حضرت علامہ مولانا حافظ پیرسید محمد حسین شاہ علی پوری
حضرت علامہ مولانا حافظ پیرسید محمد حسین شاہ علی پوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت مولانا حافظ پیر محمد حسین مثاہ ابن امیر ملت حضرت پیر حافظ جماعت علی شاہ محدث علی پوری قدس سرہما۷؍شوال المکرم،۱۴؍اپریل(۱۲۹۸ھ؍۱۸۷۸ء) کو علی پور سیداں (سیالکوٹ) میں پیدا ہوئے۔آپ کا سلسلۂ نسب ۳۷ واسطوں سے اس اللہ الغالب حضرت سینا علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے۔۵ سال کی عمر میں حفظ قرآن کریم کے لئے حافظ شہاب الدین مرحوم کے پاس بٹھائے گئے۔حفظ کلام پاک کے بعد مدل تک سکوم میں تعلیم حاصل کی، بعد ازاں فارسی اور صرف ونحو کی ابتدائی کتابیں مولانا عبد الرشید صدیقی سے پڑھیں،پھر امر تسر کے نامور عالم دین مولانا نور احمد امر تسری(محشی مکتوبات شریف)کی خدمت میں حاضر ہوکر اکتساب فیض کیا۔
جن دنون آپ امر تسر میں زیر تعلیم تھے،امیر ملت حضرت پیر سید جماعت علی شاہ قدس سرہ امر تسر تشریف لے گئے اور امتحاناً آپ سے چند مشکل صیغے پوچھے جنہیں آپ نے صحیح طور پر بتادیا۔ایک مولانا صاحب نے پوچھا کہ’’سگ بچہ در ہودر ہو البغبغو‘‘ کونسا صیغہ ہے؟آپ نے بتایا کہیہ فعل ماضی رباعی مجرو فعلل کے ابتدائی تین صیغوں و حرج،وحرجا،وحرجوا کے وزن پر ہے اس پر حضرت امیر ملگ بہت خوش ہوئے ۔دورئہ حدیث مدرسہ امینیہ،دہلی میںکیا جہاں اس وقت مولوی کفایت اللہ دہلوی درس حدیث دیتے تھے،ڈپٹی تدایر احمد سے ادب اور تاریخ کی کچھ کتابیں پڑھیں۔
تکمیل علوم کے بعد ۲۰ سال کی عمر میں حضرت پیر سید نجابت علی شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ(حضرت امیر ملت کے برادر بزرگ )کی دختر نیک اختر سے شادی ہوئی،انہی دنوںعلی پور شریف میں مدرسہ نقشبندیہ کی بنیاد رکھی گئی جس کے آپ مہتمم مقرر ہوئے، مدرسہ کے انتظام کے علاوہ آپ مختلف علوم و فنون کی کتابین خود بھی پڑھایا کرتے تھے۔
حضرت پیر محمد حسین شاہ رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت با با فقیر محمد قدس سرہ(چورہ شریف)کے دست مبارک پر سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر خلافت پائی،ان کے وصال کے بعد اپنے والد ماجد سے بیعت ہو کر خلاف سے نوازے گئے،ہزاروں افراد حضرت امیر ملت قدس سرہ کی ظاہری حیات ہی میں آپ کے ہاتھ پر بیعت ہو کر ہدایت یاب ہوئے۔
آپ کے چند ملفوظات ملاحظلہ ہوں:۔
٭ حضور نبی اکرم سلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی تمام کمالات کا سر چشمہ ہے۔
٭حضور نبی اکرم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعظیم و توقیر کے بغیر نجاب نا ممکن ہے اگر چہ کتنا عابد وزاہد ہو۔
٭ جو شریعت کا پابند نہیں اگر چہ اس سے خوراق عادات کا بکثرت ظہور ہو،ولی نہیں ہے،ولایت کی بناء اتباع سنت پر ہے،کرامات پر نہیں۔
٭ اہل سنت و جماعت کا طریق ہی طریق حق ہے۔
صحب صالحین اخلاق و احوال کی اصلاح کے لئے اکسیر اعظم ہے۔
افضل الرسل آپ کی تصنیف یادگار ہے جس میں مدلل طور پر ثابت کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل ہیں (تالیف ۱۹۱۲ئ) علاوہ ازیں آپ کی کئی تصانیف ماہنامہ انوار الصوفیہ قصور میں قسط وار شائع ہوتی رہی ہیں۔
۱۲؍ربیع الاول،۱۶؍اکتوبر(۱۳۸۱ھ؍۱۹۲۱ئ) بروز سوموار آپ کا وصال ہوا،دوسرے دن ہزارون افراد نے نماز جنازہ میں شرکت کی،علی پور شریف میں آپ کا مرجع خاص و عام ہے۔
حضرت مولانا ضیاء القادری رحمہ اللہ تعالیٰ نے تاریخ وصال لکھی ؎
راہی ہوئے بہشت بریں کو ہزار حیف!
