حضرت سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت

حضرت سید جلال الدین بخاری مخدوم جہانیاں جہاں گشت  رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت سیدجلال الدین بخاری سیاح بادیہ تجریدوتفرید ہیں۔

خاندانی حالات:

آپ سادات حسینی سےہیں۔بخاراکےایک معززخاندان سےتھے۔

آپ کےداداشیخ جلال الدین سرخ بخاری اپنےوطن بخاراسےہجرت کرکےملتان آئے۔حضرت بہاء الدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)کےمریدہوئےاوران ہی سے خرقہ خلافت پایا،اپنےپیرومرشد کےحکم سے اوچہ میں سکونت اختیارکی۔ان کے تین لڑکےتھے،سب سے بڑے لڑکےکانام سیداحمد کبیرہے،دوسرےلڑکےکانام سیدبہاءالدین ہے۔ان کے سب سےچھوٹےلڑکےسیدصدرالدین المعروف بہ محمدغوث ہیں۔

والد:

آپ کےوالدماجدالمعروف بہ محمدغوث ہیں۔؟

ولادت:

آپ کی ولادت باسعادت اوچہ میں ۱۴شعبان۷۰۷ھ کوواقع ہوئی۔۱؎

نام:

آپ کانام سیدجلال الدین حسین ہے۔

کنیت:

آپ کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔

لقب:

آپ کالقب "مخدوم جہانیاں جہاں گشت"ہےبعض آپ کومخدوم جہانیاں"کےلقب سے پکارتے ہیں۔

لقب کی وجہ تسمیہ:

ایک سال عیدکی رات کوآپ حضرت بہاءالدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)کےمزارمبارک پریادالٰہی میں مشغول رہے۔پھرصدرالدین عارف اورحضرت رُکن الدین ابوالفتح کےمزارات پرحاضر ہوئے۔ہرجگہ عیدی مانگی،ہرجگہ سےآپ کو"مخدوم جہانیاں"کاخطاب عطاہوا۔۲؎اس خطاب سے آپ مشہورہوئے۔

بچپن کاایک واقعہ:

آپ کےوالدماجدکوحضرت شیخ صدرالدین عارف کےخلیفہ شیخ جمال الدین خنداں اونچی کی خدمت بابرکت میں لےگئےاورآپ کودست بوس کرایا۔اس وقت آپ کی عمرسات سال کی تھی۔حضرت شیخ جمال الدین خنداں کےسامنےچھواروں کاایک خوان آیا۔اس میں سے کچھ چھوارےآپ کو بھی دیئےگئے۔آپ نےوہ چھوارےمع گٹھلیوں کےکھالئے،حضرت شیخ جمال الدین  خنداں نے جب اس کی وجہ پوچھی توآپ نےجواب دیا۔

"اس میں بھی برکت ہےاورپھینکنابےادبی ہے"۔

یہ سن کرحضرت شیخ جمال الدین خنداں خوش ہوئےاورآپ کودعائیں دیں۔

تعلیم وتربیت:

آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت اونچہ میں ہوئی۔علام قاضی بہاءالدین آپ کےاستادتھے۔قاض صاحب کے انتقال کےبعدہدایہ وبزودی ختم کرنےاورمزیدتعلیم حاصل کرنے کی غرض سے آپ اونچہ سے ملتان آئے۔

شیخ موسیٰ اورمولانامجدالدین ایسے شفیق استادملے۔آپ نےہدایہ اوربزودی جلدہی ختم کی۔بعد ازاں مدینہ جاکرمزیدتعلیم حاصل کی۔ملتان میں آپ شیخ رُکن الدین ابوالفتح کی اجازت سےمدرسے میں رہتےتھے۔

واپسی:

آپ کےوالدماجداورشیخ جمال الدین خنداں میں کچھ کشیدگی پیداہوگئی تھی۔جب حضرت شیخ رُکن الدین ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ)کواس کاعلم ہواتوانہوں نےآپ کواپنی خاص کشتی میں سوارکراکے اونچہ بھجوایااورآپ کےوالدکوآپ کےذریعےیہ ہدایت فرمائی کہ وہ حضرت شیخ جمال الدین خنداں کاادب ملحوظ رکھیں،جب آپ نے حضرت شیخ رُکن الدین ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ)کایہ پیغام اپنے والدکوپہنچایا،آپ کےوالداسی وقت حضرت شیخ جمال الدین خنداں کےپاس گئےاوران سےبغل گیرہوئے۔

سیروسیاحت:

