حضرت شیخ نصیر الدین محمود چراغ دہلی
حضرت سلطان المشائخ کی کرامات میں سے سب سےبڑی کرامت حضرت شیخ نصیر الدین یحیی اودھی چراغ دہلی قدس سرہٗ ہیں۔ صاحب مراۃ الاسرار لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ نصیر الدین محمود قدس سرہٗ کا شمار اکابر اولیاء ہند میں ہوتا ہے۔ آپکی شان بہت بلند، علم بے پایاں اور احوال (پوشیدہ) کے مالک تھے اور ابتدائے سلوک سےلیکر انتہا تک مسلسل ریاضت و مجاہدات میں مشغول رہے۔ تسلیم ورضا میں آپ کا ثانی نہیں تھا۔ آپ حضرت سلطان المشائخ کے بزرگ ترین خلیفہ ہیں اور آپ کے وصال کے بعد دہلی میں آپ سجادۂ خلافت پر متمکن ہوکر ایک جہان کے لیے منبع رشد و ہدایت بنے رہے۔ اور بے شمار بزرگوں کو آپکے فیض صحبت سے مرتبہ تکمیل وارشاد حاصل ہوا۔ اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت شیخ نصیر الدین قدس سرہٗ کےجد امجد شیخ عبد الطیف بزومی خراسان سے لاہور آکر سکونت پذیر ہوئے۔ لاہور میں آکر آپ کےہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام یحییٰ رکھا گیا۔ اس کے بعد آپ لاہور سے رک سکونت کر کے اودھ میں قیام پذیر ہوئے اور آپ کے گھر میں شیخ نصیر الدین محمود پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلۂ کتب معتبر کے مطابق حضرت امام حسین ابن حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے جا ملتا ہے۔ لقب ‘‘چراغ دہلی’’ کی وج ہ بعض سیرت نگاروں نے یہ لکھی ہے کہ ایک دن چند درویش سیرو سیاحت کرتےہوئےحضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے اور آپ کےگرد حلقہ بناکر بیٹھ گئے۔ اس اثناء میں حضرت خواجہ نصیر الدین محمود تشریف لائے اور کھڑےہوگئے۔ حضرت سلطان المشائخ نے فرمایا بیٹھ جاؤ آپ نےعرض کیا کہ درویش بیٹے ہوئےہیں انکی طرف پشت ہوتی ہے۔ حضرت اقدس نےفرمایا چراغ کےلیے پشت اور منہ نہیں ہے۔ آپ تسلیمات بجاکر بیٹھ گئے۔ اُسی دن سے آپکے آگے اور پیچھے کی سمت برابر ہوگئی۔ یعنی سامنےاور پیچھےکی طرف یکساں دیکھ سکتے تھے اور اُسی روز سے آپ کا لقب چراغ دہلی ہوگیا۔ ایک اور کتاب میں اس لقب کی وجہ یہ درج کی گئی ہے کہ ایک رات حضرت سلطان المشائخ کے عروس کے موقعہ پر بادشاہِ وقت نے حسد کی بنا پر بازار میں سارا تیل ضبط کرلیا اور حضرت شیخ نصیر الدین محمود نے تمام چراغوں کو پانی سے روشن فرمایا۔ اُسی روز سے آپ کا لقب چراغ دہلی ہوگیا۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت خواجہ نصیر لادین چراغ دہلی قدس سرہٗ نے پچیس سال کی عمر میں مجاہدہ النفس شروع کیا اور ساری عمر سخت ریاضت و مجاہدہ میں گذاری۔ آپ سات سال تک ایک درویش کے ساتھ اس علاقے کےجنگلوں میں مجاہدی کرتےرہے اور اکثر اوقات آپ سنبھالو اور کریل کے پتوں سے روزہ افطار فرماتے تھے۔ اکتالیس سال کی عمر میں اپ اودھ سے دہلی پہنچے اور حضرت سلطان المشائخ قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرف بیعت حاصل کیا۔ اور مدت دار تک حضرت شیخ کی خدمت میں کمر بستہ رہے۔ حضرت شیخ نصیر الدین قدس سرہٗ اپنے شیخ کی محبت میں اس قدر بے اختیار تھے کہ اپنے ارادہ اور اختیار کو بالکل ترک کر کے حضرت شیخ کی ذات بابرکات کے سواہر مطلب و مقصد سے فارغ ہوگئے تھے۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دفعہ جب حضرت شیخ نصیر الدین کو حضرت خواجہ قطب الدین بختیار قدس سرہٗ سے باریابی نصیب ہوئی (یعنی انکی روحانیت سے) تو فرمان ہوا کہ جو کچھ مانگتے ہو مانگو۔ آپ نے درخواست کی کہ ہمارا پیر قطب ج ہاں بن جائے۔ فرمان ہوا کہ تمہارے پیر کو ہم نے قطب جہان بنایا اور یہ فرمانن تین مرتبہ ہوا۔
آپ کا مقام فردِ حقیقت
میر سید محمد جعفر مکی جو حضرت شیخ نصیر الدین کے اکابر خلفاء میں سے تھے اپنی کتاب بحر المعانی میں مقام فردیت کے موضوع پر لکھتے ہیں کہ فرد کو دو جہانوں میں سے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی اور عرش سے تحت الثریٰ تک کسی کام میں انکا دل نہیں لگتا۔ نیز لکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ حضرت خواجہ نصیر الدین محمود قدس سرہٗ اٹھائیس سال، تین ماہ اور دو دن قطب مدار کے عہدہ پر فائض رہے ہیں۔ یہ مرتبہ آپ کو غایت تحمل کی وجہ سےعنایت ہوا۔ اس سارے عرصہ میں آپ نے پوری طرح تحمل سے کام لیا اور ہر حال متحمل رہے۔ اس مدت کے بعد آپ نےمقام فردانیت میں نزول فرمایا اور مقام فردانیّت کے بعد مقام بقا میں رحلت فرمائی۔ چنانچہ انہوں نے اس مقام کے مناسب ایک حکایت بیان فرمائی کہ فردِ حقیقت شیخ نصیر الدین محمود ۷۵۱ھ میں ٹھٹھہ سے واپس ہوئے۔ جہاں محمد تغلق آپ کو زبردستی لے گیا تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں صاحب مقام فردانیّت پر مصائب کا نزول ہوتا ہے۔ چنانچہ محمد تغلق کو فرد حقیقت حضرت شیخ نصیر الدین پر مکمل غلبہ رہا۔ لیکن حقیقت میں یار واغیار کی طرف سے یہ تکالیف و مصائب اس مقام کے اصحاب کیلئے معراج ہوتے ہیں اور حضرت اقدس کو یہ مرتبہ نصیب تھا۔
