شیخ نصیر الدین محمود رحمتہ اللہ علیہ
مشائخ طریقت کے شیخ عالم حقیقت کے بادشاہ ظاہر و باطن کی صفائی میں یکساں محبت و وفا کی کان علم و عقل اور عشق و ورع اور مکارم اخلاق اور بذل و ایثار ار بندگان خدا کی تحمل جفا اور تالیف قلوب کے لیے درم و دینار سے مکافات کرنے میں بے نظیر و لاثانی یعنی شیخ نصیر الملۃ والدین محمود ہیں جو عجب پسندیدہ ذات اور مقبول و برگزیدہ اوصاف رکھتے تھے یہاں تک کہ اس زمانہ میں دانشمند علماء اور مشائخ روزگار اور متوسط درجہ کی تمام مخلوق چھوٹے بڑے سب کے سب آپ کے معتقد و مطیع تھے (خدا تعالیٰ ان کی قبر پاک کو پاک و ستھرا رکھے)
سلطان المشائخ کی اس پرورش و عاطفت کا ذکر جو
شیخ نصیر الدین محمود کے حق میں ظہور میں آئی
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ شیخ نصیر الدین محمود بھی ابتدائی زمانہ سے جناب سلطان المشائخ کی نظر خاص میں ملحوظ ہوگئے تھے اور دینی و دنیاوی نعمت کے ساتھ مخصوص تھے چنانچہ ایک موقع کا ذکر ہے کہ خواجہ محمد گاذرونی جناب شیخ الاسلام بہاؤ الدین زکریا قدس اللہ سرہ العزیز کے مرید خاص جو اکثر اوقات سلطان المشائخ کی خدمت میں آیا کرتے تھے اس رات کو سلطان المشائخ کے جماعت خانہ میں موجود تھے جب تہجد کی نماز ادا کرنے کے لیے تجدید وضو کے واسطے گئے تو اپنا بالا پوش جماعت خانہ میں چھوڑ گئے کسی شخص نے اس بالا پوش کو اٹھا لیا اور وہاں سے چلتا بنا۔ خواجہ محمد وضو کر کے آئے تو اپنا بالا پوش نہ پایا اور خواجہ محمود بیاشای جو جماعت خانہ کے خادم اور باصفا درویش اور عزیز بے ریا تھا گفت و شنید ہوئی اتفاق سے اس وقت شیخ نصیر الدین محمود خانقاہ کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے مشغول بحق تھے۔ جب آپ نے ان دونوں صاحبوں کی گفتگو سنی تو اپنا لبانچہ خواجہ محمد گاذرونی کو عطا فرمایا شدہ شدہ اس حکایت کی خبر سلطان المشائخ کو پہنچی آپ نے شیخ نصیر الدین کو اوپر بلا بھیجا اور اس نیک خصلت کو پسند فرما کر انتہا سے زیادہ شفقت و مہربانی فرمائی۔ خاص اپنا لبانچہ انہیں دے کر بہت سی دعائیں دیں۔ کاتب حروف نے جناب سید السادات اپنے عم بزرگوار سید حسین رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے کہ فرماتے تھے کہ آج جناب سلطان المشائخ کی با عظمت بارگاہ شیخ نصیر الدین محمود کے وجود سے بارونق ہے اور دہلی شہر میں بجز شیخ نصیر الدین محمود کے کوئی شخص سلطان المشائخ کا مقام و مرتبہ نہیں رکھتا ہے کیونکہ آپ ظاہر و باطن میں تابہ امکان سلطان المشائخ کی طرز و روش سے سر موتجاوز نہیں کرتے ہیں اور اس کام میں سلطان المشائخ کے تمام خلفاء میں پوری بر خوداری آپ کو حاصل ہے اور مرتبۂ کمال پر پہنچ گئے ہیں یہ ضعیف عرض کرتا ہے۔
میانِ جملۂ اصحاب ھم چوما ھے بود
چہ نسبت است بمہ بلکہ بادشاہے بود
(درمیان جملہ احباب کے وہ مثل ماہ تابان تھے بلکہ چاند سے نسبت غلط ہے وہ مثال بادشاہ تھے۔) حقیقت میں شیخ نصیر الدین محمود ایک ایسی عجیب و غریب ذات رکھتے تھے جو تمام حمیدہ اوصاف کے ساتھ موصوف تھی اور اعلیٰ یاروں کے طبقے میں اخلاق شائستہ کے ساتھ مشہور و معروف۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
میانِ اھل ارادت نظیر پیر آمد |
|
زھے روش کہ درین راہ بے نظیر آمد |
(اہل ارادت کے درمیان وہ اپنے پیر کی زندہ مثال اور اس طریقہ میں بے نظیر تھے۔ جو ان کی روشن ضمیری سے ظاہر ہوا۔ اس کو جملہ اہل صفا نے قبول کیا۔)
نیز کاتب حروف نے سید السادات سید حسن اپنے عم بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ سے یہ بھی سنا ہے کہ ایک دن شیخ نصیر الدین محمود نے امیر خسرو سے کہا جو اعلیٰ درجہ کے یاروں میں شمار کیے جاتے تھے کہ آپ کو سلطان المشائخ کی خدمت میں پوری قربت اور تمام و کمال مرتبہ حاصل ہے تم جس وقت چاہتے ہو سلطان المشائخ کی خدمت میں چلے جاتے ہو اور کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ امیر خسرو خوب فرماتے ہیں۔
زھے سعادت و اقبال چشم آنکس را
کہ در جمال تو دستور یشے نظر یابد
