حضرت شیخ عثمان زندہ پیر چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ
آپ ظاہری اور باطنی علوم میں کمال رکھتے تھے اور سلسلہ چشتیہ کے ممتاز مشائخ میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے تین بھائی حضرت شیخ حسین حضرت شیخ برہان اور حضرت شیخ محمود قدس سرہم تھے شیخ حسین آپ سے بڑے تھے وہ اپنے والد ماجد کی زندگی میں ہی انتقال فرما گئے تھے ان کے دو بیٹے شیخ نور الدین اور شیخ غفور یاد گار زمانہ رہے جب آپ کے والد شیخ عبدالکبیر فوت ہوئے تو حضرت شیخ عثمان ہی سجادہ نشین بنے مگر ساتھ ہی شیخ حسین کے دونوں بیٹوں شیخ انور الدین اور غفور الدین نے بھی سجادگی کا دعویٰ کردیا اور فتوحات اور نذرانوں پر جھگڑا کھڑا کردیا وہ حضرت شیخ شمس الدین ترک اور شیخ جلال الدین پانی پتی کے مزارات کے نذرانوں کا دعویٰ بادشاہ سلطان ابراہیم لودھی کے دربار میں لے گئے بادشاہ بذات خود اس مقدمہ کے تصفیہ کے لیے دہلی سے پانی پت آیا۔ اگرچہ والدہ ماجدہ اور حضرت کے مرید اور شہر کے امراء شیخ عثمان کی سجادہ نشینی پر راضی تھے لیکن بادشاہ کی طرف داری اور دربار میں اثر و رسوخ کی وجہ سے سجادہ نشینی دو حصوں میں تقسیم کردی گئی پہلی عید کے دن دونوں سجادہ نشین شہر سے باہر آئے اور دونوں میں سخت لڑائی ہوئی شیخ حسین کے بیتے اپنی سواریوں سے نیچے گر گئےاور زخمی ہوگئے وہ عید گاہ تک نہ پہنچ سکے اُس دن سے اِن لوگوں کو مقابلے کی طاقت نہ رہی اور سجادہ نشینی شیخ عثمان کے پاس ہی رہی۔ سیر الاقطاب میں لکھا ہے کہ جٹوں میں سے دو آدمی ایک ہندو ایک مسلمان آپس میں اختلاف رکھتے تھے ان کے معاملے میں فیصلہ نہیں ہوتا تھا دونوں حضرت شیخ کی خدمت میں آئے دونوں کی باتیں سنی اور اِس نتیجےپر پہنچے کہ مسلمان سچا ہے چنانچہ آپ نے مسلمان کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ ہندو نے احتجاج کیا کہ آپ نے محض مسلمان ہونے کی وجہ سے اُس کے حق میں فیصلہ کیا ہے ورنہ میں زیادہ حقدار تھا حضرت شیخ یہ بات سُن کر مراقبے میں چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد سر اُٹھا کر فرمایا کہ تمہاری عورتیں حمل میں ہیں تم دونوں کے لیے حکم دیا جاتا ہے کہ سیدھے گھر چلے جاؤ سچے کے گھر میں لڑکا پیدا ہوگا اور جھوٹے کے گھر میں لڑکی پیدا ہوگی دونوں اس بات پر راضی ہوگئے اور گھر چلے گئے کچھ دنوں بعد مسلمان کے ہاں لڑکا پیدا ہوا اورہندو کے لڑکی دونوں نے حضرت شیخ کا فیصلہ مان لیا اور جھگڑا ختم کر دیا۔ شیخ عثمان کے بیٹے شیخ نظام الدین نے ایک نیا کنواں بنوایا وہ اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوا اور التماس کی کہ آپ فاتحہ اور دعا فرمائیں آپ نے فرمایا پہلے دعوت کا انتظام کرو جس میں ایک گائے ذبح کرو اور اتنے من گندم کا آٹا لاکر کھانا پکاؤ اور غریبوں میں تقسیم کرو پھر میں تمہارے لیے دعا کروں گا بیتے نے کہا میرے پاس تو ایک بکری ہے میں اس سے زیادہ کیا کرسکتا ہوں آپ نے فرمایا ہماری زبان سے جو نکل گیا ہے اُسے پورا کرو ورنہ مجھے ڈر ہے کہ تمہارا کنواں گر جائے گا شیخ نظام الدین دعوت کا انتظام کرنے سے ہچکچاتے رہے اور کنواں نیچے سے بیٹھ گیا۔ شیخ عثمان ۹۹۰ھ (نو سو نوے ہجری) میں فوت ہوئے۔ شیخ عثمان پیر عالمگیر چشت! رفت از دنیائے دون اندر جنان رحلتش رکن جہاں عثمان بگو ۹۹۰ھ نیز قطب الواصلین عثمان بخوان