بزم جہاں سے آج محمد حسین شاہ
نور نگاہ پیر جماعت علی تھے آپ
تھے آپ شیخ کامل و اکمل کدا گواہ
سال وصال کہئے ضیائؔ آنجناب کی
’’جنت نصیب، میر محمد حسین شاہ‘‘
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)
حضرت سراج الملّت پیر سیّد محمد حسین شاہ صاحب علی پوری قدس سرّہ
علی پور سیّداں ضِلع سیال کوٹ ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء ۔۔۔۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء علی پُور سیّداں ضِلع سیال کوٹ
قطعۂ تاریخِ وصال
خلد آشیاں ہیں آج محمد حسین شاہ |
|
ہر اہلِ حق کے لب پہ ہے آواز آہ آہ! |
|
||
|
||
|
||
|
(صابر براری، کراچی)
مرشد و مولائی، سیّدی وسندی سراج الملّت حضرت پیر سیّد محمد حسین شاہ صاحب کی ولاست با سعادت ۱۲۹۵ھ بمطابق ۱۸۷۸ء میں حضرت امیر ملّت پیر سیّد جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں عالم اسلام کے مشہور ومعروف روحانی مرکز علی پورسیّداں ضلع سیالکوٹ میں صبح صادق کی ساعتِ سعید میں ہوئی۔ آپ کی پیدائش پر بڑی خوشیاں منائی گئیں۔ حضرت امیر ملّت قدس سرہ نے آپ کے چاند سے بڑھ کر حسین چہرے کو دیکھا تو جامے میں پھولے نہ سمائے اور بے اختیار ہوکر گود میں اٹھالیا اور دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی۔ اور پھر دعائے خیر کی۔ (اللہ اکبر! وہ ساعت کتنی سعید ہوگی۔ (قصوری)
ساتویں روز آپ کے بال منڈوائے گئے اور صدقہ وخیرات کیا۔ آپ کا اسم گرامی محمد حسین رکھا اور دو بکرے ذبح کرکے عقیقہ کیا۔ آپ دو تین مہینے کے تھے کہ حضرت بابا جی فقیر محمد چوراہی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تو آپ کے چچا حضرت سیّد صادق شاہ رحمۃ اللہ علیہ[۱] آپ کو اپنی گود میں لے کر حضرت بابا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ ’’اس پر دَم کردیجیے۔ یہ اکثر روتا رہتا ہے۔‘‘ حضرت بابا جی رحمۃ اللہ علیہ نے دم فرماکر ارشاد کیا کہ:
[۱۔ حضرت سیّد صدق علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت امیر ملّت کے برادرِ اصغر تھے۔ آپ بڑے متقی، پرہیزگار، پابندِ شریعت اور سخی تھے۔ دربار شریف کے جملہ انتظامات، زمینداری، کاشتکاری کے تمام اُمور آپ کی نگرانی میں بخیروخوبی انجام پاتے تھے۔ آپ کی وفات ۱۳۴۲ھ/۱۹۲۴ء میں ہوئی۔ تفصیلی حالات کے لیے ہماری کتاب تذکرہ اَولیاء علی پورسیّداں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ (قصوری)]
’’یہ رونے والا بچہ نہیں ہے، یہ بڑا مرد ہوگا اور ہمیشہ خوش وخرم رہےگا‘۔‘
آپ کا بچپن نہایت پاکیزہ اور شگفتہ تھا، اونچی آواز سے نہیں بولتے تھے۔ بڑوں کا ادب کرتے تھے۔ کپڑے صاف ستھرے رکھتے تھے۔ جب آپ کی عمر مبارک سوا چار سال کو پہنچی تو آپ کو حضرت قاری حافظ شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں کلامِ مجید کی تعلیم اور حفظ کے لیے بٹھایا گیا۔ اور آپ نے پانچ سال کہ عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔اس کے بعد علی پورسیّداں کے پرائمری اسکول سے پرائمری کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کرکے قلعہ سُوبھا سنگھ سے مڈل پاس کیا۔ اور دینیات کی تعلیم کےلیے حضرت مولانا عبدالرشید صدیقی رحمۃ اللہ علیہ کے حضور زانوے تلمذ تہہ کیا۔ ابتدائی کتب پڑھنے کے بعد اُستاذالعلماء حضرت مولانا نور احمد نقشبندی امر تسری رحمۃ اللہ علیہ (ف۱۹۳۰ء) کے پاس امرتسر جاکر اکتساب علم کرتے رہے۔ امرتسر میں تحصیل علم کے بعد آپ نے دارالعلوم انجمن نعمانیہ لاہور اور پھر مدرسہ امینیہ دہلی میں داخلہ لیا۔ درسِ نظامی کی تمام اعلیٰ کتابیں تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، فلسفہ وغیرہ کی تکمیل وہیں سے کی۔ قیامِ دہلی کے دوران ہی مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں رحمۃ اللہ علیہ (ف۱۹۲۷ء) کے طبیہ کالج دہلی میں داخلہ لے کر طب کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔ آپ حکیم صاحب موصوف کے لائق ترین شاگرد وں میں شمار ہوتے تھے۔
