حضرت مخدومِ جہانیاں سیّد جلا ل الدین
حضرت مخدومِ جہانیاں سیّد جلا ل الدین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ
(ولادت: شبِ براءت ۷۰۷ ھ۔ وصال: ۱۰؍ ذی الحجہ ۷۸۵ ھ)
آپ کا لقب مخدومِ جہا نیا ں تھا۔بڑے عالم ،ولی اور شیخ تھے،شیخ الاسلام شیخ رکن الد ین ابو الفتح قر یشی کے مرید اور شیخ نصر الد ین محمود چراغ دہلو ی کے خلیفہ تھے ، مکہ معظمہ میں امام عبداللہ یا فعی سے آپ کو مصا جت نصیب ہوئی، آپ نے اپنے ملفوظات: ’’خزانۂ جلا لی‘‘ میں امام یا فعی کا بکثرت ذکر کیا ہے۔ آپ نے بے انتہا سیرو تفریح کی اور بہت سے اولیا ئے کر ام سے نعمتیں اور برکتیں حاصل کیں۔ آپ کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ آپ جس سے معانقہ کر تے یعنی گلے ملتے، اس سے اس کی کرامتیں چھین لیتے یعنی اس پر اتنی تو جّہ ڈالتے اور خد مت کرتے کہ اس کے پاس جتنی نعمتیں اور برکتیں ہو تیں، وہ بے ا ختیار آپ کو دے دیتے۔
’’تا ریخِ محمدی‘‘ میں ہے کہ آپ نے ابتداءً اپنے چچا شیخ صدرالد ین بخا ری سے خر قہ پہنا،پھر حرم شر یف کے شیخ الاسلام امام المحد ثین شیخ عفیف الدین عبداللہ المطری سے کلاہِ ارادت اور خر قۂ تبرک حاصل کیا اور متوا تر دو سال تک شب وروز ان کی خد مت میں رہے اور معر فت و سلوک کی کچھ کتا بیں بھی انھیں سے پڑھیں، اسی طرح علمِ طریقت اور ذکر اللہ کا طریقہ بھی انھیں سے حاصل کیا۔
اس کے بعد شیخ عفیف الدین نے آپ سے فر مایا کہ
’’ تمہارے لیے علم کا حاصل کر نا مو قو ف ہے گازرون میں۔‘‘
جب آپ گا زرون پہنچے تو انھیں شیخ امین الدین مرحوم کے بھائی شیخ امام الدین نے کہا کہ مجھ سے شیخ امین الدین مرحوم نے بہ و قتِ انتقال یہ فرمایا تھا کہ میری ملاقات کے لیے سیّد جلال الدین اوچی ملتان کے راستے سے آرہے تھے کہ شیطان نے ان سے راستے میں جھو ٹ بولا اور کہا کہ شیخ امین الدین اس دارِ فانی سے منتقل ہو کر دار القرار میں چلے گئے ہیں۔ اُنھیں میری جائے نماز اور قینچی دے کر میرا خلیفۂ مُجاز بنا دینا،چناچہ شیخ امام الدین نے اپنے بھائی کی وصیت کے مطابق کیا۔ سیّد السادات سیّد جلا ل الدین نے اس بز رگ سے بہت فائدہ حاصل کیا اور پھر وہاں سے واپس آ کر سیّد رکن الدین سے خر قۂ تبر ک حا صل کیا اور پھر سلطان محمد تغلق کے زمانے میں شیخ الاسلام کے عہدے پر فائز ہوئے۔سیو سیا ن اور اس کے ارد گرد کا علاقہ آپ کی جاگیر قرار دیا گیا،وہاں آپ نے ایک خا نقاہ تعمیر کرائی، جس کا نام: ’’خانقاہِ محمدی‘‘ رکھا؛ پھر چند دنوں کے بعد سب کچھ چھوڑ کر حجاز چلے گئے، آپ چو دہ خانوادوں کے خلیفہ تھے (پھر حجاز سے واپس آئے)تو سلطان فیروز بڑی عقیدت اور خلوص کے ساتھ آپ سے ملاکرتا تھا،مخدومِ جہا نیاں کو سلسلۂ قا دریہ کے سا تھ والہا نہ محبّت تھی ،آپ اپنے ملفو ظات ’’خزانۂ جلالی‘‘ میں حضور غو ثِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ مقولہ نقل کر تے ہیں کہ
