آلِ احمد اچھے میاں مارہروی

آپ کی دی صاحبہ نے حضرت برہان الواصلین،وطب العارفین حضرت شاہ محمد برکت[1] اللہ عشقی کے فرمان کے بموجب ‘‘آل احمد،نام، ‘‘اچھے میاں’’ عرف رکھا،۲۸؍رمضان المبارک ۱۱۶۰؁ھ میں پیدا ہوئے،آپ کے والد بزرگوار حضرت شاہ حمزہ[2]،حضرت آل محمد ابن[3] صاحب البرکات کے بڑے صاحبزادے تھے،علوم ظاہر و باطن کی تعلیم اپنے والد حضرت شاہ حمزہ قدس سرہ کی،بعدہ مرید ہوئے خلافت و اجازت عطا ہوئی،حضرت بڑے باکمال عالم و عارف تھے،ایک شخص نے حضرت نقیب الاشراف بغداد کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوکر مسئلہ وحدۃ ابو جود سمجھنا چاہا،حضرت نے ہندوستان کے سفر کی ہدایت فرمائی، وہ صاحب علما ومشائخ سے ملتے ہوئے حضرت شاہ عبد العزیزی محدث کی خدمت میں پہونچے،عرض مدعا کیا،مگر تشفّی نہ ہوئی،حضرت محدث دہلوی نے فرمایا، آپ مارہرہ حضرت اچھے میاں کی خدمت میں جایئے،وہ آپ کی تسکین خاطر فرمادیں گے،ملفوظات عزیزی میں بلند کلمات میں حضرت اچھے میاں کا ذکر موجود ہے، ۱۶؍محرم ۱۱۹۸؁ھ میں والد ماجد کی رحلت کے بعد سجادہ نشین ہوئے،آپ کی ذاتِ والا سے سلسلۂ برکاتیہ کو کافی فروغ ہوا،۳۷سال تک سجاد برکاتیہ کو رونق دی۔ ۱۷؍ربیع الاول ۱۳۶۲؁ھ میں واصل بحق ہوئے۔تصانیف میں آئین احمدی علوم و معارف اور اسرار دقائق کا گنجینہ ہے،مولانا غلام شبر بد ایونی المتوفی ۱۳۶۳؁ھ نے نور مدائح حضور میں ۷۹؍اجل خلفاء کے نام لکھے ہیں جن میں سے اکثر کا ذکر زیر نظر کتاب میں ملے گا۔

(خاندان برکات،برکات ماہرہ)

 


[1]۔ برہان الواصلین حضرت شاہ برکت اللہ،عہد اکبری کے مشہور بزرگ حضرت میر عبد الواحد بلگرامی المتوفی ۱۰۱۷؁ھ کے پوتے(حضرت شاہ اُویس) کے بڑے لڑکے تھے ۱۰۷۰؁ھ میں ماہرہ میں پیدا ہوئے،والد بزرگوار سے تحصیل علم کے بعد بیعت ہوئے،سلاسل خاندانی میں اجازت و خلافت عطا ہوئی،میر طیب بلگرامی المتوفی ۱۰۶۶؁ھ ابن حضرت میر عبد الواحد کے پوتے حضرت سید منزلی اور حضرت شاہ لودھا (قُدِّسَتْ اَسرارہم) سے تعلیمات باطنی اور اجازت و خلافت حاصل کر کے بمقام کالپی حضرت شاہ فضل اللہ المتوفی ۱۱۱۱؁ھ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔۔۔آئین احمدی سے کہ جب حضرت کالپی پہونچے تو حضرت شاہ فضل اللہ قدس سرہٗ نے اٹھ کر مضائفہ فرمایا اور اپنے کلیجے سے لپٹا کر تین بار دریا برد پپیوست فرمایا۔حضرت صاحب تصنیف و شاعر تھے،فارسی میں عشقی اور ہندی میں تخلص فرماتے تھے،ایک ریوان مجمع البرکات اور مثنوی ریاض عشق،رسالہ چہار انواع،عوارف ہندی مشہور تصانیف ہیں،دسویں محرم ۱۱۴۲؁ھ سال وفات ہے،حضرت میر آزاد بلگرامی نے ‘‘صاحب برکات واصل منزل قدس’’ مصرعہ تاریخ کہا۔

[2]۔ قطب الکاملین حضرت شاہ حمزہ چودھویں ربیع الثانی ۱۱۳۱؁ھ کو پیدا ہوئے،والد ماجد سے تعلیم ظاہری و باطنی پائی مطالعہ کا خاص ذوق تھا،صدہا کتابیں نقل کر کے داخل کتب خانہ کیں،منقول ہے کہ متغرق علوم و فنون کی سولہ ہزار قلمی کتب آپ کے کتب خانے میں تھیں،آپ کی تصانیف میں ‘‘کاشف الاستار’’ ‘‘فص الکلمات’’ غوثِ اعظم بہ مَن بے سرو ساماں مددے،آپ ہی کی مشہور منقبتی نظم ہے،عینی تخلص تھا،حضرت کی شخصیت مُللی مہات میں سلاطین و نوّابین کی پُشت پناہ تھی نوابین بنگش اور شاہان اوردھ کی تاریخ میں حضرت کا ذکر بطور خصوص ملتا ہے،تفصیل کے لیے اودھا اور عہدن بنگش کی تاریخ دیکھی جائے،چودھویں محرم ۱۱۹۸؁ھ سالِ وفات ہے،

[3]۔ حضرت ابو البرکات شاہ آلِ محمد قدس سرہ ۱۱۱۱؁ھ میں بلگرام میں پیدا ہوئے،والد ماجد سے تربیت باطنی حاصل کر کے خرقۂ خلافت پہنا،حضرت سید العارفین میر شاہ لطف اللہ لدھا نے بھی شالِ خلافت عطا فرمائی۔ مآثر الکرام میں ہے کہ،حضرت شاہ آلِ محمد،امراضِ قلبی کے ازالہ میں شانِ سیحائی رکھتے تھے، بیشتر وقت کتب تصوف خصوصاً والد بزرگوار کی مصنفات کے مطالعہ میں صرف فرماتےتھے۔۱۱۶۴؁ھ میں وفات ہوئی،حضرت میر آزاد نے قطعۂ تاریخ کہا ؎

چراغ آلِ عبا،شمع دودمانِ علا

 

فزود جلوۂ او،رونقِ حریم بہشت

افادہ کرو بہ من سالِ رحلش ہاتف

 

نصیب آل محمد بود،نعیم بہشت

تجویزوآراء