[۱۔ حضرت مولانا نور احمد امر تسری بن حکیم شہاب الدین بن حکیم شیخ عمر بخش بن حکیم شیخ محمد وارث بن دل محمد دلشاد پسروزی ۱۸۵۰ء میں پسروز ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ مڈل پاس کرنے کے بعد مولانا احمد حسن کانپوری رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۹۰۴ء) مولانا شاہ فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۸۹۵ء) اور مولانا حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (ف ۱۸۹۹ء) سے علوم دین حاصل کیے۔ بعد ازاں مدرسہ صولتیہ مکہ معظمہ میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۸۹۰ء) سے بھی استفادہ کیا۔ امر تسر میں مدرسہ نعمانیہ قائم کیا جس سے بے شمار لوگوں نے علمی پیاس بجھائی۔ مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا حاشیہ لکھ کر ۱۳۲۷ھ میں امر تسر سے چھپوایا۔ آپ کی وفات ۱۴؍جنوری ۱۹۳۰ء کو ہوئی۔ (قصوری)]
حصولِ تعلیم کے بعد آپ علی پورسیّداں شریف واپس تشریف لے آئے تو بیس برس کی عمر مبارک میں آپ کی شادی آپ کے تایا حضرت پیر سیّد نجابت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ[۱] کی دخترِ نیک اختر[۲] سے انجام پائی۔ انہیں ایام میں حضرت امیر ملّت قدس سرہ نے علی پور شریف میں مدرسہ نقشبندیہ کا اجراء فرمایا تو آپ کو مہتم مقرر کیا گیا۔آپ مدرسہ کے انتظام وانتصرام کے علاوہ طلباء کو علوم و فنون کی کتابیں بھی پڑھاتے تھے۔ عربی و فارسی پر آپ کو مہارتِ تامہ اور شہرتِ عامہ حاصل تھی۔ تحریر و تقریر میں اہلِ زبان کی طرح یدِ طُولیٰ حاصل تھا۔ تمام عمر کبھی بول چال میں رکاوٹ نہ آئی۔ آپ کی فصاحت و بلاغت پر بڑے بڑے علماء و فضلاء کو حیرانی ہوتی تھی، اور وہ بے ساختہ داد دینے پر مجبور ہوتے تھے۔ آپ کے پڑھانے کا انداز نہایت شئستہ اور نرالا تھا۔ طلباء کے ساتھ نہایت شفقت فرماتے تھے۔ جمعۃ المبارک کی رات طالب علموں کو لے کر مغرب کی نماز کے بعد ’’مسجد نُور‘‘ کے صحن میں بیٹھ جاتے اور نماز عشاء تک سوال و جواب اور مناظرہ آرائی ہوتی رہتی۔
[۱۔ حضرت پیر سیّد نجابت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت امیر ملت قدس سرہ کے برادر اکبر تھے۔ بڑے پایہ کے بزرگ اور سیف زبان تھے۔ زہدو ورع، پابندی شریعت اور تقویٰ و پرہیز گاری میں نا بغۂ روزگار تھے۔ آپ گھوڑوں کے تاجر تھے۔ آپ کی وفات ۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء میں ہوئی۔ تفصلی حالات کے لیے احقر کی کتاب تذکرہ اولیاء علی پور سیداں دیکھیے (قصوری)]
[۲۔ آپ کا اسم گرامی عاقلہ بی بی تھا۔ آپ کی دینداری، زُہدو تقویٰ اور خط ترسی عدیم المثال تھی۔ آپ کی وفات ۷؍ نومبر ۱۹۶۷ء کو صبح چار بجے ہوئی اور روضۂ امیر ملّت سے ملحقہ حجرے میں دفن ہوئیں۔ (قصوری)]
شروع میں آپ نے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ حضرت بابا فقیر محمد فاروقی چوراہی رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۷ء) کے دستِ اقدس پر سعادتِ بیعت حاصل کی تھی اور اجازت و خلافت سے بھی سرفراز کیے گئے تھے، اُن کی رحلت کے بعد والد گرامی قدر یعنی حضرت امیر ملّت قدس سرہ سے بیعت ہوکر ۱۱؍ مئی ۱۹۱۴ء کو بر موقعہ سالانہ جلسہ علی پور سیّداں شریف خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ حضرت امیر ملّت قدس سرہ کی حیات ظاہری ہی میں آپ کے علم و عرفان کی دھوم مچ گئی تھی۔ ہزاروں لوگ آپ سے بیعت ہوکر گمراہی و گمشتگی سے نجات حاصل کر کے صراطِ مستقیم پر گامزن ہوگئے۔ راقم الحروف نے بھی ادائل اپریل ۱۹۵۶ء میں اپنے گاؤں بُرج کلاں ضِلع قصور کی ’’جامعہ مسجد امیرِ ملّت رحمۃ اللہ علیہ‘‘ میں بعد نماز ظہر آپ کے دستِ اقدس پر بیعت کر کے شرفِ غلامی حاصل کیا تھا۔
حضرت امیر ملّت قدس سرہ کو جب فرصت نہ ہوتی تو لوگوں کو بیعت کے لیے آپ کی خدمت میں بھیج دیتے۔ یہ شرف حضرت امیر ملّت قدس سرہ کی حیاتِ طیّبہ میں خاندان کے کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔
یہ مرتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
آپ عالم، فاضل، پیر، ادیب اور حکیم ہونے کے علاوہ ایک بہت بڑے مناظر بھی تھے۔ آپ کو اکثر تحریری مناظروں کے مواقع ملے۔ آپ نے مخالفین کی تحریروں میں ہمیشہ غلطیاں نکالیں، جس کی وہ کبھی توجیہ و تاویل نہ کرسکے، مگر آپ کی تحریر میں اُن کو نکتہ چینی اور خوردہ گیری کی جراْت نہ ہوئی۔ آپ نے بار ہا چیلنج بھی کیا مگر معا ندین کو چُپ سادھ لینے ہی میں عافیت نظر آئی۔ آپ کے بیسیوں مناظروں میں سے ایک مناظرہ کی مختصر جھلک پیشِ خدمت ہے:
ایک بار جامع ازہر مصر کے ایک اُستاد علی پور سیّد آئے بعض مسائل پر اُن سے اختلاف ہوا تو مستقل بحث و مناظرہ ہونے لگا۔ تین دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ حضرت اس دوران برابر عربی میں گفتگو فرماتے رہے۔ مدرسہ کے اساتذہ طلباء محفل میں موجود ہوتے اور اُن کی علمی بحث سے استفادہ کرتے۔ آپ نے دلائل و براہین سے حنفی مسلک کی صحت و افادیّت ثابت کی اور اُس مصری عالم کو قائل کرلیا۔ اُسے آپ کی فصیح اور شستہ عربی گفتگو پر سخت حیرت تھی۔ آخر اُس نے دریافت کیا کہ آپ نے ملک عرب کتنی مُدّت گزاری ہے؟ آپ نے ارشاد کیاکہ ’’حج کے زمانے کے علاوہ مجھے کبھی وہاں رہنے کا شرف حاصل نہیں ہُوا‘‘۔ یہ سُن کر وہ حیرانی سے کہنے لگا کہ ہندوستان میں رہتے ہوئے آپ کو پھر کس طرح لسانی مہارت حاصل ہوگئی۔
آپ کو کتابوں کی خریداری کا بہت شوق تھا۔ جب حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کے لیے جاتے تو نایاب کتب خرید کر لاتے۔ آپ ہزاروں روپے صَرف کرکے عربی کتب خرید کر لائے۔ اور اُنہیں علی پور سیّداں کے کتب خانے کی زینت بنایا۔ آپ کے اس ذوق و شوق کی حضرت امیر ملّت قدس سرّہ بڑی قدر فرمایا کرتے تھے۔ کئی بار تحسین و آفرین کے کلمات ارشاد فرمائے۔ ایک بار فرمایا کہ:
’’لوگ ایسے تبرکات خریدتے ہیں جو فنا ہوجاتے ہیں صاحبزادہ نے ایسی چیزیں خریدیں ہیں جن کو بقاہے‘‘۔
حضرت امیرِ ملّت قدس سرّہ نے کتابوں کی کثرت دیکھ کر یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’صاحبزادہ نے مکّہ شریف کے تمام کتب خانے خرید لیے ہیں‘‘
آپ کو فتویٰ نویسی میں خاص مہارت حاصل تھی آپ کے صاحبزادے جو ہر ملّت حضرت پیر سیّد اختر حسین شاہ حسین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۹۸۰ء) اپنی معرکتہ الآرا تصنیف ’’سیرتِ امیر ملّت‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ:
’’‘آپ مشکل سے مشکل مسائل پر قلم برداشتہ فتویٰ لکھ دیتے تھے۔ حدیث و فقہ کی کتابوں پر ایسا عبور حاصل تھا کہ آپ کے فتوے قوی اور مضبوط دلائل اور حوالہ جات سے مزیّن ہوتے تھے، علم و فرائض بہت مشکل چیز ہے مگر آپ کو اس میں بھی کامل مہارت حاصل تھی۔ میراث کے مسائل کا جواب برجستہ دیتے اور ترکہ کی تقسیم کے معاملات مدلّل طور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں فوراً حل فرمادیتے تھے‘‘۔
ایک بار آپ کلکتہ تشریف لے گئے۔ وہاں اُس وقت طلاق کے ایک مسئلہ نے سب کو پریشان کر رکھا تھا۔ ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’اگر تُونے ہنڈیا چاٹی تو تجھ کو طلاق‘‘۔ مفتیوں سے سے رجوع کیا گیا تو سب نے کہا کہ اُس کی بیوی کو طلاق ہوگئی۔ اُس شخص نے آپ سے رجوع کیا۔ آپ نے اُس کی بیوی سے دریافت فرمایا کہ ’’تم نے ہانڈیا کس طرح چاٹی ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا، ’’انگلیوں سے پونچھ پونچھ کر‘‘۔ آپ نے ارشاد کیا، ’’جا! تجھ کو طلاق نہیں ہوئی تُونے اپنی انگلی چاٹی ہے، ہنڈیا نہیں چاٹی‘‘۔ کلکتہ کے تمام علماء آپ کی فراست و ذہانت پر انگشت بد نداں رہ گئے۔
