حضرت خواجہ نصیر الدین محمود اودہی روشن چراغ
حضرت خواجہ نصیر الدین محمود اودہی روشن چراغ (دہلی) رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی دہلوی قدس سرہ کے عظیم خلفاء میں سے تھے۔ بڑے صاحب اسرار، عابد و زاہد اور کریم النفس بزرگ تھے۔ حضرت سلطان المشائخ کے وصال کے بعد آپ کو دہلی کی ولایت کی سربراہی ملی آپ کا طریقہ صبر و شکر، فقر و فاقہ اور رضا تسلیم تھا، آپ کے جد امجد حضرت عبداللطیف یزدی اور آپ کے والد مکرم یحییٰ قدس سرہما سادات حسنی تھے۔ آپ کے والد لاہور میں پیدا ہوئے تھے مگر شیخ نصیرالدین محمود رحمۃ اللہ علیہ اودھ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کی عمر ابھی نو سال ہی تھی کہ آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا۔ آپ کی والدہ نے جو سیدہ زمانہ اور عارفہ وقت تھیں، آپ کی خصوصی تربیت کی، آپ دینی علوم میں مولانا عبدالکریم شروانی رحمۃ اللہ علیہ کی شاگردی میں رہے۔ ان کے انتقال کے بعد مولانا افتخار الدین گیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے کتابیں پڑھیں نوجوانی میں ہی ترک و تجرید کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے محاسنِ اخلاق اور مجاہدٔہ نفس کی روشنیاں ظاہر ہونے لگیں سن بلوغت کے بعد ایک نماز بھی جماعت کے بغیر ادا نہ کی اور ہمیشہ روزہ رکھتے آپ اکثر اوقات سنبالو کے پتوں سے افطار فرمایا کرتے چالیس سال کی عمر میں اودھ سے چل کر دہلی آگئے ان دنوں حضرت شیخ نظام الدین بدایونی رحمۃ اللہ علیہ سلسہ چشتیہ کے سلوک میں سرگرم تربیت تھے، آپ بھی صبح و شام آپ کی مجالس میں حاضررہنے لگے ۔ حضرت نظام الدین اولیاء اللہ نے دیوگری میں ایک بالا خانہ تعمیر کروایا ہوا تھا۔ یہ بالا خانہ دریا کے کنارے پر واقعہ تھا۔ آپ اکثر اسی میں مشغول عبادت رہتے اس خلوت کدہ میں خواجہ نصیرالدین کے بغیر کسی کو آنے کی اجازت نہ تھی، انہی ایام میں آپ کی خصوصی تربیت ہوئی اور آپ کو چراغ دہلی کے خطاب سے نوازا گیا۔ آپ بھی حضرت خواجہ محبوب الٰہی قدس سرہ کی خدمت میں دن رات کمر بستہ رہتے آپ کو حضرت اپنے بالا خانہ میں عبادت گزاری اور خلوت گزینی کا شرف بخشتے تھے۔
ایک بار حضرت خواجہ بہاء الدین ملتانی قدس سرہ کے چند مرید آئے انہوں نے اس خلوت کدہ میں رات گزارنے پر اصرار کیا، انہیں اس خصوصی نسبت کی وجہ سے وہاں رہنے کی اجازت مل گئی صبح ہوئی تو ایک درویش وضو کرنے دریا پر جا نکلا، کپڑے اتار کر کنارے پر رکھے اور خود نہانے کے لیے پانی میں غوطہ زن ہوگیا، ایک بد بخت وہاں جا پہنچا تو درویش کے کپڑے اٹھاکر بھاگ نکلا، اب درویش ننگا نہ پانی سے باہر آسکتا تھا نہ اس وقت کوئی اس کی فریاد سن سکتاتھا، وہ دریا کے پانی سے ہی آوازیں دینے لگا ، خواجہ نصیرالدین خلوہ کدہ سے باہر آئے اور اپنے کپڑے اتار کر اسے دیے اور اسے کہا اب خاموشی سے آجاؤ، آپ کا مقصد یہ تھا کہ اس درویش کی باتوں سے حضرت خواجہ نظام الدین کی عبادت و اذکار میں خلل نہ آئے، مگر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ یہ سارا واقعہ نور باطن سے دیکھ رہے تھے۔ چاشت کی نماز کے بعد آپ نے خواجہ نصیرالدین محمود کو بلایا، اور بڑی مہربانی فرمائی اور اپنی خلعت خاص مرحمت فرمائی۔
