی اولاً اور ابتداً عالم علوی سے روح پر نازل ہوتے ہیں پھر دل پر اس کا اثر نمودار ہوتا ہے پھر دل سے اس کا ظہور اعضاء پر ہوتا ہے، چونکہ اعضاء دل کے تابع ہیں، اس لیے جب دل متحرک ہوتا ہے تو اس سے اعضاء میں حرکت پیدا ہوتی ہے، ایک مرتبہ پھر اسی عزیز نے سوال کیا کہ صاحبِ عوارف المعارف نے صاحب کمال کو متوسط کہا ہے اور پھر اس عزیز نے کتاب عوارف المعارف کی یہ عبارت پیش کی (مبتدی صاحب وقت، اور متوسط صاحب حال اور منتہی صاحب انفاس ہوتا ہے)

حاضرین مجلس میں سے کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو شیخ نصیرالدین سائل کی طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے کہ تم نے خود اس بارے میں کیا سنا ہے اور کیا تم نے خود بھی عوارف المعارف کا مطالعہ کیا ہے؟ اس نے کچھ جواب نہ دیا تو خود شیخ نے فرمایا کہ مبتدی صاحب وقت ہے اور صاحب وقت وہ صوفی ہے جو اپنے وقت کو غنیمت اور کافی سمجھ کر اپنے کام میں مشغول ہوجاتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ شاید آئندہ یہ وقت ہاتھ آئے یا نہ آئے کیا خبر، غرض یہ کہ جو یہ بات جانتا ہے کہ میرے پاس صرف اتنا وقت ہے اور اس وقت کو غنیمت سمجھ کر تلاوت قرآن حکیم، نماز، ذکر الٰہی اور دین و دنیا کے ترقی کے کاموں میں مشغول رہتا ہے، جب کوئی سالک اپنے اوقات کی مسلسل حفاظت میں دائم و قائم رہتا ہے اور اوقات مقررہ کو عبادات میں صرف کرتا ہے اور ہمیشہ اسی پر گامزن رہتا ہے تو امید ہے کہ وہ صاحبِ کمال ہوجائے گا اس لیے کہ خدا تعالیٰ کے انعامات و احسانات تو عبادت اور اعمال صالحہ کا ثمرہ اور نتیجہ ہیں اور انوار الٰہی جو عالم علوی سے روح پر نازل ہوتے ہیں ان کے اثرات کو حال کہتے ہیں اور پھر اس کا اثر دل پر اترنے کے بعد اعضا میں سراہت کرتا ہے، حال کو دوام اور ثبات نہیں ہوتا، اگر حال کو بھی دوام ہوجائے تو یہ خود ایک مقام ہوجائے گا، فرمایا کہ اس کے بعد منتہی صاحب انفا ہے جس کے اہل طریقت یہ معنی بیان فرماتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتا یا اس کی زبان سے جو بات نکلتی ہے اللہ تعالیٰ ویسا ہی کردیتا ہے اس کے بعد فرمایا کہ ہر لفظ کی مراد اور معنی درحقیقت اصطلاحات پر موقوف ہے اور مشائخ کی اصطلاح میں صاحب وقت اسے کہتے ہیں جس پر اکثر و بیشتر اوقات میں حال طاری رہے، اور منتہی صاحب انفاس اسے کہتے ہیں جس کا حال اس کے سانس کے قریب یعنی اس کا ہر سانس حال سے ملا ہوا ہو، مطلب یہ کہ اس کی یہ حالت ہوجائے کہ مقام حال کو حاصل کرے، اس کے بعد شیخ نصیرالدین نے آسمان کی طرف سر اٹھاکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پڑھی (اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہارے زمانے میں سانس دیا ہے اس لیے تم اللہ ہی کے لیے سانس لیا کرو) اس کے بعد فرمایا کہ یہ حقیقت وجدانی ہے، اگر رات کو خدا کی یاد کی جائے گی تو صبح کو لازماً ذاکر سے اس کی خوشبواور اثرات ظاہر ہوں گے، پھر فرمایا کہ گر کوئی درویش بھوکا رہ کر اول وقت سوجائے اور آخر وقت میں اٹھ کر یاد الٰہی میں اس طرح مشغول ہو کہ اس کا باطن اللہ کے علاوہ اور کسی جانب مائل اور متوجہ نہ ہو تو وہ درویش اپنی روح پر انوار الٰہی کے نزول کا مشاہدہ اور معائنہ کرے گا، خواہ اس زمانے میں وہ شخص کہیں جائے، دنیا داری سے الگ رہے، مجاہدہ اور ریاضت میں مشغول ہو یا نہ ہو، غرض یہ کہ بلا شک و شبہ وہ اس کا مالک و حامل نظر آئے گا، اس کے بعد یہ شعر پڑھا