آپ نے بہت سیروسیاحت فرمائی،تین سوسےزیادہ بزرگوں سےملےاوران سےفیوض وبرکات حاصل کئے۔کئی سال مکہ معظمہ اورمدینہ منورہ میں رہے۔عرب،عراق اورشام ،مصر،بلخ،خراسان وغیرہ کی سیروسیاحت فرمائی۔

آپ کے متعلق یہ کہاجاتاہےکہ۔۳؎

"آپ جب بھی کسی سے معانقہ فرماتےتوجونعمت ان کےپاس ہوتی،اسی وقت جذب کرلیتے،یعنی آپ اس قدرتوجہ اورخدمت سےکام لیتےکہ وہ شخص بےاختیارہوکرآپ کواپنی ہرنعمت دےدیتا"۔

بیعت وخلافت:

آپ اپنےوالدماجدسےسلسلہ سہروردی میں بیعت ہوئے۔پھرآپ نے اپنےچچاحضرت سید صدرالدین المعروف بہ محمدغوث ؟ سےخرقہ پہنا۔حضرت شیخ رُکن الدین ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ) سے بھی آپ نے خرقہ خلافت پہنا۔

آپ کوچودہ خانوادوں میں بیعت اورخلافت حاصل تھی۔

آپ خودفرماتےہیں کہ آپ نےخرقہ سیادت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سےپہناکہ جوخرقہ ان (حضرت علی کرم اللہ وجہہ)کوسرورعالم حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سےملاتھا۔

حضرت شیخ بہاءالدین زکریا(رحمتہ اللہ علیہ)کاخرقہ اپنےوالدسیداحمدکبیرسےپہنا۔

آپ فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ رُکن الدین  ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ)سےخرقہ عالم خواب میں پہنااور بیدارہونےکےبعدوہ سرپرپایا۔

حضرت نظام الدین اولیاءسےعالم خواب میں پہناجوبیدارہونےکےبعدسرپرپایا۔

حضرت شیخ رُکن الدین ابوالفتح کےخلیفہ حضرت شیخ قوام الدین سے،حضرت قطب الدین منور سے،حضرت نصیرالدین چراغ دہلی سے،شیخ مکہ امام عبداللہ یافعی سے،شیخ مدینہ حضرت عبداللہ المطری سے،قطب عدن حضرت فقیمہ بصال سے،شیخ اسحاق کازرونی سے،شیخ امین الدین،بھائی شیخ امام الدین سے،شیخ حمیدالدین سے،حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی(رحمتہ اللہ علیہ )کےخلیفہ شیخ شرف الدین محمودشاہ تستری سے،سیداحمدرفاعی سے،شیخ نجم الدین صنعانی سے، حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ سے،حضرت خضرسے،حضرت احدالدین حسنی سے،حضرت شیخ نورالدین سے،۴؎

ملازمت:

سلطان محمدتغلق شاہ کےعہدمیں آپ کو منصب شیخ الاسلامی ومسندخانقاہ محمدی پیش کیاگیا۔آپ نے عہدہ قبول فرمایا۔کچھ عرصےتک منصب شیخ الاسلامی ومسندخانقاہ محمدی پرسیوستان اوراس کے مضافات میں فائزرہ کرفرائض بحسن و خوبی انجام دیتےرہے۔

حضرت شیخ رُکن الدین ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ)کےحکم سےملازمت سےمستعفی ہوگئے۔

سفر:

ملازمت سےمستعفی ہوکرآپ مدینہ منورہ حاضرہوئے۔۔وہاں پہنچ کرآپ نےکہا۔۵؎

"اَلسَّلَامُ عَلَیکَ یَاجَدِی"

وہاں سےآپ کوجواب ملا۔

وَعَلَیکَ السَّلَامَ یاوَلَدِی"

شیخ عفیف الدین عبداللہ المطری سےآپ نےکلاہ ارادت اورخرقہ خلافت حاصل کیااوران سے "عوارف"اوردیگرکتابیں پڑھیں۔جب آپ تہجدسےفارغ ہوتے،توشیخ عبداللہ المطری تشریف لاتے،ان کےایک ہاتھ میں کھاناہوتااوردوسرےہاتھ میں چراغ ،وہ آپ کو "صحاح""عوارف" اوررسائل سلوک کاسبق دیتے۔

ایک دن کاواقعہ ہےکہ امام غیرحاضرتھا،آپ نےامات کی۔

آپ بپاس ادب اس جگہ سے جہاں سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کھڑےہوتےتھے۔ایک صف پیچھےکھڑےہوئےشیخ عبداللہ المطری آپ کی اس بات سے بہت خوش ہوئے۔