تم فرصت کے وقت مجھ غریب کی طرف سے سلطان المشائخ کی خدمت میں بیٹھ کر عرض کرو۔ ہمام کہتا ہے۔
ای صبا بندۂ نوازی کن واز حال ھمام
وقت فرصت ھمہ دربندگی یر بگو
(ای صبا بندہ نوازی کر۔ اور ہمام کا حال فرصت کے وقت دوست کی خدمت میں گزارش کر۔)
کہ میں بیچارہ غریب الدیار اودھ میں سکونت رکھتا ہوں اور خلق کی مزاحمت کی وجہ سے مشغول بحق نہیں ہوسکتا ہوں اگر سلطان المشائخ کا حکم ہو تو پہاڑوں اور صحراؤں میں نکل کر بفراغت خدا تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں مصروف ہوں۔ امیر خسرو نے اقرار کیا کہ میں تمہاری یہ التماس سلطان المشائخ کی خدمت میں ضرور عرض کروں گا امیر خسرو کا دستور تھا کہ اپنے باری کے دن جب جماعت خانہ میں موجود ہوتے تو عشا کی نماز کے بعد اور استراحت کے وقت سلطان المشائخ کی خدمت میں جاتے اور بیٹھ کر ہر قسم کی حکایتیں نقل کرتے جیسا کہ ہم سلطان المشائخ کے ذکر میں لکھ آئے ہیں۔ الغرض امیر خسرو نے اس موقع پر شیخ نصیر الدین محمود کی عرضداشت سلطان المشائخ کی خدمت میں پیش کی آپ نے فرمایا۔ امیر خسرو! شیخ نصیر الدین سے کہدو کہ تمہیں خلق میں رہنا اور لوگوں کے جو رو ظلم کی مصائب جھیلنے چاہیں۔ اور ان کے عوض میں بذل و ایثار اور سخاوت و بخشش کرنا چاہیے۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جناب سلطان المشائخ کمال عقل اور حکمت و کرامت کے ساتھ موصوف تھے اور ہر شخص کو اسی کام کا حکم فرماتے تھے جو اس کے قابل و شایان دیکھتے تھے کسی کو سکوت و خاموشی کا حکم فرماتے اور کسی کو گوشہ نشینی اور دروازہ بند کر کے بیٹھنے کا ارشاد کرتے کسی کی نسبت حکم صادر ہوتا کہ تم بہت سے مرید کرنے میں کوشش کرو کسی کو ارشاد ہوتا کہ تمہیں خلق میں اور لوگوں کے ظلم و جفا سہنا چاہیے اور ان سے حسن معاملہ کرنا مناسب ہے اور یہ مرتبہ انبیا و اولیا کا مقام ہے یہ کام اس شخص سے بن آتا ہے جو اس کے شایان و قابل ہے یہ کام میرا تمہارا نہیں ہے۔ ایک بزرگ کیا خوب فرماتے ہیں۔
تونۂ مرد عشق بازیٔ ما
برواے خواجہ کار دیگر کن
(تو میرے عشق کے قابل نہیں ہے۔ پس چلا جا اور کسی دوسرے کام میں مشغول ہو۔)
شیخ نصیر الدین محمود قدس اللہ سرہ العزیز کے مجاہدوں کا بیان
شیخ نصیر الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ابتدائی زمانہ میں جب میں سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوکر ارادت لایا اور بیعت کی سعادت سے مشرف ہوا تو ایک دن ٹھیک دوپہر کے وقت اس درخت بڑے کے نیچے کھڑا تھا جو سلطان المشائخ کے مکان میں موجود تھا۔ اسی اثناء میں سلطان المشائخ جماعت خانہ کے کوٹھے پر سے نیچے تشریف لائے تاکہ پرانے حجرے میں جو ستون کے چبوترہ کے اندر ہے قیلولہ کریں جوں ہی آپ نے اس ضعیف کو کھڑا دیکھا حجرے میں تشریف نہیں لے گئے بلکہ دہلیز میں جاکر بیٹھ گئے اور خواجہ نصیر خادم کو میرے بلانے کے لیے بھیجا۔ جب میں دولت قدم بوسی کو پہنچا تو فرمایا نصیر الدین! بیٹھ جاؤ۔ میں بیٹھ گیا۔ ازاں بعد فرمایا کہ تمہارے دل میں کیا ہے اور اس کام سے مقصود کیا ہے اور تمہارے والد کیا کام کرتے ہیں میں نے غرض کیا کہ میرا مطلوب اس کام میں بجز مخدوم کی درازی عمر اور ترقی دولت کی دعا کے اور کچھ نہیں ہے شیخ سعدی کیا خوب فرماتے ہیں۔
بشنو نفسی دعایٔ سعدی
گرچہ ھمہ عالمت دعا گو ست
(سعدی بھی دعا گو ہے اگرچہ تمام عالم آپ کی دعا کرتا ہے۔)
اور درویشوں کی جوتیاں سیدھی کرنا اور سر و دیدہ سے ان کی خدمت میں مصروف رہنا میرا دلی مقصد ہے۔
ایک بزرگ خوب فرماتے ہیں۔
عھدے کر دم کہ خدمت کس نکنم
در ھر دوجھاں مگر خدار اوترا