اخبارالاخیار کے مصنف شیخ عبدالحق محقق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ شیخ نصیرالدین محمود کی اودھ کے علاقہ میں ایک ہمشیرہ تھیں، عمر میں آپ سے بڑی تھیں۔ مگر نہایت ہی نیک سیرت تھیں۔ ان کے دو بیٹے زین الدین اور کمال الدین حامد تھے۔ حضرت خواجہ نصیرالدین کبھی کبھی اپنے پیرو مرشد سے اجازت لے کر ہمشیرہ کو ملنے جایا کرتے تھے اور ملاقات کے بعد واپس دہلی چلے آتے تھے۔
ایک دن شیخ برہان الدین غریب جو خواجہ نصیرالدین کے خواجہ تاش اور ہم مجلس بھی تھے کی نمدے کی ایک ٹوپی جو آپ کو حضرت نظام الدین دہلوی نے عطا فرمائی تھی گم ہوگئی بڑی تلاش کی مگر نہ مل سکی، برہان الدین کو اس ٹوپی کے کھو جانے پر بڑا ملال ہوا، آپ بڑے پریشان رہنے لگے۔ حضرت خواجہ نصیرالدین نے آپ کو تسلی دی اور کہا زیادہ فکر نہ کرو، ان شاء اللہ اس تحفہ سے بڑھ کر عمدہ تحفہ ملے گا۔ حضرت خواجہ نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اسی دن شیخ برہان الدین کو بلایا اور ایک خاص مصلی عنایت کیا۔ دوسرے دن آپ کے اپنے بغچے سے گم شدہ ٹوپی بھی مل گئی۔
حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس سماع میں مزامیر کا استعمال ممنوع تھا صرف تالی یا نعرہ کی آواز سے سماع ہوتا تھا۔ ایک دن اس شعر پر وجد آیا
نظر در دیدہ ہا ناقص فتادہ است
وگر نہ یارما از کس نہاں نیست
(ہماری آنکھوں کی بینائی میں نقص آگیا ہے۔ ورنہ ہمارا محبوب تو کسی سے پوشیدہ نہیں ہے)
اسرار الاصفیاء کے مولف نے لکھا ہے کہ عمیر سمرقندی اور علی قندوزی کا سلطان محمد تغلق پر بڑا اثر تھا۔ یہ دونوں حضرت خواجہ شیخ نصیرالدین رحمۃ اللہ علیہ کے مخالفین میں سے تھے۔ انہوں نے سلطان محمد تغلق کو آپ کے خلاف کردیا اور آمادہ کیا کہ شیخ کو حراست میں لینا چاہیے، چنانچہ بادشاہ نے ایک دن کسی بہانے سے حضرت شیخ کو اپنے دربا رمیں طلب کیا اور کھانا تمام سونے اور چاندی کے برتنوں میں سجا کر سامنے رکھا، اس کا منشاء یہ تھا کہ اگر آپ ان برتنوں میں کھانا کھالیں تو شرعی طور پر محاسبہ کیا جائے اور اگر انکار کریں گے تو سیاست سلطانی اور توہین دربار کے جرم میں گرفتار کرلیا جائے گا۔ حضرت شیخ بادشاہ کی اس حرکت سے نور بصیرت سے واقف ہوگئے تھے۔ چنانچہ مجلس طعام میں چند لمقے اٹھائے اور علیحدہ اپنے ہاتھ پر رکھ کر بادلِ نخواستہ لقمہ لقمہ کھانے لگے یہ دیکھ کر آپ کے مخالفین اور حاسد سخت شرمندہ ہوئے۔ مجلس کے بعد بادشاہ نے عرض کی حضور مجھے کچھ نصیحت فرمائیں آپ نے فرمایا بادشاہ کی طبیعت میں درندوں کی خصلتیں بڑھ گئی ہیں، اور درویشوں کے خلاف حسد کی قوت زیادہ ہوگئی ہے انہیں مزاج اور دل سے دور کرنا چاہیے اس کے بعد بادشاہ نے ایک تھیلی میں روپے اور ایک خلعت ریشم پیش کیے، مگر آپ نے ان دونوں چیزوں کی طرف توجہ نہ فرمائی اسی دوران خواجہ نظام الدین جو سلطان کا خاص پیر بھی تھا اور حضرت شیخ کا عقیدت مند بھی اٹھا اور دونوں چیزیں اٹھاکر بغل میں رکھیں اور اپنے دامن سے حضرت کے