مکہ میں آمد:

مدینہ منورہ سےآپ مکہ معظمہ آکرامام عبداللہ یافعی کی خدمت میں حاضر ہوئے اوران سے تربیت حاصل کرکےکامیاب وکامران ہوئے۔

واپسی:

چھ سال مدینہ اورمکہ میں رہ کر۷۵۲ھ میں وطن واپس ہوئے۔۶؎اس سفرمیں آپ سیدصدرالدین کماش اورشیخ حمیدالدین بن محمودالحسنی سمرقندی سےبھی ملےاوران سے فیوض وبرکات حاصل

کئے۔۷؎

واپسی پرآپ حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کی خدمت بابرکت میں حاضرہوئےاوران سے خرقہ خلافت پایا۔

سلطان فیروزکی باریابی:

سلطان فیروزتغلق آپ کامعتقدومنقادتھا۔اس کےعہدحکومت میں آپ کئی دفعہ اوچہ سے دہلی تشریف لائے۔۸؎

شادی:

آپ نے شادی کی تھی۔

وفات:

کچھ روزبیماررہ کر۱۰ذی الحجہ ۷۸۸ھ کوآپ رحمت حق میں پیوست ہوئے۔۹؎

خلفاء:

آپ کےممتازخلفاء حسب ذیل ہیں۔

قاضی عبدالمالک المعروف بہ شاہ اجل اورسیدصدرالدین المعروف راجوقتال جوآپ کے چھوٹے بھائی ہیں۔

سیرت:

آپ ترک وتجرید،عبادت،ریاضت اورمجاہدہ میں ممتازتھے۔دن ورات میں پانسورکعت نمازپڑھنا آپ کامعمول تھا۔آپ ساتوں قرأت کےقاری تھے۔آخری عمرمیں بھی سورکعت نمازپڑھتے تھے۔ ذکرجہربہت کرتےتھے۔لباس آپ کامعمولی تھا۔سماع سنتےتھے،بعض کہتے ہیں کہ سماع نہیں سنتے تھے۔۱۰؎

آپ جس بزرگ سے ملتے،اس سے فیض پانے کی کوشش کرتے۔ایک دن کاواقعہ ہےکہ شیخ رُکن الدین ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ)دہلیزسےنیچےاتررہےتھے،آپ نیچےلیٹ گئے،تاکہ وہ اترجائیں۔ حضرت رُکن الدین ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ)اس بات سے بہت خوش ہوئے،انہوں نےآپ کاہاتھ پکڑااوراپناسینہ آپ کےسینےسے ملایا۔۱۱؎

ایک دن شیخ رُکن الدین ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ)غسل کررہےتھے،پانی نیچےگررہاتھا،آپ اس غسل کے پانی سےنہائے۔حضرت شیخ رُکن الدین ابوالفتح(رحمتہ اللہ علیہ)کوجب یہ معلوم ہواتو آپ کونعمت خاص سے سرفرازفرمایا۔۱۲؎

انکساری:

آپ میں انکساری اس درجہ تھی کہ ٹوپی کےساتھ نمازپڑھتےتھے،آپ فرماتےتھےکہ عمامہ خاص مردوں کےلئےہےاورمیں مرد نہیں ہوں۔

تحمل:

آپ جب کسی کو مریدکرتےتوفرماتےکہ "میں صرف وکیل ہوں"آپ کےتحمل اوربردباری کایہ حال تھاکہ آپ سلطان فیروزکےوزیرخان جہاں کےپاس جس نےایک محررکےبیٹےکوقیدکردیاتھا، انیس بارسفارش کرنے تشریف لےگئے۔خاں جہاں آپ سے نہیں ملا۔بیسویں بارجب آپ تشریف لےگئےتوخان جہاں نےآپ سےکہلابھیجاکہ۔

"اے سیدتم کو غیرت نہیں آتی"۔

آپ نےوزیرسےکہلابھیجاکہ۔

"اےعزیز!میں جتنی بارآتاجاتاہوں،مجھ کوثواب ملتاہے۔میں چاہتاہوں کہ مظلوم کوتیرے ہاتھ سے چھڑاؤں،تاکہ توبھی درجہ ثواب کوپہنچے"۔

خان جہاں پراس کابہت اثرپڑا۔وہ ننگےسر،گلےمیں رسی ڈالےہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ معافی کاخواستگارہوا،مریدہوا،محررکےبیٹےکوخلعت اورگھوڑادےکررہاکردیا۔آپ کونذرانہ پیش کیا،آپ نےوہ نذرانہ محررکےبیٹےکودےدیا۔۱۳؎