نظر در دیدہ ہا ناقص فتادہ
وگرنہ یار من از کس نہاں نیست

ترجمہ: (آنکھیں دیکھنے میں کمزور و ضعیف ہیں، وگرنہ میرا دوست مجھ سے پوشیدہ نہیں)

اس کے بعد فرمایا کہ اس کام میں اصل چیز نفس کی حفاظت کرنا ہے اور صوفی کو مراقبہ کی حالت میں ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس پر گہری نظر اور نگرانی رکھے تاکہ اس کے باطن کو دل جمعی اور یکسوئی نصیب ہو، جب صوفی نے نفس کو چھوڑ دیا اور اس سے غافل ہوگیا تو باطن حیران و پریشان ہوجائے گا، پھر فرمایا، صوفی وہ ہے جو اپنے ہر سانس کو گنتا اور شمار کرتا رہے، اور صاحب منتہی ہونے کے ایک معنی یہ بھی ہیں، اس کے برعکس جوگی اور ہندو تارک الدنیا جنہیں سدھ کہتے ہیں (یعنی ان کے ترقی کے راستہ میں رکاوٹیں حاصل ہیں) وہ بھی نفس کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دولت ایمان سے محروم ہونے کی وجہ سے کوئی بلند مقام نہیں حاصل کرسکتے، اس کے بعد ایک ٹھنڈی آہ لی، اور فرمایا ہم اور تم کس فہرست میں ہیں، یا پھر اس بھوکے فقیر کی مانند ہیں جو نان بائی کی دوکان کہے کہ تمہارے پاس جو کچھ ہے مجھے کھلادو، وہ جواب دے مجھے فرصت نہیں، اور اب بات کرنے کا موقع نہیں تمام دن لوگوں کے ساتھ مشغول رہا ذرا سا بھی آرام میسر نہیں آیا، متعدد بار کوشش کی کہ ذرا سا لیٹ جاؤں مگر ہر دفعہ کوئی نہ کوئی آگیا، اب تم یہاں سے چلے جاؤ میں آرام کر رہا ہوں پھر کسی وقت فرصت کے موقع پر آنا، پھر فرمایا کہ رات کو جو کام انجام دیے جاسکتے ہیں یا جو چیزیں کی جاسکتی ہیں انہیں دن میں کرنے کی بالکل طاقت نہیں، لیکن اس کے باوجود میں مایوس نہیں، یہ جملہ رُک رُک کر فرمایا اور آبدیدہ ہوکر یہ شعر پڑھنے لگے

ایں دلو تہی کہ در تہہ انداختہ ام
نو مید نیم کہ پر برآید روزے

ترجمہ: (یہ خالی ڈول جو میں نے بالکل تہ میں ڈال دیا ہے، نا امید نہیں ہوں کسی نہ کسی روز تو بھر ہی جائے گا) اس کے بعد فرمایا کہ دل پر نظر رکھ کر دل کو اللہ کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے اور ذکر اللہ میں مصروف و منہمک ہوکر تمام غیر اللہ کو دل سے نکال دیا جائے اس کے بعد فرمایا کہ فقیروں کے ہاتھ اور آستین چھوٹے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صوفی جب راہ سلوک میں قدم رکھتا ہے تو چاہتا ہے کہ اپنا ہاتھ کاٹ دے تاکہ وہ غیراللہ کے سامنے بغرض سوال دراز نہ ہونے پائے اور اگر وہ صوفی فی الواقع اپنا ہاتھ کاٹ دے تو وضو غسل اور مسلمان بھائیوں سے مصافحہ کرنے کے کار خیر سے محروم ہوجائے گا اور اس صورت میں کچھ بھی نہیں کرسکے گا، اس لیے وہ بجائے ہاتھ کاٹنے کے اپنی آستین یعنی دست سُوال کو کھینچ لے اور کسی کے آگے دستِ سُوال دراز نہ کرے۔ اس طرز و طریق پر وہ اللہ کا ذکر اور یاد الٰہی کرے اور اپنا دامن سمیٹ لے۔