میرے والد بہت غلام رکھتے ہیں جو پشمینہ کی سودا گری کرتے ہیں۔ اس کے بعد سلطان المشائخ نے بہت سی عنایت و مہربانی کا اظہار کر کے فرمایا۔ نصیر الدین! سنو جس زمانہ میں میں اپنے خواجہ شیخ شیوخ العالم فرید الحق والدین قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمت میں حاضر تھا تو ایک دن کا ذکر ہے کہ اجودھن میں ایک دانشمند جو میرا یار اور ہم سبق تھا اور مدتوں تک میں نے اور اس نے ایک جگہ تعلیم پائی تھی میرے سامنے آیا جب اس نے مجھے میلے کچیلے اور پھٹے پُرانے کپڑوں میں دیکھا تو دریافت کیا کہ مولانا نظام الدین! تمہیں یہ کیسا دن پیش آیا اور تمہاری یہ کیا حالت ہوئی اگر اس قدر زمانہ تک تم شہر میں لوگوں کو تعلیم دیتے تو مجتہد زمانہ کہلائے جاتے اور اسباب و روزگار بہت کچھ حاصل کر لیتے۔ میں نے اس یار عزیز کی یہ باتیں سن کر کچھ جواب نہیں دیا اور معذرت کر کے اپنے خواجہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شیخ شیوخ العالم نے پوچھا نظام! اگر تمہارے یاروں میں سے مل کر کوئی کہے کہ یہ کیسا دن ہے جو تمہیں پیش آیا ہے اور تعلیم و تعلم جو فراغت و رفاہیت کا سبب ہے اسے ترک کر کے تم اس دہاڑے کو پہنچ گئے ہو اور اس روز میں مشغول ہوئے ہو تو تم اس کا کیا جواب دو۔ میں نے عرض کیا کہ جو کچھ مخدوم کا رشاد ہو وہی عرض کروں فرمایا اس کا جواب یوں دینا چاہیے۔
نہ ھمر ھی تو مراراہ خویش گیر و برو
ترا سعادت بادامر انگو نساری
(تو میرا ہمرا ہی نہیں ہوسکتا اپنی راہ لے تجھے سعادت مطلوب ہے اور مجھے عاجزی و انکساری۔)
ازاں بعد شیخ شیوخ العالم نے فرمایا کہ باورچی خانہ میں جاکر کہو کہ ایک خوان طرح طرح کے کھانوں سے آراستہ کر کے لائیں۔ میں نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ جب باورچی خانہ کے داروغہ نے ایک آراستہ خوان تیار کیا تو شیخ شیوخ العالم نے فرمایا۔ نظام! اس کھانے کے خون کو سر پر رکھو اور اس مقام پر لے جاؤ جہاں تمہارا وہ یار مقیم ہے۔ میں نے خواجہ کے فرمان کے مطابق کھانے کا خوان سر پر رکھا اور اس طرف چل نکلا چلتے چلتے اس سرائے میں پہنچا جہاں وہ فروکش تھا۔ جوں ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی زارو قطار روتا ہوا دوڑا اور کھانے کا خوان میرے سر سے اُتار کر پوچھنے لگا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ میں نے کہا مجھ سے تمہاری ملاقات کرنے اور باہمی بحث و گفتگو کرنے کا حال شیخ شیوخ العالم کو باطنی نور سے روشن و ہویدا ہوگیا شیخ نے ساری کیفیت مجھ سے دریافت کی جب میں نے تمام باتیں صاف صاف عرض کردیں تو شیخ نے یہ خوان مرحمت فرمایا اور تمہاری بات کا جواب اس بیت میں عنایت کیا۔
نہ ھمر ھی تو مراراہ خویش گیرو برو
ترا سعادت باد امر انگو نساری
اس دانشمند عزیز نے میری یہ گفتگو سن کر جواب دیا۔ خدا کا لشکر ہے کہ تم ایک ایسا بزرگ و معظم شیخ رکھتے ہو جس نے تمہارے نفس کو اس حد تک ریاضت دی ہے اب مجھے بھی اپنے شیخ کی خدمت میں لے چلو تاکہ ایسے بزرگ کی پائبوسی کی سعادت حاصل کروں۔ الغرض جب وہ کھانا صرف ہوگیا تو دانشمند نے اپنے خدمت گار سے کہا کہ یہ خوان سر پر رکھ کر ہمارے ساتھ ساتھ چل۔ سلطان المشائخ فرماتے ہیں کہ میں نے اس عزیز سے کہا ایسا نہ کرو جس طرح خوان سر پر رکھ کر لایا ہوں اسی طرح واپس ہوں گا اور شیخ کی خدمت میں پہنچاؤں گا۔ چنانچہ میں نے خوان اپنے سر پر رکھ لیا اور وہ دانشمند میرے ساتھ ساتھ شیخ شیوخ العالم کی خدمت میں آیا سر سے تاج رعونت اتار کر بادشاہ اہل محبت کی درگاہ کی خاک پر رکھی اور شیخ شیوخ العالم کے مکاشفہ اور محاورہ سے آپ کا اسیر محبت ہوگیا اور دلی عقیدت مندی کے ساتھ بیعت کی یہ ضعیف کہتا ہے۔
از دیدۂ و دل بندہ شکل تو شدم
یا رب چہ خوش است این طریق خوش تو
(تیرا طریق اور تیری روش اس اعلی درجہ کی ہے کہ میں دل و جان سے تیرا غلام ہوگیا۔)
شیخ نصیر الدین محمود فرماتے ہیں کہ جس اثناء میں سلطان المشائخ یہ فوائد اپنے غلام سے فرما رہے تھے اور مجاہدہ کی تلقین کر رہے تھے اور عشق انگیز ابیات پڑھتے تھے تو آپ کی پر نم آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں پڑی بَہ رہی تھیں اور انتہا درجہ کی رقت طاری تھی۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
چشم از خون دل رواں کردہ
جوئے خون ھمچو آب بر در تو