جب سلطان فیروز شاہ تخت نشین ہوا تو ایک دفعہ وہ حضرت اقدس کو اپنے ہمراہ ہانسی لے گیا۔ جب ہانسی پہنچے تو شیخ قطب الدین منور[1]۔ کو خواہش ہوئی کہ فردِ حقیقت حضرت شیخ نصیر الدین محمود قدس سرہٗ سے ملاقات کیلئے جائیں۔ حضرت اقدس نے انکے پاس پیغام بھیجا کہ آپ تشریف نہ لائیں میں خود آرہا ہوں تاکہ میرے ساتھ بادشاہ بھی آئے اور سعادت حاصل کرے۔ چنانچہ حضرت شیخ نصیر الدین روانہ ہو پڑے۔ یہ دیکھ کر بادشاہ بھی سوار ہوگیا۔ جب قریب پہنچا تو کسی نےجاکر اطلاع دی کہ بادشاہ آرہا ہے۔ اس وقت حضرت فردِ حقیقت شیخ قطب الدین منور کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ہجوم خلق کی وجہ سے آپ اٹھے اور فرمایا کہ اے برادر مولانا قطب الدین منور اب الوداع۔ یہ کہہ کر روان ہوئے لیکن حضرت شیخ قطب الدین نے کوئی جواب نہ دیا گویا وداع نہ کیا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ راستے میں جب حضرت شیخ نصیر الدین بادشاہ سے ملے بادشاہ نے عرض کیا کہ حضور مجھے معلوم ہوا کہ آپ شیخ منور کی ملاقات کیلئے تشریف لے گئے ہیں۔ میں نے یہ منت مانی تھی کہ جب دونوں بزرگ ایک ہی سجادہ پر بیٹھے ہوں تو میں زانوئے ادب آپ کے سامنے تہ کر کے بیٹھوں گا۔ چنانچہ بادشاہ آپ کو واپس لےگیا۔ اس کے بعد وہاں سے واپس ہونے لگے تو شیخ قطب الدین منور نے فرمایا کہ اے برادر مولانا نصیر الدین اب الوداع ہے۔ یہ بات سنکر بادشاہ کو تعجب ہوا کہ لفظ اب کا کیا مطلب۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ تمہارے آنے سےپہلے جب میں اُن سے رخصت ہوا اور الوداع کہا تو انہوں نے جواب نہ دیا۔ اسکی وجہ تھی کہ انکو معلوم ہوگیا تھا کہ ابھی صحبت باقی ہے۔ یہی وجہ ہےکہ آپ مجھے واپس لائے میری دوبارہ اُن سے ملاقات ہوئی اور ملاقات کے بعد جب اُن سے رخصت ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ اب الوداع ہے۔ اس سے بادشاہ کو مزید تعجب ہوا اور کہنے لگا یا حضرت میری سمجھ میں نہیں آیا کہ حضرت شیخ قطب الدین منور کو تو روشن ضمیری سے معلوم ہوگیا کہ ابھی ملاقات باقی ہے آپ کو یہ بات کیوں معلوم نہ ہوسکی۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ مجھے اس لیے اسکا علم نہ ہوا کہ میں انکی ولایت میں تھا۔ لیکن حضرت اقدس کا جواب بادشاہ کی استعداد کے مطابق تھا۔ حقیقی جواب نہ تھا۔ چنانچہ جب اس فقیر نے (شیخ جعفر مکی) خلوقت میں حضرت اقدس سے وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا کہ اے فرزند ہن! اس وقت میں تجلئ ذت میں تھا جو مقام فردانیت کا خاصہ ہے۔ مجھے عالم کون و مکاں کا کوئی علم نہ ہوسکتا تھا۔ لیکن میرے بھائی مولانا منور قدس سرہٗ اس وقت تجلی افعالی میں تھے۔ کشف قلوب، کشف قالب اور کشف کون و مکان انکے لیے آسان تھا۔
حضرت کا وجد
اخبار الاخیار میں کتاب جوامع الکلم یعنی مجموعہ ملفوظات حضرت بندہ نواز سید محمد گیسو دراز قدس سرہٗ جو حضرت شیخ نصیر الدین محمودکے محبوب ترین خلفاء میں سے ہیں۔ میں سے روایت ہے کہ ایک خانقاہ میں حضرت شیخ نصیر الدین قدس سرہٗ کو اس شعر پر وجد آگیا؎