جوتے صاف کرکے آپ کے سامنے سیدھے رکھ دیے اور دیوان سے حضرت کو ساتھ لے کر الوداع کہنے کے لیے نکل آیا، جب وہ بادشاہ کے پاس واپس گیا تو بادشاہ سخت غصے کی حالت میں تھا وہ اس قدر غضبناک تھا کہ تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رکھ کر نظام الدین کو قتل کرنے لگا اور گرج کر کہنے لگا نظام الدین تمہیں یہ جرات کیسے ہوئی کہ دونوں چیزیں اٹھا کر میرے سامنے ہی شیخ نصیرالدین کے جوتے صاف کرکے سامنے رکھنے لگے اور اس طرح شیخ کو میری تلوار کے وار سے صاف نکال کر لے گئے۔ نظام الدین نے جواب دیا حضور میں ایک طرف حضرت خواجہ نظام الدین دہلوی کے خانوادہ کا غلام ہوں اور دوسری طرف آپ کا بھی خدمت گزار ہوں، میں خاندان نظام الدین کی خدمت کو اپنا ایمان جانتا ہوں، ان کے جوتے میرے سر کا تاج ہیں اگر آپ غصے میں ہیں تو مجھے قتل کردیں، میری یہ جان بھی حضرت کے قدموں پر قربان ہوگی، یہ بات سن کر سلطان دل ہی دل میں بل کھاکر رہ گیا، تلوار نیچے رکھ دی اور نظام الدین کو کچھ نہ کہا۔ ایک دن مجلس سماع میں قوال یہ شعر پڑھ رہے تھے
جفا برعاشقاں گفتی نخواہم کردہم کردی
قلم میر دلاں گفتی نخواہم راندہم راندی
حضرت شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ شعر سنا تو وجد میں آگئے۔ مولانا مغیث مجلس میں موجود تھے۔ وہ سخن شناس بھی تھے اور مزاج شناس بھی، آپ نے اس شعر سے تاثر لیا۔ حضرت کی حالتِ وجد و حال کی کیفیت دیکھی۔ تو مجلس کے احوال پر ایک رسالہ لکھا اور لکھا کہ اس شعر کا مطلب کن کن اشاروں سے بیان کیا جائے اگر جو رو جفا ہے تو اسے اللہ سے منسوب نہیں کیا جاسکتا اور یہ بات کفر ہے کہ اللہ کو جور و جفا کا مرتکب مانا جائے چنانچہ آپ نے اس شعر کے بہت سے معانی لکھے اس کی توجیہات کیں، کئی شرعی اور عقلی اعتراض اٹھائے اور سب کو لکھ کر مولانا معین الدین عمرانی کے پاس بھیجا۔ اس نے یہ تحریر اٹھائی اور حضرت شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی قدس سرہ کی خدمت میں بھیج دی، آپ نے مولانا معین الدین کو اپنے پاس بلایا اور رسالہ واپس کرتے ہوئے کچھ نہ کہا اور ایک اعلیٰ قسم کی دستار دے کر دواع کردیا۔
دوسرے دن پھر مجلس سماع گرم ہوئی۔ تو حضرت شیخ نصیرالدین اس شعر پر وجد میں آگئے ہوش میں آئے مجلس برخاست ہوئی تو آپ مکان کی چھت پر جا بیٹھے وہاں ہی مغیث شاعر کو بلایا، وہ حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا ہاں! مولانا آج ایک اور رسالہ لکھو، اور اس میں لکھو کہ یہ کیا جہالت ہے کہ شیخ نصیرالدین کو اس پر وجد آگیا، یہ کہا مگر مولانا مغیث بے حد شرمسار ہوئے، پھر کبھی خانقاہ کا رخ نہ کیا اور تین دن بعد فوت ہوگئے۔
ما طبل جفا نہ دوش بے باک زدیم
عالی علمش بر سر افلاک زدیم
از بہر مکے بفچۂ مے خوارہ
صد بار کلہ توبہ پر خاک زدیم[۱]
[۱۔ ہم نے کل رات میر جفاں کے طنبورے کی آواز پر بے باک ہوکر ہاہو شروع کر دی تھی اور اس کے بلند و بالا جھنڈے آسمانوں پر گاڑ دیے تھے ایک مے خوار بفچہ کے لیے اپنی توبہ کی ٹوپی کو سو بار سر سے اتار کر زمین پر دے مارا۔]
