شیخ سلیم بن بہاء الدین چشتی قدس سرہ
آپ حضرت مسعود شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ برصغیر میں آپ شیخ سلیم کے نام سے مشہور ہوئے مگر عرب و عراق میں آپ کو شیخ الہند کے نام سے شہرت ملی تھی والد کا اسم گرامی بہاء الدین اور والدہ کا نام نامی بی بی احد تھا آپ کی ولادت سے قبل آپ کے والدین لودھانہ (پنجاب) میں قیام پذیر تھے وہاں سے اللہ کے حکم سے دہلی تشریف لے آئے اور ھلہ پیر علاء الدین میں قیام فرمایا۔ حضرت شیخ سلیم رحمۃ اللہ علیہ دہلی میں ہی ۸۸۴ھ میں پیدا ہوئے یہ روایت معارج الولایت کی ہے مگر صاحب اخبار الاخیار نے آپ کا سال ولادت ۸۷۷ھ لکھا ہے کہتے ہیں جس دن آپ پیدا ہوئے تو فرش پر مسور کی دال کا ایک دانہ پڑا تھا جو آپ کی پیشانی پر چسپاں ہوگیا اس دانے کا نشان ساری عمر آپ کی پیشانی پر رہا آپ فرماتے ہیں میں نے کئی بار کوشش کی کہ یہ نشان مٹادوں مگر ایسا نہ ہوسکا۔
حضرت سلیم چشتی کے والدین دہلی (فتح پور) میں آپ کے پاس ہی قیام فرما تھے تو فوت ہوئے شیخ موسیٰ کا اپنا بیٹا نہ تھا۔ آپ نے حضرت سلیم چشتی کو اپنا بیٹا بنا کر پرورش کی اور اس پرورش میں آپ نے بڑی محنت اور شفقت سے حصہ لیا۔ آپ سفر کو روانہ ہونے لگے تو فرمایا میرا اور کوئی بیٹا نہیں دل نہیں چاہتا کہ آپ کو جانے کی اجازت دوں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو بیٹا دے گا جب شیخ موسیٰ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تو حضرت شیخ اسلیم چشتی فتح پور دہلی سے سرہند کو روانہ ہوگئے اور شیخ مجدد الدین جو اس وقت کے ملک العلما تھے ان سے ظاہری علوم حاصل کرنے لگے کبھی کبھی آپ سرہند سے نکل کر قصبہ بہدالی چلے جاتے تھے یہ قصبہ سرحد سے تین میل کے فاصلے پر ہے وہاں شیخ زین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے آپ اس مزار پر حاضری دیتے تھے۔
اخبار الاخیار کے مصنف نے لکھا ہے کہ آپ نے ۹۳۱ھ ھجری میں حج کے لیے روانہ ہوئے وہاں ایک عرصہ رہے اور کئی حج ادا کیے ایک مدت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مجاور بنے وہاں سے رخصت ہوئے تو عرب و عجم کی سیر کو نکلے بڑے بزرگوں کی مجلس سے فیض پایا اور بڑے بڑے اہم کام کیے قطب العارفین شیخ ابراہیم چشتی کو اپنا پیر و مرشد بنا کر خرقہ خلافت حاصل کیا عرب میں بہت سے لوگوں کو مرید بنایا اور خرقہ خلافت بھی عطا کرتے رہے سید محمد لولی شیخ محمود شامی شیخ رجب علی متولی روضہ منورہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے بہت سے عربی شرفاء آپ کے مرید ہوئے اور خلافت پائی ہندوستان واپس آئے تو کوہ سیکری (فتح پور) پر گوشہ نشینی اختیار کی ریاضت اور مجاہدہ میں مشہور ہوئے شادی کی اور صاحب اہلِ عیال بنے آپ نے کوہ سیکری پر ہی بڑی بڑی عمارتیں۔ باغ۔ تالاب اور کوئیں تعمیر کیے ۹۶۲ھ حجری میں سہیمول بقال نے آپ کو بہت پریشان کیا چنانچہ آپ نے فتح پور سیکری کو چھوڑ کر دوبارہ حج کو چلے گئے اور دنیائے اسلام کا سفر کر کے واپس آگئے۔
معارج الولایت میں لکھا ہے شیر شاہ سوری کی وفات کے بعد جب اسلام شاہ نے بادشاہیت کا اعلان کیا تو تمام شاہی لشکر اس کے بڑے بھائی عادل خاں کے ساتھ مل گیا اسلام شاہ نے اپنے ایک خاص آدمی کو حضرت سلیم چشتی کے پاس دعا کے لیے بھیجا آپ نے فرمایا کہ سلام شاہ کو کہہ دو کہ وہ فی الفور گھوڑے پر سوار ہوکر باہر نکلے جتنے فوجی اس کے بھائی عادل شاہ سے مل گئے ہیں وہ تمہارے نام ہندوستان کی بادشاہی لکھ دی ہے اسلام شاہ باہر نکلا سارا لشکر ساتھ مل گیا اور ہندوستان کے اقتدار پر اس کا قبضہ ہوگیا۔