اسی اثناء میں سید السادات سید حسین کاتب حروف کے عم بزرگوار جن کا وصف شرح و بیان سے مستغنی ہے اور جس کا شمہ ان کے حالات میں لکھا گیا ہے شباب اور کامرانی کے زمانے میں عجیب کیفیت سے آئے رومال سر سے بندھا ہوا اور نازنین دستار مبارک مونڈھے پر پڑا ہوا جوانوں کی طرح خراماں دروازے سے آئے اور چاہتے تھے کہ دہلیز سے گزر کر سلطان المشائخ کے حجرے کے اندر تشریف لے جائیں کہ سلطان المشائخ نے فرمایا۔ سید! یہاں آکر بیٹھو اور سعادت حاصل کرو۔ سلطان المشائخ کے فرمان کے مطابق وہ صاحب سعادت وہاں آکر بیٹھ گئے جہاں میں اور سلطان المشائخ بیٹھے تھے اور سعادتوں اور ذوقوں کے دریافت کرنے میں جن کا ذکر اس مجلس میں ہو رہا تھا شریک ہوئے اس حکایت کی تصدیق کے لیے کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جس زمانہ میں سید با صفا کی پاک ذات فالج کی زحمت میں مبتلا ہوئی تو سید نے اس بندہ اور اس کے بھائیوں کو شیخ محمود کی خدمت میں روانہ کیا اور فرمایا کہ تم جاکر شیخ محمود سے دریافت کرو کہ آپ کو وہ دن یاد ہے کہ سلطان المشائخ حجرہ کی دہلیز میں بیٹھے ہوئے تھے اور فوائد و ابیات زبان فیض ترجمان سے بیان فرما رہے تھے تم بھی اس وقت موجود تھے جب میں اس مجلس سے عبور کر کے اندر جانے لگا تھا تو سلطان المشائخ نے مجھے بلایا تھا اور فرمایا تھا کہ سید! یہاں آکر بیٹھو اور سعادت حاصل کرو۔ جب ہم نے یہ پیام شیخ محمود کو پہنچایا تو آپ نے فوراً فرمایا۔ بے شک وہ دن مجھے خوب یاد ہے جب میں شیخ محمود کی مجلس سے اٹھ کر باہر آیا تو سید السادات کی خدمت میں پہنچا تو آپ سے دریافت کیا کہ سلطان المشائخ نے جو بیتیں اس وقت فرمائی تھیں آپ کو ان میں سے کچھ یاد ہیں۔ سید السادات کو جس قدر بیتیں یاد تھیں پڑھیں اور باقی بیتیں میں نے انہیں یاد دلائیں۔ اب میں پھر اصل قصہ کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ابتدائی زمانہ میں ایک دفعہ نفس مجھے تکلیف دینے والا لگا اور سوء تنفس کا عارضہ پیدا ہوگیا جس سے میں نہایت منغض و پریشان ہوا چنانچہ میں نے اس کے دفعیہ کے لیے اس قدر عرق لیموں پیا کہ معرضِ ہلاکت میں پڑگیا اس وقت میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ شخص مرنا اختیار کرتا ہے نہ وہ کہ نفس مزاحم حال ہوتا ہے۔ شیخ نصیر الدین محمود یہ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے غایت مجاہدہ سے دس روز تک کچھ نہیں کھایا تھا۔ یہ خبر سلطان المشائخ تک پہنچی آپ نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اقبال خادم سے فرمایا کہ باورچی خانہ میں سے ایک روٹی لے آ۔ اقبال ایک روٹی اور اس کے ساتھ بہت سا حلوا لے آئے سلطان المشائخ نے فرمایا کہ یہ ساری روٹی کھالو۔ میں متحیر تھا کہ ساری روٹی ایک دفعہ کھانا میرے اندازے سے باہر ہے۔ اس روٹی کے کھانے کے لیے چند روز چاہییں۔ کاتبِ حروف عرض کرتا ہے کہ اس بزرگ کی ظاہر و باطن کی مشغولی اور مجاہدہ کی حکائتیں اس درجہ ہیں جن کی تحریر سے قلم محض عاجز ہے۔ جو لوگ اس بزرگ کی قدم بوسی کی دولت کو پہنچے ہیں انہوں نے آپ کی نورانی پیشانی میں تقوی کے آثار محسوس کیے ہیں۔ اس بزرگ کی آخیر عمر میں جبکہ آپ کا کمال عروج کو پہنچ گیا تھا اور ذات مبارک محض روح ہوگئی تھی جو خوشبو سلطان المشائخ کی مجلس میں آتی تھی ویسی ہی خوشبو شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس مبارک سے کاتب حروف کے مشام جان میں پہنچی ہے اور افسردہ پژمردہ جان کو تیس برس کے بعد ترو تازگی اور انبساط و خوشی حاصل ہوئی جن صاحب دلوں نے سلطان المشائخ کی مجلس کو دیکھا ہے اور اس معنی پر جو معنی کا مغز ہے پہنچ گئے ہیں۔ آپ کے بعد شیخ نصیر الدین محمود کی مجلس کو اس طریق پر پایا ہے اور دونوں مجلسوں میں کوئی تفاوت نہیں دیکھا ہے۔ یہ ضعیف کہتا ہے۔
مراز مجلس تو بوے یار مے آید |
|
خوشم زبویٔ تو کز سوئے یار مے آید |
(مجھے تیری مجلس میں اپنے دوست کی خوشبو آتی ہے۔ میں تیری نظافت سے خوش ہوں کہ یہ خوشبو یار کی جانب سے میری مجلس میں آرہی ہے اس خوشبو پر جو یار کی طرف سے آرہی ہے ہزاروں مثل گل پارہ ہوں کیا مضائقہ ہے۔)