جناب غو ثِ اعظم پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فر مایا کہ
’’ خوش خبری ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور خو ش خبری ہے اس کے لیے جس نے میرے دیکھنے والے کو دیکھا،اسی طر ح خوش خبری ہے اس کے لیے جس نے میرے دیکھنے وا لے کو دیکھا۔‘‘
اس کے بعد فر ماتے ہیں کہ چوں کہ شیخ عبدا لقادر جیلانی اپنے وقت کے قطب اور بات کے سچے تھے اس لیے مجھے امّید ہے کہ ان کی اس بات کی وجہ سے اللہ تعالٰی مجھ پر رحم و کر م کرے گا۔ اس کے بعد اس سلسلے میں ایک ہی واسطے سے شیخ شہاب الدین سہروردی کے حوالے سے، جس میں شیخ بہاءالدین زکریا کے واسطے کا بھی ذکر نہیں، بیان کرتے ہیں کہ میں نے فلاں شخص کو دیکھا ہے جس نے شیخ سہروردی کو دیکھا تھا اور ان کو شیخ محی الدین عبدالقا در کی صحبت نصیب ہو ئی ہے۔
ایک روز آپ جس جگہ تشریف فرما تھے، وہاں آگ لگ گئی؛ آپ نے مٹھی بھر مٹی اُٹھائی اور اس پر بلند آواز سے پیرانِ پیر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا نام لے کر آگ پر پھینک دیا، چناں چہ آگ اسی وقت ختم ہوئی۔
قسم ہے کہ مشکل کو مشکل نہ پایا، کہا میں نے جس وقت یا غو ثِ اعظم ہما رے دیا ر میں ایک کتاب جو ’’تکملۂ فارسی‘‘کے نام سے مشہور ہے ، آپ کے ایک مرید کی لکھی ہو ئی ہے، جو اصل میں امام عبد اللہ یافعی کی کتاب ’’روض الرّیاحین‘‘ کے تکملے کا تر جمہ ہے۔
ولادت و رحلت:
مخدومِ جہانیاں شبِ بر اءت ۷۰۷ ھ میں پیدا ہوئے اور ۷۸ بر س کی عمر میں عیدِ اضحی کے دن ۷۸۵ ھ میں انتقال فرمایا،نیز ایک بات اس طرح بھی سننے میں آئی ہے کہ ایک مرتبہ میر سیّد علی ہمدانی بغر ضِ ملاقات آپ کے پا س گئے اور ان کے کمرے کے باہر بیٹھ گئے۔خادم نے مخدومِ جہانیاں کو اطلاع دی کہ میر سیّد علی ہمدانی آپ کی ملاقات کی غرض سے باہر بیٹھے ہو ئے ہیں۔آپ نے فر مایا کہ غیب کو جا ننے والا اللہ کے سوا اور کو ئی نہیں (مطلب یہ تھا کہ وہ جو باہر بیٹھ گئے ہیں اور مجھے اطلاع تک نہیں دی ، تو یا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں غیب داں ہوں اور مجھے اطلاع کے معلوم ہو جا تا ہے کہ با ہر کون آیا ہے۔اس وجہ سے انھیں اندر نہیں بلایا، اس بات سے میر سیّد علی ہمدانی کو سخت کوفت اور صد مہ ہوا۔ پھر سیّد علی ہمدانی نے اس تقریب پر ایک رسالہ ہمد ان کی حقیت پر لکھا ہے، جس میں ایسی باتیں لکھی گئی ہیں جو سیّد جلال الدین مخدوم جہانیاں کی عظمت اور جلال کے لا ئق نہیں ۔ وَاللہُ اَعْلَم۔
(’’اخبا ر الا خیار‘‘، اردو ترجمہ، ص ۳۶۶ تا ۳۶۹ )