قاضی غیاث الدین ابراہیم آباد کے قاضی تھے اور آپ کے خلیفہ خاص بھی تھے۔ ایک دن قاضی غیاث الدین نے کہا حضور دہلی کا بادشاہ سلطان محمد عادل میرا واقف ہے میں اس سے ملاقات کی اجازت چاہتا ہوں۔ مگر آپ اس سے ملنے کی اجازت دیں اور ساتھ ہی آپ کے پاس ایک عراقی گھوڑا ہے اگر آپ مجھے عنایت فرمائیں تو میں اسے بطور تحفہ دے دوں حضرت سلیم چشتی نے قاضی صاحب کو سلطان سے ملنے کی اجازت بھی دی اور گھوڑا بھی دے دیا مگر ساتھ شرط رکھی کہ بادشاہ کو بتا دینا کہ یہ گھوڑا اس کے لیے حاضر رہے گا اگر کوئی دوسرا شخص اس پر سوار ہوگیا تو اس کی سلطنت کو زوال آجائے گا۔ قاضی غیاث الدین شاہی دربار میں پہنچے عراقی گھوڑا پیش کیا بادشاہ بڑا خوش ہوا مگر ساتھ ہی آپ نے اس پر واضح کر دیا کہ آپ کے سوا اس پر کوئی دوسرا سوار نہ ہو ورنہ آپ کی سلطنت زوال پذیر ہوگی بادشاہ نے تسلیم کرلیا۔ کچھ دن گزرے قاضی صاحب نے دیکھا کہ بادشاہ کا ایک خاص ملازم اس گھوڑے پر سوار جا رہا ہے حضرت سلیم چشتی کے پاس آئے ذکر کیا آپ نے فرمایا آج سے اس کی سلطنت تو زوال پذیر ہونا شروع ہوگئی ہے اور چند دنوں میں اس کی سلطنت کا تختہ الٹ دیا گیا۔
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ فتح پور سیکری کی تعمیر سے پندرہ سال قبل حضرت شیخ سلیم چشتی نے لوگوں کو بتایا کہ ان پہاڑوں پر عالی شان عمارتیں بنیں گیں اگر تم لوگ اب ہی وہاں حویلیاں بنالو تو بڑی قیمت پاؤ گے کیونکہ اس وقت ایک گز جگہ بھی نہیں خریدی جاسکے گی لوگوں نے کہا کہ اس ویرانے میں کون حویلیاں بنائے یہاں تو جنگل کے درندے پریشان کرتے ہیں کچھ عرصہ بعد شہنشاہ اکبر حضر سلیم چشتی کو ملنے آیا اور عقیدت و ارادت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بیوی کو حضرت کے حجرے میں ٹھہرایا۔ جہاں اس کا بیٹا جہانگیر پیدا ہوا۔ پھر کیا تھا۔ دہلی کے رؤسا اور امراء فتح پور میں اپنے محلات بنانے لگے بادشاہ کا آنا جانا ہوگیا۔ بہت بڑا شہر بنتا گیا۔ لوگوں کو اب جگہ ملنا محال ہوگئی اس شہر پر شاہی رھأشیں ہونے لگیں۔ حضرت شیخ سلیم چشتی کے لیے ایک شاندار خانقاہ مسجد اور دوسرے محلات بنانے لگے حضرت ان مکانات میں منتقل ہوگئے۔ آپ کی مسجد کایوم تاسیس ثانی المسجد الحرام سے برآمد ہوتا ہے اور خانقاہ کا سنگ بنیاد خانقاہ اکبر سے بر آمد ہوتاہے۔
حضرت شیخ سلیم چشتی حج بیت اللہ سے واپس آئے تو آپ نے اپنے مریدوں کو فرمایا اب یا تو ترک مقال (گفتگو) کو دوں گا یا ترک طعام احباب نے عرض کی حضور ترک گفتگو سے روحانی فیض کا سلسلہ جائے گا۔ آپ نے فرمایا اچھا میں ترک طعام کروں گا چنانچہ اس دن سے زندگی کے آخری لمحات تک آپ نے کھانا ترک کردیا۔ ایک ہفتہ بعد چند لقمے کھاتے ان میں بھی گوشت نہ ہوتا تھا۔ ایک دن سرود کے موضوع پر گفتگو ہو رہی تھی انہی دنوں گوپال گوئیے کی بیٹی نے دہلی میں بادشاہ کی خدمت میں عرض کی کہ اگر اجازت ہو تو میں اپنے والد گوپال تابک کی ہڈیاں دکن لے جاؤں بادشاہ نے کہا اب ان ہڈیوں کو پہچاننا مشکل ہے اس نے بتایا حضور گوئیے کی ہڈی میں سوراخ ہوتا ہے۔ میں اس سوراخ سے پہنچان لوں گی۔ حضرت سلیم چشتی نے یہ بات سُنی تو فرمایا گوئیے ہڈی میں ایک سوراخ پاتے ہیں مگر ہم سرود کے دلدادہ اپنی ہڈیوں میں کئی سوراخ برداشت کرتے ہیں یہ کہہ کر آپ نے ایک تیز نشتر لے کر اپنی ران کا گوشت جدا کر کے ہڈی ننگی کی لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی ران کی ہڈی میں اتنے سوراخ ہیں۔ جس طرح شہد کے چھتے میں ہوتے ہیں پھر فرمایا سرود کی قدرو قیمت ہم جانتے ہیں یہ قوال بیچارے کیا جانیں۔