آپ جتنے جلیل القدر عالم تھے، اُتنے ہی پابندئِ شریعت اور اتباع سنّت کے عامل تھے۔ شبِ بیداری، تہجد گزاری اور آہ وزاری تو اُن کا معمول تھا۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو رگ رگ میں سمایا ہوا تھا۔ راقم الحروف بچشم خود بارہا نام مصطفےٰصلی اللہ علیہ وسلم اور نعتیں سُنتے ہوئے انہیں جُھومتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہمارے غریب خانہ پر آپ نے کئی دفعہ قدومِ میمنت لزوم فرمایا۔ میرے جدّ امجد مہر جیون بخش نقشبندی مجدّدی جماعتی رحمۃ اللہ علیہ (ف ۲۰؍ اپریل ۱۹۶۶ء) جن کو حضرت امیر ملّت قدس سرّہ کی غلامی کا شرف حاصل تھا، آپ کے عاشقِ زار تھے اور آپ کی خاطر و مدارت میں کوئی کمی نہیں آنے دیتے تھے۔ ہمارے غریب خانہ پر میلاد کی محفلیں، مجالس نعت خوانی اور حضرتِ امیر ملّت قدس سرّہ کے عرس کی تقریبات منعقد ہوتیں تو آپ کا صوفیانہ وعظ حاضرین کو بے حد متاثر کرتا تھا۔ تحمل و بردباری اور شفقت تو آپ میں کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ طبیعت میں بڑی سادگی تھی جس کا اظہار لباس اور غذا وغیرہ سے ہوتا تھا۔ آپ صحیح معنوں میں درویشِ خدا مست تھے۔
آپ نے حضرت امیرِ ملّت قدس سرّہ کی زیر قیادت تمام دینی، ملّی، مذہبی، اور سیاسی تحریکوں میں بھی حصّہ لیا۔ انجمن خدّام الصوفیہ، فتنۂ ارتداد، تحریک خلافت، ساردا ایکٹ، تحریک کشمیر، تحریک شہید گنج، تحریکِ پاکستان اور دیگر تحریکوں میں بھرپُور کردار ادا کیا۔ فتنۂ ارتداد کے زمانہ میں عرصہ تک آگرہ میں رونق افروز رہے اور ارد و گرد کے علاقوں میں تبلیغ کرکے ہندوؤں کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملایا۔ تحریک شہید گنج میں بڑی جانفشانی سے کام کیا اور اس تاریخی جلوس میں نمایاں طور پر حصہ لیا جو حضرت امیر ملّت قدس سرہ کی زیر قیادت ۸؍ نومبر ۱۹۳۵ء کو بادشاہی مسجد لاہور سے ننگی تلواروں کے ساتھ نکلا تھا اور جس سے انگریز حکومت کے اوسان خطا ہوگئے تھے۔
تحریک پاکستان کا دور آیا تو حضرت امیر ملّت قد سرہ اپنے صاحبزادوں اور عقیدت مندوں کے ساتھ میدان میں نکل آئے۔ حضرت سراج الملت رحمۃ اللہ علیہ نے رات دن ایک کرکے مسلم لیگ کی تائید و حمایت میں یارانِ طریقت اور عامۃ المسلمین کو تحریک پاکستان کا ہمنوا بنایا۔ ۱۹۴۶ء کے تاریخی الیکشن میں ضلع رہتک (حال مشرقی پنجاب، انڈیا) میں مسلم لیگی امیدوارون کی حمایت میں دل کھول کر کام کیا پھر فیروز پور میں نواب افتخار حسین ممدوٹ (ف۱۹۶۹ء) کے حلقہ میں اس خوبی سے کام کیا کہ مخالفین بھی عش عش کر اُٹھے۔ بعد ازاں قصور میں بھی میان افتخار الدین (ف۱۹۶۲ء) کے حلقہ میں بھرپور کام کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تھا کہ آپ کے تینوں اُمیدوار غالب اکثریت سے کامیاب و کامران ہوئے۔
اس سے قبل جب ۲۴؍نومبر ۱۹۴۵ء کو حضرت پیر امین الحسنات المعروف پیر صاحب مانکی شریف (ف۱۹۶۰ء) نے مانکی شریف (تحصیل نوشہرہ ضلع پشاور صوبہ سرحد) میں حضرت قائدِ اعظم کی ایک شاندار دعوت کی تو ایک عدیم المثالی جلسۂ عام کا انعقاد بھی کیا۔ حضرت امیر ملت قدس سرہ کی خدمت میں جلسہ کی صدارت کے لیے درخواست کی گئی مگر حضرت ناسازیٔ طبع کے باعث تشریف نہ لے جاسکے اور اپنی جگہ حضرت سراج الملت رحمۃ اللہ علیہ کو قائدِ اعظم کےلیے سونے کا ایک تمغہ، تین سوروپے کی ایک تھیلی اور کئی دوسرے تحائف دے کر بھیجا۔
پیر صاحب مانکی شریف رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سراج الملّت رحمۃ اللہ علیہ کی بڑی عزّت افزائی کی اور جلسہ کی صدارت آپ کے سپرد کی۔ جب قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ جلسہ گاہ میں آئے تو حضرت سراج الملّت رحمۃ اللہ علیہ نے آگے بڑھے اور سونے کا تمغہ (جس پر کلمہِ طیّبہ کندہ تھا) قائدِ اعظم کی طرف بڑھاتے ہُوئے کہا کہ:
’’میرے والد ماجد (حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ) نے یہ تحفہ آپ کی خدمت میں بھیجا ہے‘‘۔
یہ سُن کر قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ بہت خوش ہُوئے، کُرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور سینہ تان کر کہا:
’’پھر تو میں کامیاب ہُوں، آپ تمغہ میرے سینے پر آویزاں کیجیے‘‘۔
اس پر مسلم لیگی کارکن ملک شاد محمد نے آگے بڑھ کر حضرت سراج الملّت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں سے تمغہ لیا اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی شروانی کی بائیں جانب سینے پر ٹانک دیا۔ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گئے۔