سر منڈانے کا مطلب یہ ہے کہ تصوف اور طریقت میں آنے کے بعد اپنا سر قلم کردے کیونکہ اس راستہ کی پہلی منزل سر قربان کردینا ہے، اگر واقعتاً سالک اپنے سر کو جسم سے جدا کردے تو کوئی چیز نہیں کرسکتا (بلکہ اس کا وجود ہی اس دنیا میں نہیں رہے گا) اور اگر سر قلم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے سر کے بالوں کو نوچ کر پھیک دے تو اس صورت میں وہ گنجا ہوجائے گا اسی کو لوگ سر بریدہ کہتے ہیں، یہ بھی کوئی کام نہیں کرسکے گا، غالباً بال نوچنے سے جو سر میں درد ہوگا اس درد کی بنا پر وہ کام نہیں کرسکے گا) ان تمام حالات کے پیش نظر سر منڈانے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی غیر شرعی کام اس سے سرزد نہ ہونے پائے، لوگوں نے سوال کیا کہ جَاھِدُوْا فِیْنَا کا مطلب کیا ہے؟ جواب دیا کہ اس کو آسانی سے نہیں سمجھا جاسکتا، البتہ میں آسان اور سہل طریقے سے ابتدائی طور پر سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، جَاھِدُوْا فِیْنَا کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لیے کوشش کرو اور جَاھِدُوْا فِی اللہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے لیےکوشش کرو، لفظ ’’فی‘‘ اس شدت اتصال کے لیے آتا ہے جو ’’ل‘‘ میں نہیں، نیز لفظ فی ظرفیہ ہے اور ظرف اپنے مظروف میں ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (صدقات، فقرا، مساکین، عالمین، مونقہ القلوب اور ان لوگوں کے لیے ہیں جو غلامی میں مبتلا ہیں) فقیر و مسکین تو فقط پیٹ کی بھوک ختم کرنے کے لیے لیتے ہیں اور رقاب سے گردنیں آزاد کرانا مراد ہے کیونکہ جس کی گردن پھنسی ہوئی ہو وہ مُردے کی مثل ہوتا ہے اور جس نے غلام آزاد کرادیا گویا کہ اس نے مُردے کو زندہ کردیا، اس شدت اور شدید ضرورت کو لفظ فی سے ظاہر کیا گیا ج کا حرف ل سے ظاہر کرنا ناممکن، بعید اور غیر قانونی ہے۔ نیز گردن آزاد کرانے کا جس شد و مد سے حکم دیا گیا ہے اس طرح کی شد و مد دوسرے کسی حکم میں نہیں ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ پوری تحقیق علم نحو، معافی اور بیان وغیرہ سے بھی تعلق رکھتی ہے۔

نیز مشائخین فرماتے ہیں کہ ریاضت و مجاہدہ کرنے والے لوگ تین حال سے خالی نہیں ہوا کرتے۔ اولاً مجاہدہ کی غرض اور باعث دوزخ کا خوف، ثانیاً مجاہدہ سے امید رکھے حصول اور دخول بہشت کی۔ ثالثاً، مجاہدہ محض اللہ کی ذات اور اس کی خوشنودی کے لیے کرے، جو مجاہدہ صرف خدا کی ذات کے لیے کیا جائے وہ اللہ یا فی اللہ ہوگا اس مجاہدہ کی زیادہ قدر اس لیے ہے کہ یہ خالصتاً خدا کی ذات ہی کے لیے کیا جاتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے (اللہ کے راستے میں خوب کوشش کرو) چونکہ عام طور پر لوگ مطلوب کی قدر و قیمت سےواقف نہیں ہیں اس لیے حصول حق کے لیے اچھی طرح کوشش نہیں کرتے، پھر فرمایا کہ ہر عمل اور کردار کا دارومدار صرف جذبہ پر ہے یعنی ہر وہ عمل اور کام جس کے کرنے میں جذبہ نہ ہو وہ قابل قبول نہیں جیسے جذبہ حال جب جذبہ حال میں کوئی کام کیا جاتا ہے تو فوراً قبول ہوجاتا ہے اس جذبہ کا کوئی وقت مقرر نہیں، یہ جذبہ کبھی بچپن میں، کبھی جوانی میں اور کبھی بڑھاپے میں پیدا ہوتا ہے نیز جذبہ کے چند مراتب و مدارج میں، اولاً جذبہ عام اس سے عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ ثانیاً۔ جذبہ خاص، اس کے ذریعہ دل خدا کی طرف مائل ہوتا ہے اور غیراللہ سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔

لوگوں نے دریافت کیا کہ رات کا اول حصہ بہتر و افضل ہے یا آخری؟ آپ نے جواب دیا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل امین سے پوچھا کہ رات میں بہترین وقت کون سا ہے؟ جبریل نے عرض کیا مجھے خبر کچھ نہیں، البتہ نصف شب کے بعد فرشتے لرزہ بر اندام ہوتے ہیں اور عرش اعظم ہلتا ہے، نیز اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ہر وقت انعامات و احسانات کی بارش فرماتارہتا ہے، خوب سمجھ لو کہ اسی کے حضور اپنی جبین نیاز کو سجدہ ریز رکھو، علاوہ ازیں نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا (میں نے اپنے رب کو معراج کی شب بہترین صورت میں دیکھا) اس حدیث کے الفاظ فی احسن صورۃ کے معنی یہ ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اچھی صورت میں تھے یعنی ہشاش بشاش تھے اور یہ ویسی ہی طرز ادا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ میں نے شیر کو سوار دیکھا یعنی میں خود سوار تھا، غرض یہ کہ شب معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش و خرم اس لیے تھے کہ اولاً تو آپ کو معراج سے نوازا گیا، علاوہ ازیں جمیع انبیاء کرام علیہ السلام سے ملاقات، مبشرات نور باری تعالیٰ کا نزول اور آپ نے قرب الٰہی کے منازل طے فرمائے تھے، اسی وجہ سے آپ کے چہرۂ اقدس پر حسن و جمال مترشح اور ظاہر تھا، نیز لفظ رب سے آقا اور سید مراد ہے اسی معنی کے اعتبار سے حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ میں نے شب معراج میں ملائکہ کے آقا اور سردار جبریل کو بہترین صورت میں دیکھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جبریل کو آقا اور سردار کہنا ویسا ہی صحیح اور درست ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ کا یہ قول ہے کہ میں نے اپنے رب (یعنی آقا اور سردار) کو مدینہ میں اس طرح چلتے دیکھا کہ آپ سرخ جبہ اور جوتے پہنے ہوئے تھے، یہ سنتے ہی لوگوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوہریرہ مسلمان ہوجانے کے بعد بھی کفر یہ کلمات کہہ رہے ہو، تو ابوہریرہ مسکرائے اور فرمایا کہ میں نے اپنے رب یعنی سیدی حسن رضی اللہ عنہ کو اس طرح دیکھا، جب سلسلہ کلام یہاں تک پہنچا تو لوگوں نے دریافت کیا (کہ اللہ نے آدم کو ان کی خلقت پر پیدا کیا) کے کیا ’’حی‘‘ ہیں، فرمایا کہ صورتہ میں ’’ہ‘‘ ضمیر آدم کی جانب راجع ہے یعنی آدم کو اپنے پورے قد و قامت کے ساتھ پیدا فرمایا جو ان کو دیکھا گیا، دوسرے عام آدمیوں کی طرح کہ پہلے بچہ، پھر جوان، پھر بوڑھا تمہیں بنایا، آدم کو اسی ایک ہی صورت میں پیدا کیا جو از ابتدا تا انتہا ایک ہی شکل و صورت تھی اور اس میں تا حیات دنیوی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، حضرت شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے معتقدین اور مریدوں میں تمام بندگان دین اور اس وقت کے عالم و فاضل شریک تھے۔ منجملہ ان کے فصاحت و بلاغت میں فرد وحید مولانا مظہر جو شیخ کی خصوصی عنایتوں کے مرکز تھے انہوں نے آپ کی تعریف و مدح میں کچھ اشعار لکھے ہیں جس میں سے چند ادبیات درج ذیل ہیں۔

قصیدہ

دوش آنز مان کہ از افق مغرب شتا
خورشید خواند سورہ والنجم اذا ہویٰ

ترجمہ (رات کے وقت جب افق مغرب سے سردیوں میں سورج نے سورۂ والنجم اذا ہویٰ پڑھی)