جفا بر عاشقاں گفتی نخواہم کرد کردی |
|
قلم بر بے دلاں گفتی نخواہم راند راندی |
(اے محبوب تونے وعدہ کیا تھا کہ عاشقوں پر ظلم نہیں کرونگا لیکن ظلم کیا۔ تونے وعدہ کیا تھا کہ عاشوں کو خوار نہیں کرونگا لیکن خوار کیا)۔
مولانا مغیث نے ایک رسالہ لکھا اور اس مجلس کا پورا ذکر اس رسالہ میں درج کیا۔ انکا مقصد یہ تھا کہ یہ شعر حقیقت پر ہر گز محمول نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ظلم دستم سے متعلق خداوند تعالیٰ کا شکوہ کرنا کفر ہے۔
اس قسم کی چیزیں لکھ کر وہ اس رسالے کو مولانا معین الدین عمرانی کےپاس لےگئے۔ انہوں نے رسالہ لیکر حضرت شیخ کے پاس بھیجدیا۔ یہ دیکھ کر حضرت اقدس نے مولانا معین الدین کو طلب فرمایا اور یہ رسالہ ان کے ہاتھ میں دیا اور کچھ نہ کہا اور دستار دیکر واپس بھیج دیا۔ دوسرے دن محفل سماع منعقد ہوئی۔ حضرت شیخ نصیر الدین کو اس رباعی پر وجد آیا اور کھڑے ہوکر رقص فرمایا؎
ماطبل مغانہ دوش بے باک زدیم |
|
حالی علمش برسرِ افلاک زدیم |
ازبہر یکے مغچۂ لے خوارہ |
|
صدبار کلاہ توبہ برخاک زدیم |
(گذشتہ رات ہم نے خوب بے باکانہ طریق پر سر ود سُنا اور اسکا جھنڈا آسمان پر گاڑھ دیا۔ ایک ترک نازنین کی خاطر ہم نے سو بار توبہ کی اور سو بار اُسے توڑکر خاک میں ملایا)
بہت ذوق و شوق ور اضطراب کے بعد حضرت اقدس چھت پر تشریف لے گئے اور مولانا مغیث کو طلب فرمایا۔ جب مولانا مغیث کو لوگوں نے لاکر حضرت اقدس کے سامنے کھڑا کیا تو آپ نے فمایا ہاں مولانا تم نے یہ کیا جہالت کی بات کی ہے۔ یہ کہا اور ان کو واپس بھیج دیا۔ اسکے بعد مولانا پھر نہ آئے۔ اور تھوڑے عرصے بعد فوت ہوگے۔
مسلک ملامتیہ میں حکمت
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ حضرت میر سید محمد گیسو دراز نے ایک آدمی کو کچھ رقم دے کر فرمایا کہ شراب خرید کر لاؤ۔ جب شراب لائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ پیالہ بھر کردو اس نے پیالہ بھر کردیا اور آپ نے نوش فرمایا۔ اسی طرح چند پیالے نوش کرلیے۔ اس کے بعد اس سے فرمایا کہ تم بھی پیو۔ جب اس آدمی نے ایک پیالہ بھر کر پیا تو وہ کہتا ہے خدا گواہ ہے وہ خالص شہد تھی۔ سبحان اللہ کیا حال اور کیا راز ہے۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری قدس سرہٗ[2] اپنی کتاب معدن المعانی مین لکھتے ہیں کہ جب بعض عارفین کامل کی نظر نہایت سلوک مین اپنی عبادت وتقویٰ پر پڑتی ہے تو عجب عبات وتقویٰ کے باعث اُن کے شہود میں حجاب پیدا ہوجاتا ہے اور اکثر اسی مقام پر رک جاتے ہیں۔ لیکن عاشقان صادق اور شاہبازانِ جانباز اپنی عبادت اور تقویٰ کو بت اور زنّار سمجھ کر اپنے آپ کو اس قسم ک ملامت مثل شراب اور شاہد بازی وغیرہ میں ڈالتے ہیں تاکہ نظر عبادت اور تقویٰ سے اٹھ جائے اور خود پسندی جو حجاب راہ بن گئی تھی معدوم ہوجائے اور مطلوب حقیقی تک نظر پہنچ جائے۔ چنانچہ جب عارف کامل اللہ پر توکل کر کے اپنی ساری عمر کی عبادت واطاعت کو تھوڑے سے حجاب کے سبب غلبۂ عشق میں آکر دریائے معصیت میں پھینک دیتا ہے تو اُدھر حق تعالیٰ کی طرف سے بھی عاشق صادق کے اخلاص پر نظرِ شفقت ہوتی ہے۔ اور حقیقت اشیاء کو بدل دیا جاتا ہے حتیٰ کہ معسیت عبادت بن جاتی ہے۔ چنانچہ میر سید محمد گیسو درا کے لیے شراب شہد بن گئی۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب حضرت شیخ نصیر الدین محمود کے وصال کا وقت قریب آیا تو آپ نے اپنے دو بھانجوں شیخ زین الدین اور شیخ کمال الدین کو طلب کر کے فرمایا کہ میں نے اپنے احباب میں سے کسی کو سجادگی نہیں دی[3]۔ یہ تمہاری چیز ہے جب مجھے دفن کرو تو یہ میرے شیخ کا خرقہ میرے سینہ پر رکھنا، یہ لکڑی کا پیالہ اینٹ کی جگہ میرے سر کے نیچے رکھنا۔ اس تسبیھ کومیری انگلی پر لپیٹ دینا اور اس عصا اور نعلین کو میرے برابر رکھ دینا۔ آخر آپ کی وصیت پر عمل کیا گیا اور تمام تبرکات آپ کے ساتھ دفن ہوئے۔ حضرت میر سید محمد گیسو دراز نے غسل دیا اور جس چار پائی پر غسل دیا گیا اسکی رسیاں نکال کر حضرت گیسو دراز نے اپنے گلے میں ڈال دیں اور کہنے لگے کہ ہمارے لیے یہی خرقہ ہے چنانچہ آپ کو جس قدر مقبولیت حاصل ہوئی اس اخلاص کی وجہ سے ہے۔
مراۃ الاسرار میں لکھا ہے کہ یہ فقیر جب دوسری بار دہلی آیا اور جمعرات کا سارا دن اور شب جمعہ حضرت شیخ نصیر الدین چراغ دہلی قدس سرہٗ کے مزار مبارک پر بسر کی تو انواع واقسام کی نعمتوں سے نوازا گیا۔ جب حضرت اقدس کی روحانیت نکا حضور حاصل ہوا تو گستاخی کر کے عرض کیا کہ آپ کے اکثر مریدین وخلفاء اہل مقامات وکرامات تھے آپ نے کس وجہ سے حضرت سلطان المشائخ کا خرقہ ان میں سے کسی کو عطا نہ فرمایا۔ آپ نے فرمایا بیشک میرے بعض مرید صاحب کرامت تھے لیکن چونکہ قدرے تعصب ان کےقلوب میں اس وقت موجود تھا دیانت کا تقاضا یہ نہ تھا کہ اپنے پیر دستگیر کا خرقہ کسی ایسے شخص کے حوالہ کرتا جس نے تعصب سےنجات حاصل نہیں کی۔ اس لیے اپنے شیخ کا خرقہ میں اپنے ساتھ لے گیا۔ اور اپنا خرقہ میں نے بعض مریدین کو دیا ہے تاکہ مشائخ چشت کا سلسلہ جاری رہے۔ لیکن بعد میں جب انکا حجاب تعصت جاتا رہا تو مرتبہ توحید مطلق تک پہنچے اور حضرت شیخ کی جانب سے مزید تو جہات اور فیضان کے مستحق ہوئے اس قسم کے فوائد بیان فرماکر حضرت اقدس کی روحانیت نے اس فقیر پر ایسی شفقت فرمائی کہ اور مجھ پر ایسی تجلی ہوئی کہا س سے پہلے ایسا جمال باکمال کبھی نہ دیکھا تھا۔ سجدۂ شکر بجالای اور حضرت اقدس کےت صرف باطنی پر ششدر رہ گیا ایسے شاہبازان طریقت خاک میں چھُپے ہوئے ہیں کہ جن کی بدولت کائنات باقی ہے۔