جن دنوں حضرت شیخ سلیم چشتی قدس سرہ گھر سے باہر سفر میں ہوتے تو نور باطن سے گھر کے تمام حالات دیکھ لیا کرتے تھے حتٰی کہ گھر میں ضروریاتِ زندگی بھی غائبانہ مہیا کرتے رہتے تھے آپ اپنے خطوں میں لکھتے تھے کہ حضرت گنج بخش کی پریاں مجھے تمام حالات سے آگاہ کرتی ہیں اور میں گھر کے لیے تمام ضروریات انہی کے ہاتھوں پہنچاتا ہوں حیرت ہے کہ یہ تمام چیزیں گھر میں بڑی ملتی تھیں ایک دن حضرت خانقاہ سے نکل کر صبح کی نماز پڑھنےے مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ بر آمدہ میں ایک درویش کو سوئے ہوئے پایا تو اسے جگا کر فرمایا بھائی درویشوں سے لڑنا جھگڑنا اچھا نہیں ہوتا اٹھو نماز کا وقت ہوگیا ہے نماز پڑھو۔ درویش اٹھا شرمندہ ہوا اور کہنے لگا واقعی میں خواب میں ایک درویش سے جھگڑ رہا تھا۔
حضرت شیخ سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء کی خاصی تعداد عرب و عجم اور دوسرے اسلامی ممالک میں پائی جاتی تھی۔ مگر ہم ان میں سے بعض مشہور خلفا کے نام لکھنے پر اکتفا کرتے ہیں شیخ فتح اللہ سنبھلی شیخ کمال الدین شیخ پیارا ٹانڈوی شیخ محمد مروالی۔ شیخ محمد بخاری۔ شیخ سید جیو دہلوی۔ شیخ کبیر سارنگ پوری۔ شیخ محمد غوری۔ شیخ حسین بدایونی۔ شیخ ولی ساکن قصبہ مود۔ شیخ حماد گوالیاری۔ شیخ یعقوب کشمیری۔ شیخ رکن الدین۔ شیخ حاجی حسین۔ شیخ بکہاری۔ شیخ سدہ ہاری بنی اسرائیلی سیّد حسنین شیخ عبدالواحد ساکن آگرہ، شیخ جلال حافظ امام شیخ امام صوفی سرہندی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
معارج الولایت میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ اسلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خورد سال بیٹا تھا جس سے کرامات کا اظہار ہوا کرتا تھا۔ابھی وہ ایک سال کی عمر میں تھا کہ لوگوں کو اس کی کرامات سے فائدہ پہنچتا۔ سال کی عمر میں ایک دن وہ ماں کی گود سے غائب ہوگیا گھر میں بڑی تشویش ہوئی حضرت دوسری منزل پر تشریف فرما تھے۔ وہ بچہ خود بخود آپ کے پاس پہنچ گیا۔ اس کا نام تاج الدین تھا۔
اڑھائی سال کی عمر میں فوت ہوگیا تھا۔
حضرت شیخ کا وصال بروز جمعرات انتیس (۲۹) ماہ رمضان المبارک ۹۷۹ھ کو ہوا۔ آپ کے دونوں فرزند شیخ احمد اور شیخ بدر الدین رحمۃ اللہ علیہما نے آپ کا سلسلہ جاری رکھا۔ شیخ بدر الدین کو تو آپ نے زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کردیا تھا اور فرمایا کہ حضرت گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی شیخ بدر الدین کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا اس کی اتباع ضروری ہے حضرت کا مزار پر انوار فتح پور سیکری میں زیارت گاہ عام و خواص ہے۔
اسلم الاولیاء سلامت دو
اسلم سلیم با اسلام!!
گشت مخدوم صدق رہبر عشق
سال تولیدش از خرد لا تام
قطب والا سلیم مخدوم است
۹۷۹ھ
سن ترحیل ان ذوی الاکرام
۹۷۹ھ