ایک دن نماز ظہر کے بعد حضرت شیخ نصیرالدین اپنے حجرہ خاص میں مشغول عبادت تھے، آپ کے ہمشیرہ زادہ خادم خاص شیخ زین الدین بھی حاضر نہ تھے شیخ مراقبہ میں سر جھکائے دنیا و ما فیہا سے بے خبر بیٹھے تھے۔ اسی اثنا میں ایک قلندر ترابی نام حجرے میں داخل ہوا یہ شخص کئی برسوں سے حضرت کے خلاف آتشِ حسد میں جلتا رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ آج حضرت شیخ تن تنہا مراقبہ میں مستغرق ہیں۔ وہ بلا خوف و خطر آگے بڑھا، اور بغل سے ایک چھرا نکلا، اور آپ پر حملہ کردیا۔ اس نے چھرے کے گیارہ زخم لگائے اس نے جب یہ محسوس کیا کہ اب شیخ ہلاک ہوگئے ہیں، نکل کر بھاگ کھڑا ہوا حضرت شیخ محویت کے عالم میں اپنی جسمانی حالت کا احساس نہ کرسکے، مگر خون بہتے بہتے حجرے سے باہر نکلا تو لوگوں کو معلوم ہوا، آپ کو زخمی حالت میں دیکھا، دوڑ کر قلندر ترابی کو پکڑا اور آپ کے پاس لے آئے آپ کے عزیز اس کی بوٹی بوٹی کرنا چاہتے تھے مگر آپ نے انہیں روک دیا، اور اپنے طبیب شیخ صدرالدین اور اپنے خواہر زاد شیخ زین الدین کو قسم دے کر کہا کہ اسے کچھ نہ کہا جائے بلکہ بیس روپے انعام دیے اور فرمایا تم نے بہت مشقت اور محنت کی ہے۔ اس واقعہ کے بعد آپ تندرست ہوگئے، غسل صحت فرمایا اور تین سال تک زندہ رہے۔
سیّد الاولیاء اور سفینۃ الاولیاء تذکرہ شجرۂ چشتیہ اور دوسرے مشہور تذکروں میں آپ کا سن وفات ۷۵۷ھ لکھا ہے یہ صحیح تاریخ وفات اٹھارہ ماہ رمضان المبارک ۷۵۷ھ ہے۔ صاحب مخبرالواصلین کا آپ کا سال وصال ۷۵۲ھ لکھا ہے مگر ہمارے نزدیک ۷۵۷ھ ہی صحیح ہے۔ آپ نے رحلت کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ مجھے دفن کرتے وقت حضرت سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین کا خرقہ میرے سینہ پر رکھ دینا اور میرے پیر و مرشد کا عصا میرے پہلو میں رکھنا۔ حضرت شیخ کی تسبیح میری انگشت شہادت پر ہونی چاہیے اور چوبیں نعلیں بغل میں رکھی جائیں۔ آپ کے خدام نے اسی طرح کیا۔
ہم تبرکاً آپ کے چند خلفائے کرام کے اسمائے گرامی لکھنے پر اکتفاء کرتے ہیں میر سید محمد گیسو دراز، میر سید محمد بن جعفر المکی الحسینی ملک زادہ احمد، مولانا معین الدین عمرانی، میر سید علاء الدین برادر زادہ مخدوم جلال الدین جہانیاں جہاں گشت، شیخ یوسف مولف تحفہ النصائح، محمد وصبیہ ادیب، سیّد علاء الدین کشوری، شیخ دانیال، شیخ قوام الدین، قاضی عبدالمقتدر، مولانا خواجگی، مولانا احمد تھا نیسری، شیخ زین الدین خواہر زادہ شیخ صدرالدین حکیم اور شیخ سعد اللہ کیسہ قدس سرہم۔
گشت چوں جلوہ گر نصیرالدین
ہم چناں چوں چراغ پر انوار
ہست مہتاب نیر دہلی
۷۵۷ھ
سال ترحیل آں شہِ ابرار
۷۵۷ھ
آفتاب روح جان(۷۵۷ھ)
قبلۂ حق نصیرالدین محمود (۷۵۷ھ)
یار محبوب نیر اکبر (بہ تکرار) (۷۵۷ھ)
پیر سید و سردار (۷۵۷ھ)
طالب اللہ واقف اسرار(۷۵۷ھ) صدیق حق نصیرالدین(۷۵۷ھ) شاہ نامی نصیر(۷۵۷ھ) ولی مشکل کشا(۷۵۷ھ) شاہ والد جاہ ابرار(۷۵۷ھ) ولی حق نصیرالدین محسن(۷۵۷ھ) نصیر عارفان(۷۵۷ھ) رہبر نصیر(۷۵۷ھ) ناصر نصیر (بتکرار) (۷۵۷ھ) محبوب رب مہتاب دہلی (۷۵۷ھ)مطلع الانوار حق یار(۷۵۷ھ) واقف اسرار حق (دوبار) (۷۵۷ھ) جان چشت(۷۵۷ھ)