وصال
حضرت شیخ نصیر الدین قدس سرہٗ کا وصال شب جمعہ بتاریخ اٹھارہ ماہ رمضان ۷۵۷ھ سلطان فیروز شاہکے عہد حکومت میں ہوا اور شہر دہلی میں اپنے حجرہ کے اندر دفن ہوئے۔ آپ کا مزار مبارک زیارت گاہ وحاجت روائے خلائق ہے رحمۃ اللہ علیہ یہ تھا ذکر حضرت سلطان المشائخ کا جو حضرت خواجہ گنجشکر قدس سرہٗکےفرزند معنوی اور اکمل ترین کرامت تھے۔ آپ کےفرزندان صلبی بھی تھے جو مقتدایان روزگار ہوئے چونکہ وہ بھی حضرت گنجشکر کی بڑی کرامات ہیں۔ ان کا ذکر خیر بھی یہاں مناسب ہے۔ بلکہ حضرت اقدس کی عین رضا اور خوشنودی کا باعث ہوگا۔
اولاد حضرت گنجشکر
مراۃ الاسرار میں آیا ہے کہ حضرت گنجشکر قدس سرہٗ کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ لیکن پوتے اور نواسے بہت تھے۔ جو اطراف عالم میں مقیم ہوئے۔ ان کا ذکر صاحب سیر الاولیاء نے کیا ہے۔ اس مختصر کتاب میں تفصیل کی گنجائش نہیں۔ اس میں کچھ اجمالاً عرض کیا جاتا ہے۔
[1] ۔ حضرت شیخ قطب الدین منور شیخ جمال الدین ہانسوی کے پوتے تھے۔ آپ کو حضرت سلطان المشائخ سے خلافت تھی۔ حضرت شیخ جمال الدین ہانسوی حضرت شیخ فرید الدین گنجشکر قدس سرہٗ کے خلیفہ تھے لیکن آپ سے سلسلہ جاری نہیں ہوا اور آپ کے پوتے حضرت قطب الدین منور نے حضرت محبوب الٰہی سے بیعت کر کے سلسلہ جمالیہ کو سلسلہ نظامیہ سے مبدل کردیا۔ اس وقت سے حضرت شیخ جمال کی اولاد نظامی کہلاتی ہے۔
[2]۔ حضرت شیخ شرف الدلین منیری قدس سرہٗ کا تعلق سلسلہ فردوسیہ سے ہے۔ آپکا مزار مبارک شہر بہار (ہندوستان) میں ہے۔ آپکی مشہور کتاب مکتوبات یکصدی و صدی ہیں۔ جس میں تصوف اور معرفت کے عظیم الشان نکات بیان کیے گئے ہیں۔ آپکی نماز جنازہ حضرت میر سید اشرف جہانگیر سمنانی نے پڑھائی تھی جو غوث وقت تھے اور حضرت سلطان المشائخ کے خلیفہ اکی سراج الدین کے خلیفہ حضرت شیخ علاؤ الدین کے خلیفہ تھے۔ حضرت شیخ شرف الدین احمد منیری بہاری کا شمار اکابر اولیاء امت میں ہوتا ہے۔ آپ بہت بڑے عبادت گذار اور صاحب ریاضت و مجاہدہ تھے۔ آپ کی کتاب کراچی میں چھپ چکی ہے۔
[3]۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ حضرت اقدس نے خلافت بھی کسی کو نہیں دی۔ سجادگی اور خلافت میں فرق ہے۔ سجادہ نشین اسے کہتے ہیں جو حضرت شیخ کے بعد ان کی جگہ پر بیٹھے۔ خلافت کے لیے شیخ کے سجادہ پر بیٹھنا ضروری نہیں بلکہ جہاں بیٹھ ج ائے وہی مسندِ خلافت ہے۔
(اقتباس الانوار)