حضرت سید ابوبکر تاج الدین عبد الرزاق بن غوث الاعظم
حضرت سید ابوبکر تاج الدین عبد الرزاق بن غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ
اٹھارہویں ذیقعدہ ۵۲۸ھ میں متولد ہوئے، اپنے والد بزرگوار سے تفقہ حاصل کیا، اور حدیث سنی، اس کے علاوہ ابو الحسن محمد بن الصّائغ رحمۃ اللہ علیہ قاضی ابو الفضل محمد الار موی رحمۃ اللہ علیہ، ابو القاسم سعید بن البَنّا رحمۃ اللہ علیہ، حافظ ابو الفضل محمد بن ناصر رحمۃ اللہ علیہ ابو بکر محمد بن الزّاغوانی رحمۃ اللہ علیہ، ابو المظفر محمد الہاشمی رحمۃ اللہ علیہ، ابو المعانی احمد بن علی السّمین رحمۃ اللہ علیہ ابو الفتح محمد بن البطر رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شیوخ سے بھی حدیث سنی۔
صاحب روض الزّاھر کا بیان ہے کہ حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ و ابن النجار رحمۃ اللہ علیہ و عبد الطیف رحمۃ اللہ علیہ و تقی البلدانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ بہت سے مشاہیر نے ان سے روایت کی ہے۔
اور شیخ شمس الدین عبد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ کمال عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ اور احمد شیبان رحمۃ اللہ علیہ اور خدیجہ بنت شہاب رحمۃ اللہ علیہ اور اسمٰعیل عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کو انہوں نے اجازتِ حدیث دی ہے۔
ثقاہت و صداقت و تواضع و انکسار میں مشہور تھے، صبر و شکر و اخلاق حسنہ و عفت شعاری میں معروف تھے، زہد و خاموشی اِن کا شیوہ تھا، عمومًا لوگوں کے کنارہ کش رہتے، سوائے ضرورت دینی کے گھر سے نہ نکلتے۔
کتاب جلاء الخواطر ملفوظات حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ انہیں نے ترتیب دی ہے۔ بروز شنبہ چھٹی (۶) شوال ۶۰۳ھ میں وفات پائی۔ بغداد باب الحرب میں مدفون ہوئے. ان کے پانچ فرزند مقبول بارگاہ ہوئے۔ قاضی سید ابو نصر صالحِ رحمۃ اللہ علیہ اور سید ابو القاسم عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۶۰۶ھ) اور سید ابو المحاسن فضل اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ (متوفی صفر ۶۰۶ھ) اور سید ابو محمد اسمٰعیل رحمۃ اللہ علیہ اور سید جمال اللہ حیات المیر زندہ پیر۔
(شریف التواریخ)
عبدالرزاق نام، کنیت عبدالرحمان ابوالفرح، لقب تاج الدین، حضرت غوث الاعظم کے فرزند رشید تھے۔ اپنے پدر بزرگوار ہی کے سایۂ عاطفت میں تعلیم و تربیت پائی تھی۔ جامع علوم و فنون تھے۔ ملک ِعراق کے مفتی تھے۔ رسالہ جلاء الخواطر ملفوظاتِ حضرت غوث الاعظم آپ ہی کا تالیف کردہ ہے۔
فرماتے ہیں، ایک روز میرے والد ماجد نمازِ جمعہ کے لیے باہر تشریف لائے۔ میں اور میرے دو بھائی آپ کے ساتھ تھے۔ میں نے دیکھا تین مٹکے شراب کےگاڑی پر رکھے ہوئے خلیفۂ بغداد کے لیے جارہے ہیں۔ محافظ سپاہی تھے۔ شراب کی بُو اس کی غماز ہوتی ہے حضرت والد گرامی کو معلوم ہوگیا۔ سپاہیوں کو آواز دی کہ ٹھہر جاؤ مگر وُہ نہ ٹھہرے بلکہ گاڑی کو اور زیادہ دوڑایا۔ آپ نے گاڑی سے مخاطب ہوکر فرمایا: بحکم خداوندی ٹھہر جا۔ وُہ اسی وقت رُک گئی۔ سپاہیوں نے ہر چند جانوروں کو مارا مگر وُہ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ حضرت غوث الاعظم نےنگاہِ غضب سے اُن کی طرف دیکھا۔ اُنہیں اسی وقت وردِ قولنج شروع ہوگیا۔ زمین پرگِر کر ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپنے اور لوٹنے لگے۔ نالہ و فریاد بلند کیا۔ حضرت ہم نے توبہ کی پھر ایسی نا فرمانی نہیں کریں گے۔ انہیں دردِ قولنج سے فوراً شفا حاصل ہوگئی اور شراب سرکہ میں تبدیل ہوگئی۔ آپ مسجد میں تشریف لے گئے۔ یہ خبر جب خلیفۂ بغداد نے سنی، حاضرِ خدمت ہوکر تمام منہیات سے تائب ہُوا۔
ایک روز سید عبدالرزاق اپنے والد ماجد کی محفل میں حاضر تھے۔ آسمان پر مردانِ غیب کو جاتے ہوئے دیکھ کر ڈر گئے۔ آپ نے فرمایا: ڈرو نہیں یہ رجال الغیب ہیں اور تُو بھی اِنہی سے ہے۔
کتاب انیس القادریہ میں بروایتِ شیخ ابوالمعالی صاحبِ تحفۃ القادریہ مندرج ہے کہ سیّد عبدالرزاق کے پانچ فرزند تھے۔ اول شیخ ابو صالح، دوم شیخ ابو القاسم عبدالرحیم، سوم شیخ ابو محمد اسماعیل، چہارم شیخ ابوالمحاسن فضل اللہ اور پنجم جمال اللہ قدس اللہ سرہم العزیز۔ حضرت غوث الاعظم نے شیخ جمال اللہ کے لیے عمرِ جاوید کے لیے دعا فرمائی تھی اور وُہ آج تک زندہ ہیں اور بہ اسمِ حیات المیر مشہور ہیں۔ اکثر سیرو سیاحت میں رہتے ہیں۔ سکونت دیارِ سمر قند وغیرہ کی طرف ہے۔ سید محمد مقیم صاحبِ حجرہ اور کئی اور اولیاء آپ کے مرید ہیں۔ سیّد عبدالرزاق نے ۵۹۵ھ میں وفات پائی۔