تعلیمات:

آپ کی بعض تعلیمات حسب ذیل ہیں۔

خرقہ:

آپ فرماتے ہیں۔

"خرقہ دوطرح کاہے۔خرقہ تصوف اورخرقہ تشبہ خرقہ تصوف خرقہ صحبت ہےاورخرقہ تشبہ خرقہ تبرک کوکہتےہیں،اس میں صحبت کی شرط نہیں۔

صبر:

آپ فرماتےہیں۔

"صبرتین طرح پرہے،صبرعام،صبرخاص،صبراخص الخاص۔صبرعام یہ ہے کہ ناپسندیدہ بات پر باوجوددشوارمعلوم ہونےکےاپنےنفس کو روکے۔صبرخاص یہ ہے کہ کڑوی چیزوں کوبغیرترش روئی کےپئے۔صبراخص الخاص یہ ہے کہ بلاسےلذت حاصل کرے"۔

تقویٰ:

آپ فرماتے ہیں۔

"تقوٰی تین طرح پرہے۔عام،خاص ،خاص الخاص،عام یہ ہے کہ کفروگناہ اوربدعتوں سےپرہیز کرے۔خاص یہ ہے کہ مالایعنی جوچیزکہ نفع نہ دے،نہ نقصان پہنچائے،اس سے بھی پرہیزکرے۔ مثلاً مباحات کی قسم سے اورخاص الخاس یہ ہے کہ ماسوائے اللہ سے پرہیزکرے"۔

مشیخت:

آپ فرماتے ہیں ۔

"مشیخت کےلئےتین شرطیں ہیں۔اگریہ تینوں نہ ہوں تومشیخت درست نہیں۔اول شرط یہ ہے کہ وہ تین علم یعنی شریعت،طریقت و حقیقت کاعالم ہو۔دوسری شرط یہ ہے کہ اس زمانے کے علماء اس کو قبول کریں اوراس کےمعتقدومریدہوں۔

تیسری شرط یہ ہے کہ اس کو سوائے حق تعالیٰ کےاورکوئی طلب نہ ہو"۔

شریعت،طریقت،حقیقت:

آپ فرماتے ہیں ۔

"شارع چلنےوالاہےآداب واحکام شریعت میں اورطارق چلنےوالاہےآداب سرحقیقت میں۔کپڑے کانگاہ رکھنالوث نجاست سےاورجسم کامعصیت سےشریعت ہےاوردل کانگاہ رکھناکدورت بشریت سے طریقت ہےاورخاطرنگاہ رکھناغیرخدائےعزوجل سےحقیقت ہے۔منہ قبلہ کی طرف لانا شریعت ہےاوردل حق تعالیٰ کی طرف لاناطریقت اوراس میں ملازم رہناحقیقت ہے"۔

اقوال:

۔        اعتبارخرقہ حاصل کرنےکانہیں ہے،پیرکی صحبت کاہے۔

۔        سالک کوایسامشغول ہوناچاہیےکہ اس کاوظیفہ خلاد ملاد جمع وتنہائی میں ترک نہ ہو۔

۔        خلق کومثل جماد کےجانے،خلق کی وجہ سےعمل و وظیفہ ترک نہ کرے۔

۔        سالک کوچاہیےکہ غیرحق کودل میں جگہ نہ دے۔

۔        جوعمل دنیامیں پھل نہ دے،اس کاحصہ عقبیٰ میں نہ ہوگا۔

۔        درویش بشرط پیروی قول و فعل وحال اپنےپیغمبرکےولی ہوتاہے۔

۔        اگرمخالفت ہے توولی نہیں۔

۔        مراقبہ یہ ہے کہ ہمیشہ اس بات کوجانےکہ حق تعالیٰ مجھ پرمطلع ہےاورمجھ کو دیکھتاہے۔ نہ یہ کہ سرکوزانوپررکھ کربیٹھارہے۔