حضرت امیر ملّت قدس سرہ کی داد و دہش کی داستانیں تو زبان زد خاص و عام ہیں۔ عرب کے لوگ انہیں ’’ابُو العرب‘‘ کہتے تھے۔ آپ بھی ان کی طرح بڑے سخی اور جوّاد تھے۔ یتیموں اور بیوہ عورتوں کی خاص طور پر خبر گیری فرماتے تھے۔ مدرسہ کے طلباء کی ہر قسم کی ضروریات کا اہتمام فرماتے۔ ان تمام کاموں پر جو روپیہ صَرف ہوتا، اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہ ہوتا۔
ایک دفعہ آپ حضرت امیر ملّت قدس سرہ کی معیّت میں حج بیت اللہ و زیارتِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گئے ہُوئے تھے۔ مدینہ منوّرہ میں ایک دن حضرت امیر ملّت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا محمد ضیاء الدین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ (ف ۱۹۸۱ء) سے دریافت کیا کہ ’’آپ نے صاحبزادہ سے ملاقات کی؟ انہوں نے جواب دیا‘‘۔ جی ہاں! مُلاقات ہوئی مَیں اُن سے مل کر بہت خوش ہوا ہُوں۔ وہ بڑے عالم اور فاضل ہیں۔ آپ کے صحیح جانشین ہوں گے۔
حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’مولانا صاحب! بعض باتوں میں وہ مجھ سے بھی بڑھا ہوا ہے۔ میں کسی کو کچھ دیتا ہوں تو لوگ ایک کے چار کر کے بتاتے ہیں، مگر وہ دائیں ہاتھ سے دیتا ہے تو بائیں کو خبر نہیں ہونے دیتا‘‘۔
آپ کی تقریر بہت دلپذیر اور پُر اثر ہُوا کرتی تھی۔ دقیق سے دقیق مسائل کو بھی آناً فاناً حل فرما دیتے تھے۔ آپ کی شیریں کلامی سے غیر بھی کھنچے چلے آتے تھے۔ وعظ میں عموماً ترکِ دُنیا،سعئ عمل اور تصوّف کی باتیں ہی ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ ہمیں بارہا آپ کی میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ خوارک بہت سادہ پسند فرماتے تھے، اُبلے ہوئے چاول اور سادہ گوشت بہت پسند فرماتے تھے۔ سُنّتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کدّ و خصوصی طور پر مرغوب تھا۔
آپ کا لباس سفید ہوتا تھا، کُرتہ بہت کُھلا (اکثر و بیشتر چکن کا کپڑا استعمال فرماتے تھے) سفر میں سفید شلوار حضر میں سفید چادر، سر پر سفید پگڑی، پاؤں میں کھسّہ، ہاتھ میں عصا۔ آپ والد گرامی کے مظہر اُتم تھے۔ چہرہ پُر نور، جسے دیکھ کر خدا یاد آجاتا تھا۔ گفتگو فقیروں جیسی، چال شہنشاہوں جیسی، نرم دم گفتگو، گرم دِم جستجو۔ سخاوت میں اپنے وقت کے حاتم طائی تھے۔ آخیر عمر میں بصارت میں فرق آگیا تھا مگر صحت قابلِ رشک تھی۔ تہجّد کی نماز کبھی قضا نہیں کی۔ آخیر عمر میں رات کا اکثر و بیشتر حصّہ بیدار رہتے تھے۔ عموماً نصف رات مطالعہ کتب اور حل مسائل میں صرف ہوتا تھا۔ بعد ازاں تھوڑا سا لیٹ کر تہجّد پڑھتے تھے۔ صبح کی نماز کے بعد طلباء کو درسِ قرآن دیتے تھے۔
آپ تقریر و تدریس کے علاوہ میدانِ تحریر کے بھی شاہسوار تھے۔ ماہنامہ ’’انوار الصوفیہ‘‘ (لاہور، سیال کوٹ، قصور) میں آپ کے گرانقدر مضامین زیور طبع سے آراستہ و پیراستہ ہوکر علماء و فضلاء سے خراجِ تحسین حاصل کرتے رہے۔ آپ نے بہت سی کتابیں بھی لکھیں جن میں سے ’’افضل الرُسل‘‘ کئی بار منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوکر جامعیت اور انفرادیّت کے لحاظ سے اپنی عظمت کا لوہا منواچکی ہے۔ آخری ایڈیشن راقم الحروف کے زیر اہتمام ۱۹۹۲ء میں مرکزی مجلس امیرِ ملّت بُرج کلاں ضِلع قصور سے چھپ کر عاشقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی تسکین کا سامان بہم پہنچا چکا ہے۔
احباب و یارانِ طریقت کے نام آپ کے خطوط تصوّف، اسلامیات، تاریخ و تذکرہ اور اخلاق کا بہترین نمونہ ہوتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت اقدس ہمارے سامنے تشریف فرما کر گفتگو فرما رہے ہیں۔ اُستاذی حکیم ملّت حضرت حکیم محمد موسیٰ امر تسری ثم لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے نام آپ کا ایک خط نقل کیا جاتا ہے۔ یہ خط حکیم صاحب قبلہ کے اس خط کے جواب میں ہے جس میں انہوں نے آپ سے مولانا محمد عالم آسئی امر تسری رحمۃ اللہ علیہ[۱] (ف ۱۹۴۴ء) کے حالاتِ زندگی و دیگر کوائف دریافت کیے تھے۔ لیجیے اب وہ خط ملاحظہ فرمایے:
[۱۔ مولاناعالم آسی بن مولانا عبدالحمید بن مولانا غلام احمد موضع راگھو سیداں تحصیل حافظ آباد ضِلع گوجرانوالا میں ۸؍ شعبان ۱۲۹۸ھ کو پیدا ہوئے۔ دارالعلوم نعمانیہ لاہور سے سندِ فراغت حاصل کرنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔ حکیم ھاذق اور زبدۃ الحکما کی سندیں حاصل کیں۔ دارالعلوم نعمانیہ کے صدر مدرس مقرر ہوئے پھر مدرسہ نعرۃ الحق امر تسر میں ادب کے استاذ مقرر ہوئے۔ بعد ازاں ایم اے اد کالج امر تسر میں عربی کے پروفیسر مقرر ہوئے اور یہیں سے ریٹائر ہوئے۔ ردّ مرزائیت میں آپ کی کتاب ’’الکاویہ علی القادیہ‘‘ بہت مشہور ہوئی۔ حضرت شاہ ابوالخیر دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کر کے اجازت و خلافت حاصل کی۔ آپ نہایت نیک نفس، متقی، متورع و صوفی بزرگ تھے ۱۸؍ اگست ۱۹۴۴ء بعد نمازِ جمعہ رحلت فرمائی اور گورستانِ بلاسنگھ امر تسر میں مزار بنا جو آب دوسری قبروں کے ساتھ ہموار کیا جاچکا ہے۔ (قصوری)]
علی پور سیّداں ضِلع سیال کوٹ
۲۲؍ اگست ۱۹۵۷ء
جناب حکیم صاحب
اَلسّلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مرحوم و مغفور مولانا مولوی محمد عالم رحمۃ اللہ علیہ ذکی ذہین ہونے کے علاوہ ادیب فاضل اور جامع منقول و معقول تھے۔ بہت ہی متدیّن، شریف الطبع انسان تھے۔ میں نے چند اسباق اُن کے ساتھ حضرت مولانا غلام احمد صاحب[۱] مرحوم کی خدمت میں پڑھے ہیں۔ اس سے زیادہ میں اُن کے متعلق نہیں جانتا۔ آپ کو دفتر اخبار ’’الفقیہہ‘‘گوجرانوالا سے اُن کے حالات مل سکتے ہیں۔ ایڈیٹر الفقیہہ حکیم معر اجدین[۲] امر تسری رحمۃ اللہ کے لڑکے وہاں رہتے ہیں۔ مولانا محمد عالم مرحوم مغفور نے (مولوی) ثناء اللہ وہابی کے خلاف رسالہ جات بھی تحریر کیے تھے۔ ان کا پتہ بھی دفتر’’ا لفقیہہ‘‘ سے ملے گا۔
[۱۔ مولانا غلام احمد بن شیخ احمد ۱۲۷۳ھ/۱۸۵۶ء میں کوٹ اسحاق مضافات حافظ آباد ضِلع گوجرانوالا میں پیدا ہوئے۔ مولانا غلام قادر بھیروی رحمۃ اللہ علیہ و دیگر ممتاز علماء سے اکتسابِ علم کیا اور جامعہ نعمانیہ لاہور میں مدرس ہوگئے اور تمام عمر صدر مدرس رہے۔ آپ کے شاگردوں میں سراج الملّت پیر سیّد محمد حسین علی پوری رحمۃ اللہ علیہ مولانا محمد عالم آسی، مولانا فیض الحسن جہلمی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا غلام محمد گھوٹوی رحمۃ اللہ علیہ بہت مشہور ہیں۔ آپ کی وفات ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۷ء کو ہوئی اور اپنے آبائی گاؤں میں سپرد خاک ہوئے۔ (قصوری)]
[۲۔ حکیم معمر اجدین ۷؍ اپریل ۱۸۸۶ء کو امر تسر کے مشہور طبیب حکیم محمد ابراہیم کے ہاں پیدا ہوئے۔ مڈل پاس کرنے کے بعد با بائے طِب حکیم غلام رسول امر تسری رحمۃ اللہ علیہ سے علوم دینیہ کی تحصیل کی اور طب بھی پڑھی۔ مطب کے ساتھ ساتھ علم و ادب سے بھی گہری دلچسپی رہی۔ کامریڈ، تھہیہ سوٹا جیسے اخبار جاری کیے کئی اخبارات کے ایڈیٹر رہے۔ ۱۹۱۴ء میں ’’انجمن راعیانِ ہند‘‘کی بنیاد رکھی اور راعیں میگزین کا اجراء کیا۔ حضرت امیرِ ملّت سے بیعت کی۔ الفقہیہ جب مؤقر اخبار جاری کر کے تحریک پاکستان کی زبر دست حمایت کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد الفقہیہ کو لاہور اورپھر گوجرانوالا سے جاری کیا۔ ۹؍ نومبر ۱۹۴۸ء کو لاہور میں وفات پائی (قصور)]
فقط والسلام
سیّد محمد حسین علی پوری
آپ کی وفات حسرت آیات ۶؍ جمادی الاوّل ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء بروز پیر بوقت ساڑھے پانچ بجے شام بعمر شریف تراسی (۸۳) سال ۶ ماہ ۱۲ یوم ہوئی۔ نمازِ جنازہ حضرت خواجہ محمد شفیع سجادہ نشین[۱] چورہ شریف ضِلع اٹک (ف ۱۹۶۶ء) نے پڑھائی اور حضرت امیر ملّت قدس سرہ کے پہلو مبارک میں سپرد کیے گئے۔