جب شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس سے اس کرامت کا مشاہدہ ہوا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس بزرگ کا کام کمال کے مرتبہ کو پہنچ گیا ہے تعجب ہے کہ اس جیسے پاک ذات کو دنیا میں چھوڑ دیں اسی مناسب کے معنی دو ابیات ہیں جو سلطان المشائخ کی زبانِ مبارک سے گزری ہیں۔
ھیچ منمایٔ روے شھر افروز
چون نمودی برو سپند بسوز
آن جمال تو چیست مستیِ تو
وان سپند تو چیست ھستیِ تو
(کسی کو اپنا پیارا چہرہ نہ دکھا اگر ایسا ہوجائے تو سپند جلانا چاہیے۔ تیرا جمال مستی ہے اس پر بطور صدقہ سپند جلانا تیری ہستی۔)
اس رباعی کی شرح مفصل طور پر سر کرامت کے نکتہ میں لکھی جائے گی۔ الغرض اس کے بعد بہت تھوڑے دن گزرے تھے کہ شیخ نصیر الدین محمود نے سفرِ آخرت قبول کیا اور مقعد صدق و میں قرار پکڑا۔ قدس اللہ سرہ العزیز۔ آپ کا انتقال رمضان مبارک کی اٹھارہویں تاریخ ۷۵۷ ہجری میں جناب سلطان المشائخ کی وفات سے بتیس سال بعد ہوا۔
اس اشارہ کا بیان جو شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ نے
نفس سے متعلق کاتب حروف کو تلقین فرمایا
ایک دن کا ذکر ہے کہ کاتب حروف اس بزرگ بادشاہ دین کی خدمت میں حاضر تھا اور اس مشائخ روزگار کے سردار کے جمال و کمال کی دید میں مشغول تھا اسی اثناء میں آپ نے تربیت فرما کر ارشاد کیا کہ آدمی کا نفس ایک درخت کے قائم مقام ہے جو شیطانی خواہش کی مدد سے اس شخص کی ذات میں جڑ پکڑ لیتا ہے اور دن بدن محکم و مضبوط ہوتا جاتا ہے۔ اگر آدمی تدریج و سکونت کے بعد عبادت و تقوی کے زور اور محبت و عشق کی قوت سے ہر روز اس درخت کو ہلاتا رہے تو ضرور اس کی جڑ ضعیف اور ست ہوجانے اور اُکھڑ جانے کے قابل ہوجائے۔ پھر حق تعالیٰ کی بندگی کی مدد اور پیر کی محبت کی وجہ سے بالکل اُکھڑ جائے۔ یہ موثر اور دل پسند تقریر فوراً بندہ کے دل میں اتر گئی اور خود بخود دل نے قبول کرلی۔ اور واقعی بات یہ ہے کہ مشائخ کبار جو بھی نصیحت کرتے ہیں حق کے ساتھ کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے شیطان اور نفس دونوں کو مقہور کر رکھا ہے اور اپنے مبارک دل کے اطراف و جوانب کو ان دشمنوں سے بالکل خالی کر دیا ہے حق کے ساتھ موافقت کی ہے اور غیر حق سے تبر او بیزاری۔ جب کوئی واصل اور معظم و محترم شیخ اس مقام سے جو حق تعالیٰ کا منظور نظر ہے نصیحت کرتا ہے ضرور ہی دل میں جگہ کر لیتی ہے۔
سخن کز جان برون آید نشیند لا جرم در دل
شیخ نصیر الدین محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی بعض کرامات
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ بندہ ایک دفعہ اپنے بھائیوں یعنی جناب سید السادات عماد الدین امیر صالح رحمۃ اللہ علیہ اور سید نور الدین مبارک کے ساتھ جناب شیخ نصیر الدین محمود کی خدمت میں جارہے تھے جاڑے کا موسم تھا رستہ میں میرے بھائیوں میں سے ایک صاحب بول اٹھے کہ اگر شیخ محمود صاحب کرامت ہوں گے تو کسی قسم کی شیرینی ہمارے سامنے پیش کریں گے جب ہم اس بزرگ کی خدمت میں پہنچے اور اس بادشاہ دین کی قدم بوسی سے مشرف و معزز ہوئے تو حضور نے خادم کو شربت لانے کا حکم فرمایا فوراً حکم کی تعمیل ہوئی اور شربت کے چھلکتے ہوئے پیالے ہمارے سامنے لا کر رکھے گئے جب شربت کے لبریز پیالے خادم نے ہمارے ہاتھوں پر رکھے ہمارے دل میں فوراً خیال گزرا کہ یہ تو پینے کی چیز ہے اور ہم نے کھانے کی نسبت کہا تھا ہنوز ہم اس اندیشہ میں تھے کہ آپ نے خادم سے فرمایا کہ دوسری شیرینی لا۔ ہم نے عرض کیا کہ حضرت! شربت تو ہم پی ہی چکے ہیں۔ فوراً زبانِ مبارک پر جاری ہوا کہ وہ پینے کی چیز تھی اور یہ کھانے کی چیز ہے۔ کاتبِ حروف نے خواجہ عزیز الملۃ والدین سے جو حضرت سلطان المشائخ کی شرف قرابت کے ساتھ مشرف و ممتاز تھے سنا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ایک دفعہ میں شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ نے اسی اثناء میں خادم سے قلم دوات اور کاغذ کا ٹکڑا مانگا خادم نے فوراً حاضر کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے قلم کو سیاہی میں تر کر کے کچھ کاغذ پر لکھا اور میرے ہاتھ میں دے کر فرمایا کہ جب تم سلطان المشائخ کے روضہ مقدسہ میں پہنچو تو یہ کاغذ روضہ کے آگے رکھ دینا جوں ہی یہ سبز کاغذ آپ نے میرے ہاتھ میں دیا یوں ہی میرے دل میں خیال گزرا کہ اس کاغذ کو کھول کر پڑھنا چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کیا لکھا ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ اول روضۂ مبارک کے آگے رکھنا چاہیے جیسا کہ شیخ کا حکم ہے بعد ازاں مطالعہ کرنا مناسب ہے چنانچہ میں نے وہ کاغذ سلطان المشائخ کے روضہ کے سامنے رکھ دیا پھر جو اٹھا دیکھتا ہوں تو کاغذ بالکل سفید اور کورا ہے اس تعجب اور تعجب کے ساتھ سخت حیرت ہوئی۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جب کسی دوست کو اپنا قصۂ حال جو در حقیقت ایک طرح کا خدا وندی بھید ہے دوسرے دوست کی خدمت میں عرض کرنا منظور ہوتا ہے تو وہ دوست اس بات کو کبھی پسند نہیں کرتا کہ کوئی اور شخص اس بھید سے واقف ہو کیونکہ اگر ایسا کرے گا تو دوسرے بھید کے سُننے کا مستحق ہوگا ورنہ نہیں۔ یہ ضعیف عرض کرتا ہے۔
گر سر برود سر تو از جان نرود
اندوہ و غم عشق تو آسان نرود
ھر گز دل پر در دنیا بد در مان
تا قصۂ ححال او بسلطان برود
(اگرچہ سرکٹ جائے پر تیرا بھید دل سے نہ جائے یعنی اس پر کوئی مطلع نہ ہو اور تیرے عشق کا اندوہ و غم آسان نہ جائے دل پر درد کا علاج اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک کہ تیرے حال کا قصہ سلطان تک نہ پہنچ لے۔)
کاتب حروف نے خواجہ خیر الدین کافور سے سنا ہے جو ایک نہایت پاک اور درست اعتقاد مرید تھے اور درویشوں سے انتہا درجہ کی محبت رکھتے تھے فرماتے تھے کہ جب میں نے عزیزوں کی خدمت میں کمر ہمت باندھی ہے اس کام میں چست و چاق کھڑا ہوا ہوں تو میں نے چاہا کہ دستار اپنے اختیار سے کمر خدمت میں باندھوں اور جس طرح میرے مخدوم شیخ اشارہ فرمائیں اسی طرح دستار کو پاس رکھوں جب یہ بات میرے دل میں گزری تو شیخ نصیر الدین محمود کی خدمت میں حاضر ہوا پائبوسی کے بعد خدمت میں بیٹھا اور وہی دستار کا خطرہ اس وقت میرے دل میں گزرا اسی اثناء میں شیخ نے خادم سے فرمایا کہ زین الدین۔ جو دستار لوگ میرے لیے لائے ہیں یہاں لاؤ۔ خادم نے دستار حاضر کی تو میں نے دیکھا کہ وہ کھلی ہوئی تھی شیخ نصیر الدین نے وہ دستار مجھے عنایت فرمائی چنانچہ میں اس روز سے اس وقت تک کھلی ہوئی دستار اپنے پاس رکھتا ہوں۔ یہی خواجہ کافور فرمایا کرتے تھے کہ میں نے خواجہ قوام الدین کو فرماتے سنا ہے جو مرید صادق تھے کہ ایک دفعہ مجھے نہایت تنگی اور سختی پیش آئی اور مطالبہ و مصادرہ کی وجہ سے اپنے منصب سے موقوف و برطرف ہوگیا اس موقوفی کے زمانہ میں ان دوستوں اور عزیزوں کی یہ کیفیت تھی جن سے میں اس سے پیشتر دلی محبت رکھتا تھا کہ اگر میں ان کی طرف توجہ کرتا یا کوئی بات کہتا تھا تو وہ مجھ سے منہ موڑ لیتے تھے اور میری کچھ نہ سنتے تھے۔ اگر میں فروختگی کےلیے اسباب بازار میں پہنچتا تو کوئی اسے خریدتا نہ تھا۔ اس وجہ سے میں نہایت عاجز و بے قرار ہوا اور اسی حال میں اپنے مخدوم شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں گیا اور دل میں یہ بات ٹھان لی کہ شیخ کی قدم بوسی کے بعد یہ کیفیت عرض کروں گا اور آپ کے باطن مبارک سے فراخی و مخلص کی دعا چاہوں گا جب میں نے حضور کی سعادت قدم بوسی حاصل کی تو اس سے پیشتر کہ میں اپنا مطلوب عرض خدمت کروں خود شیخ نے اپنے کرم قدیم سے پوچھنا شروع کیا اور اثناء کلام میں یہ بیتیں زبان مبارک سے ارشاد فرمائیں۔
دنیا چو مقدر ست تخر و شی بہ |
|
رزق تو رسد بوقت کم کوشی بہ |
(دنیا جب تقدیر الٰہی اور اندازہ ربانی ہے تو تیرا جزع و فزع نہ کرنا ہی بہتر ہے اور جب یہ معلوم ہے کہ رزق وقت پر پہنچنے والا ہے تو اس کے لیے کم کوشش کرنا مناسب ہے جو چیز لوگ تم سے خرید نہ کریں اس کا نہ بیچنا بہتر ہے اور جب کوئی بات نہ سنے تو خاموشی اختیار کرنا چاہیے۔)