شمع فلک زبانہ فرد برداندر آب
دور زمین نشانہ بر آدرد برسما

ترجمہ (آسمان کی شمع کا شعلہ ختم ہوکر پانی میں چلا گیا گردش ایام نے اپنی علامات آسمان پر ظاہر کردیں)

گفتی مگر کہ یوسف خورشید شد بچاہ
کز تیرگی چودیدۂ یعقوب شد ہوا

ترجمہ (گویا کہ یوسف علیہ السلام کنویں میں چلے گئے، حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں اس غم سے ختم ہوگئیں)

بادے بر آمداب لب ویا کہ دامنش
گرد سیاہ سر ہمی ریحت بر فضا

ترجمہ (دریا سے ایک ہوا اڑی جو اس کے دامن سے سیاہ غبار فضا پر اڑا رہی تھی)

چوں ساعتے دو از شب دریجو برگشت
بنشت باد وابر درآمد مانخلا

ترجمہ (جب دو گھڑی سیاہ رات کی گزر گئیں، تو ہوا بھی رک گئی اور بادل بھی چھٹ گئے)

یکیک ستارہ بر سر گردوں فروغ داد
چوں در بہشت طلعت تابان اتقیا

ترجمہ (پھر تمام ستارے آسمان پر چمکنے لگے، جیسے پرہیز گاروں کے چہرے بہشت میں چمکتے ہوں گے)

فراش صنع از ید قدرت بر آورد
قندیل ہائے نُور بریں نیلگوں قبا

ترجمہ (پھر صانع مطلق نے اپنی قدرت سے نمودار کردیا اس آسمان نیلگوں پر روشن چراغوں کو)

محی جست نرم نرم نسیم از کنار باغ
گوئی پیام دوست ہمیں دادو ر خفا

ترجمہ (باغ کے کنارے بادِ صبا آہستہ آہستہ چل رہی تھی، گویا کہ وہ در پردہ محبوب کی خبر دے رہی تھی)

یاگر کیمیائے د۔۔۔ است
یا ۔۔۔ اخ بے نما

ترجمہ (اگر ہمیشہ رہنے والے کیمیا کی تجھے آرزو ہے یا گلزار بہشت اس شاخ بے ریا سے)

بردست اد اگر نتوانی نہا ددست
بارے بدار ایں سرِ خاکی بہ زیر پا

ترجمہ (اگر اس کے ہاتھ میں ہاتھ نہیں رکھ سکتا تو پھر ایک وقت اس خاکی سر کو پاؤں کے نیچے رکھ لو)

والا نصیر ملت دین و دل کہ ہست
نعم النصیر از پس یزداں برو سزا

ترجمہ (شیخ نصیر ملت دین و دل ہیں، بہترین مددگار ہیں خدا تعالیٰ کے بعد) نیز آپ کے مرثیہ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔

ز دور محنت ایں نہ سپہر زنگاری
کدام دل کہ زخوں گشت از جگر خواری

ترجمہ (اس جہان زنگ آلود کی جفا کشی سے کون سا دل ہے جو اس کے مصائب سے بچ گیا ہو)

کجا بجام طرب مجلس بنا کر دند!
کہ از سپہر ببا رید سنگ قہاری

ترجمہ (کون سی ایسی محفل ہے جو منعقد ہوئی ہو اور اس پر قہر کے پتھر نہ برسیں ہوں)

وفازِ عالمِ فانی مجو کہ مشہور اند
فلک بحیرہ کشی اختراں بہ غداری

ترجمہ (اس جہانِ فانی سے وفا طلب نہ کرو اس لیے کہ مشہور ہے کہ آسمان ظلم کرتا ہے اور ستارے غداری)

تو اے عزیز کہ در ملک و مال مغروری
مباش ایمن اگر عاقلی و ہوشیاری

ترجمہ (اے عزیز تو اپنے ملک و مال پر نازاں ہے، اگر تو عقلمند اور ہوشیار ہے تو بے خوف نہ ہو)

چہ دانی آنکہ در اوراق کارخانہ غیب
قضا چہ نقش بر آرد ز کلک جباری

ترجمہ (تجھے کیا معلوم کہ کارخانہ غیب کے اوراق میں کیا ہے، اور خدا کی قضاء کی قلم کیا لکھتی ہے؟)

