حضرت سید محمد سلیمان اشرف بہاری

حضرت سید محمد سلیمان اشرف بہاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

محلہ میر داد قصبہ بہار شریف ضلع پٹنہ کےباشند ے، یہیں ولادت ہوئی اور نشو نماپائی،فارسی اور ابتدای عربی رسیات پڑھنے کے بعد جون پورے کے مدرسہ حنفیہ میں حضرت استاذ العلماء علامہ محمد ہدایت اللہ خاں فاضل رامپوری قدس سرہٗ سے براہ راست اکتساب علم کیا،درسیات تمام کر کے سند فراغت حاصل کی،

قادر الکلام مقرر تھے،جون پور کے ایک جلسہ میں آپ کی تقریر فرما رہے تھے،استاذ العلماء کا ادھر سے گذر ہوا،آپ کی ازسن کر رک گئے،جب آپ تقریر ختم کر چکے تو استاذ العلماء منبر کے قریب آئے،اور فرط خوشی سے بادیدۂ تر آپ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور ہاتھ چومے،فاضل بریلوی مولانا شاہ احمد رضا نے جمعیۃ علماء کے جلسۂ منعقد بریلی میں مولوی ابو الکلام آزاد جیسے لسان کے مقابلہ میں آپ کو بلایا،مولوی ابو الکلام نے آپ کی تقریر کا وزن محسوس کیا، ۱۹۰۲؁ھ میں جب آپ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے چیرمین ہوکر گئے تو جامع مسجد میں بعد جمعہ آپ کی تقریری ہوئی، بعد تقریری حضرت مولانا لطف اللہ علی گڑھی نے غایت مسرت سے اپنے سینے سے لگایا،اور حُسنِ تقریر کی داد دی،اجمیر شریف میں بموقع عرسِ پاک آپ کا خصوصی وعظ ہونا تھا،ممتاز صاحب قلم بھی تھے،عربی زبان کی فضیلت وبرتری میں ‘‘المبین’’ نامی کتاب تالیف کی مشہور مشترق پروفیسر ‘‘برؤن’’ نے‘‘المبین’’ کو دیکھ کر کہا، ‘‘مولانا نے اس عظیم موضوع پر اردو میں یہ کتاب لکھ کر ستم کیا،عربی یا انگریزی میں ہوتی تو کتاب کا وزن اور وقار بڑھ جاتا’’ ڈاکٹر اقبال نے بھی ایسے ہی کلمات بوقت ملاقات کہے۔۔۔۔۔۔فارسی شعر وادب کی تاریخ میں ‘‘الانہار’’ کے بارے میں فارسی وعربی واردو کے محفق وادیب مولانا حبیب الرحمٰن شروانی نے رائے دی،کہ آپ کی کتاب شبلی کی اشعرالعجم سے بہتر ہے۔۔۔۔حج کے موضوع پر ‘‘الحج’’ تالیف کی،مولانا شروانی نے اس کو حج کے موضوع پر سب سے اچھی کتاب قرار دیا، ‘‘النّور’’ اور ‘‘سبیل الرشاد’’ میں تحریک خلافت کےلیڈروں کے خلافِ شرع افعال واقوال پر تنقید ہے،۔۔۔۔۔۔آپ بڑی آن بان کے عالم تھے،کلمۂ حق کہنے میں کسی کسی رعایت نہیں فرماتے تھے،علماء ومشائخ،طلبہ وعلوم دینی کے خاص قدردان تھے،آپ کی مجلس میں بڑے بڑے دنیا دار اور عہدیدار آتے اور جاتے،اور آپ کو خبر نہ ہوتی کہ کب آئے گئے۔۔۔۔۔ عبد الماجد دریابادی نے‘‘ندیم’’ گیا کے بہار نمبر میں آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ ‘‘مولانا سلیمان اشرف بڑے طنطنہ کی شخصیت تھے’’۔۔۔۔۔ سلیمان ندوی نے آپ کی وفات پر لکھا کہ‘‘آپ سلیمانوں میں نامور اور بر تر تھے’’

رمضان المبارک ۱۳۵۲؁ھ میں علی گڑھ میں وفات ہوئی،یونیورسٹی کے قبرستان میں شیروانیوں کے احاطہ میں آپ کا مدفن ہے،حبیب الرحمٰن شروانی نےقطعۂ تاریخ وفات لکھا،جو مزار پر نصب ہے لیکن باوجود کوشش کے وہ قطعہ حاصل نہ ہوسکا،راقم نے اپنے سفر علی گڈھ کے موقع پر دوبار آپ کے مزار پر حاضر ہوکر فاتحہ کا شرف حاصل کیا،احقر آپ سےبے حد متاثر ہے،چند سال قبل احقر نے آپ پر ایک کتابچہ کی اشاعت کا ارادہ کیا تھا،محمد مقتدیٰ شروانی مرحوم نے وعدہ کیا تھا،کہ میں چھتیس ۳۶ سالہ مولانا راقم کی آرزو کا خون ہوگیا۔۔۔۔۔۔ آپ چشتی،نظامی،فخری،سلیمانی تھے،پیرومرشد کا نام معلومنہ ہو سکا،۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے بھی اجازت دی تھی۔

تجویزوآراء