حضرت شیخ صدقہ بغدادی

حضرت شیخ صدقہ بغدادی رحمتہ اللہ

ایک دن شیخ صدقہ باتیں کہہ رہے تھے"جو ظاہر شرع کے موافق اس پر  مواخذہ ہوسکتا تھا۔یہ بات خلیفہ تک لوگوں نے پہنچائی۔اس نے ان کو بلایا کہ تعزیر دے۔جب ان کے سر کو برہنہ کیا گیاتو ان کے خادم نے فریاد کی کہ واشیخا!اس نوکر کا ہاتھ جس نے آپ کے مارنےکا قصد کیا تھا۔لنجا ہو گیا اور وزیر پر ایک  ہیبت واقع ہوگئی۔جب خلیفہ نے اس کو مشاہدہ کیا۔اس پر بھی رعب چھا گیا۔حکم دیا کہ ان کو چھوڑ دو۔وہاں سے شیخ عبد القادر کی سرائے میں آئے۔دیکھاکہ شیخ اور دیگر لوگ شیخ کے منتظر بیٹھے ہیں کہ باہر نکلیں اور وعظ کہیں۔آپ آئےاور مشائخ کے درمیان بیٹھ گئے۔جب شیخ باہر نکلے اور منبر پر جا بیٹھے تو کچھ بات نہ کہی اور قاری کو بھی کچھ نہ کہا کہ پڑھے"لیکن لوگوں کو بڑا وجد شروع ہوگیا۔شیخ صدقہ نے دل  میں کہا کہ شیخ نے نہ کچھ کہا ہے اور نہ قاری نے کچھ پڑھا ہے۔پھر یہ وجد کہاں سے شروع ہوا؟شیخ عبد القادر نے ان کی طرف توجہ کی اور کہا"اے شیخ میرا ایک مرید بیت المقدس سے یہاں تک ایک قدم میں آیا ہے اور میرے ہاتھ پر توبہ کی ہے۔آج حاضرین اس کی مہمانی میں ہیں۔شیخ صدقہ نے دل میں کہا کہ جو شخص بیت المقدس سے ایک قدم میں یہاں آجائے۔اسے توبہ کی کیا ضرورت اور شیخ کی کیا حاجت؟شیخ نے پھر ان کی طرف توجہ کی اور کہا"اے شیخ وہ اس لیےتوبہ کرتا ہے کہ دوبارہ ہوا وہوس کی طرف نہ ہوجائے۔اس کی حاجت میری طرف یہ ہے کہ اس کو خدا کی محبت کا راستہ دکھاؤں۔

(نفحاتُ الاُنس)

تجویزوآراء