الغرض شیخ نے نورِ باطن سے میرا اندیشہ و خیال مجھ پر ظاہر کر دیا میں نے سر زمین پر رکھ کر عرض کیا کہ غلام کے دل میں ایک یہی خطرہ تھا جس پر مخدوم نورِ باطن سے مطلع ہوئے۔ بندہ کو اس کرامت سے ایک قسم کی تقویت اور مدد حاصل ہوئی۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جب سید محمد محمود کاتب حروف کا فرزند (خدا تعالیٰ اسے نیک نیتوں میں پرورش پانے کی توفیق دے) حمل میں تھا تو اس کی ماں نے نیت کی اور اس بات پر عزم کر لیا کہ اگر میرے ہاں لڑکا پیدا ہوگا تو اس کا جو نام شیخ نصیر الدین محمود تجویز کر دیں گے وہی نام رکھوں گی اور جس کپڑے نے شیخ محمود کی صحبت حاصل کی ہوگی اس کا کُرتا بنا کر پہناؤں گی اور اسے شیخ کی نظر مبارک میں پیش کر کے آپ کے قدموں میں ڈال دوں گی۔ تاکہ حق تعالیٰ ان کی برکت سے اسے سعادت و بر خوداری بخشے۔ چنانچہ جب سید محمود پیدا ہوا تو بندہ شیخ محمود کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت قیولہ میں مشغول تھے۔ قیولہ سے فارغ ہوئے تو لوگوں نے میرے حاضر ہونے کی اطلاع دی حضرت نے بندہ کو اندر بلالیا اور اپنی قدیم عادت کے مطابق غلام کی عزت و حرمت میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا میں ابھی کھڑا ہی تھا کہ حضرت نے پوچھا کہ تمہارے کتنے فرزند ہیں مجھے آپ کے اس سوال سے نہ صرف تعجب بلکہ سخت حیرت ہوئی لیکن میں فوراً حضور کی قدم بوسی میں مشغول ہوا جب بیٹھا تو پھر دریافت کیا کہ تمہارے کتنے فرزند ہیں نے نے عرض کیا کہ حضور میں اسی بابت کچھ عرض کرنے آیا ہوں۔ چنانچہ میں نے اپنا تمام ماجرا اس طرح بیان کرنا شروع کیا اس کمترین کے چند فرزند حالت طفلگی میں مر مر گئے اب میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے اس کی ماں نے یہ نذر مانی ہے کہ اس کے بعد میں نے سید محمود کی والدہ کی نذر اور اس کے پیدا ہونے کا سارا قصہ شیخ کی خدمت میں عرض کیا۔ حضرت نے میری تمام عرضداشت رغبت کے کانوں سے سن کر فرمایا ذرا ٹہر جاؤ کہ زوال کا وقت جاتا رہے اور سایہ دھل جائے میں باہر آکر بیٹھ گیا۔ حضرت نے عنایت کی اور خادم کے ہاتھ پان بھیجا ازاں بعد بندہ کو پھر اندر بلا یا میں دیکھتا ہوں کہ اپنا مصلّٰی زانوئے مبارک کے پاس رکھے ہوئے ہیں اور چند گز کپڑا زانو مبارک پر لیے ہوئے ہیں۔ جوں ہی میں سامنے گیا مصلا ہاتھ میں لے کر بندے کو عنایت فرمایا اور ارشاد کیا کہ یہ تمہارے کام آئے گا اور وہ کپڑا بھی ہاتھ سے اٹھا کر بندے کو دیا اور فرمایا یہ کپڑا اپنے چھوٹے کے لیے لے جاؤ اور اس کے کپڑے قطع کر کے اسے پہنادو۔ اس موقع پر حضور کے خادم نے عرض کیا کہ یہ کپڑا شیخ کی دستار مبارک ہے۔ اس کے بعد بندہ نے عرض کیا کہ بچہ کا نام بھی معین کر دیجیے۔ شیخ نے کچھ تامل کیا اور پوچھا تمہارا کیا نام ہے میں نے کہا محمد۔ پھر فرمایا کہ تمہارے چھوٹے بھائیوں کا۔ میں نے عرض کیا ایک کا نام سید لقمان۔ دوسرے کا سید داؤد آپ نے پھر تامل کیا اور دوسری مرتبہ بعینہ یہ تقریر فرمائی کہ اس کا نام محمود ہونا چاہیے۔ حضرت کی یہ تقریر سنتے ہی میرے دل میں یہ خیال گزرا کہ بزرگ شیخ نے یہ نام ربانی الہام سے تجویز فرمایا ہے اور اس کے ساتھ ہی مجھے اپنے فرزند کی سعادت مندی و برخوداری کی کامل امید ہوگئی۔ خواجہ نظام نے کیا خوب فرمایا ہے۔
ھر کہ ز دل دامن پیران گرفت
گنج بقا زین رہ پیران گرفت
(جس شخص نے دل سے پیروں کا دامن پکڑا اس نے پیروں کی راہ سے بقا کا خزانہ حاصل کیا۔)
کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ جب سلطان محمد تغلق کی دولت و حشمت کا ستارہ شہاب ثاقب بن کر چمکا اور ممالک ہندوستان پر اس کا پورا تسلط ہوا تو اس نے شیخ نصیر الدین محمود کو جو با تفاق تمام عالم اپنے زمانہ کے شیخ تھے اور جمیع مخلوق آپ کی مرید و فرمانبردار تھی۔ طرح طرح کی ایذائیں پہنچائیں لیکن با اینہمہ محترم معظم اور دین کے بزرگ شیخ نے اپنے پیروں کی اتباع کی وجہ سے تحمل و برداشت کو ضروری بات سمجھی اور اس کی تلافی و مکافات میں ذرا کوشش نہیں کی۔ یہاں تک کہ آخر عمر میں اس بادشاہ کو ٹھٹہہ کی مہم پیش آئی (ٹھٹہہ ایک موضع کا نام ہے شہر دہلی سے ہزار میل کے فاصلہ پر) اور وہ اس مہم کے سر کرنے کے لیے خود وہاں گیا۔ چند روز کے بعد شیخ نصیر الدین محمود کو علما اور بزرگان دین کی ایک جماعت کے ساتھ بلایا اور جیسا کہ احترام اکرام کرنا چاہیے تھا ویسا نہیں کیا۔ آپ نے اس پر بھی برداشت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطان محمد تغلق مرگیا اور تخت سلطنت سے اتر کر تختۂ تابوت میں بند ہوا اور اس کا جنازہ شہر میں لایا گیا الغرض لوگوں نے شیخ نصیر الدین محمود رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ سلطان محمد تغلق جو آپ کو طرح طرح کی تکلیفیں پہنچاتا تھا اس کا سبب کیا تھا فرمایا مجھ میں اور خدا تعالیٰ میں ایک معاملہ تھا اس وجہ سے خدا نے سلطان محمد تغلق کو میری تکلیف دینے پر آمادہ کر دیا تھا۔ کاتب حروف عرض کرتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے دوستوں کو اس انتہا درجہ کی گرمی کی وجہ سے کہ ان کے حق میں جائز رکھتا ہے ایک ایسے طریق کے ساتھ جو اسے معلوم ہے اس درجہ کو پہنچاتا ہے یعنی جو ان لغزش ہوتی ہے اس کی دنیا ہی میں تلافی کردی جاتی ہے تاکہ کل قیامت کے دن (جس کا وقوع یقینی ہے) انبیا و اولیا کے سامنے ان کا راز فاش نہ ہو اور اسی طرح معظم و مکرم رہیں۔ اس مطلب کی تصدیق کے لیے ایک حکایت احیاء العلوم سے نقل کی جاتی ہے۔
حکایت:
بنی اسرائیل میں جو پیغمبر گزرے ہیں ان میں ایک پیغمبر دین نام تھے (ان پر اور ہمارے نبی آخر الزمان پر خدا کا درودد و سلام ہو) ایک دفعہ ان کے دل مبارک میں خطرہ گزرا جس کی وجہ سے ان پر عتاب الٰہی ہوا اور مواخذہ کیا گیا اور یہ اس وجہ سے کہ المخلصون علی خطر عظیم یعنی دوستانِ خدا کے لیے بڑی بڑی مصیبتیں اور بلائیں ہیں۔ الغرض انہیں خدا وندی فرمان پہنچا کہ تم اس بات کو پسند کرتے ہو کہ اس خطرے کی جزا تمہیں قیامت کے دن دی جائے یا دنیا ہی میں مل جائے۔ پیغمبر صاحب نے جواب میں کہا کہ میں یہ سزا دنیا ہی میں بھگتنا پسند کرتا ہوں تاکہ قیامت کے روز میدان عرفات میں انبیاء اور اولیا کے سامنے کسی خطرہ کی وجہ سے نادم شرمندہ نہ ہوں چنانچہ اس کے بعد خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک عورت ان پیغمبر صاحب کے نکاح میں آئی جس نے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں پہنچانی شروع کیں چونکہ پیغمبر صاحب کو معلوم تھا کہ یہ بلا اختیاری اور میری ہی پسند کی ہوئی ہے اس لیے ان نا قابل برداشت ظلموں اور جفاؤں کو دل سے قبول کرتے اور نہایت خوشی کے ساتھ سہتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ چند عزیزانِ پیغمبر صاحب کے گھرمیں مہمان ہوئے۔ آپ نے نہایت خندہ پیشانی اور بشاشت کے ساتھ انہیں اپنا مہمان کیا اور ان کے لیے گھر سے کھانا لانے کا ارادہ کیا لیکن جب گھر میں جا کر کھانا مانگا تو عورت نے کھانا نہیں دیا اور اُلٹی جو رو جفا سے پیش آئی پیغمبر صاحب نہایت منغص اور کبیدہ خاطر باہر تشریف لائے۔ مہمانوں نے ان چہرہ مبارک پر نا خوشی اور ملالت کے آثار دیکھ کر خاموشی اختیار کی غرضکہ پیغمبر صاحب نے چند مرتبہ ایسا کیا کہ گھر میں جاتے تھے اور باہر آتے تھے لیکن ہر بار عورت ظلم و ستم توڑتی تھی اور کوئی چیز نہیں دیتی تھی آخر کار مہمانوں سے ایک شخص نے پیغمبر صاحب سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ پیغمبر صاحب نے اپنے خطرہ کی کیفیت اور اس کی جزا دنیا ہی میں اختیار کر لینے کی تفصیل بیان کی۔ الغرض شیخ نصیر الدین محمود کی ذات ہمایوں صفات کو آخر عمر میں چند روز تک زحمت لاحق رہی اور آپ نے اسی زحمت کی وجہ سے اٹھارہویں ماہ رمضان المبارک ۷۵۷ ہجری کو چاشت کے وقت دارفنا سے دارِ بقا کی طرف رحلت فرمائی۔ شیخ نصیر الدین قدس اللہ سرہ العزیز کے مکان ہی میں ایک مقام تھا جو ہمیشہ سے حضرت کا منظور نظر تھا چنانچہ لوگوں نے وہی مقام تجویز کر کے آپ کو وہاں دفن کیا۔ آپ کے روضۂ مبارک سے بوے بہشت آتی ہے اور خلق کا قبلۂ حاجات مانا جاتا ہے رحمۃ اللہ علیہ واسعتہ۔