۔        جاہل  صوفیوں سےدوررہو،کیوں کہ وہ دین کے چوراورمسلمانوں کےرہزن ہیں۔

۔        علم لدنی کے لئے تقویٰ شرط ہے،جیسےکہ نمازکے لئے وضو۔

۔        طالب کوچاہیےکہ خلوت اختیارکرے،تاکہ تفرقہ اس کاجمع ہوجائے۔

۔        مومن پر واجب ہے کہ پہلےعلم حاصل کرے،بعداس کےعمل میں مشغول ہو۔

۔        جب تک انقطاع خلائق نہ ہوگا،فتح یاب نہ ہوگا۔

۔        اولیاء اللہ کسی آدمی یاکسی چیزسےنہیں ڈرتے،مگرحق تعالیٰ سے۔

۔        ہرسانس کہ گزرتی ہےملک دوجہاں کی قیمت رکھتی ہے۔

۔        جب سالک کےنزدیک مدح و قدح خلق مساوی نہ ہوجائیں،کامل نہیں ہوتا۔

۔        شارع نے شرع میں دوچیزیں رکھی ہیں۔رخصت وعزیمت،رخصت میں ایک اجرہے اورعزیمت میں کہ وہ ہمت ہے،دو اجرہیں۔

۔        ذکرکےواسطےخلعت بہترہے۔

۔        بہترین اعمال تین ہیں۔

۔        علائق کاقطع کرنا۔

۔        وقائع کانگاہ رکھنا۔

۔        حقائق کادریافت کرنا۔

جس میں یہ تین خصلتیں موجودہوں،وہ صوفی ہے۔

درودووظیفہ:

آپ فرماتے ہیں کہ۔

"یاحی یاقیوماسم اعظم ہے"۔

کشف وکرامات:

ایک دن آپ نمازچاشت میں مشغول تھے،آپ کاچھوٹالڑکاجس کی عمرچارسال تھی،آپ کے مصلیٰ کے نزدیک کھیل رہاتھا،بچےکےکھیلنےکی وجہ سے آپ کویک سوئی حاصل نہ ہوئی،نمازسےفارغ ہوکرآپ نے سیدشمس الدین سےفرمایا۔

"مجھےاس لڑکےکازندہ رہنامشکل نظرآتاہے،کیوں کہ عین نمازمیں میری طبیعت اس کی طرف مائل تھی"۔

ظہرکےوقت اس لڑکےکوبخارہوااوراسی رات اس کاانتقال ہوگیا۔

دہلی میں بارش نہ ہونےکی وجہ سےلوگ پریشان تھے۔آپ سےدعاءکےطالب ہوئے۔آپ نے دعاکی۔اتنی بارش ہوئی کہ لوگوں نےعاجزہوکربارش کےبندہونے کی آپ سےدعاکرائی،آپ نے دعاکی اوربارش رک گئی۔۱۴؎

ایک سال ماہ رمضان میں آپ نے اوچہ کی جامع مسجدمیں اعتکاف فرمایا۔ایک دن اوچہ کاحاکم جس کانام سومرہ تھا،جامع مسجدمیں آیا۔آپ کےپاس بہت لوگ جمع ہوگئے،اس نے سب کو جامع مسجد سے باہرنکال دیا۔آپ کویہ بات ناگوارگزری،آپ نے سومرہ سے فرمایاکہ۔

"اےسومرہ!کیاتودیوانہ ہوگیاہےکہ درویشوں کوتنگ کرتاہے"۔

آپ کایہ فرماناتھاکہ سومرہ دیوانہ ہوگیا۔سومرہ کی ماں اس کوآپ کےپاس لائی اورآپ سے معافی کی خواستگارہوئی۔آپ نےاس کو ہدایت فرمائی کہ سومرہ کو غسل دےکراورکپڑےپہناکرحضرت جمال الدین خنداں کےمزارپرلےجائےاورپھرآپ کےپاس لائے۔

اس کی ماں نےایساہی کیا۔سومرہ جب آپ کی خدمت میں حاضرہواتواس نےآپ سے اوردرویشوں سے معذرت چاہی۔معافی کاخواستگارہوا۔اپناسرآپ کےقدموں پر رکھا۔آپ کی دعاسے وہ بالکل اچھاہوگیا۔۱۵؎

۱؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۲۵،اخبارالاخیار(اردوترجمہ)۴۹۸

۲؎سیرالعارفین

۳؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۲۷

۴؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۲۹۶

۵؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۲۶

۶؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۲۶

۷؎سیرالعارفین

۸؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۳۲،۴۲۹

۹؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۳۱

۱۰؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۹۷

۱۱؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۲۶

۱۲؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۳۵

۱۳؎سیرالعارفین

۱۴؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۲۹،۴۲۸

۱۵؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۳۴

۱۶؎تاریخ فرشتہ(فارسی)ص۴۱۶

۱۷؎سالک السالکین(جلددوم)ص۴۳۶

(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)

تجویزوآراء