زمانہ صلح کند با دل تو یا خصے!
فلک بہ دشمنی آید بہ پیش یا یاری

ترجمہ (کیا خبر تیرے دل سے زمانہ صلح کرتا ہے یا جھگڑا، آسمان تجھ سے دشمنی کرتا ہے یا یاری سے پیش آتا ہے )

چو وقت آں برسد، ہیچ کس نگیر و دست
نہ ملک بے ملکی نے سپہ سالاری

ترجمہ (جب وہ وقت آپہنچتا ہے تو کوئی آدمی ہاتھ نہیں پکڑ سکتا، نہ کوئی بادشاہ اور نہ ہی کوئی سپہ سالار)

بقا بقائے خدا یست ملک ملک خدائے
کہ نسیت قائم و دائم کے بجز باری

ترجمہ (باقی رہنا تو خدا کی ذات کو ہے اور ملک بھی اسی کا باقی ہے، خدا کی ذات کے علاوہ کوئی قائم اور دائم نہیں)

زدست چرخ ندا نم کجا کنم فریاد
کہ برگذشت بما جور اوزبسیاری

ترجمہ (آسمان کے ظلم سے نہیں جانتا کہ میں کس سے فریاد کروں، اس نے مجھ پر بہت ظلم کیے ہیں)

جہاں بہ ماتم خواجہ نصیر دین محمود
ہزار گو نہ فغاں کرد نوحہ زاری

ترجمہ (تمام جہان خواجہ نصیرالدین محمود کی موت پر ہزار بار فغاں، نوحہ اور گریہ کرچکا ہے)

مہیمناً ملکاً معنماً خدا وندا!
بحق نعمت قرآں و دولت قاری

ترجمہ (اے خداوند مہیمن و منعم، بحرمت نعمت قرآن اور بہ برکت پڑھنے والے کے)

برحمتِ تو کہ عام است در جہاں بانی
بعزت کہ خاص است در جہانداری

ترجمہ (بہ برکت اپنی نعمت کے جو جہاں میں عام ہےا ور بابرکت اپنی قدرت کے جو جہاں میں خاص ہے)

کہ روح اعظم آں شیخ پیشوائے کرم!
کہ مقتدائے جہاں بودہ ست ز اخباری

ترجمہ (کہ اس پیشوا کی روح معظم کو، جو جہان والوں کے متفقہ مقتدا تھے)

ندیم قربت خو دکن غریق رحم خویش
مجاور رسل و انبیا ز مختاری

ترجمہ (اپنی قربت سے ان کو ہمکنار اور اپنی رحمت میں غرق کردے جو رسولوں اور انبیاء کے خوشہ چین تھے)

بساط صحن دہ از حلہائے فردوسی
غلاف قبر کن از پردہ ہائے غفاری

ترجمہ (ان کا قبر میں بچھونا جنت کے کپڑوں میں سے بنا، اور ان کی قبر کا غلاف تیری بخشش کا پردہ ہو)

اور حمید قلندر شاعر جو خیرالمجالس کے جامع ہیں وہ بھی آپ کی مجلس میں حاضر ہونے والوں اور خدمت گزاروں میں سے تھے، یہ دراصل شیخ نظام الدین اولیاء کے مریدوں میں سے تھے، لیکن کبھی کبھی اپنے والد کے ہمراہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے، حمید قلندر نے آپ کے خلفاء سے بھی اپنی استعداد کے مطابق استفادہ کیا ہے اگرچہ ان کے اشعار اس قسم کے نہیں کہ ان کو شاعر کہا جاسکے لیکن اس کے باوجود وہ شاعری ہی سے مشہور ہوگئے، اور حمید سے زیادہ وہ قلندر سے مشہور تھے، اولاً حمید قلندر نے مولانا برہان الدین غریب کی خدمت میں رہ کر ان کے ملفوظات کو جمع کیا اس کے بعد شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کے ملفوظات کو جمع کیا اور اس کا نام خیرالمجالس رکھا، ملفوظات کی تالیف کی ابتدائی تاریخ 755ھ تھی اور 756ھ میں یہ پایہ تکمیل تک پہنچ گئے، ان ملفوظات میں حالات و احوال بڑے سادہ انداز میں تحریر کیے گئے ہیں۔

اخبار الارخیار

تجویزوآراء