[۱۔ خواجہ محمد شفیع بن خواجہ سید شاہ بن حضرت باواجی فقیر محمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ ۱۶؍ شعبان ۱۳۱۶ھ/۳؍دسمبر ۱۸۹۸ء کو چورہ شریف ضِلع اٹک میں پیدا ہوئے والد گرامی سے علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی۔ تمام عمر دہر میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اجالا کرنے کے بعد ۱۸؍ ذوالحجہ ۱۳۸۸ھ/ ۱۰؍ اپریل ۱۹۶۶ء کو رحلت فرما گئے۔ (قصوری)]
عمر ہا در کعبہ و تبخانہ می نالدحیات |
|
تاز بزمِ عشق یک دانا ئے راز آید بُروں |
آپ کی رحلت پر متعدد شعرائے کرام نے تایخی قطعات کہےہیں۔ چند ایک درج ذیل ہیں:
۱۔ (از حضرت مولانا محمد یعقوب حسین ضیاء القادری بدایونی رحمۃ اللہ علیہ کراچی)
راہی ہوئے بہشت بریں کو ہزار حیف |
|
بزمِ جہاں سے آج محمد حسین شاہ |
|
||
|
||
|
||
|
۲۔ (از صوفی مسعود احمد رہبر چشتی کشمیری ضیائی کراچی)
گئے خُلد میں ہم سے ہوکر وہ رخصت |
|
تھی جن کی مسلّم زمانہ میں عظمت |
|
||
|
||
|
آپ کی کرامات بے شمار ہیں۔ ذیل میں صرف اُن کرامات کا ذکر کیا جارہا ہے جو راقم الحروف کی چشم دید ہیں۔
۱۔ ایک دفعہ حضرت سراج الملّت رحمۃ اللہ علیہ ہمارے غریب خانہ میں جلوہ افروز تھے۔ میری والدہ ماجدہ اور ایک عورت مائی بی بی رانی مرحومہ نے آپ کے کپڑے مُبارک دھوئے۔ اب سوال پیدا ہوا کہ پانی کہاں بہایا جائے کیونکہ کپڑے دھونے کے بعد پانی کو یُوں ہی بہا دینا بے ادبی تھی۔ ہمارے گھر کے صحن میں ایک کیکر کا درخت تھا جو بالکل سُوکھ چکا تھا۔ چنانچہ ہم نے وہ پانی دَور بنا کر کیکر کی جڑوں میں ڈال دیا۔ دوسرے دِن صبح یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سُوکھے کیکر کے درخت نے کونپلیں نکالی ہوئی تھیں اور چند دن بعد ہرا بھرا ہوگیا۔ اللہ اکبر! کیا شان تھی میرے پیر و مرشد کی۔
۲۔ اسی طرح ایک مرتبہ پھر حضور سراج الملّت رحمۃ اللہ علیہ ہمارے ہاں فروکش تھے۔ ایک پیر بھائی محمد اسماعیل حجام مرحوم نے آپ کی دعوت کی۔ جب آپ دعوت کھانے کے لیے بمعہ یارانِ طریقت تشریف لے گئے تو وہ کثیر تعداد دیکھ کر گھبرا گیا۔ آپ نے اپنا رومال دیگ کے منہ پر ڈلوا کر کھانا تقسیم کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ تمام حاضرین نے سیر ہوکر کھانا کھایا لیکن پھر بھی کافی بچ رہا۔
نگاہِ ولی میں یہ تاثیر دیکھی |
|
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی |
۳۔ ایک دفعہ ہمارے گاؤں (بُرج کلاں ضِلع قصور) میں بہت سے آدمیوں اور مویشیوں کو باؤلے کُتّے نے کاٹ کھایا۔ اتفاق سے حضرت اقدس ہمارے ہاں تشریف فرما تھے۔ لوگوں نے فوراً حاضر ہوکر دم کر وایا اور صحت یاب ہوگئے۔ مگر ایک شخص اللہ بخش گُمہار کا لڑکا دم نہ کرواسکا تو وہ باؤلے ہوکر مرگیا۔
ارشاداتِ قُدسیہ:
۱۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع جملہ کمالات کا سرچشمہ ہے۔
۲۔ زنا اور بدکاری، خرابی و بربادی کا باعث ہے۔
۳۔ صالح ماں باپ کا صدقہ اُس کی اولاد کی سات پُشتوں تک حفاظت کرتا ہے۔
۴۔ ایمان کے بعد نجات کا انحصار اعمالِ صالح پر ہے۔
۵۔ دروُد شریف، اللہ کی رحمت پانے کا ذریعہ ہے۔
۶۔ محبوب کی یاد اُس کے دیکھنے کا قائم مقام ہے۔ اگر محبوب نظر نہ آئے تو اُس کی یاد سے غافل نہ رہو۔ کیونکہ ذکرِ حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے۔
۷۔ قصیدہ بُردہ اور قصیدہ بانت سعاد بڑی تبرک کتابیں ہیں۔
۸۔ نمازِ تہجّد کی مداومت کرنی چاہیے جو فیوض اِس سے حاصل ہوتے ہیں وہ کسی دوسری چیز سے حاصل نہیں ہوتے۔
۹۔ زبان دل کی ترجمان ہے جس طرح دل کا پاک رکھنا واجب ہے، اسی طرح زبان کا پاک رکھنا بھی واجب ہے۔
۱۰۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم کے بغیر نجات نا ممکن ہے، اگرچہ کتنا ہی عابد و زاہد کیوں نہ ہو۔
آپ نے اپنے پسماندگان میں دو صاحبزادے جو ہر ملّت حضرت پیر سیّد اختر حسین شاہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت پیر سیّد انور حسین شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ایک صاحبزادی سردار فاطمہ چھوڑی۔
(تاریخِ مشائخ نقشبند)