حضرت سیدعلاؤالدین لاہوری
حضرت سیدعلاؤالدین لاہوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ شیخ سراج الدین ملقب بہ اخی سراج الدین کے خلیفہ تھے، ابتدائی زمانے میں مالدار اور غنی ہونے کی وجہ سے نہایت ہی شان و شوکت سے رہا کرتے تھے مگر جب سراج اخی کے مرید ہوئے تو سب کچھ چھوڑ کر فقیرانہ اور مستانہ وار گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ مشہور ہے کہ اخی سراج الدین جب شیخ نظام الدین اولیاء سے خلافت حاصل کی تو اپنے آبائی وطن جانے کی اجازت چاہی اور جاتے وقت عرض کیا کہ حضرت وہاں ایک بہت بُلند پایہ بزرگ شیخ علاؤالدین رہتے ہیں، میرا اور ان کا نباہ کیسے ہوگا۔ شیخ نظام الدین اولیاء نے فرمایا کہ فکر مند نہ ہو اور کوئی غم نہ کرو وہ تمہارا خادم بن کر رہے گا، چنانچہ جیسا خواجہ نظام الدین نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
شیخ علاؤ الدین کی خانقاہ میں کچھ قلندر آئے ان کے ساتھ ایک بلی تھی جو یہاں آکر گم ہوگئی، قلندروں نے شیخ سے کہا کہ ہماری بلی تلاش کیجیے، شیخ نے کہا کہ تم لوگ بلی کہاں سے لائے تھے؟ ایک نے کہا کہ ہرن کے سینگ سے، آپ نے فرمایا تم کو سینگ ہی مارے گا، دوسرے نے خصیہ دکھادیا (کہ ہم بلی یہاں سے لائے تھے) آپ نے فرمایا کہ تجھے یہی ملے گا، چنانچہ شیخ ان کو لے کر بلی کی تلاش میں باہر نکلے، جس نے کہا تھا کہ ہم بلی ہرن کے سینگ سے لائے تھے اس کے پاس ایک گائے آئی اور اس نے اس آدمی کو خوب زور سےٹکر ماری اور جس نے خصیہ دکھایا تھا اس کے خصیہ میں اتنا ورم آیا کہ اسی وجہ سے مرگیا۔
شیخ سراج الدین اخی اکثرو بیشتر سفر ہی کرتے تھے اور تھوڑا بہت کھانا اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے آپ کے خادِم ایک بہت بڑا دیگچہ شوربے سے بھر کر آپ کے سر پر رکھ دیا کرتے جس وجہ سے آپ کے سر کے بال جھڑ گئے آپ اکثر اوقات ان لوگوں کے پاس سے گزرا کرتے جو شیخ علاؤالدین کے دور میں وزیر وغیرہ تھے مگر اس سے علاؤالدین پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔
شیخ علاؤالدین بڑے سخی آدمی تھے اور بے انتہا خرچ کیا کرتے تھے، آپ کا خرچ اتنا زیادہ تھا کہ جس پر بادشاہ وقت کو بھی رشک ہوتا تھا، یہ حالت دیکھ کر اس وقت کا بادشاہ کہا کرتا تھا کہ میرا خزانہ شیخ کے باپ کے پاس ہے جو انہیں خرچ کرنے کے لیے دیتا ہے۔ اسی مغالطے کی بنا پر بادشاہ نے حکم دیا کہ شیخ میرے شہر سے باہر سنار گاؤں میں چلے جائیں، چنانچہ اس گاؤں میں پہنچ کر شیخ نے اپنے خادموں سے فرمایا کہ پہلے تم جتنا خرچ کرتے تھے اب اس سے دوگنا خرچ کرو، چنانچہ شیخ کے حکم سے پہلے سے دوگنا خرچ ہونے لگا، شیخ کے اخراجات بہت زیادہ تھے لیکن آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہ تھا۔ شیخ کے آبائی دو باغ تھے جن کی سالانہ آمدنی آٹھ ہزار روپے تھی، ان پر ایک آدمی نے ناجائز قبضہ کر رکھا تھا مگر شیخ نے اس سے کبھی واپسی کا مطالبہ نہیں کیا، شیخ کا ہاتھ بہت کھلا ہوا تھا اور لوگوں کو خوب مال دیتے اور فرمایا کرتے تھے کہ میرے شیخ جتنا خرچ کرتے تھے میں اس کا عشر عشیر بھی خرچ نہیں کرتا، آپ کا مزار پنڈوہ میں ہے آپ کی وفات ۸۰۰ھ میں ہوئی۔
(اخبار الاخیار)